آخری باب

59 3 0
                                    

آخری قسط

میری خاموشی سے باتیں چُن لینا
ان کی ڈوری سے تعریفیں بُن لینا

اسلامہ آباد  کا موسم بے حد خوشگوار تھا یا ایسا صرف دارب احمد کو لگ رہا تھا - جب دل خوش اور مطمئن ہو تو باہر کا موسم بھی اچھا لگتا ہے- وہ روز مرہ کی چہل قدمی کر کہ اپنی سٹک جی سہارے چلتے واپس آے تو مالی نے پودے سنوارتے ہوۓ دور سے ان کو سلام کیا - اس کو سر کے اشارے سے سلام کرتے دروازہ کھولتے ہی وہ اندر آۓ تو دلاور اپنے دانتوں کےبھرپور نمائش کیے کھڑا تھا -
"صاب جی ۰۰۰آپ کی کافی لاؤں ؟"
"ہاں لے آؤ-" وہ اسکے بلاوجہ مسکرانے پر اسے گھورتے ہوۓ بولے صبح کا اخبار اُٹھا لیا - اور سٹک صوفے پر رکھے بیٹھ گئے - کافی کی چھوٹے چھوٹے گھونٹ حلق میں اتارتے ان کے بے اختیار نظر سامنے لگی گھڑی پر گئی تو انھیں وقت کا احساس ہوا - وہ اخبار واپس رکھتے ایک ہاتھ میں سٹک تھامے دوسرے میں کافی کا مگ لیے چہرے پر بھرپور مسکراہٹ لیے اپنے کمرے کی طرف بڑھے - اندر جاتے ہی وہ چونک گئے کیونکہ ان کے مطابق وہ دوائیوں کے زیرِ اثر سو رہی تھی لیکن یہاں تو منظر ہی کچھ اور تھا- وہ جاۓنماز پر بیٹھی دعا مانگ رہی تھی اور آنسو گالوں پر بہے جا رہے تھے - وہ بنا کوئ آواز پیدا کئے صوفے پر جا بیٹھے اور ہاتھ کی مُٹھی پرچہرہ ٹکاۓ یک ٹک اسے دیکھنے لگے - انکی نظروں کا ارتکاز تھا کہ اسے دعا مختصر کر کہ اُٹھنا پڑا -
"کیا مانگ رہی تھی ؟" وہ دلچسپی سے پوچھ رہے تھے -
"آپ کو کیوں بتاؤں؟" وہ تڑخ کر بولی تو انھوں نے بمشکل اپنا قہقہہ ضبط کیا -
"اچھا مجھے لگا مجھے مانگ رہی تھی ۰۰۰لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ میں تو پہلے ہی تمہارا ہوں پھر تمہیں مانگنے کی ضرورت کیا پڑ گئی -"
گُل وارن نے گھور کر انھیں دیکھا جن کی آنکھوں میں واضح شرارت ناچ رہی تھی لیکن وہ زیادہ دیر کچھ کہتی کچھی بولتی آنکھوں میں نہ دیکھ پائ -
"خوش فہمیوں کی بڑی طویل فہرست ہے آپکے پاس -" انداز وہی تھا - وہ نماز کے سٹائل میں اوڑھا ڈوپٹہ ڈھیلا کرتی بالکونی تک آئ اور دروازہ کھول دیا - ٹھنڈی ہوا کا جھونکا تھا جس نے اسے جھرجھری لینے پر مجبور کردیا لیکن وہ وہیں سکون سے آنکھیں موند گئی -
"میرے خیال میں کبھی کبھئ خوش فہمیاں صحت کے لیے اچھی ہوتی ہیں -" وہ اپنی سٹک تھامے اسکی طرف بڑھے - اپنے بالکل پاس انکے کلون کی خوشبو محسوس کر اسنے آنکھیں کھولیں لیکن بولی کچھ نہیں کیونکہ وہ جانتی تھی انسے بحث میں نہ وہ کبھی جیت پائ ہے نہ جیت پاۓ گی-
"اندر چلو یہاں ٹھنڈ ہے -" وہ اسکے باہر کی طرف قدم بڑھاتے دیکھ کر بولے جو ان سنی کر گئی -
