قسط ۱۱

988 72 3
                                    

ازلان دادی سے ملنے کے بعد کتنی ہی بار انبھاج کو دادی سے بات کرنے کو کہہ چکا تھا مگر اس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ ابھی بات نہیں کر سکتی کل سکون سے بات کرئے گی ازلان کے دو سے تین بار کہنے کے باوجود جب وہ اپنی بات پر بضد رہی تو ازلان کو ہی اپنی ڈھٹائی چھوڑنی پڑی مگر ساتھ ہی وعدہ لے لیا کہ کل ضرور بات کرے گی ۔
انبھاج اپنے کمرے میں گم سم سی بیٹھی شاید ضرار کا انتظار کر رہی تھی جو وہ خود بھی ماننے کو تیار نہ تھی اپنے دل کو یہ کہہ کر بہلا لیا کہ نیند ہی نہیں آ رہی اس سے ضرار کا کیا لینا دینا اب اس نے آ کر لوری تھوڑی گانی تھی جس کے بغیر اسے نیند نہ آئے ۔
کمرے کی تاریکی تو اسے کاٹنے کو دوڑ رہی تھی اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اسے اس کمرے میں کبھی اتنی وحشت ہو گی اتنے میں دروازہ کھلتا ہے ضرار اندر داخل ہوتا ہے اور صوفے پر گر جانے کے انداز میں براجمان ہو جاتا ہے ۔
انبھاج نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے لیے پانی لے آئی پہلے تو ضرار نے انبھاج کو دیکھا پھر اس کے ہاتھ میں پکڑے پانی کے گلاس کو اور پھر مسکراہٹ کے ساتھ اس کے ہاتھ سے پانی لے لیا اس کی آدھی تھکن تو انبھاج کی اس حرکت سے ہی اتر گئی تھی ۔
آج آفس میں کافی مصروف دن تھا سارا پچھلا کام دیکھنا تھا اور اگلے کام کو پائل أپ کرنا تھا اسی وجع سے وہ کافی تھک چکا تھا ۔
انبھاج وہ جو تم نے میرے لیے بریانی بنائی تھی وہ تو لانا ۔ ضرار نے بریانی کی فرمائش رکھی تھی ۔
اب اسے رات کے ساڑھے گیارہ بجے بریانی کہاں سے یاد آ گئی اور اسے کس نے بتایا کہ میں نے بریانی بنائی تھی ۔ انبھاج نے دل ہی دل میں کہا ۔
بریانی ۔ انبھاج نے تھوک نگلتے ہوئے کہا ۔
ہاں وہ ازلان نے فون پر بتایا تھا کہ گھر آ جاؤ تمہاری بیوی نے تمہارے لیے بریانی بنائی ہے ۔ ضرار نے مسکراہٹ چھپاتے ہوئے کہا ۔
ایک تو اس ازلان کے پیٹ میں جو کوئی بات ٹک جائے کیا ضرورت تھی اسے بتانے کی اور ان جناب کو اگر پتا چل ہی گیا تھا تو آئے کیوں نہیں اب آ رہے ہیں منہ اٹھا کہ بریانی کھانے ۔ انبھاج نے منہ میں بڑبڑایا تھا ۔
کچھ کہا تم نے ۔
وہ میں نے کہا کہ بریانی تو ختم ہو گئی ۔ اصل بات تو یہ تھی کہ بریانی ختم نہیں ہوئی تھی ختم کی گئی تھی جب ضرار دوپہر کو کھانے پر نہیں آیا تو اس نے ساری بریانی اٹھا کر ثانیہ کو دے دی ۔
