قسط ۱۵

1.2K 80 15
                                    

جس شخص کو بھائیوں والا مان دیتی آئی جس شخص کو اتنی عزت دی آج اسی نے اس کا مان توڑ دیا ۔
اس نے سوچا بھی نہیں تھا جس شخص کو وہ مدد کے لیے بلا رہی ہے وہ تو کب کا اس کے سامنے کھڑا ہے عفیفہ کو جتنی تکلیف ان دو ہفتوں میں ہوئی تھی اتنی ہی تکلیف اسے اس لمحے ہو رہی تھی ۔
کسی اپنے پر سے ٹوٹتے اعتبار کی کرچیاں اندر تک زخمی کر دیتی ہیں عفیفہ کو بھی اندر تک زخمی کر چکی تھی ۔
کیوں ؟ عفیفہ بس اتنا ہی بول پائی ۔
اشعر کے کانوں میں وہ ایک لفظ گونجا تھا ۔
عفیفہ مجھے معاف کر دو عفیفہ میں تم سے محبت کرتا ہوں ۔ اشعر کو اب اس کے علاوہ کچھ سمجھ نہیں آیا آخر وہ کرے بھی تو کیا کرے ۔
عفیفہ جو اس کے ہاتھ کا نشان دیکھ کر اندر تک ٹوٹ گئی تھی اس کی آواز نے تو جیسے اسے مار ہی دیا تھا ۔
اشعر پتا نہیں کب تک بولتا رہا مگر عفیفہ بس خاموشی خود کو یقین دلاتی رہی کہ اس دنیا میں ایسا بھی ہوتا ہے ۔
بھائی لفظ سے اس کا اعتبار اٹھ گیا تھا بھائی صرف وہ ہوتا ہے جس سے اللّٰہ نے بھائی کا رشتہ بنایا ہے باقی سب تو بس اپنے آپ کو تسلی دینے کے رشتے ہیں اور ان رشتوں سے عفیفہ کا اعتبار پوری طرح اٹھ گیا تھا ۔
اس دن کے بعد عفیفہ مزید دو دن اشعر کے پاس رہی اور ان دو دنوں میں وہ ایک پتلے کی طرح رہی وہ پتلا جو نہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے نہ بولتا ہے نہ سنتا ہے بس اس کا ایک وجود ہوتا ہے ۔
اور تیسرے دن آخر پولیس نے اس جگہ کو ڈھونڈ ہی لیا اشعر نے عفیفہ کو رکھا ہی ایسی جگہ تھا اس نے ایسی پلینگ کی تھی کہ پولیس کو اس تک پہنچنے کا کوئی سراگ ہی نہ ملے ۔ اس جگہ سے اشعر کے دو بندوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا جو اس نے عفیفہ کی نگرانی کے لیے رکھے تھے مگر نہ تو ان لوگوں نے کبھی اشعر کی شکل دیکھی تھی نہ ہی انہیں اشعر کا نام معلوم تھا وہ ہمیشہ نکاب میں آتا تھا آج تک ان لوگوں نے اسے نکاب کے بغیر نہیں دیکھا تھا ۔
ازلان اور ضرار پولیس کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئے کمرے میں عفیفہ ایک کرسی پر بندھی ہوئی تھی ۔
ضرار اور ازلان بھاگ کر اس کے پاس آئے ضرار نے اس کا چہرا اوپر کیا عفیفہ کی نظر جوں ہی ازلان پر پڑی وہ بےہوش ہو گئی اسے اسی بےہوشی کی حالت میں ہسپتال لے جایا گیا ۔
اشعر اس وقت باہر کسی کام سے گیا ہوا تھا
کہ اسے کسی کی کال آئی اس نے کال اٹھائی ۔
اشعر عفیفہ مل گئی ہے ۔ دادی کی خوشی سے بھری آواز نے اشعر کو زور دار جھٹکا دیا ۔
کیا ۔۔۔ مطلب کیسی ہے وہ ۔
بےہوش ہے ابھی ہوش نہیں آیا اسے ۔۔۔۔۔ ضرار اور ازلان اس کے پاس ہیں ۔
یعنی ابھی کسی کو پتا نہیں چلا میرے بارے ميں ۔ اشعر نے بڑبڑایا تھا ۔
کچھ کہا اشعر ۔
نہیں دادی میں بس آتا ہوں ۔ اشعر نے کہتے فون رکھ دیا ۔
اشعر فوراً اس جگہ پہنچا جہاں اس نے عفیفہ کو رکھا ہوا تھا ۔ وہاں اسے دور سے پولیس دیکھائی دی اور ان کو دیکھتے ہی وہ الٹے قدموں واپس لوٹ آیا ۔
اس نے اسی لمحے امریکہ کی ایمرجنسی میں فلائٹ بک کی جو آج رات کی تھی اور یہ اس کی خوش نصیبی واقع ہوئی کہ اسے سیٹ بھی مل گئی اور وہ امریکہ چلا گیا ۔ اس کا ارادہ یہ تھا کہ وہ ماں کے ساتھ واپس آئے گا اور اس کی ماں کچھ نہ کچھ کر کے سب سنبھال لے گی یہاں رکنے میں اسے سوائے نقصان کے کچھ نہ دِکھا اسے جیل ہو جاتی اور سب گھر والوں کی نفرت کا بھی سامنا کرنا پڑتا ۔
***********************************
عفیفہ کو اگلے دن دوپہر کو تین بجے ہوش آیا اور اس نے ہوش میں آتے بس اتنا بتایا کہ اسے اشعر نے اگواہ کیا تھا ۔
