قسط ۱۲

1K 69 9
                                    

آج ازلان کا رشتہ مشال کے گھر لے کر جانا تھا اور ابھی اسی کی تیاریاں جاری تھی عفیفہ انبھاج آفاق ضرار دادی عافی سب ان کے گھر جانے کی تیاریاں کر رہے تھے حیدر صاحب اپنی بیماری کے بعض نہیں جا سکتے تھے اسی لیے نوری بی بی ان کے ساتھ گھر پر رکنے والی تھی ۔
ان سب کی تیاریاں دیکھ ازلان کا تو برا حال ہو رہا تھا ۔
یہ کیا ہو رہا ہے ۔ ازلان نے ان سب کی تیاری دیکھتے ہوئے کہا ۔
کیا مطلب کیا ہو رہا ہے تیار ہو رہے ہیں آخر تمہارا رشتہ جو لے کر جانا ہے ۔ انبھاج نے شرارت سے بولا ۔
مطلب۔۔۔۔۔۔ مطلب یہ ساری پلٹوم جائے گی ۔ ازلان نے انگلی کا اشارہ ان اب کی طرف کیا ۔
ہاں تو اور کیا اب ازلان کا رشتہ لے کر جا رہے ہیں دیکھیں تو کون سا نگینا پسند کیا ہے کس نے گدھے کو انسان بننے پر مجبور کر دیا ۔ آفاق نے شرارت سے کہا ۔
توں بچ میرے ہاتھوں مجھے ۔۔۔۔ ازلان نے سینے پر انگلی رکھتے ہوئے کہا ۔
مجھے گدھا کہا ۔ ازلان نے غصے میں شور مچاتی آواز میں کہا ۔
اب گدھے کو گدھا ہی کہوں گا نہ ۔ آفاق اسی انداز میں بولا ۔
توں رک بیٹا ۔ ازلان آفاق کے پیچھے بھاگا ۔
دیکھو اسے دیکھ کر لگتا ہے کسی انسان کی اولاد ہے یہ ۔ دادی نے ناراضگی سے بولا ۔
اور دادی کی بات سنتے ہی ازلان ایسے بیٹھ گیا جیسے دودھ کے اوپر سے جھاگ اب دادی کو ناراض کرنے کا خطرہ تو وہ مول لے نہیں سکتا تھا کیا بھروسہ اچھی بھلی مانی منائی دادی کو دورا پڑے اور وہ جانے سے ہی انکار کر دیں ۔
دیکھیں دادی کیسے شریفوں کی طرح بیٹھا ہے جیسے اس سے زیادہ شریف اور معصوم تو کوئی ہے ہی نہ ۔ آفاق نے انگلی کا اشارہ صوفے پر بیٹھے ازلان کی طرف کیا اور دادی کو پوری طرح بڑھکایا ۔
جانتی ہوں جانتی ہوں بس آج ہی کے لیے ہے اس کی ساری شرافت ایک بار رشتہ ہو گیا تو توں کہاں میں کہاں ۔ دادی ازلان کی فطرت سے واقف تھی وہ شخص ایک جگہ ٹک کر بیٹھ جائے اور وہ بھی شرافت سے اس سے پہلے اسے موت نہ آجاتی تبھی دادی نے طنزہ انداز میں یہ کہا تھا ۔
ارے دادی اب ایسی بھی بات نہیں ہے ۔ ازلان نے صفائی دینے کی ناکام کوشش کی جسے بڑے خوب طریقہ سے نظر انداز کر دیا گیا تھا ۔
عفیفہ صوفے پر بیٹھی تھی جب اسے موبائل پر کسی کی کال آئی وہ جانتی تھی کہ وہ کال کس کی ہے تبھی کال اٹئنڈ کرنے کے لیے بہانہ بنا کر اوپر کمرے میں آ گئی ۔
کیسی ہو ۔ اگلے شخص نے آہستگی سے کہا تھا ۔
اور عفیفہ چاہ کر بھی یہ نہ کہہ پائی تھی مر رہی ہوں تمہاری وجع سے ۔
عفیفہ نے خاموشی قائم رکھی ۔
وہ ایان آ رہا تمہارے گھر میرا بہت دل کر رہا ہے کیوں نہ اسے جنت بھیج دیا جائے ۔
