قسط ۳

1.2K 85 6
                                    

عشق نے بڑا حال خراب کر رکھا
ادھوری سائنسیں بے حال کر رکھا

چین چھین کر ہمیں نڈھال کر رکھا
اس سفر میں بےسر و سامان کر رکھا

ع سے عیاشی ش سے شرابی کر رکھا
ہمیں اس ق نے قاتل کر رکھا

ہنستے ہنساتے محفلوں میں رلا کر رکھا
لنڈے کے مال سا بے مال سا کر رکھا

بے داغ جو تھے ہم داغ دار کر رکھا
ہمیں تو اس عشق نے بےکار کر رکھا

از خود
***********************************

گاڑی اشارے پر رکی تو ایک دم گاڈی کے شیشے پر کسی کی دستک ہوئی ۔
عفیفہ نے دیکھا تو ایک چھوٹا بچہ کوئی دس سال کا شیشہ پر ہاتھ مار رہا تھا ۔
عفیفہ نے شیشہ کھولا ۔
کیا ہوا ؟ اس نے بڑے پیار سے بچے سے کہا ۔
یہ لیں ۔ بچے نے بڑا سا بکے اس کے ہاتھ میں پکڑاتے ہوئے کہا ۔
اور ساتھ ایک لفافہ بھی دیا ۔
اس سے پہلے عفیفہ کچھ بول پاتی وہ بچہ بھاگ گیا ۔
عفیفہ کے چہرے پر کوئی حیرت نہ تھی یہ آج آٹھوئی بار ہو رہا تھا کبھی اسے اپنی گاڑی میں اسی طرح کا سامان ملتا کبھی یونی کا کوئی اسٹوڈنٹ آ کر کہہ جاتا کہ تمہارا کوئی سامان آیا ہے کبھی اشارے پر کھڑا بھیکاری آ کر دے جاتا ایک بار حد ہی ہو گئی جب یہ سامان روباب کے گھر پہنچا دیا گیا وہ تو شکر جو سامان روباب نے خود دروازے پر لیا تھا اور آج ایک بچہ دے کر گیا تھا بس فرق اتنا تھا کہ اس بار کافی دنوں بعد اس شخص کا کوئی پیغام آیا تھا عفیفہ جسے لگا تھا کہ شاید اب اس کا اس سے پیچھا چھوٹ گیا ہے مگر اس کی یہ غلط فہمی بھی دور ہو گئی تھی ۔
عفیفہ نے شیشہ کھولا اور بکے کو زور سے باہر پھینک دیا۔
لفافہ بھی وہ باہر پھینکتے پھینکتے رک گئی اس نے کامپتے ہاتھوں سے لفافہ کھولا اس کے لیے یہ احساس ہی اتنا برا تھا کہ کوئی پل پل اس پر نظر رکھ رہا ہے ، پھر اس کی تصویریں ، وہ خط ان سب چیزوں نے اسے بہت پریشان کر رکھا تھا اور پھر یہ سب وہ کسی سے شئر بھی نہیں کر سکتی تھی آخر کرتی بھی تو کس سے کرتی ، صرف دو شخص تھے جو اس کی مدد کر سکتے تھے اسے سنبھال سکتے تھے اور وہ دونوں ہی یہاں موجود نہیں تھے ۔
لفافے کے اندر ایک خط موجود تھا اس نے خط کھولا ۔
اندر بڑا سا لکھا ہوا تھا ۔
I love you my life you are mine and always be mine.

اس بار نہ تو کوئی شاعری تھی اور نہ کوئی تصاویر مگر پھر بھی وہ خط بہت منفرد تھا کیونکہ وہ خون سے لکھا گیا تھا تازہ خون سے اسی وجع سے لکھائی ہلکی سی چمک رہی تھی ۔
عفیفہ کو گہن آ رہی تھی اس نے وہ خط بھی اٹھا کر باہر پھینک دیا ۔
اب اسے روباب کی کہی ہوئی باتوں سے ڈر لگ رہا تھا ، اسے خطرے کی بو آ رہی تھی ۔
کیا یہ وہی ہے ۔۔۔۔۔۔نہیں یہ وہ کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔یہ وہ نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔۔۔وہ تو ملک سے باہر ہے ۔ اس نے خود کلامی کرتے ہوئے کہا ۔
وہ خود کو جتنے بھی دلاسے دے دے مگر دل میں شک پیدا ہو گیا تھا ۔
***********************************