اشعر اس حد تک گر سکتا ہے یہ تو کسی کے وہم و گمان بھی نہ تھا ۔
اشعر یہ کیا سن رہی ہوں میں ۔ اشعر کی ماں غصے میں بول رہی تھی ۔
ایسا کیا سن لیا ۔ اشعر نے بےنیازی سے جواب دیا ۔
امی کا فون آیا تھا انہوں نے بتایا کہ عفیفہ کو تم نے اگواہ کیا تھا کیا یہ سچ ہے ۔
ہاں سچ ہے ۔ اشعر نے اسی بےنیازی سے جواب دیا ۔
اشعر تم ایسا کیسے کر سکتے ہو ۔ انہوں نے پھر سے غصے میں کہا تھا ۔
ان لوگوں نے عفیفہ کا رشتہ اس ایان سے طہ کر دیا اس دو کوڑی کے شخص کو مجھ پر ۔۔۔۔۔۔۔ مجھ پر فوقیت دی آپ ہی بتائیں میں کیا کرتا ۔ اس بار اشعر اونچی آواز میں بولا تھا ۔
اشعر اب کیا ہو گا ۔
کیا مطلب کیا ہو گا آپ بات کریں گی نہ ان سے مجھے یقین ہے وہ آپ کی بات مان جائیں گے ۔
میں کسی سے بات نہیں کروں گی ۔
کیا مطلب آپ بات نہیں کریں گی ۔
میں بات نہیں کروں گی ۔۔۔۔ تم نے جو کیا ہے اس کے بعد تو مجھے ان سے نظریں ملانے کے قابل نہیں چھوڑا اور تم کہہ رہے ہو میں ان سے تمہارے لیے بات کروں ۔ انہوں نے صاف انکار کیا تھا ۔
اشعر کو اپنی ماں کے منہ سے اپنے لیے پہلی بار انکار سن کر بہت برا لگا اور اسے بہت غصہ بھی آیا ۔
کیا کہا آپ نے آپ بات نہیں کریں گی ۔ اشعر اپنی ماں کو دونوں بازوں سے پکڑ کر چیخ رہا تھا ۔
اشعر میرا بچا تم سمجھنے کی کوشش کرو اب وہ لوگ نہیں مانے گے ۔
مجھے نہیں معلوم اگر آپ بات نہیں کر رہی اور انہیں میرے اور عفیفہ کے رشتے کے لیے نہیں منا رہی تو میرا آپ سے کوئی رشتہ نہیں ہے ۔ اشعر نے ایک جھٹکے سے اپنی ماں کو چھوڑا تھا جس سے وہ جھٹکا کھا کر پیچھے ہوئی تھی اور پاؤں پھسلنے سے سیڑیوں سے نیچے گری ان کے گرنے کی آواز پر اشعر نے مڑ کر دیکھا تھا ۔
ماما۔ اشعر نے زور سے چیخا تھا ۔
اس کی ماں کے سر پر چوٹ آنے سے وہ کومہ میں چلی گئی جس کے نتیجے میں اشعر پر کیس کر دیا گیا کیونکہ اشعر کو دھکا دیتے ہوئے اس کے مامو نے دیکھ لیا تھا اور انہوں نے اس کے خیلاف کیس بھی کیا کیس کرنے کی ایک وجع اشعر کی جائیداد بھی تھی اشعر اپنی ماں کے حصے میں آنے والی پروپرٹی کا واحد وارث تھا اشعر کے بعد وہ پراپرٹی اس کے مامو کے حصے میں آنے والی تھی کافی عرصہ کومہ میں رہنے کے بعد وہ مر گئی ۔
اشعر کافی عرصہ کیس لڑتا رہا کہ اس نے جان بوجھ کر نہیں کیا اور دوسری طرف اس کے مامو جو اس بات پر بضد تھے کہ اشعر نے جو کیا سوچ سمجھ کر کیا دو سے زیادہ سال وہ کیس لڑتا رہا مگر پھر کیس اس کے نانا کے کیس واپس لینے پر ختم ہوا اس کے نانا کو دیر سے ہی سہی مگر اپنے نواسے کی محبت نے اسے معاف کرنے پر مجبور کر دیا اور پھر اشعر پاکستان واپس آ گیا اور آتے ہی اپنے کھیل کھیلنے میں مصروف ہو گیا پورا دن عفیفہ پر نظر رکھتا مگر گھر میں وہ عفیفہ پر نظر نہیں رکھ پاتا تھا اسی لیے اس نے نوری بی بی کے نواسے کو اگواہ کر لیا اور پھر نوری بی بی ویسا کرتی رہی جیسا وہ چاہتا تھا ۔
***********************************
اس واقع کے بعد عفیفہ کی زندگی پوری طرح بدل گئی کئی ماہ تک اسے برے خواب آتے رہے اور وہ رات کو چیختے ہوئے اٹھ جاتی اسی وجع سے عافی نے اس کے ساتھ سونا شروع کر دیا لوگوں کی باتیں اسے اور تکلیف دیتی تھی اس کی روح بری طرح زخمی ہو جاتی تھی جو لوگ اس کی عیادت کے لیے آتے وہ عیادت سے زیادہ اس بات کو جاننے میں دلچسپی رکھتے کہ عفیفہ کے ساتھ ان دو ہفتوں میں کیا ہوا کون اسے لے کر گیا اور کیا وہ اپنی مرضی سے گئی تھی اس کی حالت دیکھنے کے بعد بھی لوگ اپنی باتوں سے بعض نہ آتے تھے ۔
جی بہن بہت دکھ ہوا عفیفہ کے ساتھ جو ہوا سن کر ۔
ہاں مگر کیا کر سکتے ہیں جو قسمت میں لکھا ہوتا ہے اسے کوئی روک تھوڑی سکتا ہے ۔
