باب :۹

148 6 2
                                    

ہم کے ٹھرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
کب نظر میں آۓ گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دُھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
شیر خان کو جاگتا دیکھ ان سب کی پیروں کو پریک لگ گیا - وہ آنکھیں بند کیے گانے کے لفظوں سے بھرپور مزا لیتے خُد بھی اپنی بے سُری آواز میں گا رہا تھا -

"وارن پکڑے جائیں گیں چلو واپس چلتے ہیں -" آےنور کی بات پر وارِن نے اندھیرے میں اسے گھور ا-
"چُپ کرو ڈر پھوک ۰۰۰اب اتنی دور چل کر آۓ ہیں محنت کا صلہ لیے بغیر تو نہیں جائیں گے ۰۰۰ کچھ سوچنے دو مجھے ۰۰۰ "
"ویسے وارن آپی آپس کی بات ہے کتنا بے سُرا گا رہا ہے شیر خان ۰۰۰" آیت کی بات پر سب کی دبی دبی ہنسی نکلی -
"تو اور کیا۰۰۰ باغ کی چُڑیلیں بھی بھاگ گئی ہونگی اس کی آواز سُن کر -" رافعیہ نے کہنا ضروری سمجھا -
"شش۰۰ چُپ کرو ۰۰ اس کو آواز چلی گئی تو پکڑے جائیں گے " وارن کے کہنے پر وہ دونوں بھی سنجیدہ ہوگئیں -

تھے بہت درد لمحے دردِ عشق کے
تھیں بہت بےمہر صبحیں مہرباں راتوں کےبعد
دل تو چاہا پرشکستِ دل نے مہلت نہ دی
کچھ گلے شکوے بھی کر لیتے مناجاتوں کے بعد

شیر خان اسی طرح کرسی پر نیم دراز پیر سامنے میز پر رکھے پشتو لہجے میں گانے کی کوشش کر رہا تھا جب وارن نے ایک بھاری پتھر اٹھا کر دوسری سمت پھینکا -
"اے کون ہے ؟ تم جانتا نہیں ہے شیر خان کو !" شیر جوش میں بولتا اپنی کرسی سے اٹھا کے وارن ایک اور پتھر پھینکا -
"اے ۰۰۰میں ابھی بتاتا ہے ۰۰۰ شیر خان کے ہوتے ہوۓ یہ اندر کیسے آیا ؟" شیر نے اپنی چھڑی پکڑی اور دوسری سمت بھاگا - وارن نے ہاتھ کے اشارے سے سب کو اپنی پیچھے آنے کا کہا -
"وارن مادربزر نے چھوڑنا نہیں ہے -" آۓ نور نے ایک اور کوشش کی - اب وہ چاروں مل کر باغ سے کینو توڑ رہیں تھیں آ
"مادر بزر کو تم بتاؤ گی ؟" وارن نے اسے گھورتے ہوۓ بوچھا تو آۓ نور نے نفی میں سر ہلایا -
"تو میں پاگل نہیں ہوں جو بتاؤں اب تم یہ کھاؤ سکون سے " وارن نے کینو چھیل کر اسے دیا اور خود دوسرا توڑنے درخت ہر چڑھنے لگی -
"اے کون ہے وہاں -" شیر خان کی آواز پر سب کی سانس اٹکی - وارن آدھے درخت پر چڑھی ہوئ تھی - جیسے ہی شیر خان قریب آیا وہ تینوں بھاگ گئیں -
"تم یہاں کیا کرتا ہے ؟" اس کی بات پر وارن مسکرائ اور درخت سے چھلانگ لگائ - اب بچنے کا ایک ہی حل تھا -
"آئ اماں ۰۰۰ میرا پیر ٹوٹ گیا !-"
شیر نے گھبرا کر چھڑی پھینکی -
"او ماڑا تم کو کس نے کہا تھا چھلانگ مارنے کو -۰۰۰ روکو میں بُلاتا ہے کسی کو ۰۰۰" 
شیر خان کو تو وہ بے وقف بنا چکی تھی لیکن مادر بزر سے بچنا اتنا آسان  نہ تھا - وہ سب حویلی کے لاؤنچ میں بیٹھے تھے - شیر خان سر جھُکاۓ سامنے کھڑا تھا جبکہ وارن اپنا پٹی والا پیر سٹول ہر رکھے مورے کے لگی بیٹھی تھی - پٹی بھی اس نے خود ہی کی تھی -
"یہ میں کیا سُن رہی ہوں وارن ۰۰۰ تم کب باز آؤ گی -" مادر بزر نے ہوچھا
"قسم سے ۰۰ صرف سیر کرنے گئے تھے ہم ۰۰۰ یہ ۰۰ یہ شیر خان جھوٹ بول رہا ہے -" دنیا جہاں کی معصومیت چہرے پر سجاۓ اس نے شیر خان کی غیرت کو للکارہ -
"او باجی ۰۰۰ میرا دادا کی چھڑی کا قسم میں خود ساروں کو کینو کھاتے دیکھا ہے ۰۰ یہ باجی الظام لگاتا ہے ۰۰۰۰"
"اچھا شیر خان تم جاؤ اب یہ ایسا نہیں کریں گی -" مادر بزر کے حکم پر وہ چلا گیا -
"آج کے بعد مجھے کوئ شکایت نہیں آنی چاہیے ۰۰۰۰۰" ابھی وہ کچھ کہتی کے عقیلہ بیگم وہاں چلی آئیں -
"میرے بعد اب میری بیٹی پر بھی پابندیاں لگیں گی -۰۰۰ بہت خوب "
"ممی ۰۰۰ بات تو سنیں -"
"تم چُپ کرو ۰۰ ہر وقت انکی حمایت نہ کرتی رہا کرو ۰۰۰" وارن مزید کچھ کہتی کے مورے نے اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر خاموش رہنے کا اشارہ کیا - وارن ٹھان چکی تھی کے اب ممی سے بات نہیں کرے گی - وہ جتنی شرارتی تھی اتنے ہی جذباتی بھی تھی -
"سوری ۰۰۰" اس نے نم آنکھوں سے کہا تو مورے نے اسے ساتھ لگا لیا - مادر بزر بوجھل قدموں سے اپنے کمرے میں چلی گئیں -
_______________________

شبِ ہجر ڈھل جاۓ ✅ Tempat cerita menjadi hidup. Temukan sekarang