قسط ۱۳

1K 71 10
                                    

گاڑی کو سڑک پر ڈالے دو گھنٹے ہو چکے تھے اور رات کے بارہ بج رہے تھے جوں جوں سفر بڑھ رہا تھا اندھیرا بھی گہرا ہو رہا تھا سڑک کے دونوں اطراف کے درختوں نے منظر کو اور وحشت زدا بنا رکھا تھا ۔ عفیفہ کی حالت خراب ہو چکی تھی منہ پر بندھی پٹی جو کہ اس کی آواز دبانے کے لیے باندھی گئی تھی اب درد کا بعض بن رہی تھی اور آنکھوں پر بندھی پٹی جو کہ اسے راستوں سے انجان رکھنے کے لیے باندھی گئی تھی اسے خوف دلا رہی تھی ۔ ڈر خوف تکلیف پچھتاوا سب ایک ساتھ اس پر حملہ آور ہو رہے تھے انبھاج کے ساتھ جو کچھ ہوا منظر لوٹ لوٹ کر واپس آنکھوں کو تکلیف دے رہا تھا صرف اس کی وجع سے آج وہ زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی تھی آج تک بہن کی کمی جس انبھاج نے پوری کی اس کو ہمیشہ کے لیے کھو دینے کا خوف ہی اذیت زدہ تھا ۔
گاڑی شہر سے باہر نکل کر منزل پر پہنچ چکی تھی ۔
گاڑی جھٹکا کھا کر رکی تھی جو اسی بات کا اشارہ تھا کہ منزل مقصود آ چکی ہے اور پھر عفیفہ کو اپنی کلائی پر کسی کی گرفت
محسوس ہوئی جو کہ اس نے پورے زور سے چھڑوانی چاہی مگر ناکام رہی ۔
گاڑی کا دروازہ کھلا اور اسے پوری طرح گھسیٹتے ہوئے لے جایا گیا ۔
عفیفہ نے چیخنے کی پوری کوشش کی مگر منہ پر بندھی پٹی نے چیخیں حلق میں ہی دفنا دی ۔
تم سب یہیں رہو کسی بھی قسم کی غیر معمولی حرکت پر مجھے اگاہ کرتے رہنا۔ اشعر اپنے ساتھ کھڑے بندوں کو حدایت دیتا آگے بڑھا ۔
اور ہاں کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کروں گا میں ۔ اشعر نے مڑتے ہوئے الفاظ پر زور دیتے ہوئے کہا ۔
اور خود عفیفہ کو اندر لے گیا ۔
عفیفہ کو اپنا منہ پٹی سے آزاد ہوتا محسوس ہوا ۔ پٹی سے پوری طرح آزاد ہوتے ہی اس نے پوری شدت سے مدد کے لیے آواز لگائی ۔
کوئی ہے ۔۔۔۔۔ پلیز ہلپ ۔۔۔۔۔ بھائی ۔۔۔۔۔۔۔ ایان ۔۔۔۔۔ عافی ۔۔۔۔۔۔ پاپا ۔۔۔۔ وہ سب کو باری باری یاد کر رہی تھی ۔
انبھاج ۔ اور یہ کہتے ہی اس کے حلق تک درد پھیل گیا جیسے کسی نے ایک دم سانسیں چھین لی ہوں ۔
ارے میری بلبل یہاں کوئی نہیں آنے والا کیوں بےکار اپنے آپ کو تکلیف دے رہی ہو ۔
اور پھر اس کی آنکھوں سے پٹی اتار دی گئی پٹی اترے کچھ لمحے تو اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھایا رہا اور پھر آہستہ آہستہ منظر صاف دیکھائی دینے لگا ۔
وہ ایک کمرے میں موجود تھی کمرے کی چھت سے ایک بلب لٹک رہا تھا جس کی لال روشنی عجیب وحشت قائم کیے ہوئے تھی ۔
کمرے میں فرنیچر کے نام پر صرف ایک ٹیبل اور دو کرسیاں موجود تھی جو کمرے کے بیچ و بیچ موجود تھی ۔
اشعر نے اسے کندھوں سے پکڑ کر کرسی پر بیٹھایا ۔