جنت ۔۔۔ عفیفہ نے ناسمجھی میں کہا ۔
ہاں نہ اب نہ حق قتل ہونے والا جنت میں ہی تو جائے گا ۔اشعر نے جاندار قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ۔
دیکھو اسے کچھ مت کرنا ۔ عفیفہ نے التجا کی تھی ۔
ٹھیک ہے کچھ نہیں کرتا مگر تم وہ کرو جو میں کہتا ہوں ۔
اور اشعر نے جو اسے کرنے کو کہا تھا اس سے بہتر تو مرنا پسند کرتی مگر ایان کو مرتا ہرگز نہیں دیکھ سکتی تھی اتنے میں دروازہ کھلا اور ایان دروازہ کھولتا اندر آ گیا اشعر کی کال ابھی تک جاری تھی ۔
تم ۔۔۔۔ عفیفہ نے اسے اتنی جلدی کمرے میں آتا دیکھ حیرانگی سے کہا ابھی کچھ لمہے پہلے ہی تو اشعر نے اسے بتایا تھا کہ ایان آنے والا ہے مگر وہ اتنی جلدی آ جائے گا اسے توقع نہ تھی ۔
وہ عافی نے بتایا کہ تم کمرے میں ہو تو ۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ ایان کچھ بولتا اس کے منہ پر ایک جان دار تھپڑ آ لگا اور وہ مخالف کھڑی عفیفہ کی طرف سے لگایا گیا تھا ۔
عافی نے بتایا اور تم آ گئے ہمت کیسے ہوئی تمہاری میرے کمرے میں آنے کی شرم نہیں آتی اس طرح کسی کے کمرے میں آتے ہوئے ۔
عفیفہ نے غصے میں کہا ۔
عفیفہ تم کسی کب سے ہو گئی ۔ ایان نے حیرانگی سے پوچھا ۔
مجھے نہیں پتا نکل جاؤ اس کمرے سے عفیفہ نے انگلی دروازے کی طرف کرتے ہوئے کہا ۔
عفیفہ کو اشعر کا مطالبہ یاد آیا ۔ ایان کو تھپڑ مارنا ہے تم نے ۔
عفیفہ تمہیں پتا ہے ۔ ایان نے عفیفہ کی آنکھوں میں دیکھا ۔
ایان نے ہلکی سے مسکراہٹ دی ۔
آئی لو یو ۔اور ایان یہ کہتا کمرے سے باہر نکل گیا اور وہ اس کے قدموں کو جاتے کب تک دیکھتی رہی تھی اس کا اکرار الفاظ سب کانوں میں پگل رہے تھے ۔
اشعر کا دماغ گھوم گیا تھا ایان کی اس حرکت پر اسے لگا تھا شاید ان کے بیچ تلخیاں جنم لے لیں گی مگر وہ شخص اس سب کے برکث نکلا تھا ۔
اب بس بہت ہو گیا یہ کھیل کچھ زیادہ ہی کھیل لیا چھپن چھپائی کا ، اب وقت آ گیا ہے میرے دوسرے فیورٹ گیم کا چوز بیٹوین اور یہ کہتے اشعر کے چہرے پر ایک خطرناک مسکراہٹ تھی جو کافی بڑے خطرہ کا اندیشا دے رہی تھی ۔
عفیفہ کب تک بیٹھی آنسو بہاتی رہی روتی رہی کب تک اسے خود سمجھ نہیں آیا تھا کہ ایک دم دروازہ پر ضرار آتا ہے وہ اسے نیچے بلانے کے لیے آیا تھا کافی دیر ہو گئی تھی اسے اوپر کمرے میں گئے ہوئے عافی نے ضرار کو بھیجا تھا عفیفہ کو بلانے کے لیے ۔
گڑیا کیا ہوا یوں کیوں بیٹھی ہو ۔ عفیفہ زمین پر گھٹنوں پر سر رکھے بیٹھی تھی ضرار بہت کم عفیفہ کو گڑیا بولتا تھا جب وہ بہت لاڈ میں ہو یا عفیفہ بہت پریشان ہو ۔
