قسط ۷

1K 80 4
                                    

انبھاج بیڈ پر منہ چڑھائے بیٹھی تھی آخر اس کی ساری محنت جو ضائع ہو گئی تھی اتنی مشکل سے اتنے سارے پیاز کاٹے پھر ان سب پیازوں کا پانی نکالا آخر آدھا کلو پیازوں کو کاٹنا آسان کام تھوڑے تھا اور جس شخص کے لیے اتنی محنت کی گئی تھی اسے تو کچھ فرق تک نہ پڑا اور اوپر سے وہ زہر نما بریانی اسے خود بھی کھانی پڑی ۔
ابھی ضرار کمرے میں موجود نہیں تھا باہر کسی کام سے گیا ہوا تھا انبھاج کمرے میں بیٹھی اسے دل کھول کر بددعائیں دے رہی تھی کہ اتنے میں دروازہ چٹاخ سا کھلا دروازہ جس طرح کھلا تھا انبھاج کے دل میں ایک امید جاگی کہ شاید ضرار کو غصہ آیا ہوا ہے اور اب وہ انبھاج کی اس حرکت سے تنگ آ کر اس پر غصہ کرئے گا جو کہ انبھاج کا مقصد تھا ۔
ضرار کمرے میں داخل ہوا اور سکون سے جا کر صوفے پر بیٹھ گیا اور جوتے اتارنے میں مصروف ہو گیا ۔
انبھاج بغور اسے دیکھ رہی تھی اس کے چہرے کو پڑھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ آخر اس شخص کے دل میں کیا چل رہا ہے مگر وہ ضرار حیدر تھا چہرہ پرسکون اور بےتاصر یہ دیکھ کر انبھاج کو اور غصہ آ رہا تھا اس کا دل چاہ رہا تھا کہ کوئی چیز اس شخص کے سر پر دے مارے کہ اتنے میں ضرار نے جوتے سائڈ پر رکھتے ہوئے کہا
ویسے بریانی بہت اچھی بنی تھی اور رائتہ تو اس سے بھی زیادہ مزیدار تھا ۔
یہ سن کر انبھاج کا دماغ گھوم گیا وہ جو امید کر رہی تھی کہ یہ شخص غصہ کرے گا لڑے گا مگر یہاں تو الٹا ہی ہو رہا تھا اس کی بنائی ہوئی بریانی کی تعریف کی جا رہی تھی اور رائتے کو سراہَ جا رہا تھا ۔
ضرار نے انبھاج کے چہرے کے بدلتے زاویے دیکھ لیے تھے تب ہی اسے چڑانے کے لیے بولا۔
تمہاری محبت پر یقین آ گیا مجھے ۔
انبھاج نے اس کی اس بات پر اسے گھور کر دیکھا ۔
بھئی جو لڑکی اپنے شوہر کے لیے اتنی محنت اور اتنی لگن سے کچھ بنائے تو سوچو وہ اپنے شوہر سے محبت کتنی کرتی ہو گی ۔ ضرار نے اس کے گھورنے کے جواب ميں کہا ۔
محبت کرتی ہے میری جوتی ۔ انبھاج نے تپ کر بولا ۔
نہیں نہیں تمہاری محبت کافی ہے اب تمہاری جوتی کی محبت کا کیا کروں گا میں ۔ ضرار نے اسے تنگ کرنے کو کہا ۔
آخر کیا چیز ہے یہ کس مٹی کا بنا ہے کسی بات کا جو فرق پڑ جائے اسے ۔ انبھاج نے دل میں جلتے ہوئے کہا ۔
مگر ابھی کے لیے اسے جلدی سونا تھا آخر صبح اسے ضرار سے پہلے جو اٹھنا تھا روزانہ ضرار پہلے اٹھ جایا کرتا تھا اسے نماز پڑھنے کے لیے مسجد جانا ہوتا تھا اور پھر جوگنگ کر کے ناشتہ کرتا تھا مگر کل صبح انبھاج کو ہر حال میں اس سے پہلے اٹھنا تھا ۔
