قسط ۱۰

1K 81 7
                                    

ازلان یہ کیا ہوا ؟ انبھاج نے ازلان کے منہ پر پڑا نشان دیکھ کر کہا ۔
کل سے انبھاج کی اب ناشتے پر ازلان سے ملاقات ہو رہی تھی پہلے وہ ضرار کے ساتھ باہر چلی گئی پھر ولید صاحب کے گھر چلی گئی اور پھر وہاں سے آنے کے بعد جلدی سو گئی تھی یہی وجع تھی کہ وہ ازلان کے منہ پر موجود ضرار کا دیا ہوا نشان اب دیکھ رہی تھی ۔
ارے تم اب دیکھ رہی ہو یہ کارِخیر تو کل ہی سرانجام دے دیا گیا تھا ۔ دادی واحد دادی ہوں گی جو اپنے پوتے کی اس حالت پر ہنس رہی تھی ۔
مگر یہ کیا کس نے ۔ انبھاج نے تجسس سے پوچھا حالانکہ اسے کہیں نہ کہیں شک تھا کہ یہ ضرار کی ہی حرکت ہے مگر پھر بھی وہ جاننا چاہتی تھی کہ آخر گھر والوں کو ازلان نے کیا بتایا ہے ۔
ارے ہو گا کیسے ، کسی غیرت مند بھائی نے کی ہو گی اس کی یہ حالت ۔ دادی نے عام سے لہجے میں کہا ۔
استغفراللّٰہ ۔ ضرار نے اونچا سا بولا ۔
جس پر انبھاج اور ازلان چاہ کر بھی اپنی ہنسی کنٹرول نہ کر پائے ۔
دیکھو کیسا بےشرم ہے ایسی حالت کروانے کے بعد بھی دیکھ لو کیسے دانت نکل رہے ہیں اس کے ۔ دادی نے اسے بےعزت کرنے کی پوری کوشش کی مگر وہ بھی ازلان تھا شرم تو اس کے  پاس سے گزرتے ہوئے سو بار سوچتی تھی ۔
ہاں کیا کروں بس شرم کا مطلب ہی نہیں پتا مجھے جس دن پتا چل گیا دادی تمہاری قسم ضرور آ جائے گی ۔ ازلان نے دادی کو تنگ کرتے ہوئے کہا ۔
اللّٰہ اللّٰہ کسی اور کی جھوٹی قسمیں کھا کیوں مجھے مارنے پر تلا ہے توں ۔ دادی نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا ۔
ہاں ویسے دادی تمہاری عمر بھی کافی ہو گئی ہے ۔ ازلان نے پھر سے مستی کی تھی ۔
دیکھو دیکھو اسے ۔ دادی نے غصے میں کہا ۔
ازلان بہت زیادہ ہو رہا ہے ۔ اس بار حیدر صاحب نے ازلان کو غصے سے ٹوکا تھا ۔
سوری چاچو ۔ ازلان نے ہلکی آواز میں کہا ۔
آئندہ دیھان رکھنا مزاق اور چیز ہے مگر لمٹ میں رہ کر ۔ اس بار انہوں نے سمجھایا تھا ۔
جی آئندہ دیھان رکھوں گا ۔ جو کہ وہ ہر گز نہیں رکھنے والا تھا ۔
دادی کو ازلان کی اس حالت پر دلی سکون ملا تھا ۔
سب کھانا کھا چکے تھے اور سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو چکے تھے حیدر صاحب اور دادی آرام کرنے اپنے اپنے کمروں میں جا چکے تھے عافی نوری بی بی کے ساتھ صفائی کروانے میں مصروف تھی نوری بی بی ان کے گھر میں کافی عرصہ سے کام کر رہی تھی تب سے جب ضرار پیدا بھی نہیں ہوا تھا اب تو ان کی کافی عمر ہو چکی تھی مگر انہوں نے انہیں کام سے ہٹایا نہیں بیچ میں کچھ عرصہ نوری بی بی نے نوکری چھوڑ دی تھی مگر پھر ان کی اکلوتی بیٹی اور داماد کی وفات ہو گئی اور ان کے نواسے کی ذمہ داری ان کے بھوڑے کندھوں پر آ گئی اب تو ان کا نواسہ تقریباً سولہ سال کا ہو گیا تھا اور ہوسٹل میں پڑھتا تھا اور نوری بی بی یہاں ان کے گھر پر ہی رہتی تھی ۔