ضرار کی آواز پر عفیفہ نے چونک کر اوپر دیکھا عفیفہ کا چہرے دیکھ کر ضرار کو لگا شاید وہ عفیفہ ہے ہی نہیں رو رو کر اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھی اور کاجل گالوں تک آ چکا تھا لپ سٹک بھی وہ بار بار منہ صاف کرنے کی کوشش میں خراب کر چکی تھی ۔
کیا ہوا میری جان یہ کیا حال بنا رکھا ہے ۔ ضرار کی آواز میں درد واضح تھا ۔
اب عفیفہ سے اور برداشت نہ ہو سکا اور وہ ضرار کے گلے لگ کر زار و قطار رونے لگی ۔
کچھ بولو تو سہی عفیفہ ۔ ضرار نے اس کے بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ۔
بھائی وہ واپس آ گیا ہے بھائی اشعر واپس آگیا ہے بھائی وہ ہم سب کو مار ڈالے گا بھائی وہ مجھے مار دے گا بھائی ۔۔۔۔ عفیفہ روتے ہوئے بول رہی تھی ۔
ضرار کو حیرت کا جھٹکا لگا جس شخص کو وہ اپنی زندگیوں سے نکال چکے تھے وہ آج پھر ان کے سامنے آ کھڑا ہوا تھا جسے سوچنا چھوڑ دیا تھا آج وہ انکی سوچوں پر حاوی ہو رہا تھا ایک سال پہلے تک ضرار اشعر کی پل پل کی خبر رکھتا تھا مگر پھر وہ اپنی زندگی میں مصروف ہو گیا اور اشعر کسی بھانک خواب کی طرح ان کی زندگی سے نکل گیا اور آج عفیفہ کے منہ سے وہ یہ سن رہا تھا کہ اشعر واپس آ گیا ہے آخر کیسے وہ اتنا لا پروا ہو سکتا تھا آخری خبر جو اس کے پاس تھی اس کے مطابق اشعر کو امریکا کی کسی جیل میں ہونا چاہیے تھا تو پھر وہ یہاں کیسے ہو سکتا ہے ۔
اور پھر عفیفہ نے شروع سے آخر تک سب کچھ بتا دیا ۔
عفیفہ یہ تم نے کیا کیا ۔
بھائی اس نے دھمکی دی تھی ۔
عفیفہ اس نے وہ دھمکی اس وقت دی تھی یعنی اب اتنا وقت ہو چکا ہے اب تو وہ اپنے اگلے پلین کی تیاری بھی کر چکا ہو گا عفیفہ کاش تم نے مجھے پہلے بتایا ہوتا کاش عفیفہ ۔ ضرار کتنی اچھی طرح جانتا تھا اس شخص کو ۔
بھائی سوری ۔
اچھا کوئی بات نہیں اب حالت درست کرو اور نیچے آؤ کل کرتا ہوں کچھ میں اس اشعر کا ۔ اور عفیفہ بہت اچھے سے جانتی تھی کہ اگر ضرار نے کہا ہے تو وہ کچھ نہ کچھ ضرور کرے گا ۔
چلو اب جلدی سے اٹھو ۔
جی بھائی آپ چلیں میں آتی ہوں ۔
آ جانا اب پھر نہ رونے بیٹھ جانا ۔
نہیں روتی بھائی ۔ عفیفہ نے مسکراہٹ کے ساتھ کہا ۔
***********************************
عفیفہ کہاں ہے ضرار ۔ سڑھیوں سے نیچے آتے ضرار کو دیکھتے ہی عفیفہ کو ساتھ نہ آتا دیکھ عافی نے سوال کیا تھا ۔
عافی وہ بس آ رہی ہے زرا سا تیار ہو رہی تھی ۔
دیکھو آگے ہی اتنا ٹائم ہو گیا ہے اور اس لڑکی کی تیاریاں ہی ختم نہیں ہو رہی ۔
ایسا کریں آپ لوگوں آفاق کے ساتھ چلیں ہم تھوڑی دیر میں آ جاتے ہیں ۔ ضرار نے جان بوجھ کر آفاق پر زور دیا تھا کیونکہ وہ اچھے سے جانتا تھا کہ اگر گاڑی ازلان نے چلائی تو گاڑی چلے گی نہیں بلکہ اڑے کی عام حالات میں وہ شخص گاڑی اس طرح چلاتا تھا جیسا وہ چوری کر کے بھاگا ہو اور پولیس اس کے پیچھے پڑی ہو اب تو ویسے اس کے رشتے کا معملہ تھا ۔