***********************************
ضرار صبح سکون سے سو رہا تھا کہ ایک دم پانی سے بھری بالٹی اس کو صبح بخیر کہتی ہے اور ضرار ایک دم ترپ کر اٹھ جاتا ہے آخر دسمبر کی صبح برف کے پانی سے نہا کر کیسا لگتا ہے یہ اس وقت ضرار سے بہتر نہ کوئی بتا سکتا تھا نہ کوئی جان سکتا تھا ۔
اس ٹھنڈی صبح کی وجع تھی انبھاج جس کا آج صبح جلدی اٹھنے کا واحد مقصد یہی تھا وہ پانی پھینک چکی تھی اور ضرار کی حالت پر ہنس رہی تھی اور انتظار میں تھی ضرار حیدر کے ردِعمل کا ۔
پانی پڑتے دو منٹ تو ضرار کو سمجھ ہی نہ آیا کہ اس کے ساتھ ہوا کیا ہے مگر جب اپنے سامنے کھڑی اپنی بیوی کو ہنستے دیکھا تو باخوبی سمجھ گیا کہ آخر ہوا کیا ہے ۔
گوڈ مارننگ ڈئیر وائف ۔ ضرار نے نیند سے بیدار ہونے کے انداز میں بولا ۔
ضرار کو یہ کہتا دیکھ کر انبھاج کا دل کیا ایک اور بالٹی لا کر اس پر پھینک دے ۔
ویسے مجھے لگا تھا میرا یہ ایک ہفتہ کافی بورنگ جانے والا ہے مگر تم نے تو مجھے حیران کر دیا مجھے انٹرٹین کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی ۔ ضرار نے اپنے روایتی پرسکون انداز میں بولا ۔
انبھاج پاؤں پٹختی کمرے باہر نکل آئی ۔
پاگل ! ضرار نے ہنستے ہوئے کہا ۔
مگر یہ پاگل کچھ زیادہ پاگل پن کرے اس سے پہلے مجھے کچھ کرنا ہو گا ۔ ضرار نے خود کلامی کرتے ہوئے کہا ۔
***********************************
عفیفہ بہت بار ضرار سے بات کرنے کی کوشش کر چکی تھی مگر ہر بار ناکام رہی اس بار وہ تہیہ کر چکی تھی کہ اسے اکیلا دیکھ کر سب کچھ بتا دے گی ۔
ضرار ناشتہ کر کے اپنے کمرے میں چلا گیا انبھاج بھی اس کے پیچھے چلی گئی کمرے میں داخل ہو کر اس نے بغور کمرے کا جائزہ لیا ضرار کمرے میں موجود نہیں تھا وہ کمرے سے باہر آنے لگتی ہے کہ ایک دم اسے واشروم سے پانی کی آواز آتی ہے ۔
انبھاج کے چہرے پر مسکراہٹ آ جاتی ہے اس بندے نے تو میرا کام آسان کر دیا ۔
انبھاج دبے پاؤں جاتی ہے اور واشروم کے باہر سے کنڈی لگا دیتی ہے اور احتیاطً اس کے مبائل کو ڈھونڈتی ہے کہ کہیں مبائل اس کے پاس موجود نہ ہو ۔
مگر یہاں بھی وہ خوش نصیب ثابت ہوئی مبائل ڈریسنگ ٹیبل پر موجود تھا ۔
اب آئے گا مزا بڑا شوق تھا نہ انٹرٹینمنٹ کا اب دل کھول کر انٹرٹین ہو ۔ یہ کہتی انبھاج کمرے سے باہر نکل آئی ۔
پیچھے سے اس نے ضرار کا دروازہ ہلانے کی آواز سنی کم از کم آدھا گھنٹہ تو یہاں سے اسے کوئی نہیں نکالنے والا ایک تو ان کا کمرہ اوپر تھا دوسرا اس وقت سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوتے تھے ۔