اور آفاق اور ضرار آفس جا چکے تھے کافی دنوں سے سارہ کام آفاق نے سنبھال رکھا تھا ازلان سے کسی کسم کی امید کرنا بھی بےکار تھی آج ضرار کا آفس پر کافی دنوں کے بعد پہلا دن تھا ویسے تو ایک ہفتہ پہلے ہی جانا تھا مگر اس کا دل ہی نہیں کر رہا تھا جانے کا مگر آفس کے بڑھتے کام کے پیشِ نظر اسے جانا ہی تھا ۔
ارے تم پاگل ہو ازلان ۔ انبھاج نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا ۔
پہلے میں بےشرم تھا اب تم مجھے پاگل بھی کرار دے دو ۔ ازلان نے لاپروائی سے کہا ۔
ہاں تو اور کیا کہوں ساتھ تم مجھے دادی سے بات کرنے کو کہہ رہے تھے اور ساتھ ان سے لڑائی بھی کر لی کوئی صبر نام کی چیز ہے تم میں کہ نہیں اب تو انہوں نے میری بھی نہیں سننی ۔ انبھاج نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا ۔
ہائے یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں ۔ ازلان نے ماتھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔
تو سوچنا نہ تھا ۔ انبھاج نے اس کے سر پر تھپڑ مارتے ہوئے کہا ۔
اب کیا کروں ۔
معافی مانگو اور کیا کرنا ہے اب ۔
معافی اور دادی سے نہ بابا ۔
تو پھر بھول جاؤ کہ میں دادی سے کوئی بات کرنے والی ہوں ۔ انبھاج نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
اچھا ابھی مانگ کر آتا ہوں ۔
رکو ابھی مت جانا ورنہ شک ہو جائے گا دادی کو اور ویسے بھی ابھی آرام کر رہی ہوں گی وہ یہ نہ ہو معافی کے چکر میں جوتے ہی پڑ جائیں گے  ۔
ہاں یہ بھی سہی کہا تم نے میں عفیفہ کو یونیورسٹی چھوڑ آؤں پھر پٹاتا ہوں میں دادی کو ۔
ہاں ویسے جانا کب ہے ان کے گھر ۔ انبھاج نے اسے تنگ کرتے ہوئے کہا ۔
یار ابھی تو ہرگز نہیں اس شکل کے ساتھ تو میں ہرگز نہیں جاؤں گا اپنے سسرال ۔
واہ ابھی رشتہ طہ ہوا نہیں سسرال پہلے بن گیا وہ تمہارا ۔ انبھاج نے تنگ کرتے ہوئے کہا ۔
ویسے کس نے کہا تھا کسی بیچاری لڑکی کو تنگ کرنے کو ۔ انبھاج نے شرارت سے کہا ۔
انبھاج تم تو بولو ہی مت ۔۔۔۔ تمہارے شوہر نے کم کثر چھوڑی ہے پہلے جو اب تم پوری کرنے پر لگی ہو ۔
اچھا تو کس نے کہا تھا اس کی بیوی سے مزاق کرنے کو ۔
واہ بڑی حمایت کی جا رہی ہے شوہر کی ۔ ازلان نے پھر تنگ کرتے ہوئے کہا ۔
ازلان ۔ پیچھے سے عفیفہ کی آواز آئی ۔
آ بھی جاؤ مجھے دیر ہو رہی ہے ۔ عفیفہ کی پھر سے آواز آئی ۔
اچھا جاؤ عفیفہ بلا رہی ہے ۔
ہاں جاتا ہوں مگر دادی سے بات کرنی ہے تمہیں یاد رکھنا ۔
ہاں ہاں یاد رکھوں گی تم جاؤ ۔
***********************************
انبھاج کمرے میں اکیلی بیٹھی ہوئی تھی اور حد درجہ بور ہو رہی تھی نہ تو عفیفہ گھر پر موجود تھی عافی بھی اپنے کاموں میں مصروف تھی ازلان بھی عفیفہ کو یونیورسٹی چھوڑ کر اپنے دوستوں کے ساتھ نکل جاتا تھا آج تک ضرار سے لڑتے جھگڑتے دن گزرتے  آئے تھے اور پتا بھی نہیں چلتا تھا اور دن گزر جاتا تھا مگر آج تو دن اتنا لمنا لگ رہا تھا جیسے کسی نے گھڑی کی سویوں کو روک دیا ہو ۔