"وارن تمہیں ٹھنڈ لگ جاۓ گئی تم ابھی تک مکمل صحت یاب نہیں ہوئ ہو -" وہ ماتھے پر بل لاتے بولے لیکن اسے وہیں جم کے کھڑا دیکھ خود آگے بڑھ کر اسکا ہاتھ تھاما اور کھینچتے ہوۓ اندر لے آے -
"کہ بھی رہا ہوں ٹھنڈ لگ جاۓ گئ - ایک دفعہ کی بات سمجھ میں نہیں آتی - " وہ اسے ڈپٹ کر بولے جسکا ہاتھ یخ ہورہا تھا اور کلائ بخار کی حدت سے تپ رہی تھی -
"میری جہاں مرضی ہوگی میں وہاں جاوں گی - " وہ ضدی لہجے میں بولی تو انھوں مسکراہٹ لبوں پرروکی - وہ ایسی نہیں تھی جیسا برتاؤ کر رہی تھی- یہ صرف غصہ تھا جو دارب پر اسے تھا -
"آئ لائک دا سپیریٹ وائفی - لیکن تمہیں اب ہر جگہ میرے ساتھ ہی جانا ہوگا -" اسے بیڈ پر بیٹھا کر اس پر کمبل اوڑھاتے بولے اور اسکے پاس بیٹھ گئے - وارن کو تھوڑا دور کھسکنا انھوں محسوس تو کیا تھا لیکن بظاہر وہ اسکی دوائیاں دیکھ رہے تھے -
"میں ہر جگہ اپنی مرضی سے اور اکیلے جانے کی عادی ہوں - آپ ہر وقت میرے ساتھ نہیں تھے -" اسکی بات ہر انھوں نے اسکی طرف دیکھا جو اب اپنی گود میں رکھے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی -
"لیکن اب سے میں ہر وقت تمہارے ساتھ ہونگا جب تک میری سانسوں کا اور میرا ساتھ ہے -" انکے بات پر اسکو تکلیف تو ہوئ لیکن لب بینچ کر ضبط کر گئی - وہ اسکی ایک ایک حرکت کا ملاحظہ فرما رہے تھے - دروازے ہر دستک ہوئ تو انھوں وارن کا ڈوپٹہ پکڑ کر سر ہر جمایا اور دلاور کو اندر آنے کی اجازت دی جو ناشتہ لے کر آیا تھا -
"اب ناشتہ کرلو پھر دوا بھی کھانی ہے -"
"مجھے نیند آرہی ہے -" وہ منمنا کر دوسری طرف کھسکنے لگی جب انھوں نے مضبوطی سے اسکی کلائ تھام کر اپنی طرف کھینچا - اسنے بر وقت دونوں ہاتھ انکے چوڑے سینے پر جما کر فاصلہ قائم کیا -
"سیدھی شرافت سے ناشتہ کرو اسکے بعد سوتی رہنا ۰۰۰اور اب ایک لفظ بھی بولی تو مجھ سے بُرا کوئ نہیں ہوگا -" وارن نے ایک پل کو انکی آنکھوں میں دیکھا اور پھر ہیچھے ہو بیٹھی -
"میجھے کافی زہر لگتی ہے -" ایک ٹوسٹ کے بعد وہ کپ کو دیکھتے بولی تو انھوں نے اپنی ہنسی روکی - وہ یہ اس لیے کہہ رہی تھی کیونکہ ان کو کافی پسند تھی -
"کوئ بات نہیں ڈارلنگ تم جوس پی لو -" ان کے طرز تخاطب پر اسنے نے انھیں گھور کر دیکھا جو لب دباۓ مسکرا رہے تھے لیکن وارن کو وہ آنکھیں صاف اپنا مذاق اُڑاتی ہوئ لگیں -
"اب آپ جائیں مجھے نیند آئ ہے -" وہ دوا لے کر دوسری طرف کروٹ لے گئی - انھوں کمرے کے سارے پردے گرا دئیے اور خود آفس کے کیے تیار ہونے چل پڑے -
آفس جانے سے پہلے اسکے ماتھے پر بوسہ دینا نہ بھولے جس کی شدت  وارن نے بخوبی محسوس کی تھی  اور دو آنسو خاموشی سے اسکی کنپٹیاں بھگو گئے تھے - اس کی نظریں سامنے پڑی سٹک کی طرف تھیں جسے وہ شاید پہلی بار لے جانا بھول گئے تھے -