دیکھو آج وہ دن بھی آ ہی گیا جب تم میرے سامنے بیٹھی ہو ۔ پتا ہے کتنا انتظار کیا ہے میں نے اس دن کا ۔۔۔۔ چار سال ۔ اشعر نے چار انگلیاں اس کے سامنے کرتے ہوئے کہا ۔ پورے چار سال پل پل مرتے گزارے ہیں تمہاری یاد میں مگر دیکھو آج تم یہاں ہو میرے سامنے ۔ عفیفہ اس کے چہرے کو گور سے دیکھ رہی تھی آج بھی وہی نقاب وہی فریب آج بھی وہ پہلے جیسا ہی تھا اپنی باتوں میں دوسروں کو پھسانے والا اپنی معصومیت کے جال میں کسی شکاری کی طرح شکار کرنے والا ۔ ۔۔۔۔۔ وہی پاگل سائکو جو اپنی خواہش اپنے سکون کے لیے کسی کی بھی جان لے سکتا تھا ۔
بس ایک اور دن کا انتظار کل ہوتے ہی ہم دونوں کی شادی ہو جائے گی پھر ہم ہنسی خوشی زندگی گزاریں گے ۔ اشعر اپنی دھن میں اپنے خواب اس کے سامنے بیان کر رہا تھا ۔
میں نہیں کروں گی تم سے شادی ۔ عفیفہ نے چیخ کر کہا تھا ۔
کیسے نہیں کرو گی ۔ اشعر نے ایک زور دار تھپڑ اس کی گال پر رسید کرتے ہوئے کہا تھا ۔
سوری سوری ۔ اشعر نے عفیفہ کی گال سہلاتے ہوئے کہا ۔
کیا کروں مجھے پتا ہی نہیں چلتا ۔۔۔۔۔ سوری زیادہ زور کی لگی ہے کیا ۔ وہ کسی معصوم بچے کی طرح سوال کر رہا تھا وہ ایسا ہی تھا پاگل جب اپنے پاگل پن میں ہوتا تو کسی کو مار بھی دیتا اور پھر بیٹھ کر اسی کی یاد میں آنسو بہا لیتا ۔
تم نے اچھا نہیں کیا ۔ عفیفہ نے الجہے ہوئے لہجے میں کہا ۔
جانتا ہوں زیادہ زور سے مار دیا نہ تھپڑ ۔ اشعر نے وہی معصومیت قائم رکھی ۔
میں انبھاج کی بات کر رہی ہوں ۔ عفیفہ نے آرام سے کہا کیونکہ وہ کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتی تھی اشعر کا کیا معلوم غصے میں آ کر کیا کر دے ۔
اس کے ساتھ جو ہوا سہی ہوا اور جو ہوا وہ انبھاج کے ساتھ نہیں ضرار کے ساتھ ہوا انبھاج تو بس ضرار کی بیوی ہونے کے گناہ کی سزا کاٹ رہی ہے چار سال پہلے ضرار نے مجھ سے تمہیں چھینا مجھ سے میری محبت کو چھینا اس کی وجع سے میں نے سب کو کھو دیا تو آج میں نے اس سے اس کی محبت چھین لی اس سے اس کا مان چھین لیا بھائی ہونے کا غرور چھین لیا ۔
اشعر کی باتیں اس کے حلق تک کڑواہٹ پھیلا رہی تھی اس کا بس نہیں چل رہا تھا اس شخص کو صفا ہستی سے مٹا دے ۔
تم فکر مت کرو اشعر میرا بھائی ضرار حیدر ہر چیز واپس لینا جانتا ہے اور جب وہ تم تک پہنچ گیا تو تم بھاگ جاؤ گے جیسے پہلے بھاگ گئے تھے ۔ عفیفہ کا کہا گیا ایک ایک لفظ اشعر کو انگارے سے کم نہ لگا اور خاص طور پر بھاگ جانے والا طنز تو اسے دل پر آگ سا محسوس ہوا ۔
اور بھائی ہی کیا ایان ۔۔۔۔۔ ایان مجھے یہاں سے لے جائے گا اور تم ۔۔۔۔۔۔۔ تم کچھ بھی نہیں کر پاؤ گے ۔ عفیفہ ہر لفظ اتنے اعتماد سے بول رہی تھی بنا ڈرے بنا کسی خوف کے اسے تو خود سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ آخر یہ ہمت کہاں سے آئی کہاں وہ عفیفہ جو اشعر کا نام سنتے ہی ڈر سے لانپ اٹھتی تھی اس کی سانسں پھول جاتی تھی اور کہاں آج وہ اس کے سامنے موجود تھا اور وہ ہمت سے بنا ڈرے اسے مخاطب کر رہی تھی ۔ جب اللّٰہ آزمائش دیتا ہے تو ہمت بھی دیتا ہے اس سے لڑنے کی ۔