کیا مطلب ختم ہو گئی میں نے تو کچھ کھایا ہی نہیں بریانی کی لالچ میں ۔ اس نے دکھ بھرے لہجے میں کہا ۔
کس نے کہا تھا نہ کھانے کو ۔
تمہیں کیا اندازہ میرے پیٹ میں سارے جانور میلا کر رہے ہیں خود تو کھا لیا ہو گا پیٹ بھر کہ ۔۔۔۔۔۔۔ کھا لیا تھا نہ ۔ ضرار نے توسیخ چاہی ۔
ہ۔۔۔اں تو اور کیا میں بھوکی رہوں گی ۔ انبھاج کے اس انداز میں بولنے پر وہ سمجھ گیا کہ یہ محترمہ بھی بھوکی بیٹھی ہیں ۔
چلو ۔ ضرار نے اٹھتے ہوئے کہا ۔
کہاں ۔ انبھاج نے حیرانی سے اسے دیکھا ۔
ہم آج باہر کھانا کھانے جائیں گے ۔
تم پاگل واغل تو نہیں ہو گئے ٹائم دیکھو زرا کیا ہو رہا ہے ۔ انبھاج نے گھڑی کی طرف اشارہ کیا جو بارہ بجانے کو تھی ۔
تو ۔۔۔۔۔ ضرار نے اسے حیران کر دینے کے انداز میں کہا ۔
ویسے تو بڑی ڈائٹ ڈائٹ کرتے رہتے ہو اور آج ایک دن بھوکا نہیں رہا جا رہا ۔ انبھاج نے طنز کرتے ہوئے کہا ۔
ہاں نہیں رہا جا رہا اور ویسے بھی ڈائٹ اور بھوکے رہنے میں فرق ہوتا ہے ۔
تم جاؤ میں نہیں جا رہی ۔
جانا ہی پڑے گا ایک تو شوہر کو بھوکا رکھنے کا ارادہ رکھ رہی ہو پتا ہے کتنا گناہ ملے گا تمہیں اور دوسرا مجھے یوں اکیلا بیجھ رہی ہو اگر کوئی جن ون عاشق ہو گیا مجھ پر تو ۔
اس کی اس بات پر انبھاج نے بامشکل ہنسی روکی ۔
نہیں ہوتے جن عاشق اور جنوں کو عاشق ہونے کو تم ہی ملو گے ۔ اس نے تنگ کرتے ہوئے کہا ۔
ضرار اس کا ہاتھ پکڑتا نیچے لے گیا ۔
مجھے تیار تو ہو لینے دو ۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسے ہی بہت اچھی لگ رہی ہو ۔
سب کیا کہیں گے ۔
یہی کہ شوہر بہت ظالم ہے اور کیا کہیں گے ۔ ضرار ساتھ ساتھ اسے ہاتھ سے پکڑتا نیچے لے جا رہا تھا ساتھ ساتھ تورقی بترقی جواب دے رہا تھا ۔
کچھ دیر میں دونوں گاڑی میں بیٹھے تھے ۔
کم از کم لپ سٹک تو لگا لینے دیتے ۔
ایسے ہی بہت اچھی لگ رہی ہو اب چپ کر کے بیٹھ جاؤ ۔ضرار نے غصہ دیکھاتے ہوئے کہا ۔
اور انبھاج منہ بناتی گاڑی کی پشت پر ٹیک لگا کر بیٹھ گئی ۔
اب ایسی شکل کیوں بنا لی ہے ۔
تمہیں کیا ۔
ناراض ہو ۔
تمہیں کیا ۔ اور انبھاج کے اس طرح کہنے پر ضرار کو ہنسی آ گئی ۔
اب ہنس کیوں رہے ہو ۔
تمہیں کیا ۔ اس بار ضرار نے انبھاج کے ہی انداز میں کہا ۔
انبھاج پھر سے منہ بناتی ٹیک لگا کر بیٹھ گئی ۔
ویسے کہاں چلیں انبھاج ۔ ضرار نے گاڑی سڑک پر ڈال دی ۔
