قسط ۹

982 83 5
                                    

کیا کہا تم نہ دوبارہ کہنا ۔
یہی کہ میں کسی اور کو پسند کرتی ہوں ۔

یعنی تم کسی اور کو پسند کرتی ہو ۔۔ ضرار نے بے یقینی سے کہا۔
ہاں ۔ انبھاج نے سر ہاں میں ہلا دیا۔
اور دوسری طرف گہری خاموشی چھا گئی ضرار کو یوں چپ بیٹھا دیکھ کر انبھاج کو الجھن ہونے لگی کی آخر یہ یوں کیوں بیٹھا ہوا ہے آخر کچھ بول کیوں نہیں رہا بےشک ڈانٹ لے مگر کچھ بولے تو سہی ۔
ضرار ۔۔ انبھاج نے اسے مخاطب کیا ۔
ہاں ۔ اس نے اپنی سوچ سے باہر نکلتے ہوئے کہا ۔
ہاں ۔۔۔ مجھے ملنا ہے اس شخص سے ۔ ضرار نے بات مکمل کرتے ہوئے کہا ۔
ٹھیک ہے ۔ انبھاج نے لاتعلقی سے کہا ۔
مجھے آج ملنا ہے اس سے ۔ ضرار نے پھر سے بات شروع کی ۔
ٹھیک ہے ۔ انبھاج نے اسی لاتعلقی سے کہا ۔
ضرار اٹھ کر کمرے سے باہر چلا گیا اور انبھاج پیچھے کمرے میں بیٹھی خوشی سے پاگل ہو رہی تھی آخر اس کا پلین کامیاب ہوتا دیکھائی دے رہا تھا کہ اتنے میں دروازے پر دستک ہوتی ہے ۔
میں اندر آ جاؤں ۔ ازلان نے دستک دیتے ہوئے کہا ۔
آ جاؤ مگر تم نے اجازت کب سے لینا شروع کر دی ۔ انبھاج نے حیرت سے کہا ۔
وہ کیا ہے نہ ضرورت کے وقت گدھے کو بھی باپ بنانا پڑ سکتا ہے ۔ ازلان نے دانت نکالتے ہوئے کہا ۔
اچھا تو تم نے مجھے گدھا کہا ۔ انبھاج نے مصنوعی غصہ دیکھاتے ہوئے کہا ۔
ارے میں تو مزاق کر رہا تھا تم تو میری بہت اچھی دوست ہو ۔
مطلب بتاؤ مکھن نہ لگاؤ۔ انبھاج نے شرارت سے کہا ۔
پلیز میری مدد کر دو ۔ ازلان نے اس کے ساتھ بیٹھتے ہی ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا ۔
واہ ازلان کو بھی مدد کی ضرورت پڑ گئی یقین نہیں آ رہا ویسے ضرورت کیا پیش آئی ہے ۔
دل کا مسئلہ ہے ۔ ازلان نے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔
ہائے کیا ہوا سراخ تو نہیں ہو گئے کیونکہ عشق والا بخار تو ہو نہیں سکتا تمہیں ۔
اللّٰہ نہ کرے دل میں سراخ تو میرے دشمنوں کے بھی نہ ہوں ۔
اچھا مطلب عشق ہی ہے تو پھر بولو ہماری کیا مدد درکار ہے ۔
دادی سے بات کرنی ہے ۔ازلان نے جلدی سے بولا ۔
کیا ۔۔۔نہ بابا میں تو نہیں کر رہی بات ۔
پلیز بہن نہیں ہو میری ۔۔ پیاری سی پلیز کر لو نہ بات میرے لیے ۔ ازلان نے منت کرتے ہوئے کہا ۔
واہ واہ کیا بات ہے ازلان تمہاری ۔ آج وقت آنے پر بہن ہی بنا دیا یاد ہے وہ دن جس دن شادی کے لیے کہا تھا ۔ انبھاج نے اسے شرم دیلانے کی ناکام کوشش کی ۔
ہاں وہ تو میں نے مزاق کیا تھا اور زرا آہستہ بولو تمہارے شوہر نے سن لیا تو میری ہڈیاں بھی نہیں بچنی ۔
ہاہاہاہا ۔
ہنسنا بند کرو اور میرے لیے دادی سے بات کرو ۔ ازلان نے اس کو ہنستا دیکھ کر کہا ۔
اور اتنے میں ضرار کی گرج دار آواز انبھاج اور ازلان کے کانوں میں پڑتی ہے دراصل ضرار نے ان کی باتیں سن لی تھی ۔
انبھاج ۔۔۔۔۔۔۔ کمرے سے باہر جاؤ ۔ انبھاج کو تو سمجھ ہی نہیں آئی وہ کیا کرے ۔
انبھاج میں نے کہا باہر جاؤ ۔ضرار نے پھر سے اونچی آواز میں کہا۔
اور انبھاج قدم بڑھاتی باہر نکل گئی ازلان موقع پاتے ہی باہر نکلنے لگا کہ ضرار کی آواز نے اسے روک لیا۔