اس دن بھی دو عورتیں اسے ہی موضوع بنائے ہوئے تھی ۔
عافی ان کے پاس بیٹھی ان کی باتیں سن رہی تھی ۔
اچھا آپ بیٹھے میں کچھ کھانے کو کہہ کر آتی ہوں ۔ یہ کہتے عافی اٹھ کر کچن میں نوری بی بی کے پاس چلی گئی ۔
بہن میں نے تو سنا ہے لڑکی اپنی مرضی سے گئی تھی اپنے کزن کے ساتھ گھر والوں نے اس کا رشتہ طہ کر دیا تھا اس کی مرضی کے خلاف ۔ ایک عورت نے دوسری کو راز داری سے بتایا ۔
ہاں سنا تو میں نے بھی یہی ہے اب یہ لوگ لڑکی کے گناہوں پر پردہ ڈالنے کے لیے کہانی بنا رہے ہیں ۔
اور یہ باتیں عفیفہ نے سن لی جو آج کافی دنوں بعد کمرے سے نکل رہی تھی ۔
بس یہ باتیں سننے کی دیر تھی عفیفہ کے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی وہ اپنے بارے میں آج سے پہلے بھی ایک ادھ بار غلط باتیں سن لی تھی مگر یہ عورتیں تو سیدھا اس کی کردار کشی کر رہی تھی ۔
بدنامی ہے بس اور کیا کسی کو منہ دیکھانے کے قابل نہیں چھوڑا اس لڑکی نے ۔
عفیفہ کو اپنا سر گھومتا دیکھائی دیا اور وہ وہیں چکرا کر گر گئی ۔
میری بچی ۔ عافی جو کچن سے نکل رہی تھی عفیفہ کو گرتے دیکھ پکاری تھی ۔
***********************************
انہوں نے بہت ٹینشن لے لی ہے اسی لیے بےہوش ہو گئی میں نے میڈیسن دے دی ہیں مگر آپ لوگوں کو ان کا بہت خیال رکھنا پڑے گا یہ دن بد دن زہنی مریض بن رہی ہیں انہیں سائکایٹریسٹ کی ضرورت ہے ۔ ڈاکٹر عفیفہ کی حالت سے سب کو اگاہ کر رہے تھے ۔
***********************************
ایان عفیفہ کے سامنے بیٹھا تھا ضرار نے ایان کو عفیفہ کے علاج کے لیے بولا تھا ۔
کیسی ہیں آپ ۔ آج ایان عفیفہ سے پہلی بار مخاطب تھا ۔
عفیفہ ایان کو ضرار کے دوست کی حیثیت سے جانتی تھی ۔
ٹھیک ہوں ۔ عفیفہ کو یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ ایان ایک سائکیٹریسٹ ہے اس کے لیے یہ اتفاقیا ملاقات تھی ۔
آپ ازلان کے ساتھ ایسا کیوں کر رہی ہیں ۔ ایان نے عفیفہ سے وہ سوال کیا تھا جس کی اسے توقع بھی نہیں تھی ۔
کیا مطلب ہے آپ کا ۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کو ازلان نے کچھ کہا میں کیا ۔
ہر بات کہی نہیں جاتی کچھ باتیں دیکھائی دیتی ہیں ۔
اس پر عفیفہ نے خاموشی سے سر جھکا لیا ۔
آپ اس کو کسی اور کے کیے کی سزا دے رہی ہیں آپ جانتی ہیں وہ شخص روتا نہیں ہے مگر میں نے اسے اپنی بہن کے لیے روتا دیکھا ہے ۔
ایان کی بات پر عفیفہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ۔
سب میری وجع سے پریشان ہیں سب میری وجع سے دکھی ہیں میرا دل کرتا ہے میں خود کو ختم کر لوں ۔ عفیفہ رو رہی تھی آج پہلی بار کسی کے سامنے اپنے دل کا درد رکھ دیا تھا ۔
آپ کر لیں جو آپ کرنا چاہتی ہیں ۔۔۔۔ یہ ہی تو ہے سب سے آسان طریقہ اپنی مشکلات سے بھاگ جانے کا ۔ ایان نے اس سے نہایت آرام سے کہا تھا ۔
ایان کی اور عفیفہ کی یہ پہلی ملاقات تھی مگر اس ملاقات نے عفیفہ پر ایک مثبت اثر چھوڑا اور عفیفہ اس دن اتنے دنوں میں ازلان کے کمرے میں داخل ہوئی ۔
بھائی ۔ عفیفہ نے ہلکی آواز میں کہا ۔
عفیفہ آؤ نہ ۔ اتنے دنوں بعد عفیفہ کے منہ سے بھائی سن کر ازلان کی خوشی کا ٹھکانا نہیں تھا ۔
بھائی مجھے معاف کر دیں میں نے آپ کو بہت پریشان کیا نہ ۔ عفیفہ زمین پر بیٹھی زاروقطار رو رہی تھی ۔
ازلان نے عفیفہ کے سر پر ہاتھ رکھا ۔
آج کے بعد تم مجھے بھائی نہیں کہو گی ۔
عفیفہ نے سر اوپر کر کے اپنے اس بھائی کی طرف دیکھا جو عمر میں اس سے چھ سال بڑا تھا مگر ان دونوں نے ایسے مستایاں کی تھی جیسے بس ایک سال کا ہی فرق ہو بھائیوں میں عفیفہ کی سب سے زیادہ محبت ازلان سے ہی تھی وجع تھی اشعر اور ضرار کی سنجیدہ میزاجی اور ازلان تو بالکل ہی الٹ تھا ہر وقت مزاق کرتا ہر ایک کو ہنساتا شخص ۔