__________________________
وہ حیرت سے آنکھیں کنگ ہوئ اسے دیکھ رہی تھی الماری سے سارے کپڑے کھینچ کر نیچے ہھینکے ہوۓ تھے اور اب انکے اوپر چھلاگ لگا کر کھیل رہا تھا - آۓنور صدمے سے چور بیڈ پر ڈھے گئی - اس نے آج ہی وقت نکال کر سارے کپڑے سہی کیے تھے - ابھی وہ دن میں تقریباً تیسری مرتبہ اسے چینج کروا چکی تھی کیونکہ ہر دفعہ وہ کہیں نہ کہیں سے بھیگ جاتا تھا - اسلامہ آباد کی ٹھنڈ میں ذرا جو بیمار ہوتا تو فراز اور دارب آۓنور کی شامت لے آتے -
"یہ کیا کِیا ہے ؟" وہ اب غصّے سے بریال کو بولی جس نے بغیر کوئ اثر لیے تالیاں شروع کردیں -
"یاللہ میں کہاں جاؤں -" اسکی آواز اندر آتے فراز نے بخوبی سُنی تھی اور سامنے کا منظر دیکھ کر اسے لمحہ لگا سب سمجھنے میں -
"دیکھا اپنی اولاد کو ۰۰۰ سارا دن سکون نیں لینے دیتا یہ -" وہ بریال کی طرف گھور کر فراز سے مخاطب ہوئ - فراز جانتا تھا کہ اسکا رونا درست ہے - بریال ہر اس جگہ پر جاتا تھا جو  آۓنور کے وہم و گمان میں نہیں ہوتی تھی -
"اچھا تم زیادہ غصّہ نہ کرو - میں اسے باہر لان میں کے جارہا ہوں تم اچھی سی چاۓ بنا لاؤ-" وہ کہتا ہوا بریال کو اٹھا کر چل دیا جبکہ آۓنور نے روہانسی ہو بکھرے ہوۓ کپڑوں کو دیکھا -
______________________________
باہر سے شور کی آواز سُن کر اسکی آنکھی کھُلی تھی - اس نے تعجب سے وقت دیکھا تو شام ہو رہی تھی - حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا اسے وہ اتنی دیر تک سوتی رہی تھی - فریش ہوکر اسنے نماز پڑھی / اس دوران باہر سے آنے والی آوازوں میں اضافہ ہو چکا تھا - اس وقت اس کا کسی بھی مہمان کو دیکھنے کا موڈ نہیں تھا لیکن باہر نہ جانا بھی اخلاقیات کے برخلاف تھا - وارن نے چاکلیٹ رنگ کے کپڑوں پرسفید حجاب باندھا  اور اپنے آپ  پر ایک آخری نظر ڈال کر دروازہ کھول کر باہر آی - اس نے تعجب سے دارب کو دیکھا  جو عجلت میں کچن کی طرف جا رہا تھا  وہ بھی قدم بڑھاتی کچن کی طرف گئی جہاں وہ دلاور کو کچھ ہدایات دے رہے تھے -
"کھانا میں نے باہر سے منگوا لیا ہے تم ابھی جوس اور بوتلیں سرو کردو -" وارن کو دروازے پر دیکھ کر وہ رُکے اور اور مسکرا کر اسے دیکھا - وارن نے بھرپور طریقے سے نظرانداز کیا اور گردن اکڑا کر دلاور سے مخاطب ہوئ -
"کون آیا ہے باہر دلاور ؟" دارب نے اس کے بچکانا انداز پر مسکراہٹ ضبط کی -
"وہ بی بی جی حویلی سے سب آۓ ہیں -" وہ منہ بگاڑ کر بولا کیونکہ اب اس کا کام مزید بڑھ گیا تھا -