آپ کہاں جا رہے ہیں جناب ۔
آپ ۔۔۔۔۔۔ جناب ۔ ازلان میاں پکا کوئی گڑبڑ ہے ۔۔۔۔ اللّٰہ بچا لے بس اپنے اس ناچیز سے بندے کو ۔
میں ۔۔۔۔ میں تو کہیں نہیں کیوں کوئی کام ہے ۔
کیا بول رہے تھے آپ میری بیوی سے ۔
کچھ بھی تو ۔
میں نے پوچھا کیا بولا ہے توں نے انبھاج سے ۔
لے میاں ازلان آپ سے توں پر جنپ لگ چکا ہے اللّٰہ بچائیں بس ۔
وہ میں تو بس یہ کہنے آیا تھا کہ دادی سے میرے لیے بات کرے اور تو کچھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور بول پاتا ضرار کا اٹھتا ہوا ہاتھ اس کے منع پہ مکے کی صورت آ لگا ۔
اب ظاہری بات ہے ضرار جس کو ازلان کا دوسری لڑکیوں سے فلڑٹ کرنا پسند نہیں اور وہ اس کو پہلے بھی اس کی ایسی ہی ایک حرکت پر مار چکا تھا تو وہ بندہ اپنی بیوی کے لیے تو اس شخص کی جان بھی لے سکتا تھا ۔
بھائی مزاق کیا تھا میں نے اس سے بس ۔ ازلان بہت کم ہی ضرار کو بھائی کہتا تھا اور وہ بھی تب ہی جب کوئی بہت ضروری کام ہوتا تھا ضرار ازلان سے ایک سال بڑا تھاباس لیے ان میں دوستوں والا رشتہ تھا جو لڑتے بھی تھے اور ایک دوسرے پر مرتے بھی تھے ۔
مزاق ۔۔۔۔۔۔۔ مزاق لگتا ہے تجھے یہ سب ۔ ضرار نے ایک اور مکا جڑا تھا اس کے جبڑے پر. ۔
معاف کر دے مجھے جان لے گا میری ۔ ازلان نے التجا کی ۔
ضرار نے اسے چھوڑ دیا ۔
ضرار توں بھی جانتا ہے کہ میں نے ہمیشہ اسے بہن ہی سمجھا ہے ۔۔۔ہاں یہ غلطی ضرور ہوئی کہ میں اس سے مزاق میں وہ بات کر بیٹھا مگر میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا ۔ ازلان نے سنجیدہ لہجے میں کہا ۔
اور یہ بات تو ضرار بھی جانتا تھا کہ ازلان انبھاج کے بارے میں ایسا ویسا سوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ ازلان کب سے جانتا تھا کہ انبھاج صرف ضرار کی ہے ۔
ٹھیک ہے مگر آئندہ ایسا کچھ نہ سنوں۔۔۔۔۔۔ میں اپنی بیوی کے بارے میں یا اس سے کسی کی بھی ایسی ویسی بات یا حرکت برداشت نہیں کر سکتا ۔ یہ کہتا ضرار کمرے سے باہر بکل گیا اور ازلان اس وقت کو کوسنے لگا جب وہ انبھاج سے وہ مزاق کر بیٹھا تھا ۔
انبھاج تو ابھی تک اسی سوچ میں تھی کہ آخر ضرار کرنے کیا والا ہے کیا چل رہا ہے اس شخص کے دماغ میں جتنا سادہ اور آسان وہ ہر چیز کو سمجھ رہی تھی اتنا آسان کچھ بھی نہیں ہونے والا کیونکہ کچھ دیر پہلے وہ ضرار کا بدلا ہوا روپ دیکھ چکی تھی اگر یہ روپ اپنے بھائی کے لیے ایسا ہے تو کسی اور کا تو جانے یہ کیا حال کر دے گا ۔
انبھاج انہی سوچوں میں گم تھی کہ ایک صاف اور نرم آواز نے اسے مخاطب کیا تھا ۔
انبھاج ۔۔۔۔ آج شام کو اس لڑکے کو بلا لینا میں اس سے ملنا چاہتا ہوں۔
آج شام ۔ انبھاج نے الجھے ہوئے انداز میں کہا ۔
ہاں آج شام ۔ ضرار نے ہاں میں سر ہلاتے ہوئے کہا ۔
اللّٰہ اْس بندے کو بچائیں ۔ انبھاج نے دل میں کہا ۔ ابھی کچھ دیر پہلے تک وہ پرسکون تھی اور اسے آج ملاقات پر بھی کوئی عتراض نہیں تھا مگر اب اسے ڈر لگ رہا تھا کیونکہ اس شخص کی زبان کچھ کہتی ہے اور دل میں کچھ ہوتا ہے یہ کر کچھ رہا ہوتا ہے اور کرنے والا کچھ ہوتا ہے ۔