بھائی ۔ عفیفہ نے پھر سے ازلان کو بھائی کہا تھا ۔
میں نے کہا نہ عفیفہ آج کے بعد تم مجھے بھائی نہیں کہو گی جو لفظ میری بہن کے لیے کسی بدترین یاد کا سبب بنے میں اس لفظ کو ہی زندگی سے نکال دوں گا آج کے بعد ہماری محبت بہن بھائیوں والی اور رشتہ دوستوں والا ہو گا ۔ اس دن عفیفہ نے ازلان کو آخری بار بھائی کہا تھا ۔
اور ازلان نے اس دن اپنا بھائی کہلوانے کا حق چھوڑ دیا صرف اشعر کی وجع سے اور اسی دن اسے اشعر سے نفرت ہوئی تھی ۔
ایان عفیفہ کا علاج کرتا رہا بنا اسے پتا چلے اور یہ ایان کی محنت تھی کہ وہ کچھ عرصے میں بہتر محسوس کرنے لگی ڈروانے خواب آنا بند ہو گئے ۔
عفیفہ کو اس دن حیرت کا جھٹکا لگا جس دن اسے پتا چلا کہ ایان اس کا منگیتر ہے اس نے کافی شور شرابا بھی کیا مگر پھر مان گئی کیونکہ وہ کہیں نہ کہیں ایان کو پسند کرنے لگی تھی مگر اسے ایان سے منگنی کا رشتہ قبول نہیں تھا ۔
ایان کیا آپ کو مجھ سے شادی پے کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ وہ بس اتنا جاننا چاہتی تھی کہ کہیں ایان کسی دباو میں تو اسے قبول نہیں کر رہا ۔
نہیں بلکہ میں تو تم سے محبت کرتا ہوں تو اعتراض والی کیا بات ہے ۔
تو آپ مجھ سے نکاح کر لیں ۔
ایان کے لیے یہ مطالبہ کافی غیر متوقع تھا ۔
ٹھیک ہے مگر کیا میں وجع جان سکتا ہوں ۔
میں کسی بھی ایسے رشتے میں نہیں بندھنا چاہتی جہاں اعتبار کی کمی ہو ۔ یہ کہتے ہی عفیفہ نے سر جھکا لیا ۔
ایان اس کی الجھن سمجھ گیا ۔
اور اگلے جمعہ کو سادگی سے ان کا نکاح کر دیا گیا ۔
***********************************
یہ تھی اشعر کی حقیقت ۔ عفیفہ نے اپنے آنکھ سے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا ۔
عفیفہ تم نے کتنا کچھ برداش کیا ۔ انبھاج عفیفہ کو گلے لگا کر کہہ رہی تھی ۔
ہاں انبھاج مگر مجھے کوئی شکوہ نہیں ہے کیونکہ خدا نے مجھے ایان جیسے نگینے سے نوازا ہے جس نے مجھے ہر بات جاننے کے باوجود قبول کیا اس نے آج تک مجھ سے کبھی سوال نہیں کیا کبھی کسی بات پر طنز نہیں کیا جب بھی مجھے اس کی ضرورت تھی وہ میرے ساتھ کھڑا تھا جب سب لوگوں نے مجھے غلط کہا اس نے میرا ساتھ دیا میں جتنا خدا کا شکر کروں کم ہے اگر وہ واقعہ میری زندگی میں نہ ہوا ہوتا تو شاید اشعر کسی نہ کسی طرح میری اور اپنی شادی کے لیے سب کو منا لیتا تو میں کیا کر لیتی ۔۔۔۔ جو ہوتا ہے اس میں ہماری ہی بہتری ہوتی ہے بس ہمیں اسے دوسرے نظریے سے دیکھنا ہوتا ہے ۔
عفیفہ کی باتوں سے انبھاج کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ۔
کیا میں بھی سب بھلا کر ضرار کو قبول نہیں کر سکتی شاید اسی میں میرے لیے بہتری ہو ۔ انبھاج نے دل میں کہا اور اس لمحے انبھاج نے ضرار کو قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔
تمہیں پتا ایان کو مجھ سے سب سے بڑی شکایت کیا ہے ۔
کیا ہے ۔ انبھاج نے تجسس سے پوچھا ۔
کہ میں نکاح کے باوجود اس کے ساتھ باہر گھومنے نہیں جاتی اور اگر جاتی ہوں تو ازلان یا آفاق کو ساتھ لے آتی ہوں ۔
یہ کیا بات ہوئی کیوں کرتی ہو تم ایان کے ساتھ ایسا ۔ انبھاج نے ایان کی سائڈ لیتے ہوئے کہا ۔
مجھے ڈر لگتا تھا کہ کہیں اشعر نہ آ جائے مگر اشعر نے جب مجھے دوبارہ اگواہ کیا تو اشعر کے حوالے سے تمام ڈر میرے دل سے نکل گئے شاید یہ واقع میرے ساتھ دوبارہ اسی لیے ہوا تاکہ میں اپنے خوف سے جیت جاؤ ۔
انبھاج عفیفہ کی باتوں میں کھو گئی تھی ۔
