قسط ۲

1.4K 97 7
                                    

غزل
سفر کی ابتدا میں لٹ جاؤ اگر
پھر نہ پوچھو سفر کیا ہے

ساتھی جب ساتھ چھوڑ جائیں سارے
پھر کون پوچھے حال کیا ہے

کنکریوں کے ڈھیر میں ڈال دیا ہمیں
پھر کون پوچھے دام کیا ہے

درد سے ہے رابطہ پرانا ہمارا
سب پوچھیں یہ درد کیا ہے

وہ زخم دیتے رہے ہم پروتے رہے
پھر وہ پوچھے دردِ حال کیا ہے

میں کیا کروں اب جب آ گیا وقت
جواب نہ ہو جب خدا پوچھے سامان کیا ہے

از خود

*******************************
ماشاءاللہ کتنی پیاری ہو گئی ہو بچپن میں بھی تھی مگر اب تو اور زیادہ پیاری ہو گئی ہو ۔ اس عورت نے کہتے ہوئے انبھاج کا ماتھا چوما۔
انبھاج کو ابھی تک سمجھ نہیں آ رہا تھا یہ کون ہے جب سے وہ آئی تھی وہ عورت ہی بولے جا رہی تھی انبھاج کو تو بولنا کا موقع تک نہیں ملا تھا ۔
ارے میں تو بھول ہی گئی ۔۔ اب سب غصہ ہوں گے کہ انبھاج آئی اور تم نے ہمیں بتایا تک نہیں تم بس ادھر بیٹھو میں سب کو بلا کر لاتی ہوں اور وہ کہتے ہوئے اوپر کی منزل کی طرف چلی گئی ۔
اور پانچ منٹ بعد جب وہ آئی تو اس عورت کے ساتھ ایک لڑکی جو انبھاج کی ہی عمر کی تھی موجود تھی اور ایک لڑکا جو انبھاج سے کوئی چھ سال بڑا تھا اور دوسرا لڑکا کوئی دو سال بڑا ہو گا اور ساتھ ہی ایک بزرگ عورت موجود تھی آتے ہی سب سے پہلے عورت نے اسے ماتھے پر بوسہ دیا گلے لگایا پھر ساتھ کھڑی لڑکی نے اسے محبت سے سینے سے لگایا ۔
ارے تم بھی سوچ رہی ہو گی کہ یہ جنوں کی فوج کہاں سے آ گئی ہے اور یہ چڑیل جیسی دکھنے والی عورتیں کون ہیں اس نے ان تین خواتین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔
ہاں یہی سوچ رہی تھی نہ کیوں سہی کہا نہ میں نے ویسے بھی ہمیشہ سہی ہی تو کہتا ہوں میں ۔ اس نے اب انبھاج کو مخاطب کرتے ہوئے بولا ۔ انبھاج کی طرف سے جواب نہ ملنے پر وہ خود ہی شروع ہو گیا ۔
تو میں بتاتا ہوں میں ہوں ازلان یہ ہے آفاق میرا چھوٹا بھائی اور یہ ہے عفیفہ میری کزن اور یہ ہیں ہماری کھڑوس دادی ۔ آخری شخص کا تعارف کروتے ہوئے اس نے گندی سی شکل بنائی اب اس کے اور دادی کے تعلقات ہی کچھ ایسے تھے ۔
اور ان سے تو تم مل ہی چکی ہو مگر یقیناً انہیں تمہاری محبت میں اپنا تعارف کروانا تک یاد نہیں رہا ہو گا تو میں ہی بتا دیتا ہوں یہ ہیں چچی فاطمہ مگر چچی یہ میری ہے تمہاری مامی ہیں مگر انہیں چچی وچی کوئی نہیں کہتا انہیں سب عافی کہتے ہیں ۔اور وہ جو ازلان نے بولنا شروع کیا تو رکنے کا نام ہی نہ لیا وہ تو دادی کے ہاتھ سے سر پر پڑنے والے تھپڑ نے چپ کرایا ۔
ارے بس بھی کر جا بچی ابھی آئی ہے اور توں ایک ہی سانس میں رام لیلا سنانے پر تلا ہوا ہے ۔ دادی نے ازلان کے سر پر ہلکا سا ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔
دیکھا کیسی ظالم دادی ہیں ہماری اسی لیے تو میں انہیں کھڑوس کہتا ہوں ۔ اس نے دادی کے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا ۔
دادی کے ہاتھ سے ایک اور تھپڑ کھانے کے بعد وہ شرافت سے چپ ہو گیا ۔
انبھاج اس کی بات پر ہلکا سا مسکرا دی ۔
اچھا وہ حیدر مامو کہاں ہیں ۔ انبھاج نے بہت دیر بعد کچھ بولا ۔
وہ یہاں آ نہیں سکتے آؤ میں تمہیں ان سے ملا لاتی ہوں ۔ فاطمہ چچی نے اسے اپنے ساتھ چلنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔
انبھاج بھی ان کے پیچھے چل پڑی ۔
باقی سب کی نسبت حیدر مامو کا کمرہ نیچے گراؤنڈ فلور پر ہی تھی ۔
فاطمہ ممانی نے ہلکا سا دروازہ کھولا ۔
دونوں اندر داخل ہو گئی ۔
دیکھو یہ ہیں تمہارے مامو ابھی سو رہے ہیں ، دوائی کھائی ہے نا سکون کی ، یہ ذرا بیمار رہتے ہیں ابھی تمہارے آنے سے پندرہ منٹ پہلے ہی تو سوئے ہیں اب ایک گھنٹے بعد ہی اٹھیں گے ۔
حیدر مامو بالکل ویسے ہی لگ رہے تھے جیسے تصاویر میں دیکھا تھا بس کچھ بیمار بیمار سے لگ رہے تھے ۔
انبھاج دو قدم آگے بڑھی اور جا کر حیدر مامو کے ماتھے پر بوسہ دیا اور اتنے میں ان کی آنکھ کھل گئی اتنے سالوں میں یہ پہلی بار ہوا تھا کہ دوائی کھانے کے باوجود ان کی آنکھ کھل گئی ہو ۔
آنکھ کھلتے ہی ان کے ہونٹوں سے آمنہ نکلا ۔
آمنہ تم آئی ہو نہ میری جان یہ تم ہو نا ان کے ہونٹوں سے بہت آہستگی سے لفظ نکلا ۔

مجھے تم قبول ہو (✔✔Complete )Where stories live. Discover now