لائے تم ہو اور کہہ رہے ہو ویسے کہاں چلیں انبھاج ۔ انبھاج نے اس کی نکل اتاری تھی۔
اچھا ٹھیک ہے پھر فوڈ سٹریٹ چلتے ہیں ۔ ضرار نے اطمنان سے کہا۔
ایک منٹ ایک منٹ وہ جو ڈبل روڑ والی فوڈ سٹریٹ ہے ۔ انبھاج نے گڑبڑاتے ہوئے کہا ۔
ارے ایک ہی تو فوڈ سٹریٹ ہے پورے راولپنڈی اسلام آباد میں ۔ ضرار نے ہنستے ہوئے کہا ۔
پلیز پلیز وہاں نہیں پلیز ۔ انبھاج نے معصومً شکل بناتے ہوئے کہا ۔ بات اصل میں یہ تھی کہ انبھاج نے جتنی اوٹنگ اس فوڈ سٹریٹ کی کی تھی اب تو اسے اس جگہ سے بھی نفرت ہو چکی تھی ۔
ضرار نے قہقہہ لگایا ۔
تو جب پوچھا تھا اور کہاں جانا ہے تو کیوں نہیں بولی ۔ ضرار نے ہنستے ہوئے کہا ۔
ٹھیک ہے پھر میکڈونڈ چلتے ہیں کسی ببھی ریسٹورنٹ  ۔انبھاج نے اپنی خفگی چھپاتے ہوئے کہا ۔
ٹھیک ہے اور یہ کہتے ہی ضرار نے گاڑی ریسٹورنٹ کی طرف نکال دی ۔
کچھ دیر میں وہ ریسٹورنٹ کے اندر موجود تھے ۔
مینئو ان کے سامنے پڑا تھا ۔
ہاں تو کیا آرڈر کریں ۔ ضرار نے کارڈ پر انگلی پھیرتے ہوئے کہا ۔
یہاں تم لائے ہو مجھے تو آرڈر بھی تم ہی کر دو ۔
اچھا ٹھیک ہے ۔ ضرار نے ویٹر کو اشارہ کر کے بولایا اور آرڈر نوٹ کرایا ۔
میں کیا کھاؤں گی ۔ انبھاج نے ناراض ہوتے ہوئے کہا ۔
تو یہ سب میں جن بھوتوں کے لیے آرڈر تھوڑے کر رہا ہوں ۔
اس ٹائم تو جن بھوت ہی کھاتے ہیں ۔ انبھاج نے بڑبڑاتے ہوئے کہا ۔
میں نہیں کھاؤں گی یہ سب مجھے نہیں پسند یہ سب ۔ انبھاج نے گندی سے شکل بنائی ۔
ہاں تو پھر کیا پسند ہے تمہیں ۔ ضرار نے تھوڈی کے نیچے ہاتھ رکھے ہوئے کہا ۔
ویسے تو بڑا کہتا ہے محبت ہے پیار ہے پسند تک تو پتا نہیں اس شخص کو میری ۔ انبھاج نے ہلکا سا بولا مگر ضرار نے سن لیا ۔
سر آرڈر ۔ وئیٹر نے انہیں یاد دلایا کہ وہ بھی یہاں موجود ہے ۔
آپ جائیں ہم آرڈر کرتے ہیں ۔ ضرار نے اسے چلنے کا اشارہ کیا ۔
ہاں تو کیا کہہ رہی تھی مجھے تمہاری پسند معلوم نہیں ہے ۔
اب اس نے کہاں سے سن لیا ۔ انبھاج نے منہ میں بربڑایا ۔
مجھے تو تمہاری ساری پسند معلوم ہے میں تو صرف بدلہ نکال رہا تھا ۔ ضرار نے تنگ کرتے ہوئے کہا ۔
بدلہ کیسا ۔ انبھاج نے حیرانگی سے کہا ۔
اب تمہیں میری پسند نہیں معلوم تو میں کیوں یہ ظاہر کروں کہ مجھے تمہاری پسند کا معلوم ہے ۔ ضرار نے کندھے اچکتے ہوئے کہا ۔
کس نے کہا مجھے نہیں معلوم سب معلوم ہے بریانی رائتہ بلیک کافی اور چپلی کباب یہ سب ہیں تمارے فیورٹ ۔انبھاج اپنی دھن میں بولے چلی جا رہی تھی کہ اسے اندازہ ہوا کہ وہ بہت غلط بول چکی ہے کیونکہ ضرار اسے مسکرا کر دیکھ رہا تھا ۔