انبھاج کو نیچے آتا دیکھ عافی نے اسے اپنی طرف بلایا ۔
جی عافی ۔
وہ تم نے ضرار کو تو نہیں دیکھا ۔
نہیں عافی کیوں کچھ ہوا ہے کیا ۔
بس بیٹا آج مجھے وہ کچھ بیمار بیمار سا لگا اسی لیے پوچھ رہی تھی ۔
بیما ہو ہی نہ جائے ۔ انبھاج نے دل میں بولا ۔
نہیں آپ کو ویسے ہی لگا ہو گا ۔
ہاں شاید ۔ عافی نے مدہم آواز میں کہا ۔
***********************************
عفیفہ ضرار کو ہی دیکھ رہی تھی کہ آخر وہ کہاں ہے آخر اسے اس سے بات جو کرنی تھی ۔
دوسری طرف ضرار کو کمرے میں بند ہوئے بیس منٹ ہو چکے تھے اب تو وہ دروازہ بجا بجا کر بھی تھک گیا تھا ۔
عفیفہ کو خیال آیا کہ کیوں نہ اس کے کمرے میں دیکھ آئے شاید وہ وہاں ہو اسی سوچ کے ساتھ وہ اوپر کی طرف بڑھ گئی ۔
عفیفہ نے کمرے میں جھانک کر دیکھا مگر ضرار کمرے میں موجود نہ تھا ۔
اللّٰہ جانے بھائی کہاں چلے گئے ۔ عفیفہ نے تھکے ہوئے انداز میں کہا ۔
عفیفہ کی آواز ضرار تک پہنچ گئی تھی اس کی آواز سنتے ہی ضرار نے دروازہ کھٹکھٹا دیا ۔
آواز سنتے ہی عفیفہ نے واش روم کا دروازہ کھولا اور دروازہ کھولنے کی دیر تھی کہ ضرار نیم بےہوشی میں گرنے لگا تو عفیفہ نے اسے سہارا دے کر بیڈ پر لیٹا دیا ۔
عافی عافی ۔ عفیفہ نے زور سے چلایا ۔
عافی اور انبھاج دوڑتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے ۔
ضرار کو یوں بیڈ پر لیٹا دیکھ کر عافی کی تو جان ہی نکل گئی ۔
کیا ہوا اسے ۔ عافی نے ضرار کو بیڈ پر لیٹا دیکھ کر کہا ۔
عفیفہ نے سب کچھ سرے سے بتا دیا مگر یہ نہیں بتایا کہ وہ فاش روم میں لؤک تھا ۔ اس نے یہ جان بوجھ کر نہیں بتایا ۔
عافی نے ضرار کے جسم کو ہاتھ لگایا جو انگارے کی طرح جل رہا تھا ۔
ارے اسے تو اتنا سخت بخار ہے ۔
انبھاج ڈاکٹر کو فون کرو ۔ عافی نے انبھاج کو کہا جو اس وقت کی گنگ کھڑی تھی اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی وہ کیا کرے ۔
جی جی۔۔ میں کرتی ہوں فون ۔
***********************************
ڈاکٹر ضرار کا چیک أیپ کر چکا تھا اور اب وہ عافی اور باقی سب کو اس کی حالت کے بارے میں بتا رہے تھے ۔
انہیں کافی شدید سردی لگی ہے مگر میں میڈسن لکھ کر دے رہا ہوں آپ انہیں وقت پر دیتے رہنا تو یہ ٹھیک ہوں جائیں گے ۔
اس کے بعد آفاق انہیں باہر تک چھوڑنے چلا گیا ۔
ہاں تو انبھاج مادام سکون مل گیا آپ کو ٹھنڈک حاصل ہو گئی چین آ گیا ۔۔۔۔ ہو گیا وہ بیمار اب خوش ہے توں ۔ انبھاج نے جانے کتنی سو گالیاں اپنے آپ کو دیتے ہوئے کہا ۔
