باب:۴

173 12 3
                                    

اس دفعہ بارش رکتی نہیں فراز
ہم نے آنسو کیا پیئے سارا موسم رو پڑا
(احمد فراز)

سورج کی روشنی چھن سے آتی اس کے چہرے پر رکی تو اس کی نیند میں خلل پڑا - ذہن تھوڑا بیدار ہوا تو اس کا دیھان ان آوازوں پر گیا جو ٹینٹ کے باہر سے آرہی تھیں - نظریں ادھر اُدھر گُھمائ تو وارِن کو موجود نہ پا کر وہ جھٹکے سے اٹھا اور باہر کی طرف بھاگا -
باہر آ کر اسکو جھٹکا لگا - وہاں دو حبشی جسم مرد کھڑے تھے جن کی بڑھی ہوئ داڑھی موچھیں تھیں اور وہ پیلے دانتوں کی نمائش کرتے وارن سے بات کر رہے تھے - وہ شکل سے ہی کوئ ڈاکو لگ رہے تھے -

"آپ اٹھ گئے ؟ دیکھیں یہ ہماری مدد کرنے آۓ ہیں - میں نے ان سے بات کرلی ہے یہ ہمیں اس جنگل سے باہر تک چھوڑ آیئں گے - اب جلدی سے سامان پیک کریں اور نکلنے کی کریں ۔" حسبِ عادت وہ بغیر سوچے سمجھے بولے جا رہی تھی - ان دونوں نے ایک دوسرے کو معنی خیز نظروں سے دیکھا جو ی دارب کی آنکھوں سے چھُپ نہ سکا - اس کا دماغ تیزی سے کام کرنے لگا - اس وارن کے کندھے اپنے دونوں ہاتھوں میں تھامے اس کا رُخ دوسری طرف کیا -
"- آؤ بیگم ہم اپنا سامان سمیٹ لیں "- وہ ان ڈاکوؤں کو زبردستی کی مسکراہٹ سے دیکھا بولا - اس سے پہلے وہ کچھ بولتی دارب نے ایک ہاتھ اس کے منہ پر رکھا جو وہ دونوں دیکھ نہ سکے کیونکہ وارن کا رُخ دوسری طرف تھا - ٹینٹ میں داخل ہوتے ہی اس نے زِپ بند کی اور خونخوار نظروں سے وارن کو دیکھا جو اسے گھور رہی تھی -
" کون بیگم ؟ کہاں کی بیگم ؟ اور یہ کیا حرکت تھی ؟ میں آپ کو بلاوجہ ایک مہذب انسان سمجھتی تھی ۰۰ لیکن آپ تو ۰۰۰"
"بس ! خاموش ہو جاؤ ۔ ایک لفظ بھی نہ نکلے تمہارے منہ - عجیب مصیبت میں ڈال دیا ۔ تمہیں کہا کس نے تھا کہ باہر جاؤ ۰۰ اُف خدایا کہاں پھنس گیا میں ۔۰۰" وہ بے بسی سے بالوں کو دونوں ہاتھوں میں تھامتا بولا-
"بھلائ کا تو کوئ زمانہ ہی نہیں ہے !" وہ اس کے غصّے کو دیکھتی ہلکا سا بڑبڑائ لیکن وہ سن چکا تھا -
"مِس وارِن احمد وہ جن کو آپ اپنے بھائ سمجھ رہی ہیں وہ ڈاکو ہیں ۔ ڈاکو سمجھتی ہو ؟ اب کیسا پیچھا چھڑواؤ گی ان سے ؟ "
وہ چُبا چُبا کر بولتا ہوا اسے سامان سمیٹنے لگا جب کہ وارن بلکل ساکِن کھڑی تھی -
"اب میری بات غور سے سنو ۰۰۰ ان کو بلکل بھی شک نہیں ہونا چاہیے کے ہم انھیں ہہچان گئے ہیں - ہم تھوڑی دیر ان پیچھے جائیں گے اور جب میں کہوں تب تمہیں بھاگنا ہے - جتنی تیز ہو سکے بھاگنا ہے ۰۰۰- اوکے؟" وہ سمجھاتے ہوۓ بولا تو وارِن نے ویران نظروں سے اسے دیکھا -
"کیا سانپ سونگ گیا ہے تمہیں ؟" وہ اس کے اگے ہاتھ ہِلاتا بولا -
"آپ کو کیسے پتا کے میرا پورا نام وارِن احمد ہے ؟" وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتی بولی تو دارب نے نظریں چُرائ -
"تم ہی نے کل رات بتایا تھا اور یہ وقت ہے کوئ اس بات کا ۔ چلو باہر نکلو " کہتے ساتھ ہی وہ باہر نکل گیا - وارِن اسے پوچھنا چاہتی تھی کے جس بات کا ذکر وہ اپنے آپ سے بھی نہیں کرتی تھی وہ اس سے کیوں کرے گی ؟ اور دارب کو یہ سب کیسے معلوم ہوا ؟
پر اُن غنڈوں کی موجودگی میں فلحال وہ کچھ نہیں بول سکتی تھی - اس وقت صرف اور صرف جان پیاری تھی ۔
______________________

شبِ ہجر ڈھل جاۓ ✅ Where stories live. Discover now