اچھا اب سوتے ہیں کافی باتیں ہو گئی ہیں اور رات بھی کافی ہو گئی ہے ۔عفیفہ نے اسے سونے کو کہا کیونکہ رات کے تین بج رہے تھے ۔
ہاں تم بھی سو جاؤ ۔
***********************************
صبح کھانے کے ٹیبل پر کافی گہماگہمی تھی کیونکہ سب کافی دنوں بعد ایک ساتھ ناشتہ کر رہے تھے انبھاج اور ضرار تو کل ہی ہسپتال سے لوٹے تھے ازلان اور آفاق بھی آفس کی مصروفیت کی وجع سے جلدی نکل جاتے تھے مگر آج سب اکھٹے بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے اور عافی نے ایان کو بھی فون کر کے بلا لیا تھا کیونکہ آج سنڈے تھا تو انہوں نے سوچا کہ سب اکھٹے ناشتہ کرتے ہیں ۔
ناشتہ میں حلوا پوری اور چنے موجود تھے ۔
واہ آج تو مزہ آ جائے گا ناشتہ کا ۔ آفاق نے ناشتہ دیکھتے ہی ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا ۔
بس بھوکے تجھے کھانے اور رونے کے علاوہ آتا ہی کیا ہے ۔ ازلان نے اس کے کندھے پر زور سے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔
بس میرے کھانے پر نظر رکھیں توں ۔ آفاق نے منہ بناتے ہوئے کہا ۔
اب بیٹھ بھی جاؤ ورنہ پھر نہ کہنا ہمارے لیے حلوا پوری کیوں نہیں چھوڑی ۔ ایان نے وارن کرتے ہوئے کہا ۔
جس پر ازلان اور آفاق دونوں ہی کرسیوں پر بیٹھ گئے ۔
حیدر انکل ۔ ایان نے حیدر صاحب کو مخاطب کیا تھا ۔
جی بیٹا ۔
انکل مجھے پتا ہے یہ باتیں بڑوں کے کرنے کی ہیں اور یہ بات امی کو ہی آپ سے کرنی چاہیے ۔ ایان اپنی خالہ کو امی کہتا تھا کیونکہ انہوں نے ہی اس کی پرورش کی تھی ۔
ہاں ہاں بولو بیٹا آپ کو جو بات کرنی ہے ۔
انکل میں رخصتی چاہتا ہوں ۔ ایان کی بات پر عفیفہ کا کھانا کھاتا ہاتھ رکا تھا ۔
میں بھی یہی سوچ رہا تھا ویسے بھی کافی عرصہ ہو گیا ہے آپ کے نکاح کو اب رخصتی ہو جانی چاہیے ۔
جی ٹھیک ہے انکل امی آ رہی ہے کچھ دنوں میں ۔۔۔۔۔ تو تب ہی کی کوئی تاریخ رکھ لیتے ہیں ۔
ٹھیک ہے ۔ ایان بیٹا اگر آپ کی شادی کے ساتھ ازلان کا نکاح بھی کر دیا جائے تو آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں ہو گا ۔
نہیں انکل جیسا آپ کو مناسب لگے ۔
ازلان کو حیرت کا جھٹکا لگا اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ اسی کے نکاح کی بات ہو رہی ہے کہیں وہ غلط نام تو نہیں سن رہا ۔
چاچو آپ نے میرا ہی نام لیا ہے نہ ۔
ہاہاہاہا ۔۔۔۔ ہاں تمہارا ہی نام لیا ہے حیدر صاحب نے ہنستے ہوئے کہا ۔
وہ مان گئے ۔۔۔۔۔ مشال کے ابو ۔
ہاں مان گئے وہ ان کا کہنا ہے کہ اب ازلان سدھر گیا ہے کام پر بھی جانے لگا ہے زمہ داری اٹھانے کے لائق ہو گیا ہے تو انہیں کوئی اعتراض نہیں ۔ حیدر صاحب کا بس اتنا کہنا تھا کہ ازلان کے منہ پر ایک کنال کی مسکراہٹ پھیل گئی ۔
یہ تو زیاتی ہے سب سے پہلے میرا نکاح ہوا تھا ۔ آفاق نے احتجاج کیا ۔
زیادتی کیسی بھلے نکاح تیرا سب سے پہلے ہوا تھا مگر ہے توں سب سے چھوٹا پہلے بڑوں کی شادیاں ہو جانے دے پھر تیرا نمبر بھی آ جائے گا ۔ ازلان نے تنگ کرتے ہوئے کہا ۔
***********************************
کیا خیال ہے ہم بھی ولیمہ نہ کر لیں ۔ انبھاج اور ضرار کمرے میں موجود تھے جب ضرار نے صبح ناشتے پر ہونے والے منصوبے یاد کرتے ہوئے کہا ۔
کچھ زیادہ نہیں فری ہو رہے تم ۔
اب اس میں فری ہونے والی تو کوئی بات نہیں ہے ۔
تم نے مجھ سے شادی کیوں کی تھی ۔ انبھاج نے کسی سوچ کے زیرِ اثر کہا ۔
وہ مجھے شادیاں کرنے کا شوق ہے ہر ایک سال میں ایک شادی تو کر ہی لیتا ہوں ۔ ضرار نے نہایت سنجیدہ انداز میں کہا ۔
کوئی سیدھا جواب نہیں دے سکتے ۔ انبھاج نے چڑتے ہوئے کہا ۔