عافی بیٹے کے سرہانے بیٹھی ہوئی تھی ۔
عافی چلیں ! عفیفہ نے عافی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ۔
مگر ضرار ۔
عافی اب بھائی شادی شدہ ہے ایک عدد بیوی ہے ان کی وہ خیال رکھے گی ان کا آپ چلیں کیوں رکھ لو گی نہ خیال ۔ عفیفہ نے انبھاج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ۔
ہاں رکھ لوں گی ۔
سب کمرے سے باہر جا چکے تھے اور انبھاج صوفے پر بیٹھی ضرار کو دیکھ رہی تھی ۔
تجھے شرم آنی چاہیے انبھاج یہ کیا کیا توں نے ، تو اسے پسند نہیں کرتی ہاں تھوڑی بہت نفرت بھی کرتی ہے مگر اس کا یہ مطلب کہاں ہے کہ توں کچھ بھی کر سکتی ہے ۔ انبھاج نے خود کلامی کرتے ہوئے کہا ۔
اتنے میں ضرار کی ہلکی سے آواز اس کے کانوں میں پڑی ۔
پانی ۔
انبھاج نے سائڈ ٹیبل پر پڑے ہوئے جگ سے پانی نکال کر اسے پلایا پورا دن اس نے ضرار کا بہت اچھے سے خیال رکھا ۔
***********************************
عفیفہ اپنے کمرے میں گم سم بیٹھی تھی کہ اس کے موبائل پر ایان کی کال آئی جو اس نے پوری طرح اگنور کر دی پھر سے کال آئی اس نے پھر سے اگنور کر دی اسی طرح اس کی دس کالز آئی مگر عفیفہ نے نہیں اٹھائی مگر پھر ایک اَن نون نمبر سے کال آئی جس نمبر کو اسے اٹھانا بہتر سمجھا کیونکہ یہ نمبر اشعر کا بھی ہو سکتا تھا اور وہ اشعر کی کال نہ اٹھانے کی غلطی ہرگز نہیں کر سکتی تھی اس نے کال اٹھا لی اور دوسری طرف سے آنے والی سیٹی کی مسلسل آواز اشعر کی ہی تھی ۔
کیوں کر رہے ہو یہ سب آخر مسئلہ کیا ہے تمہارا ۔
میں کیوں کر رہا ہوں یہ تمہیں پتا چل جائے گا مگر ابھی کے لیے اتنا دماغ میں بیٹھا لو کہ نہ تم ایان سے بات کرو گی اور نہ ہی ضرار کو میرے بارے میں کچھ بھی بتاؤ گی اگر یہ کرنے کی بےوقوفی کی تو نتائج کی ذمہ دار تم خود ہو گی ۔
اشعر کی بات سن کر عفیفہ کے لبوں پر بےساختہ مسکراہٹ آ گئی دوسری طرف اشعر نے یہ کہہ کر کال کاٹ دی ۔
تو اشعر تم گیم کھیل رہے ہو میں تو بھول ہی گئی تھی کہ تمہیں بچپن سے اس طرح کے کھیل کھیلنے کا کتنا شوق تھا تم نے آج تک کسی چیز کو آسانی سے حاصل نہ کیا کیونکہ یہ تو تمہیں پسند ہی کہاں تھا تمہیں تو ہمیشہ سے کھیل کھیلنا پسند تھا لوگوں کو تکلیف میں دیکھ کر تمہیں اطمنان ملتا تھا میں کیسے بھول گئی کیسے کہ تم کچھ بھی نہیں کرو گے جب تک اگلا بندا تنگ ہوتا رہے گا جب تک تم اسے تکلیف میں دیکھتے رہو گے جب تک تم پوری طرح دوسرے کو اپنے کھیل میں تکلیف ذدہ نہ دیکھ لو اور اب مجھے یہی ظاہر کرنا ہے کہ اس کی ان حرکتوں سے مجھے تکلیف پہنچ رہی ہے ۔ یہ کہتے عفیفہ کے چہرے پر مسکراہٹ ابھر آئی ۔