اتنی پریشان کیوں لگ رہی ہو ؟ انبھاج نے عفیفہ کے گھر میں داخل ہوتے ہی اس کا اترا ہوا چہرا دیکھ کر کہا ۔
کچھ نہیں یار بس ایسے ہی ۔
کچھ تو ہے مگر اگر تم بتانا نہیں چاہتی تو تمہاری مرضی ۔ انبھاج نے منہ پھیرتے ہوئے کہا ۔
اچھا ناراض تو مت ہو ، بتاتی ہوں میں ۔
اچھا بتاؤ پھر ۔
وہ ۔۔مجھے ۔۔مجھے نا۔۔۔ایان یاد آ رہا ہے ۔ اب عفیفہ اسے کیسے بتاتی کہ وہ صرف پریشان نہیں بلکہ ڈری ہوئی بھی ہے اور وہ کیوں ڈری ہوئی ہے یہ انبھاج کو نہیں بتا سکتی تھی تو اس نے ایان کا ذکر کر کے بات گھوما دی ۔
تو ہمیں یاد کیا جا رہا ہے ۔ عفیفہ کو اپنے پیچھے سے آواز آتی سنائی دی ۔
عفیفہ نے مڑ کر دیکھا تو ایان دیوار سے ٹیک لگائے ہاتھ باندھے بول رہا تھا ۔
ارے آپ ۔۔۔۔۔۔ آپ کب آئے ۔ عفیفہ نے اسے دیکھتے ہی خوشی سے کہا ۔
مجھے تو آنا ہی تھا آخر کوئی اتنی شدت اور چاہت سے یاد جو کر رہا تھا ۔
کوئی نہیں یاد کر رہا تھا آپ کو زیادہ خوش فہم نہ ہوں آپ ۔ عفیفہ نے صاف مکررتے ہوئے کہا ۔
ارے خوش فہمی کہاں کی ، ابھی میں نے اپنے گناہگار کانوں سے سنا ہے ۔۔۔۔۔ انبھاج تم ہی بتاؤ زرا ۔
وہ بچاری کیا بتائے گی اور ویسے بھی ان کانوں پر کیا یقین کرئیں جو ہے ہی گناہگار ۔عفیفہ نے ایان کی بات پکڑتے ہوئے کہا ۔
تم نہ کرنا اقرار کہ تم نے مجھے کبھی مس کیا ہے ۔
اچھا ٹھیک ہے ذرا یہ تو بتاؤ تم اتنی جلدی کیسے آ گئے ۔
وہ بس امی سے مل لیا تو آ گیا ویسے بھی میں تو امی سے ہی ملنے گیا تھا ورنہ میرا وہاں رہنے کا کوئی موڈ نہیں تھا ۔۔۔ اور ویسے بھی کسی کو ہماری یاد آئے یا نہ آئے ہمیں تو کسی کی بہت یاد آ رہی تھی ۔
اہہم اہہم یہاں میں بھی موجود ہوں یہ باتیں بعد میں کرنا ۔ انبھاج نے کھانستے ہوئے کہا ۔
اچھا سالی صاحبہ ہم آپ کی موجودگی کا خاص خیال رکھیں گے ۔ ایان نے کسی درباری کی طرح جھکتے ہوئے کہا ۔
سہی تعریف کرتی تھی عفیفہ آپ کی ۔
ارے عفیفہ میری تعریف بھی کرتی ہے مجھے تو پتا ہی نہیں تھا ۔
آپ ہیں ہی تعریف کے لائق اور میں یہ کیوں کہہ رہی ہوں آپ اچھی طرح جانتے ہیں ۔ عفیفہ نے سیریس انداز میں کہا۔
Afifa no discussion about that topic.
آج کے بعد میں کبھی دوبارہ اس چیز کا ذکر نہ سنوں ۔ ایان نے غصے سے بولا ۔
انبھاج اس کو یوں اچانک غصے میں آتا دیکھ کر حیران تھی کہ ایک دم ہنستے مسکراتے اسے کیا ہو گیا۔
اچھا نہیں کرتی اب مجھے کہیں کھانے کے لیے لے کر جاؤ گے کہ نہیں ویسے بھی ہاتھ تو تمہارے خالی ہیں لگتا ہے کچھ نہیں لائے ۔ اس نے ایان کے خالی ہاتھ دیکھ کر کہا ۔
ایان جب بھی ان کے گھر آتا عفیفہ کے لیے کچھ نہ کچھ لے کر ضرور آتا تھا آج تک ایسا نہیں ہوا تھا کہ وہ خالی ہاتھ آیا ہو ۔
ارے ایسا ہو سکتا ہے بھلا ۔ ایان نے آگے بڑھ کر ٹیبل سے ایک پیکٹ اٹھایا اور اس کی طرف بڑھا دیا جس پر اس کی شاید نظر نہیں پڑی تھی ۔
میں کبھی آؤ اور تمہارے لیے کچھ نہ لاؤں ایسا ہو سکتا ہے کیا ۔ ایان نے اسے مسکرا کر دیکھتے ہوئے کہا ۔
ڈارک چاکلیٹ مائے فیورٹ ۔۔۔۔ تھینک یو ۔عفیفہ نے پیکٹ کھول کر دیکھنے کے بعد کہا ۔