"مورے آئ ہیں ۔!" وہ خوشی سے چہکتی باہر کی طرف بڑھی دارب اس کو مسکراتی نظروں سے دیکھتا اس کے پیچھے ہولیا -
"مورے ۰۰۰ بڑے بابا -" وہ سیدھا مورے کے پاس گئی اور انکی ساتھ بیٹھتے ہی ان سے لپٹ گئی -
"میرا بچہ اب کیسا ہے ؟" بڑے بابا نے اپنی جگہ سے جھک کر اسکے سر پر ہاتھ رکھا -
"وارن بچے ممی سے تو ملو -" مورے نے اسکے حجاب سے نکل آنے والے بال سنوارتے اسے متوجہ کیا تو وہ ایک پل کو ساکت ہوگئی - اس نے جھٹکے سے سامنے صوفے ہر دیکھا جہاں دارب کے ممی بیٹھی تھیں اور ساتھ ہی سنگل صوفے پر پلار بیٹھے تھے -
"ممی سے نہیں ملو گی وارن -" انھوں نے نم آنکھوں سے نرمی سے کہا تو وارن کے آنسو اختیار سے باہر ہوگئے - وہ دوڑتی ہوئ انکے پاس گئی اور ان سے لپٹ کر رو پڑی -
"مجھے معاف کردو میرا بچہ ۰۰۰ تمہاری ممی سے بہت غلطیاں ہوئ ہیں -" انکی بات پر وارن نے نفی میں سر ہلاتے ان کے آنسو صاف کیے - پھر وہ پلار سے ملی تو ایسا لگا کتنے عرصے سے دھوپ میں کھڑی تھی اور اب چھاؤں میسر ہوئ ہے -
"بس کرو تبریز کتنا رولا دیا ہے میری بچی کو -" بڑے بابا کے ڈانٹنے ہر سب ہنس پڑے - ممی نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنے پاس بیٹھا لیا - ایک جانی پہچانی سی کلون  کی خوشبو نے وارن کو اپنے حصار میں لیا تو وہ چونکی - اسنے کناکھیوں سے اپنے دائیں جانب دیکھا جہاں دارب ہاتھ کی مٹھی پر چہرہ ٹکاۓ سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا جس کی آنکھیں رونے کے باعث سُرخ ہوچکیں تھیں - وارن جانتی تھی وہ اسکے رونے کی وجہ سے اسے گھور رہا تھا اس نے جلدی سے نظروں کا زاویہ بدل لیا -
"یہاں تو پارٹی ہو رہی ہے اور وہ بھی ہمارے بغیر دیکھ لو نور -" فراز اندر داخل ہوتے ہی لڑاکا عورتوں کی طرح بولا -
"آپ لوگ کب آے اور بتایا بھی نہیں -" آےنور سب سے ملتی مصنوعی ناراضگی سے بولی -
"ہم نے کہا دو گھڑی سکون سے بیٹھ کیں پھر بلاتے ہے افلاطون کو -" دارب مسکراہٹ دباتے بولا -
"بھائ ی ی ی -" آۓ نور حسب توقع چڑ گئی -
"ارے گُڑیا تمہیں نہیں فراز کو کہہ رہا ہوں -" اپنے نام ہر فراز جو ٹیبل پر رکھی لوازمات سے انصاف کررہا تھا اسکے کان کھڑے ہوگئے - اتنے میں بریال جو کہ ٹیبل کا حشر کرنے کے چکر میں تھا دارب نے اسے اچک کر پکڑ لیا -
"ڈیر سسٹر ۰۰۰ تم کچھ کہنا چاہو گئ اپنے بھائ کی حمایت میں ؟" فراز جل کر وارن سے مخاطب ہوا جو اس دوران دارب سے رخ موڑے خاموش بیٹھی تھی -