***********************************
رات کو ضرار کی حالت کافی بہتر ہو گئی تھی وہ تو بیڈ سے کتنی بار اٹھنے کی ناکام کوشش کر چکا تھا مگر کسی نے اسے بیڈ سے اٹھنے نہ دیا ۔
اس کے ہوش میں آتے ہی عافی نے اس کی اچھی خاصی کلاس لگائی جب اس نے یہ بتایا کہ اس نے ٹھنڈے پانی سے نہایا تھا ساتھ ہی عافی کو حیرت بھی ہوئی کہ جو شخص گومیوں میں بھی ٹھنڑے پانی سے نہیں نہاتا وہ سردیوں میں ٹھنڑے پانی سے کیسے نہا سکتا ہے ۔
عفیفہ کے پوچھنے پر کہ وہ لوک کیسے ہوا تو اس نے یہ کہہ دیا کہ انبھاج کو پتا نہیں چلا کہ میں اندر ہوں اور اس وجع سے میں غلطی سے لاؤک ہو گیا۔
وہ کمرے میں اکیلا موجود تھا ۔
انبھاج کمرے میں داخل ہوئی تو ہاتھ میں ٹرے موجود تھی جس میں سوپ کا باؤل رکھا ہوا تھا وہ سوپ لے کر ضرار کے پاس آ گئی ۔
یہ کیا ہے ؟ ضرار نے سوالیہ نظروں سے پوچھا ۔
سوپ ہے میں نے بنایا ہے ۔ انبھاج نے ہلکی سے مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا ۔
دیکھو مجھے معلوم ہے اسے بننے میں تمہاری کافی محنت لگی ہو گی مگر اپنی محبت بعد میں دیکھا دینا ابھی میں بیمار ہوں ۔ ضرار نے معصوم سی شکل بناتے ہوئے کہا ۔
ویری فنی پیوں چپ کر کے ۔ انبھاج نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا ۔
اچھا پیلاؤ ۔ ضرار نے ناک چڑاتے ہوئے کہا ۔
انبھاج نے گور سے اسے دیکھا ۔
میں بیمار ہوں نہ پی نہیں سکتا پلا دو ۔ ضرار نے معصومانہ شکل بناتے ہوئے کہا ۔
انبھاج نے چمچ کے زریعے اسے سوپ پلانا شروع کر دیا ۔
واہ کیا سوپ ہے ۔
ویسے اتنے بیمار بھی نہیں ہو تم ۔
کہاں دیکھو بولا تک نہیں جا رہا مجھ سے ۔ اس نے آواز ہلکی کرتے ہوئے کہا ۔
جی دِکھ رہا ہے ۔ انبھاج نے اس کی اس حرکت پر مسکراہٹ چھپاتے ہوئے کہا ۔
***********************************
ازلان میں بتا رہی ہوں اگر تم نے اس سے کوئی بھی ایسی ویسی بات کی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا ۔ عفیفہ نے شدید سنجیدہ انداز میں کہا ۔
کل ضرار کی طبیعت خراب تھی اور یونی کی چھٹی بھی تھی یہی وجع تھی کہ عفیفہ نے مشال سے فون پر بات کی تھی کہ اس کے بھائی کو اس سے کوئی ضروری بات کرنی ہے عفیفہ کا ارادہ یہی تھا کہ وہ براہِ راست مشال سے بات کرے گی مگر ازلان کو اتنی جلدی تھی کہ مجبوراً عفیفہ کو مشال سے فون پر بات کرنی پڑی ۔