سیدھے سوال کا سیدھا جواب ہوتا ہے اب تم جیسے سوال کرو گی ویسے ہی جواب دوں گا نہ میں ۔ ۔۔۔۔ اب بندہ شادی کیوں کرتا ہے ۔
تم نے مجھ سے شادی کیوں کی ۔ اس نے ہر لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا ۔
محبت کرتا ہوں تم سے اس لیے کی ہے شادی ۔
محبت کرتے ہو نا ۔ انبھاج نے یقین دہانی چاہی ۔
ہاں کرتا ہوں وہ الگ بات ہے تم مانو یا نہ مانو ۔
تو پھر مجھے سب کچھ سچ سچ بتاؤ کہ تم صدیقی کیوں بنے تم نے مجھ سے کیوں چھپایا کہ تم میرے کزن ہو مجھے دھوکے ميں رکھ کر شادی کیوں کی سب کچھ جاننا ہے مجھے اور سچ سچ جاننا ہے ۔
پہلے وعدہ کرو کہ سچ جان کر مجھ سے ناراض نہیں ہو گی مجھے چھوڑ کر نہیں جاؤ گی ۔
وعدہ نہیں جاؤ گی چھوڑ کے نہیں ہوں گی ناراض ۔ انبھاج تو اسے چھوڑ کر جانا بھی نہیں چاہتی تھی وہ تو اسے اپنی زندگی میں قبول کر چکی تھی اب بس وہ دوسری طرف کی کہانی جاننا چاہتی تھی جو اس سے چھپائی گئی تھی ۔
ضرار قدم بڑھاتا الماری کی طرف گیا الماری کھولی اور اندر موجود لوکر سے کچھ پیپر لا کر انبھاج کے ہاتھ میں دے دیے ۔
یہ کیا ہے ۔
خود دیکھ لو ۔
انبھاج نے فولڈ پیپر کھولے ۔
یہ تو ہمارا نکاح نامہ ہے ۔ انبھاج نے عام سے لہجے میں کہا ۔
تاریخ دیکھو ۔
کیا ۔
اس پر لکھی ہوئی تاریخ دیکھو ۔
اور جب انبھاج نے تاریخ دیکھی تو اس کے پاوں کے نیچے سے زمین نکل گئی ۔
نکاح نامہ پر لکھی تاریخ آج سے اکیس سال پہلے کی تھی ۔
یہ کیا مزاق ہے ضرار ۔
مزاق نہیں سچ ہے وہ سچ جو تم جاننا چاہتی تھی تمہارا اور میرا نکاح آج سے اکیس سال پہلے ہو گیا تھا جب تم تین اور میں دس سال کا تھا ۔
انبھاج کو ضرار کے کہے گئے الفاظ پر یقین نہیں آ رہا تھا ایسا کیسا ہو سکتا تھا ۔
تماری ماما اور تمہارے پاپا کی پسند کی شادی ہوئی تھی ۔
ہاں ہوئی تھی اس سے ہمارا کیا تعلق ہے ۔
تعلق ہے ! کیا تمہیں یہ معلوم ہے کہ انہوں نے کورٹ مئیرج کی تھی ۔۔۔ نہیں معلوم نا ۔
اور یہ سچ تھا اسے یہ تو معلوم تھا کہ اس کے والدین کی پسند کی شادی ہوئی تھی مگر یہ نہیں معلوم تھا کہ ان کی کورٹ مئیرج ہوئی تھی ۔
ہمارے خاندان میں شادیاں خاندان سے باہر نہیں کی جاتی تھی ہمارے دادا اس معملے میں بہت سخت تھے وہ اپنی بیٹی سے بہت پیار کرتے تھے مگر ان کا پیار ان کی روایات سے زیادہ نہیں تھا اور جب ان کی بیٹی یعنی تمہاری ماں نے اپنی پسند سے برادری سے باہر شادی کی خواہش ظاہر کی تو وہ بڑھک گئے اور غصے میں آ کر انہوں نے اس کی شادی اپنی بہن کے بیٹے سے طہ کر دی ۔
آمنہ آمنہ یہ کیا طریقہ ہے کیا حالت بنا رکھی ہے کمرے کی ۔ آمنہ نے کمرے کی ساری چیزیں ادھر ادھر پھینکی ہوئی تھی ۔
عافی میں کروں بھی تو کیا کروں ابا جان میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتے ہیں ۔
کیا کیا ابا جان نے ۔
انہوں نے میری شادی طہ کر دی ہے احسن کے ساتھ ۔ آمنہ رو رو کر بتا رہی تھی ۔
کیا مطلب ابا جان ایسا کیسے کر سکتے ہیں تم تو ولید کو پسند کرتی ہو نا ۔
ہاں مگر ابا جان کو اپنی ضد سے زیادہ کچھ کہاں پیارا ہے ۔
پھپھو پھپھو آپ کیوں رو رہی ہیں ۔ اتنے میں ایک پانچ سال کا بچہ کمرے میں داخل ہوا تھا ۔
مر گئی تمہاری پھپھو ۔
عافی پھپھو کیوں رو رہی ہیں ۔ بچے نے عافی کو مخاطب کیا ۔
کچھ نہیں عافی کی جان پھپھو پریشان ہے آپ باہر جاو میں ابھی آتی ہوں ۔
ضرار عافی کی بات سن کر کمرے سے باہر نکل گیا ۔
آمنہ تم پریشان مت ہو میں بات کرتی ہوں حیدر سے وہ کچھ نہ کچھ راستہ ضرور نکال لیں گے ۔
میں بتا رہی ہوں عافی اگر مجھے ولید نہ ملا تو میں مر جاؤ گی ۔
اور پھر حیدر نے اپنی بہن کی خوشی کی خاطر اس کی کورٹ مئیرج کروا دی ۔