نہیں۔۔۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔نہیں ۔ اشعر نے دھاڑتے ہوئے کہا تھا ۔
اس بار میں کسی کو اپنی راہ کا کانٹا نہیں بننے دوں گا ۔ اشعر نے چیختے ہوئے کہا تھا ۔
تم دیکھنا کچھ نہیں کر پائے گا نہ ضرار نہ ایان کچھ کرنا تو دور وہ کبھی جان بھی نہیں پائیں گے کہ تم کہاں گئی دیکھنا تم ۔
اشعر یہ کہتا دروازہ زور سے بند کرتا باہر نکل گیا ۔
یا اللّٰہ میرا بھروسہ ٹوٹنے نہ دینا ۔ عفیفہ نے درد بھری آواز میں کہا ۔
کل تک کسی مولوی کا انتظام کرو ۔ اشعر نے آتے ہی حکم سنایا تھا ۔
سر ابھی تک تو پولیس ہماری تلاش میں نکل چکی ہو گی ہم میں سے کسی کا بھی نکلنا خطرے سے خالی نہیں ہو گا ۔
کسی اور بندے کو لگاؤ مگر کل ظہر کے وقت مجھے ہر حال میں مولوی چاہیے ۔
ٹھیک ہے سر میں کرتا ہوں کچھ ۔
***********************************
آپریشن شروع ہوئے دو گھنٹے گزر چکے تھے اور ہر گزرتے لمہے کے ساتھ سب کی بےچینی بڑھتی جا رہی تھی ۔
حیدر صاحب اور دادی کو ان کی لاکھ ضد کے باوجود گھر بھجوا دیا گیا تھا کیونکہ ان کا یہاں رہنا سہی نہیں تھا حیدر صاحب تو پہلے بیمار رہتے اور اب یہاں اور رکتے تو طبیعت بگڑنے کا خطرہ تھا اور دادی بھی بزرگ کب تک اپنی جان ہلکان کرتی رہتی ۔
ازلان نے تو عافی کو بھی گھر چلے جانے کا کہا مگر دونوں بیٹیوں کی پریشانی کہاں آرام لینے دیتی ایک بیٹی کا تو کچھ پتا نہیں کہاں ہو گی کیسی ہو گی اور دوسری یوں بستر پر پڑی اس کو تو وہ یوں چھوڑ کر نہیں جا سکتی تھی ۔
کچھ پتا چلا عفیفہ کا ضرار نے ایان کو ہسپتال میں اپنے پاس آتا دیکھ سوال کیا ۔
نہیں ابھی تک تو نہیں مگر جلد پتا چل جائے گا پولیس کمپلین کر دی ہے ائی جی سے بھی بات کی ہے انہوں نے پورے تعاون کی یقین دیہانی کروائی ہے عفیفہ جلد مل جائے گی ۔۔۔۔۔ تم بتاؤ انبھاج کی کیسی حالت ہے آپریشن کہاں تک پہنچا ڈاکٹرز کا کیا کہنا ہے ۔
اپریشن چل رہا ہے کندھے کی گولی تو با آسانی نکال لی گئی اور کمر کی گولی کا گھاؤ زیادہ گہرا نہیں ہے مگر پیٹ میں لگنے والی گولی کافی خطرے کا بعض بنی ہوئی ہے ۔ جب ایان کے سوال پر ضرار سے جواب میں کچھ نہ کہا گیا تو ازلان نے آگے بڑھ کر ساری صورتِحال سے اگاہ کیا ۔
فکر نہ کرو انشاء اللّٰہ سب بہتر ہو گا ۔
انشاء اللّٰہ ۔
ضرار اب بھی انبھاج کا دوپٹا ہاتھ میں لپیٹے ہوئے تھا ۔
اپنی محبت کو مرتے دیکھنے کی نا تو اس میں ہمت تھی نا ہی وہ ایسا سوچنا چاہتا تھا مگر پھر بھی ایک ڈر دل میں گھر کیے ہوئے تھا جو اندر ہی اندر اسے کاٹ رہا تھا ۔
تم ایک نمبر کے ڈھیٹ ہو ۔ انبھاج کی آواز ضرار کے کانوں میں گونجی تھی۔
