کوئ لمحہ ہو رہائ کا
کوئ دنیا تیرے سوا بھی ہو(ماضی)
فجر کی نماز ادا کر کہ اسنے دعا کے کیے ہاتھ اُٹھاۓ تو آنسو بے اختیار ہی جھلک پڑے - وہ پھوٹ پھوٹ کر اللہ سے اس کی صحت اور اسکی زندگی کی دعا کر رہی تھی - وہ نہیں جانتی تھی کہ کچھ دن ساتھ گرازنے سے وہ شخص اس کے لیے کس طرح اتنا اہم ہوگیا کہ اس کے بغیر جینا بھی مرنے کی برابر تھا - اس کی تکلیف سے وارن کا دل پھٹ رہا تھا - وہ ساری رات اسکے ساتھ تھی اور نیند میں اس کی کراہیں سُن کر اسے لگا کے اس کا دل کوئ تیز دھار چاقو سے کاٹ رہا تھا - وہ اپنے آپ کو بے بسی کی انتہا پر محسوس کر رہی تھی اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ضارب کی ساری تکلیفیں اسکے سارے غم خود میں سمولے - آج اسکی پہلی سرجری تھی جس سے ضارب کافی نا امید تھا لیکن وارن کی اُمید اس پاک ہستی سے تھی جو دونوں جہانوں کا مالک تھا - جس کے ہاتھ میں سب کچھ تھا - دعا مانگ کر اسنے جاۓ نماز کو تہ لگائ اور مورے کے پاس آئ جو قران شریف پڑھنے میں مصروف تھیں - اپنا کلام مکمل کر کے انھوں نے ضارب کے اوپر پھونکا جو نیند میں تھا -
"بڑے بابا کب تک آئیں گے -" وارن اب پُرسکون چہرے کے ساتھ پوچھ رہی تھی -
"تھوڑی دیر تک آ جائیں گے - تم نے ڈاکٹر سے بات کی ؟" وہ اپنے بیٹے ہر نظریں جماۓ بول رہیں تھیں -
"جی ڈاکٹر کافی پُر امید ہیں - صرف دو سرجریز سے یہ بالکل ٹھیک ہوجائیں گے انشاللہ -" وہ انکے ہاتھ پکڑتی تسلی آمیز لہجے میں بولی - وہ سمجھ سکتی تھی کہ ماں ہونے کے ناطے انکے دل پر کیا گزر رہی ہوگی - تھبی دروازہ کھلنے کی آواز پر وہ اس طرف متوجہ ہوئ - بڑے بابا کو دیکھ کر وہ حیران ہوئ جو کچھ دنوں میں ہی بوڑھے نظر آ رہے تھے - وارن کے سلام کے جواب میں انھوں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا تو وہ انکے سینے سے لگی رو دی -
"بہت بُرا کیا میں نے تمہارے ساتھ، اپنے بچے کے ساتھ ۰۰۰ مجھے معاف کر۰۰۰"
"نہیں بڑے بابا ۰۰ آپکی کوئ بات مجھے بُری نہیں لگی اور ضارب بھی جانتے ہیں کہ آپ غصّے میں تھے ۰۰۰ آپ شرمندہ ہونگے تو مجھے بالکل اچھا نہیں لگے گا -" انکی باتوں کی آواز سے ضارب نے مندی مندی آنکھیں کھولیں اور انکی طرف دیکھا - بڑے بابا مسکرا کر آگے بڑھے جبکہ مورے پہلے ہی اسکا ہاتھ تھامے اس سے باتیں کر رہیں تھیں - وارن خاموشی سے صوفے ہر جا کر بیٹھ گئی - ضارب بات تو ان دونوں سے کر رہا تھا لیکن وقفے وقفے سے وارن کو دیکھ رہا تاھ جیسے کچھ کہنا چاہ رہا ہو ۰۰۰ وہ سمجھ سکتی تھی لیکن ابھی موقع نہیں تھا - وارن نے آنکھوں ہی آنکھون میں اسے تسلی دی کہ وہ ضرور اس کی بات سنے گی جس پر ضارب کی بے چینی تھوڑی کم ہوئ - وہ سمجھ سکتی تھی کہ اندر ہے اندر وہ اس سرجری کو لے کر خوف محسوس کر رہا ہے - لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ دارب کے دماغ کیا چل رہا تھا - اگر جاتنی ہوتی تو کبھی اتنی پُرسکون نہ ہوتی -
__________________________
DU LIEST GERADE
شبِ ہجر ڈھل جاۓ ✅
Aktuelle Literaturیہ کہانی ہے ایک مشرقی لڑکی کی جو اس بے رحم معاشرے سے لڑ کر کسی کی زندگی کو سنوارنے کی کوشش کرتی ہے - ایک ایسی لڑکی جو اپنی محبت کے لیے سب سے لڑ جاتی ہے - جو ایک ہارے ہوۓ انسان کو زندگی کی طرف لاتی ہے - یہ کہانی ہے ایک ایسے لڑکے کی جو اس بے رحم معاش...