تم سے برا کوئی ہے بھی نہیں ۔ عفیفہ نے جتنی سنجیدگی سے کہا اس نے اتنے ہی گیر سنجیدہ انداز میں جواب دیا۔
ازلان ! اس نے زور دیتے ہوئے کہا ۔
جی جی ٹھیک ہے کچھ ایسا ویسا نہیں کروں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ویسے بھی میں پاگل تھوڑی ہوں ۔
کوئی پتا بھی نہیں تمہارا ۔
ویسے اس کے تاثرات کیا تھے ۔
تاثرات ۔۔۔۔۔ ہاں تاثرات ۔۔۔۔۔موبائل میں یہ سسٹم کب آیا کہ کسی کے تاثرات دیکھے جا سکیں ۔ عفیفہ نے قدرے غصے سے کہا ۔
اچھا نہ سوری ۔
ابھی تم جاؤ ۔
کدھر ۔
جدھر سے آئے تھے ۔
وہ مشال ۔
وہ تو چھٹی ٹائم ملواؤں گی نہ ۔
نصیحتیں ایوے دے رہی تھی ۔ اس نے ناک چڑھاتے ہوئے کہا ۔
اب میں جا رہا ہوں مگر اگر تم نے نہ ملوایا تو میں نے تم سے بات کوئی نہیں کرنی ۔
اچھا نہ کرنا جاؤ اب ۔
ازلان نے منہ چڑھاتے گاڑی چلا دی ۔
***********************************
چھٹی کے وقت ازلان وقت سے پہلے ہی پہنچ چکا تھا ۔
واہ بھئی بڑی بات ہے آج تو وقت پر موجود ہیں آپ ۔ عفیفہ نے اسے تنگ کرتے ہوئے کہا ۔
جی بالکل اب پہنچنا تو تھا ۔ اس نے عفیفہ کے ہی انداز میں بولا۔
ویسے وہ کہاں ہے ۔
کون ؟ عفیفہ نے اسے تنگ کرنے کے لیے کہا ۔مشال ! ازلان نے گھورتے ہوئے کہا ۔
وہ کون ہے ؟ عفیفہ نے پھر سے شرارت سے بولا ۔
عفیفہ ! ازلان نے زور دیتے ہوئے بولا ۔
وہ تو میں ہوں ۔ عفیفہ نے بڑی معصومیت سے کہا ۔
عفیفہ ۔۔ اس بار ازلان نے چڑتے ہوئے کہا ۔
اچھا اچھا نہیں تنگ کرتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ دیکھو وہ آ رہی ہے تمہاری مشال ۔ مشال کو اپنی طرف آتا دیکھ کر عفیفہ نے جلدی سے کہا ۔
ازلان نے نظر گھما کر اس طرف دیکھا ۔
چلو تم سائیڈ پر ہو جاؤ جلدی سے ۔ ازلان نے جلدی سے کہا ۔
اللّٰہ اللّٰہ کوئی قدر ہی نہیں ہے میری ۔ یہ کہتے وہ سائیڈ پر ہو گئی ۔
اسلام علیکم ۔ مشال نے آتے ہی نہایت مودبانہ انداز میں سلام کیا ۔
والیکم سلام ۔
جی ہم سائیڈ پر چل کر بات کر سکتے ہیں ۔ ازلان نے مشال کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ۔
کیوں ۔۔۔۔۔ آپ فکر نہ کریں میں آپ کے ساتھ کسی غلط مقصد سے تو بات کرنے آئی نہیں جو کسی سے ڈروں ۔ مشال نے ازلان کی بات کو سمجھتے ہوئے کہا ۔
نہیں میرا وہ مطلب نہیں تھا ۔
آپ کو کچھ بات کرنی تھی آپ کریں ۔ مشال نے بڑے پراعتماد انداز ميں کہا ۔
***********************************

امید ہے قسط پسند آئی ہو گی تو ووٹ ضرور کریں

مجھے تم قبول ہو (✔✔Complete )Opowieści tętniące życiem. Odkryj je teraz