***********************************
انبھاج اور ضرار گاڑی میں بیٹھے تھے اور جوں جوں وہ ریسٹورنٹ کے پاس پہنچ رہے تھے انبھاج کی دھڑکنیں تیز ہو رہی تھی کہ جانے کیا ہونے والا ہے ۔
اور کچھ دیر میں وہ ریسٹورنٹ کے اندر بیٹھے ہوئے تھے ۔
ہاں تو کیا نام ہے آپ کا ۔ ضرار نے سلام کے بعد پہلا سوال کیا ۔
جی دانش علی ۔ اس نے جواب دیا۔
بالکل بھی اچھا نام نہیں ۔۔۔۔۔ اچھا کرتے کیا ہو ۔ ضرار اس کو مکمل بےعزت کرنے کے بعد اگلا سوال کر چکا تھا ۔
جی ڈاکٹر ہوں ۔
ہمممم کتنا کما لیتے ہو ۔ اگلا سوال کر لیا گیا تھا ۔
جی لاکھ تک کما لیتا ہوں ۔
انبھاج کو سمجھ نہیں آرہی تھی یہ اتنی جی جی کیوں کر رہا ہے کہیں ضرار کو شک ہی نہ ہو جائے ۔
بس ٹھیک ہی کماتے ہو ۔ اگلی بےعزتی اس شخص کو خوب محسوس ہوئی تھی ۔
ویسے پتا نہیں کیا دِکھ گیا انبھاج کو تم میں نہ شکل کوئی بہت ہی خاص ہے نہ ہی بہت ہی کچھ زیادہ کما لیتے ہو نام بھی بس معمولی سا ہے ۔ ضرار مسلسل اسے بےعزت کر رہا تھا اور وہ سن رہا تھا ۔
اور اس بار بھی وہ بالکل ہی خاموش رہا ۔
اچھا آخری سوال ۔ ضرار نے بات شروع کی ۔
جی پوچھیں ۔
ایک تو تم جی جی بہت کرتے ہو ۔۔۔۔ اچھا چھوڑو یہ بتاؤ ۔۔۔۔۔۔۔ ضرار نے ایک لمہے کے لیے وقفہ لیا ۔
میری بیوی سے کتنے پیسے لیے ہیں ۔ اور ضرار کے اس سوال پر انبھاج کو حیرت کا ایک جھٹکا لگا ۔
جی ۔ دانش نامی شخص نے حیرت سے کہا ۔
مجھے اپنے سوال دوہرانے کی عادت نہیں مگر تم سے پہلی ملاقات ہے تو چلو سوال دوبارہ کر لیتا ہوں ۔
میری بیوی نے تمہیں کتنے پیسے دیے ۔ اس بار سوال تھوڑا بدل کر کیا گیا تھا ۔
چالیس ہزار ۔اس بار اس شخص نے شرافت سے جواب دیا ۔
ارے میری پیاری بیوی اگر مجھے انٹرٹین کرنے کا اتنا ہی دل تھا تو کچھ اور کر لیتی اتنے پیسے لگانے کی کیا ضرورت تھی ۔ اس بار ضرار نے انبھاج جو مخاطب کیا ۔
وہ دراصل میری بیوی آئے دن ایسی حرکتیں کرتی رہتی ہے تو اس وجع سے میں آپ کو بلیم نہیں کروں گا اب آپ جا سکتے ہیں ۔ ضرار نے دانش کو مخاطب کرتے ہوئے کہا
اور دانش اٹھ کر چلا گیا
اب ہمیں بھی چلنا چاہیے میری پیاری بیوی ۔
انبھاج پاؤں پٹختی گاڑی میں جا بیٹھی اور ضرار بھی بل پے کر کے گاڑی میں آ بیٹھا ۔
ایسی حرکتیں کرتی رہا کرو میں انٹرٹین ہوتا رہتا ہوں ۔ ضرار نے گاڑی چلاتے ہوئے کہا ۔
انبھاج کا دل کر رہا تھا اس شخص کو اٹھا کر گاڑی سے باہر پھینک دے مگر دل ہی کر رہا تھا حقیقت میں تو وہ ایسا کچھ نہیں کر سکتی تھی ۔
ویسے تم سوچ رہی ہو گی کہ مجھے کیسے پتا چلا اس سب کے بارے میں ۔
اور سچ بھی یہی تھا وہ یہی سوچ رہی تھی کہ اس کے اس عزیم پلین کے بارے میں اس کو کیسے پتا چلا ۔
جب انبھاج نے جواب نہ دیا تو ضرار نے خود ہی بات شروع کر دی ۔
اب یہ تو کسی بیوقوف کی عقل میں بھی آ سکتا ہے کہ ایک بندی جس نے ہنسی خوشی نکاح کیا اس کا ایک دم یہ عاشق کہاں سے آ سکتا ہے اب عاشق ہے کوئی جن تو ہے نہیں جو کہیں سے بھی یوں حاضر ہو جائے ۔
وہ صاف صاف لفظوں میں انبھاج کو بیوقوف قرار دے رہا تھا جس پر انبھاج کو حد دردجہ غصہ آ رہا تھا مگر وہ کر بھی کیا سکتی تھی ۔

مجھے تم قبول ہو (✔✔Complete )Where stories live. Discover now