ہاں ہاں نہیں چلاتا میں گاڑی ۔ ازلان نے اس کی بات کا مطلب سمجھتے ہوئے کہا ۔
ہاں ٹھیک ہے بھائی آپ لوگ بعد میں آ جائے میں دادی ازلان اور عافی چلتے ہیں ۔ آفاق نے فوراً جواب دیا تھا ۔
ہاں تم سب تو ٹھیک ہے مگر یہ ایان کدھر ہے اس نے نہیں جانا ۔ ضرار نے ایان کا پوچھا تھا جو کچھ دیر پہلے تک یہیں موجود تھا ضرار کو خطرہ تھا کہیں وہ عفیفہ کی حرکت کی وجع سے ناراض تو نہیں ہو گیا ۔
ارے میں نے کہاں جانا ہے ادھر ہی ہوں ۔ ضرار کی آواز سنتے ہی ایان کچن سے نکلتے ہوئے بولا تھا جو شاید پانی پینے کے لیے کچن میں موجود تھا ۔
اچھا تو پھر ایسا کرو بڑی گاڑی نکال لو اور آپ سب اسی میں چلے جاؤ ۔
ہاں یہ بھی ٹھیک ہے میں اپنی گاڑی ادھر ہی چھوڑ دیتا ہوں ۔ ایان نے ضرار کی بات سے اتفاق کیا تھا ۔
سب گاڑی میں بیٹھ چکے تھے اب گھر میں صرف انبھاج ضرار اور عفیفہ ہی موجود تھے عفیفہ اپنے کمرے میں اپنی حالت درست کرنے میں مصروف تھی جو اس نے رو رو کر بگاڑ رکھی تھی ۔
انبھاج صوفے پر بیٹھی عفیفہ کا انتظار کر رہی تھی کہ ضرار بھی اس کے سامنے والے صوفے پر آ بیٹھا ۔
انبھاج نے کامدار کوپر کلر کی شرت زیب تن کر رکھی تھی اور ساتھ میں ہلکا سا میک اپ اور جولیری کے نام پر صرف کانوں میں لٹکتے ہلکے مگر نہایت خوبورت جھمکے پہن رکھے تھے ۔
مجال ہے جو یہ شخص کبھی میری تعریف کر دے ۔ انبھاج نے دل میں شکوہ کیا تھا اور اگر یہ شکوہ وہ اس کے سامنے کر دیتی تو شاید وہ پورا دیوان ہی لکھ ڈالتا ۔
انبھاج ۔ ضرار نے اسے مخاطب کیا ۔
انبھاج کو لگا شاید اس شخص کی زبان سے کچھ تعریف کلمات نکلنے کو ہیں مگر وہ غلط تھی تعریف اور ضرار کر ہی نہ دے ۔
ہاں بولو ۔ انبھاج نے روٹھے انداز میں کہا ۔
پیاز کاٹا کرو ۔ ضرار نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا تھا ۔
ہیں یہ اس کو کیا ہو گیا ۔ انبھاج نے پھر سے اپنے دل کو مخاطب کیا تھا ۔
مطلب ۔ اب اس کے علاوہ وہ اس شخص سے کیا کہہ سکری تھی ۔
وہ میرا وہ سپیشل رائتہ کھانے کا دل کر رہا تھا ۔ اب وہ اسے کس طرح بتاتا کہ آج یوں انبھاج کو تیار دیکھ کر اسے اس دن پیاز کاٹتی انبھاج یاد آئی تھی اور پیاز کاٹتے ہوئے وہ اسے کتنی حسین لگی تھی ۔
وہ رائتہ میں نے اس لیے نہیں بنایا تھا کہ تم اسے مزے لے لے کر کھاؤ ۔
تو پھر کیوں بنایا تھا ۔
رہنے دو جس مقصد کے لیے بنایا تھا وہ تو میرے مرنے پر ہی پورا ہو گا کیونکہ تم ایک نمبر کے ڈھیٹ ہو ۔

مجھے تم قبول ہو (✔✔Complete )Where stories live. Discover now