انبھاج نے موبائل اٹھایا اور بےتک موبائل پر ہاتھ پھیرتی رہی پھر اچانک اس کا دل چاہا کہ ضرار کو فون کرے اور پھر اس نے ضرار کو فون ملا دیا ۔
ہلو ۔ آگے سے ضرار کی مصروف سی آواز آئی جیسے کافی کام کر رہا ہو ۔
مجھے لگتا ہے میں نے تمہیں ڈسٹرب کر دیا ۔
ارے جناب میں جتنا بھی مصروف ہوں آپ کے لیے تو ٹائم ہی ٹائم ہے آپ بات کرنے والی تو بنے ۔
بڑا آیا زیادہ ہی بن رہا ہے میں نے فون کیا کر لیا یہ تو سر پر ہی چڑھ رہا ہے ۔ انبھاج دل میں اتنا ہی کہہ پائی ۔
بولو بھی کیا ہوا ۔
کچھ نہیں بس غلطی سے کال ہو گئی میں تو بابا کو کرنے لگی تھی ۔
ہائے آپ کی غلطیاں ۔۔۔۔۔ ایسی غلطیاں کرتی رہا کریں ۔ ضرار نے انبھاج کو تنگ کرتے ہوئے کہا ۔
انبھاج نے فون بند کر دیا ۔
پتا نہیں کیا موت پڑی تھی مجھے جو اسے اٹھا کر فون ملا لیا ۔ انبھاج نے خود کو کوستے ہوئے کہا ۔
پاگل ہے مس بھی کرتی ہے مجھے اور مانتی بھی نہیں ۔ ضرار نے ہنستے ہوئے فون ٹیبل پر رکھ دیا اور  خود لیپ ٹاپ پر جھک گیا ۔
***********************************
ایان پوری کوشش میں تھا کہ اسے کسی طرح اشعر کا کچھ اتا پتا معلوم ہو جائے مگر وہ اب تک ناکام رہا اس کے لگائے گئے ائجینٹ کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا اور ایان پیچھلے کئی دنوں سے عفیفہ سے بات کرنے کی کوشش کر چکا تھا مگر عفیفہ نے تو جیسے اس سے بات نہ کرنے کی قسم کھا رکھی تھی اب ایان کے لیے دن کاٹنا مشکل ہوتا جا رہا تھا عفیفہ کی آواز سنے اتنے دن ہو چکے تھے اور اس دن بھی جب ایان اس ملنے گیا تھا تو بات کرنا تو دور کی بات عفیفہ نے تو اس کی طرف مڑ کر دیکھنا تک گوارا نہیں کیا وہ عفیفہ کی یہ بےرخی اور برداش نہیں کر سکتا تھا اسے ہر حال میں عفیفہ کا پیچھا اشعر سے چھڑانا ہی تھا اس سے پہلے کے اشعر اور زیادہ مسائل پیدا کرئے اشعر کو ڈھونڈنا ضروری بن گیا تھا ۔
***********************************
ازلان نے مشال سے بات کرنے کی کوشش کی مگر اس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اب جب تک وہ اس کے گھر رشتہ نہیں لے آتا وہ اس سے بات نہیں کرئے گی وہ اس سے اس قسم کا کوئی رشتہ نہیں رکھنا چاہتی جس سے اس کے کردار پر سوال آئے یا کسی کو بھی بات کرنے کا موقع ملے اور ازلان جو یہ سوچ کر بیٹھا تھا کہ پہلے آرام سے دادی سے معافی مانگے گا پھر انہیں رشتہ لانے کے لیے منائے گا اب اسے اپنے سارے پلین ہوا میں اڑتے دیکھائی دیے اب تو جلد ہی دادی کو منانا بھی تھا اور مشال کے گھر رشتہ لانے کے لیے رضامند بھی کرنا تھا ۔
***********************************
بوریت اور کمرے کی وحشت اسے کچن میں کھینچ لائی ۔
کیا ہوا انبھاج بیٹا ۔ نوری بی بی نے انبھاج کو کچن میں گہری سوچوں میں گم سم دیکھا تو اسے سوچوں کی وادی سے بیدار کیا ۔
انبھاج نے نوری بی بی کو کہہ رکھا تھا کہ وہ اسے بیٹا ہی کہیں اسے ان کا اسے میڈم کہنا پسند نہیں تھا ۔