بھائی وہ مجھے مار دے گا ۔ پھر کہیں سے عفیفہ کی آواز کانوں میں آئی ۔
ضرار نے کانوں پر ہاتھ رکھ لیے وہ ان آوازوں کو صرف تب سننا چاہتا تھا جب یہ الفاظ بولنے والے اس کے سامنے کھڑے ہو کر اس سے ہم کلام ہوں اس سے پہلے ہرگز نہیں وہ دونوں مر تھوڑے گئے تھے جو ان کے الفاظ اس کے کانوں میں گردش کریں ۔
***********************************
یا اللّٰہ میری بچی کی حفاظت کریں ۔ یا میرے مولا میری دونوں بیٹیوں کو اپنے حِفظ و امان میں رکھیں ۔ یا میرے رب میری بیٹی انبھاج کی جان اور عفیفہ کی عزت کی حفاظت کریں ۔توں ہی ہے جو ایک ہی لمہے میں سب بدل سکتا ہے یا میرے مولا سب بدل دے میری دونوں بیٹیوں کو زندہ سلامت مجھے لوٹا دے ۔ میرے مولا میں تیرا کمزور ناچیز بندہ اپنی اولاد کی حفاظت کی تجھ سے بھیک مانگتا ہوں یا رب میری جھولی بھر دے یا میرے رب مجھے خالی مت لوٹائیں مجھے نہیں معلوم کب میرا وقت آ جائے کب مجھے اس جسم کو چھوڑ ہمیشہ کی زندگی کی طرف قدم بھڑانے ہوں یا اللّٰہ میری بچیوں کی حفاظت کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔ یا اللّٰہ ۔۔۔۔۔۔۔ یا اللّٰہ۔۔۔۔۔۔ یا اللّٰہ ۔ حیدر صاحب ہاتھ بلند کیے زار و قطار روئے چلیے جا رہے تھے اور اپنے رب کو یاد کر رہے تھے پھر وہ سجدے میں چلے گئے اور روتے ہوئے دعا مانگتے رہے ۔
***********************************
بیگم صاحبہ آپ اب تک جاگ رہی ہیں سو جائیں آپ تو جلدی سو جاتی ہیں نہ ۔ نوری بی بی نے دادی کو ٹی وی لاؤنچ میں بیٹھا دیکھ کر کہا ۔
کہاں نیند آتی ہے نوری جس ماں کی اولاد تکلیف میں ہو اس پر تو نیند بھی حرام ہو جاتی ہے کیسے سو جاؤں میں جب میری اولاد میری بچیاں اتنی تکلیف میں ہیں کیسے سکون کی نیند طاری کر لوں خود پر ۔
نظریں تو بس دروازے پر اٹکی ہوئی ہیں دل کہتا ہے ابھی عفیفہ آئے گی اور میرے گلے لگ جائے گی دل کہتا ہے ابھی انبھاج آ کر کہے گی دادی اور میں پھر نانی کہنے کی ضد کروں گی ۔ دادی نے روتے ہوئے کہا ۔
بیگم صاحبہ وہ ضرور آئیں گی مگر کیسا لگے گا انہیں جب اپ کو اس حالت میں دیکھیں گی ۔
ہاں مگر ۔۔۔۔
نہیں آپ چل کر سو جائیں جب کسی کی کال آئے گی یا کچھ بھی پتا چلے گا تو میں آپ کو بتا دوں گی ۔ اور پھر نوری بی بی دادی کو ان کے کمرے میں لے گئی ۔
دادی بیڈ پر لیٹ تو گئی مگر نیند تو کوسوں دور اڑ گئی تھی ۔
***********************************
عافی یہ لیں ۔ ازلان نے ان کی طرف سینڈوچ بڑھایا تھا ۔
نہیں میرا دل نہیں ہے ۔
عافی پلیز ضد نہ کریں کھا لیں ایسے تو بیمار پڑ جائیں گی آپ ۔
مجھے بھوک نہیں ہے ۔
آپ کی بیٹیوں نے آ کر میری پٹائی لگانی ہے کھا لیں نا ان کے لیے ہی سہی مجھ سے تو ویسے ہی محبت نہیں ان سے تو ہے نہ ۔ ازلان نے عافی کا موڈ ٹھیک کرنے کے لیے کہا ۔