رہی بات باہر جانے کی تو وہ آج نہیں کل جائیں گے ابھی باقی سب سے مل لوں اور ویسے بھی میں بہت تھک گیا ہوں کل چلیں گے باہر ۔ ایان نے صوفے پہ بیٹھتے ہوئے کہا ۔
ٹھیک ہے ۔ عفیفہ نے اداس سی شکل بناتے ہوئے کہا ۔
اب ایسی شکل بنانے کی ضرورت نہیں کل پکا چلیں گے ۔ ایان نے عفیفہ کی شکل دیکھتے ہوئے کہا۔
اب عفیفہ اسے کیسے بتاتی کہ وہ باہر جانے کی ضد کیوں کر رہی ہے ۔
***********************************
آؤ چلیں ۔ اگلے ہی دن ایان عفیفہ کے گھر پر تھا ۔
ہاں بس میں اندر سے بیگ لے آؤ پھر نکلتے ہیں ۔
اچھا ویسے اپنی کزن سے بھی پوچھ لو اگر ہمارے ساتھ چلنا چاہے کہیں اسے برا نہ لگے اتنے دن ہو گئے ہیں کہیں باہر نہیں گئی نہ وہ ۔
ہاں اس کے ساتھ کسی اور دن چلیں گے آج ہم دونوں ہی جائیں گے ۔
عفیفہ کے اس جواب پر ایان کو کافی حیرت ہوئی تھی کیونکہ عفیفہ کو یوں اس کے ساتھ کہیں اکیلے جانا پسند نہیں تھا پسندگی اصل وجع نہیں تھی بلکہ اسے ڈر لگتا تھا خاص طور پر منگنی کے بعد تو جب بھی یہ دونوں کہیں جاتے تو ان کے ساتھ کوئی نہ کوئی ضرور ہوتا تھا کبھی آفاق ہوتا کبھی ازلان عفیفہ کے ساتھ جو کچھ ہوا تھا اس کے بعد کہیں بھی جاتے ہوئے اسے ڈر لگتا تھا اس کی منگنی ہو گئی مگر یہ جتنا بھی چاہتی ایان کے ساتھ اکیلے نہیں جا پاتی تھی بےشک وہ ایان سے بہت محبت کرتی تھی اور اس پر سب سے زیادہ اعتبار بھی مگر ڈر اندر ہی اندر اسے کھاتا رہتا تھا کہیں وہ واپس آ گیا تو کہیں اس نے ایان کو کچھ کر دیا تو اسے اپنی اتنی فکر نہیں تھی جتنی اسے ایان کی تھی وہ جانتی تھی کہ وہ شخص اسے تو شاید چھوڑ دے مگر ایان کا تو وہ قتل ہی کر دے گا حالانکہ عفیفہ یہ بھی جانتی تھی کہ وہ ملک سے باہر ہے مگر اس شخص کا ڈر اس کے دل و دماغ پر غالب آ چکا تھا اور وہ ایان کو کسی طرح کی مشکل میں دیکھنا نہیں چاہتی تھی ، وہ ایان سے اتنی محبت کرتی تھی کہ جب ایان کا اس کے لیے رشتہ آیا تو اس نے انکار کر دیا کہ وہ کسی کو بھی خطرہ میں نہیں ڈالنا چاہتی مگر ایان کی محبت کے آگے اسے اپنی ضد سے ہٹنا پڑا ۔
ایان اور عفیفہ ریسٹورینٹ میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے مگر عفیفہ مسلسل ادھر ادھر دیکھ رہی تھی ۔
عفیفہ میں کب سے نوٹ کر رہا ہوں تم کچھ پریشان ہو کیا ہوا ہے ۔ ایان نے چمچ پلیٹ میں واپس رکھتے ہوئے کہا۔
آپ کھانا کھا لیں پھر بات کریں گے ۔
نہیں مجھے ابھی بتاؤ بات کیا ہے ۔
وہ واپس آ گیا ہے ۔ عفیفہ نے ڈرے ہوئے انداز میں کہا ۔
نہیں تمہیں کس نے کہا وہ تو امریکہ میں ہے وہ کیسے آ سکتا ہے ۔
تو امریکہ سے پاکستان آنا کون سا مشکل کام ہے ۔
مگر تمہیں ایسا کیوں لگ رہا ہے ۔
اور پھر عفیفہ نے اسے پوری کہانی شروع سے آخر تک بتائی ۔
تم ڈرو مت میں پتا کرواتا ہوں اور ایک گارڈ بھی لگواتا ہوں تمہارے ساتھ ۔
نہیں کیوں کسی بچارے کی زندگی خطرے میں ڈالنی ہے ۔
اور جو تمہاری جان خطرے میں ہو سکتی ہے مجھے نہیں پتا میں کل ہی ایک گارڈ لگواتا ہوں ۔
***********************************

مجھے تم قبول ہو (✔✔Complete )Där berättelser lever. Upptäck nu