جب آمنہ اپنے شوہر کے ساتھ اپنے باپ کے گھر آئی تو اسے اور اس کے شوہر کو دھکے دے کر بےعزت کر کے اس کے والد نے نکال دیا ۔
آمنہ کو اپنی غلطی کا اندازہ شادی کے دو مہینوں میں ہو گیا تھا ولید انتہائی خود پسند شخص تھا آمنہ کے والد کی کی گئی بےعزتی وہ کبھی نہیں بھولا اور نہ ہی کبھی آمنہ کو بھولنے دیا ہمیشہ اسے بےعزت کرتا اور کبھی کبھار تو مارنے تک بھی نوبت پہنچ جاتی اس نے آمنہ پر حیدر سے ملنے پر بھی پابندی لگا دی تھی مگر وہ حیدر سے فون پر رابطہ میں رہتی اسے ہمیشہ یہی بتاتی کہ ولید ایک بہت اچھے شوہر ہیں اس کا بہت خیال رکھتے ہیں اسے بہت پیار کرتے ہیں اور حیدر بھی اپنی بہن کی خوشی میں خوش ہو جاتے اور پھر عفیفہ کی پیدائش ہوئی اور اس کے ایک ماہ بعد انبھاج کی انبھاج کی پیدائش کی خبر سن کر حیدر صاحب سے رہا نہ گیا اور وہ آمنہ کو مبارک باد دینے پہنچ گئے مگر ولید نے اپنی بےعزتی کا بدلا لیتے ہوئے انہیں بےعزت کر کے نکال دیا اور اس دن حیدر کو اندازہ ہوا کہ ان سے کتنی بڑی غلطی ہو گئی ہے اپنی بہن کی خواہش تو پوری کر دی مگر یہ نہیں دیکھا کہ یہ خواہش اس کے لیے سہی بھی ہے یا غلط اور جب انبھاج تین سال کی تھی تو آمنہ کے والد کا انتقال ہو گیا اور ولید نے بڑی مشکل سے اسے وہاں جانے کی اجازت دی مگر خود جانے سے صاف انکار کر دیا کہ وہ ایسی جگہ قدم بھی نہیں رکھنا چاہتا جہاں سے اسے بےعزت کر کے نکالا گیا ہو ۔
حیدر بھائی آج کچھ مانگو تو منع تو نہیں کریں گے ۔
آج سے پہلے منع کیا ہے کیا ۔ حیدر نے آمنہ کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔
آپ انبھاج اور ضرار کا نکاح کر دیں ۔
یہ کیا کہہ رہی ہو آمنہ ابھی تو یہ بہت چھوٹے ہیں ۔
بھائی آپ کو اس رشتے ہر اعتراض ہے کیا ۔
نہیں آمنہ مجھے عمر پر اعتراض ہے ۔
بھائی مجھے نہیں معلوم میں کب مر جاؤ اور اس کے باپ پر مجھے بھروسہ نہیں ہے ۔ آمنہ کے آنکھوں میں آنسو آگئے ۔
یہ کیسی باتیں کر رہی ہو آمنہ ۔
بھائی میں سہی کہہ رہی ہوں مجھے پچھلے چھ ماہ سے بلڈ کینسر ہے اور سہی علاج نہ کروانے کے بعض مرض بگڑتا جا رہا ہے کب بلاوا آ جائے کیا معلوم ۔
ایسی باتیں نہ کرو آمنہ میرا دل ڈوب جائے گا تم نے مجھے کچھ کیوں نہیں بتایا ۔
بھائی کیا بتاتی ولید کو تو میرا آپ سے بات کرنا پسند نہیں اگر آپ میرا علاج کرواتے تو وہ بہت غصہ ہوتے اور شاید مار ۔۔۔۔ کہتے کہتے آمنہ رک گئی ۔
آمنہ تم نے اتنا سب کچھ ہم سے کیوں چھپایا چھوڑ دیتی اس ولید کو ہم مر گئے ہیں کیا اور اگر تم نے یہ سب ابا جان کی وجع سے سہا تو بہت بڑی بیوقوفی کی ہے ابا جان نے تو تمہیں کب کا معاف کر دیا تھا ۔
بھائی آپ بس میری بات مان لیں نکاح کروا دیں ان دونوں کا ۔
اور آمنہ کی ضد کے بعض دس سال کے ضرار اور تین سال کی انبھاج کا نکاح کروا دیا گیا ۔
بھائی جب میں مر جاؤ تو آ کر لے جانا اپنی امانت ۔
ایسی باتیں مت کرو تمہیں تو میری عمر بھی لگ جائے ۔ حیدر نے اپنی بہن کو دعا دیتے روانا کیا ۔
ان کی لاکھ کوشش کے باوجود آمنہ ان کے ساتھ رکنے کے لیے راضی نہ ہوئی ۔
اور چند ماہ بعد ہی آمنہ کا انتقال ہو گیا جس کی خبر ولید نے خود فون کر کے دی تھی حیدر اور عافی دونوں نے جا کر اسے انبھاج اور ضرار کے نکاح کے بارے بتایا جسے انہیں نے ماننے سے صاف انکار کر دیا مگر حیدر صاحب ہمیشہ ان کے گھر پر نظر رکھتے رہے مگر انہیں یہ جان کر بہت حیرت ہوئی کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ولید بدل رہا تھا اور اس نے شراب پینا چھوڑ دی جب انبھاج نے سمجھنے کے قانل ہوئی اور اس نے اپنے باپ سے شراب چھوڑنے کا کہا۔ اب وہ انبھاج کا بہت خیال رکھتے تھے اسے بہت محبت کرتے تھے اس کی ہر خواہش پوری کرنے کی کوشش کرتے تھے اور پھر انہوں نے ان کے گھر پر نظر رکھوانا چھوڑ دی مگر یہ ذمہ داری کسی اور نے سنبھال لی تھی اور وہ تھا ضرار ۔ ضرار کو ہمیشہ سے اپنے نکاح کے بارے میں معلوم تھا مگر اس سے براہ راست عافی نے بات تب کی جب اس کا یونیورسٹی کا پہلا دن تھا ۔