لاؤ دو ۔ عافی نے بےدلی سے سینڈوچ پکڑ لیا ۔
اسے بھی کچھ کھلا دو کب سے ایسے بیٹھا ہے ۔ عافی نے ضرار کی طرف اشارہ کیا ۔
اس کی آپ فکر نہ کریں یہ کہتا وہ ضرار کی طرف بڑھ گیا ۔
ضرار یہ لو کچھ کھا لو ۔
نہیں میرا دل نہیں ہے ۔
ضرار ضد مت کرو ۔
ازلان ضد مت کرو ۔ ضرار نے ازلان کا سانڈوچ والا اپنی طرف بڑھا ہاتھ پیچھے کرتے کہا ۔
اتنے میں ڈاکٹر ان کے سامنے آ کھڑی ہوئی ۔
ڈاکٹر انبھاج کیسی ہے ۔ ڈاکٹر کو سامنے کھڑا دیکھ ضرار نے فوراً کھڑے ہوتے ہوئے کہا ۔
اوپریشن ہو گیا ہے اور وہ خطرے سے باہر بھی ہیں مگر ۔۔۔۔۔
مگر کیا ڈاکٹر ۔
مگر وہ اب کبھی ماں نہیں بن سکتی گولی ان کے اورگن کو ڈیمج کر چکی تھی جس کی وجع سے ۔۔۔
ہم اس سے کب مل سکتے ہیں ۔ ضرار نے ڈاکٹر کی بات کاٹتے ہوئے کہا جس سے یہ واضح تھا کہ اسے اس بارے میں اور کچھ نہیں سننا انبھاج زندہ ہے سہی سلامت ہے اس کے لیے یہی کافی تھا ۔
ابھی چوبیس گھنٹوں تک تو وہ زیرِنگرانی ہے اگر تب تک ان کی حالت قابو میں رہی تو آپ ان سے مل سکتے ہیں ۔
مگر ابھی تو آپ نے کہا کہ وہ خطرے سے باہر ہے تو ۔۔۔
دیکھیں ضرار آپ کی وائف کو گولیاں لگی ہیں اوپریشن تو کامیاب رہا ہے مگر ہمیں تمام چیزوں کا جائزہ لینا ہو گا اوپریشن کے بعد بھی کبھی کبھار پیچیدگیاں آ جاتی ہیں ان سے بچنے کے لیے بہتر ہے ابھی انہیں مکمل آرام کرنے دیا جائے اور ان سے کوئی نہ ملے ۔
ڈاکٹر پلیز آپ مجھے اس سے مل لینے دیں میں اسے تنگ نہیں کروں گا نہ ہی بات کروں گا بس دیکھ کر آ جاؤں گا واپس ۔
ٹھیک ہے مگر دور سے دیکھیں گے اور بات نہیں کریں گے آپ ۔ ضرار کی حالت دیکھ کر تو کوئی سنگ دل بھی اسے اجازت دے دیتا ۔
ٹھیک ہے ڈاکٹر ۔
ضرار لرزتے قدموں سے اندر داخل ہوا مگر انبھاج کی حالت دیکھ کر قدم جامد ہو گئے اس کا ساکن پڑا وجود اسے ڈرا رہا تھا وہ کمرے سے انہی قدموں واپس آ گیا کیونکہ وہ انبھاج کو یوں چپ چاپ لیٹا نہیں دیکھ سکتا تھا ۔
ازلان تم لوگ گھر جاؤ ویسے بھی اوپریشن ہو گیا ہے ۔
تم گھر جاؤ میں رک جاتا ہوں۔ ازلان نے ضرار کی حالت کے پیشِ نظر کہا ۔
نہیں آپ لوگ جاؤ میں ٹھیک ہوں یہاں ۔
مگر ۔۔۔۔۔۔۔
ازلان ضرار ٹھیک کہہ رہا ہے چلو ہم گھر چلتے ہیں صبح دوبارہ آ جائیں گے ۔ عافی سمجھ گئی تھی ضرار کی حالت تبھی ضرار کے حق میں بولی تھی ۔
میں رک جاتا مگر مجھے ابھی عفیفہ کے سلسلے ميں کچھ ضروری کام کرنا ہے ۔ ایان نے اپنی مصروفیت بتاتے ہوئے شرمندگی سے کہا ۔
نہیں ایان تم اشعر والا معملہ ہی دیکھو اور پریشان مت ہو یہاں میں ہوں ۔ اور ویسے بھی ایان رک بھی جاتا یہاں تو بھی اس کا دل عفیفہ میں ہی اٹکا رہتا تو اس کے لیے یہی بہتر تھا کہ وہ اشعر کو ڈھونڈے ۔

مجھے تم قبول ہو (✔✔Complete )On viuen les histories. Descobreix ara