" نو تھینک یو ۰۰۰" وہ بھی جلانے والی مسکراہٹ سے بولی تو دارب اور آۓنور کی ہنسی بے ساختہ تھی - وارن نے بمشکل دل کو دائیں جانب دیکھنے سے باز کیا - بریال نے ایک دم سے اسکا حجاب جکڑا تو وہ سیدھی دارب کے سینے سے جا لگی - اب اسکے چند بال بھی بریال کے ہاتھ میں تھے - اسکی گرم سانسوں کی تپش وہ بخوبی اپنے چہرے پر محسوس کر رہی تھی - انھوں بریال کے ہاتھ سے اسکے بال چھڑاۓ تو وہ جھنجھلا کر پیچھے ہوئ اور بریال کو گھورا جو اب تالیاں بجا رہا تھا - وارن نے کن اکھیوں سے سب کو دیکھا جو اپنی اپنی باتوں میں مصروف تھے - آۓنور فراز کو اپنی پلیٹ بھرنے سے روک رہی تھی - اسکی نظر دارب ہر گئی جو بمشکل اپنی ہنسی کنٹرول کر رہا تھا اور بریال کو ایسے پیار کر رہا تھا جیسے اسنے بہت اچھا کارنامہ انجام دیا ہو -
"اچھا بیٹے ہم چلتے ہیں ہم -" ممی پلار اٹھنے لگے تو سب کھڑے ہوگئے -
"ارے ایسے کیسے چاچو کھانا کھاۓ بغیر تو آپ نہیں جائیں گے اور آج رات تو میں بالکل بھی نہیں جانے دونگا -" دارب نے کہتے ساتھ وارن کو دیکھا تو اسے بےاختیار شرمندگی ہوئ وہ اپنے ہی گھر میں مہمان بنی بیٹھی تھی آ
"رک جائیں نہ ممی اتنے عرصے بعد تو سب یوں مل کر بیٹھے ہیں -" وارن کے اسرار پر انھیں بیٹھنا پڑا - مورے اور بڑے بابا نے آۓنور کے گھر رکنے کا فیصلہ کیا - وارن سیدھا کچن میں گئی تو دلاور سب سمیٹ رہا تھا - دلاور کی موجودگی میں وہ آسانی سے کام نہ کرپاتی -
"دلاور آپ کواٹر میں چلے جاؤ - ضرورت پڑے گی تو میں بلوا لوں گی -" اسکی بات پر وہ خوشی خوشی باہر چل دیا - وارن نے بالوں کا جوڑا بنایا ڈوپٹا اتار کر کرسی پررکھا اور ابھی کچھ بنانے کا سوچ ہی رہی تھی کہ دارب ہاتھ موی کھانے کے شاپرز پکڑے داخل ہوا -
"کھانا آگیا - یہ دلاور کہاں گیا - تم اکیلی کیوں لگی ہوئ ہو ؟" وہ سب کچھ میز پر رکھتے ہوۓ ہوچھ رہا تھا -
" اسے میں نے بھیج دیا -" وہ مصروف سی بولی -
"کیوں ؟" وہ ماتھے پر بل لاۓ پوچھ رہا تھا -
"کیونکہ میں اس کی موجودگی میں کمفرٹیبل نہیں تھی-"
"تو تمہیں کیا ضرورت ہے کام کرنے کی - آگے ہی طبیعت خراب ہے اوپر سے اکیلی لگی ہوئ ہو - میں بُلاتا ہوں اسے -" وہ جانے کے لیے پلٹا تو وارن نے جھنجھلا کر اسے بازو سے تھام کر روکا -
"یہ میرا گھر ہے اور یہ سب کرنا بھی میری ذمہ داری میں کوئ پہلی دفعہ نہیں کر رہی - آپ کی مہربانی ہوگی جو اب آپ مجھے سکون سے کام کرنے دیں تو -" اسکی بات ہر دارب نے لبوں ہر مسکراہٹ روکی اور باہر چلا گیا - تھوڑی دیر بعد آۓنور اسکے پاس آئ جسے یقینً دارب نے بھیجا تھا - آۓنور نے گہرہ سانس لیا اور سب کے لیگ کھانا لگانے لگی -
_________________________

You've reached the end of published parts.

⏰ Last updated: Jun 10, 2022 ⏰

Add this story to your Library to get notified about new parts!

شبِ ہجر ڈھل جاۓ ✅ Where stories live. Discover now