ضرار تم نے ہمیشہ بوئز سکول اور کالجز میں پڑھا ہے مگر اب یونیورسٹی جا رہے ہو وہاں کافی لڑکیاں ہوں گی ۔
جانتا ہوں وہاں کافی لڑکیاں ہوں گی مگر میری زندگی پر صرف ایک لڑکی کا حق ہے اور وہ ہے انبھاج ولید ۔ ضرار نے عافی کے کہنے سے پہلے ہی وہ سب کہہ دیا جو وہ کہنا چاہتی تھی ۔
عافی نے ضرار کو گلے لگا لیا ۔
ضرار تب کالج میں پڑھتا تھا جب سے وہ اپنی بیوی انبھاج جو اس سے کافی چھوٹی تھی اس پر نظر رکھنے لگ گیا تھا کہ کہیں کوئی اسے تنگ تو نہیں کرتا کوئی اسے پریشان تو نہیں کرتا ۔
جب ضرار یونیورسٹی ختم کر چکا تھا اور آفس سنبھالے ہوئے بھی ایک سال ہو گیا تھا اس نے انبھاج کے گھر میں کسی کو زبردستی گھستے دیکھا اس وقت انبھاج فرسٹ ائیر میں تھی اگلے دن ضرار ولید صاحب کے پاس پہنچ گیا اور معلوم کرنے پر پتا چلا کہ ان لوگوں سے ولید صاحب نے چالیس لاکھ کی رقم لی ہے اور اب ان کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ وہ پیسے لوٹا سکیں اور جس سے رقم لی ہے اس کی انبھاج پر بری نظر ہے اس کا کہنا ہے کہ انبھاج کی شادی اس سے کر دی جائے ۔
تو آپ کر دیں شادی اس میں کیا مسئلہ ہے ۔ اندر ہی اندر ضرار کا خون کھول رہا تھا مگر اس نے نہایت پرسکون انداز میں کہا ۔
میں کیسے اپنی بیٹی کا سودا کر دوں اور ویسے بھی میری بیٹی کا نکاح ہوا ہوا ہے ۔
اچھا تو یہ بات ہے ۔۔۔۔۔ ہممم. تو میں آپ کو رقم دے دیتا ہوں ۔
مگر آپ مجھے اتنی بڑی رقم کیوں دیں گے ۔
وہ آپ کا مسئلہ نہیں آپ کو اپنی بیٹی کی عزت پیاری ہے کہ نہیں ۔ ضرار نے اسی بےنیازی سے کہا ۔
یہ نا ہو کل کو آپ کوئی غلط مطالبہ کر دیں جو میں پورا نہ کر سکوں ۔ ولید صاحب نے اپنی پریشانی بتائی ۔
فکر نہ کریں ایسا کوئی مطالبہ نہیں کروں گا جو آپ پورا نہ کر سکیں ۔
آپ کا نام ۔ ولید صاحب نے ضرار کو اٹھتے دیکھ کر کہا ۔
صدیقی ۔ ضرار اس وقت اسے اپنا اصل نام بتانے کی غلطی نہیں کر سکتا تھا ۔
جی ٹھیک صدیقی ۔
صدیقی نہیں صدیقی صاحب آپ مجھے صاحب کہیں تو بہتر ہو گا مجھے کوئی صدیقی کہے یہ مجھے پسند نہیں ۔
جی صدیقی صاحب ۔
رقم میں ادا کر دوں گا آپ فکر مت کرنا ۔
ولید صاحب کو مجبوراً ہی اس شخص کی مدد لینے پڑی کیونکہ ان کے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا مگر جوں جوں وقت گزرتا گیا ان کے دل میں ضرور کی عزت بڑھتی گئی ضرار نے ہمیشہ ان کا ساتھ دیا نہ صرف ان کا بلکہ اور بھی کئی محلے کے لوگوں کا اور جب انبھاج کی یونیورسٹی مکمل ہوئی وہ پہنچ گیا رشتہ لے کر ۔
یہ آپ کہا کہہ رہے ہیں صدیقی صاحب آپ کو میں نے کہا تھا پھر بھی آپ ایسی بات کر رہے ہیں ۔
دیکھیں ولید صاحب آپ انبھاج کا رشتہ تڑوا دیں آپ کے لیے یہ بڑا مسئلہ نہیں ہو گا ۔
میں نے کئی بار رشتہ تڑوانے کی کوشش کی ہے مگر انبھاج کے مامو نہیں مانتے ۔
یہ آپ کا مسئلہ ہے میرا نہیں ۔ یہ کہہ کر وہ وہاں سے نکل گیا اور پیچھے ولید صاحب کو الجھن میں چھوڑ گیا ۔
کچھ ہفتوں بعد وہ دوبارہ ولید صاحب کے گھر موجود تھے ۔
انبھاج اپنی دوستوں کے ساتھ گھومنے کے لیے باہر گئی ہوئی تھی ۔
کچھ دیر میں انبھاج گھر پہنچ گئی تھی ۔
انبھاج کمرے میں چیزیں رکھ کر باہر گئی تھی جب ضرار نے دوبارہ اسی موضوع کو چھیڑ دیا تھا ۔

مجھے تم قبول ہو (✔✔Complete )Where stories live. Discover now