کچھ نہیں نوری بی بی بس کمرے میں دل گھبرا رہا تھا تو سوچا ادھر آ جاؤں ۔
خیر تو ہے بیٹا کوئی اور بات تو نہیں۔ نوری بی بی نے کچھ غلط اندازہ لگایا تھا ۔
نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں ۔
چیک اپ کروا لو بیٹا ۔
نہیں بی بی میں ٹھیک ہوں ۔اب وہ نوری بی بی کو کیسے سمجھاتی کہ وہ جو سمجھ رہی ہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہے ۔
اچھا بیٹا آپ ادھر بیٹھ جاؤ میں کھانا بناتی ہوں ۔
نہیں نوری بی بی آج آپ چھٹی کریں آج کھانا میں بناؤں گی ۔
ارے بیٹا میری تو روز ہی چھٹی ہوتی ہے سارا کام تو ثانیہ کرتی ہے میں تو بس سبزی کاٹ دیتی ہو کبھی کبھی ایسے لگتا ہے میں مفت کی کمائی کھا رہی ہوں ۔ نوری بی بی نے ثانیہ کا ذکر کیا ثانیہ بھی گھر میں کام کرتی تھی بلکہ زیادہ تر کام ثانیہ کے ذمہ ہی ہوتا تھا نوری بی بی تو بس اس کی کچھ مدد کر دیتی تھی نوری بی بی سے زیادہ کام نہیں لیا جاتا تھا وجع ان کی عمر تھی ۔
ارے نوری بی بی ایسا کیوں کہتی ہیں آپ تو ہم سب کی بڑی ہیں آپ کا پیار اور آپ کی دعائیں ہی کافی ہیں ۔
نوری بی بی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے جو انبھاج نے اپنی انگلیوں کے پوروں سے صاف کیے ۔
اچھا ویسے بنا کیا رہی ہو ۔
بریانی ۔ سنبھاج کے منہ سے بےساختہ نکلا ۔
کیوں بریانی کے علاوہ کچھ بنانا نہیں آتا یا پھر کسی کی محبت میں بن رہی ہے ۔نوری بی بی نے تنگ کرتے ہوئے کہا ۔
آپ نے بھی یہ باتیں سیکھ لی ازلان سے ۔
ارے بیٹا ازلان صاحب اس کے علاوہ کیا سیکھا سکتے ہیں مجھے ۔ نوری بی بی نے ہنستے ہوئے کہا ۔
میرا ذکر ہو رہا ہے ۔ انبھاج کو اپنے پیچھے سے آواز آتی سنائی دی ۔
لو شیطان کا نام لیا اور شیطان حاضر ۔ انبھاج نے اونچی آواز میں اسے سناتے ہوئے بولا ۔
کیا کر رہے ہو یہاں کچن میں تمہارا کیا کام ۔
وہ صبح والی بات  ازلان نے انبھاج کو یاد دلائی تھی ۔
ہاں تو میں کیا کروں ۔
میرے ساتھ چلو ۔
کدھر ۔
دادی کے پاس اور کدھر ۔
میں کیوں آؤں تم خود جاؤ ۔
فور مورل سپورٹ ۔ ازلان نے اپنے دانت دیکھائے ۔
مورل سپورٹ کے لیے عفیفہ کو لے جاؤ مجھے ابھی کام ہے کچن میں ۔
ایسا کیا کام ہے اور جو بھی ہو گا میرے کام سے ضروری تو نہیں ہو گا نہ ۔
وہ انبھاج کو بریانی بنانی ہے ضرار صاحب کے لیے ۔ نوری بی بی نے ضرار پر زور دیتے ہوئے کہا ۔
ارے نوری بی بی میں نے ایسا کب کہا ۔
ٹھیک ہے ٹھیک ہے نہ دو ساتھ میرا میں اکیلا ہی جا رہا یوں میدانِ جنگ میں ۔۔۔۔۔۔۔ تم بناؤ اپنے شوہر کے لیے بریانی ۔ ازلان کہتا باہر نکل گیا ۔
آپ نے ایسے ہی کہہ دیا اب ناراض ہو گیا ہے وہ ۔۔
بیٹا بچپن سے جانتی ہوں اسے دو سیکنڈ تک کی ناراضگی نہیں رکھ سکتا یہ ، ابھی دیکھ لینا کچھ دیر میں پھر سے تنگ کرنے کو پہنچ جائے گا ۔

مجھے تم قبول ہو (✔✔Complete )Where stories live. Discover now