انبھاج نے زبان دانتوں میں دبا لی ۔
اچھا تو سب پتا ہے تمہیں ۔ ضرار نے آنکھوں میں شرارت لیے بولا ۔
تم نے کچھ آرڈر واڈر کرنا ہے یا نہیں ۔ انبھاج نے بات بدلتے ہوئے کہا اور ساتھ ہی ویٹر کو اشارہ دیا ۔
کچھ دیر میں ان کے ٹیبل پر کھانا موجود تھا اور دونوں بھوک کی وجع سے کھانے پر ٹوٹ پڑے ۔ رات کے ساڑھے بارے سے اوپر ہو رہے تھے ۔ اور ریسٹورنٹ میں رش بھی نہ ہونے کے برابر تھا ضرار بل پئے کر چکا تھا اور دونوں ریسٹورنٹ سے نکل رہے تھے ۔
ضرار تم چلو۔۔۔ میں آتی ہوں ۔ انبھاج نے کچھ یاد آنے پر کہا ۔
کیوں کیا ہوا ۔
وہ میرا بیگ اندر رہ گیا ہے وہی لے کر آتی ہوں ۔
تم گاڑی میں بیٹھوں میں لے آتا ہوں ۔
ضرار تم گاڑی پارکنگ سے نکالو اتنی دیر میں میں بیگ لے آتی ہوں ۔ انبھاج نے جلدی سے جواب دیا ۔
اچھا ٹھیک ہے ۔ اور ضرار گاڑی کی طرف بڑھ گیا جو پارکنگ میں کھڑی تھی ۔
انبھاج گھر سے بہت جلدی میں نکلی تھی نکلی کیا تھی زبردستی ضرار کھینچتا ہوا لایا تھا تبھی ڈریسنگ ٹیبل پر پڑا بیگ اس نے جلدی میں اٹھا لیا کیونکہ بیگ کے بغیر تو وہ کہیں باہر نہیں جاتی تھی ۔
ضرار گاڑی پارکنگ سے نکال کر سڑک پر لے آیا تھا اور انبھاج دروازہ کھولتی خاموشی سے اندر بیٹھ گئی اس کا چہرہ کافی اترا ہوا تھا ۔
انبھاج کچھ ہوا ہے کیا ۔ ضرار نے اس کا اترا ہوا چہرا دیکھ کر کہا ۔
نہیں ۔ اس نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا ۔
یار انبھاج کیا ہوا ہے مجھے ٹینشن ہو رہی ہے بتاؤ بھی ۔ ضرار نے قدرے غصے سے بولا تھا انبھاج کو سمجھ نہیں آرہی تھی وہ کیا کرئے کیا کہیں اور اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ۔
انبھاج تم رو رہی ہو انبھاج میرا دل بیٹھ جائے گا بتاؤ کیا ہوا ہے ۔ ضرار نے اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا ۔
ضرار ۔۔۔۔۔ ضرار اس نے ہچکیوں کے بیچ کہا ۔
ہاں بولا ۔
وہ وہاں ریسٹورنٹ میں جب میں بیگ لینے گئی تھی تو ۔
تو ۔۔۔۔۔
تو جب میں باہر آرہی تھی اور ایک شخص اندر آ رہا تھا تو اس نے مجھے ۔  ۔۔۔
انبھاج بولتے بولتے رکی ۔
اس نے مجھے ٹچ کیا ۔
ضرار نے دروازہ کھولا اور دوسری طرف آ کر انبھاج کی طرف کا دروازہ کھولا ۔
اس کا ہاتھ پکڑتے اسے باہر نکالا ۔

مجھے تم قبول ہو (✔✔Complete )Where stories live. Discover now