باب:۷

138 8 7
                                    

~ضبطِ غم نے اب تو پتھر کردیا ورنہ فراز!

دیکھتا کوئ کہ دل کے زخم جب آنکھوں میں تھے

صبح صادق کا وقت تھا جب شاید ہی کوئ انسان جاگ رہا ہو - اس وقت وہی لوگ جاگ رہے ہوتے ہیں جنہیں اللہ جگاتا ہے اور اپنے آگے سجدہ کرنے کی توفیق دیتا ہے - پرندوں کی چہچہاہٹ دل و دماغ کو سکون بخشنے والی تھی - تازئ ہوا سانس کو مہکا رہی تھی لیکن اس سب کے بر عکس اُن کی کیفیت اور تھی - زندگی میں ایسا وقت بھی آیا تھا جب انھوں نے فجر کی تو کیا سرے سے نماز پھڑھنا ہی چھوڑ دی تھی - لیکن انسان اللہ کو چاہے بھول جاۓ لیکن وہ کبھی اپنی بنائ مخلوق سے بے پرواہ نہیں ہوتا - وہ جسے چاہے اپنے ہونے کا احساس دلا دیتا ہے اور جسے چاہے نہیں دلاتا -
اب تو وہ پانچ وقت کی نمازیں تو کیا تہجد کی نماز بھی ادا کرتے تھے - اب یہ انکی واپسی کا سفر تھا اپنے مالک کی طرف اپنے رب کی طرف جس نے انھیں بنایا اور ان سے کبھی بے پرواہ نہیں ہوا - رب کی طرف بھی ایک طلب ہی کھینچ کر لے جا رہی تھی اور وہ طلب تھی سکون کی -
سکون ایک ایسی چیز ہے جو ڈوھنڈنے سے بھی نہیں ملتی - اسکی کوئ قیمت نہیں ہوتے اسے کوئ کسی کو دے نہیں سکتا - سکون کو پانا ہوتا ہے اسے حاصل کرنا پڑتا ہے - سکو ن اپنے اندر سے ملتا اور انسان اتنا نادان ہے کہ اسے شہر شہر گلی گلی ڈھونڈتا پھرتا ہے -
اپنی ویل چئیر گھسیٹتے ہوۓ وہ لان میں لاۓ جہاں سورج اب اپنی جھلک دیکھا رہا - پرندے اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتے ہوۓ گھروں سے زرق کی تلاش میں نکل رہے تھے - وہ ویران نظروں سے آسمان پر نظریں جماۓ اسے تک رہے تھے - سوچ کی پرچھائی اپنی جھلک دیکھاتی پیچے لے جا رہی تھی ۰۰۰۰ بہت پیچھے جب وہ انکی گھر میں رونق بن کر چلتی تھی - اپنے ساتھ ہوۓ واقعے کے بعد ابھوں نے نماز پڑھنا چھوڑ دی تھی - وہ اسے پانچ وقت کی نمازیں پڑھتے دیکھتے تھے اور جب وہ دعا مانگتی تو ان کی آنکھوں میں رشک بھر آتا تھا -
ایک دفعہ اسی طرح اسنے دعا مانگ کر ہاتھ چہرے پر پھیرے اور عادت کے مطابق منہ میں کچھ پڑھ کر ان کے پاس آئ اور پھونک ماری - اسکا چہرا سفید دوپٹے کے ہالے میں اس قدر دمک رہا تھا کہ وہ نظریں نہیں ہٹا پاۓ اس دفعہ ان کے چہرے پر ناگوار تاثرات نہ تھے جو ہمیشہ اس کے ایسا کرنے پر ہوا کرتے تھے - اسنے مسکرا کر انھیں دیکھا اور بولی -
"آپ نماز کیوں نہیں پڑھتے ؟" سوال اس قدر غیر متوقع تھا کے وہ کچھ کہنے کے بجاۓ نظریں چُرا گئے - مگر اسکے نرم تاثرات اور نرم لہجے میں کوئ فرق نہ آیا -
"قران پاک میں اللہ تعالی فرماتے ہیں " ہم نے ہر وہ چیز تمہیں دے دی جو تم نے مانگی - اگر تم گننا چاہو جو تمہیں ملی ہیں گِن نہیں سکتے " تو اتنا کچھ جس کو مل جاۓ - کوئ تو وجہ ہوگی اتنی چیزیں اتنی نعمتیں کسی کو دینے کی - اللہ تعالٰی کچھ تو ہم سے بھی چاہتے ہیں - تو یہ جاننے کے لیے کے اللہ تعالٰی ہم سے کیا چاہتے ہیں ہمیں قران پڑھنا ہوگا - اس کو سمجھنا ہوگا اس ہر عمل کرنا ہوگا - بغیر کسی فکر کے بغیر کسی تکلف یا پریشانی کے ہمیں اپنے آپ کو اس سانچے میں ڈھالنا ہوگا جس اللہ ہمیں دیکھنا چاہتا ہے - جو قران کہے وہی کرنا ہے کیونکہ اس میں کوئ نقصان نہیں - اللہ تعالٰی کیا فرماتے ہیں ؟
" ذَٰلِكَ ٱلْكِتَٰبُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًۭى لِّلْمُتَّقِينَ
وہ بلند رتبہ کتاب (قرآن) کوئی شک کی جگہ نہیں، اس میں ہدایت ہے ڈر والوں کو-
لَا رَيْبَ جس میں کوئ شک نہیں - یہ اللہ کا کلام ہے - جب انسان اپنے آپ کو بدلنا چاہتا ہے تو ایک ہی تڑپ لگ جانی چاہیے کے آخرت میں کس طرح کامیاب ہونا -" وہ لمحے بھر کو سانس لینے کو رُکی اور وہ جیسے سانس روکے اسے سُن رہے تھے - " آجرت وہ جگہ جہاں ہمیشہ رہنا ہے - جہاں سے کبھی واپس نہیںآ سکتے never- تو آخرت میں سب سے پہلا سوال کس کا ہونا ہے ؟" اسنے ہنوز نرمی سے انھیں مخاطب کیا - "نماز کا -" آواز اتنی ہلکی تھی کے وہ بمشکل سُن پائ - "نماز کا بالکل - نماز وہ ادا کر سکتا ہے جس کا ایمان مضبوط ہو - اور سچا مومن وہی ہے جو ایمان لانے کے بعد عملی اطاعت میں مشغول ہوجاۓ - عملی اطاعت کے اولین علامت نماز ہے - جب موذن نماز کے لیے پکارتا ہے تو اسی وقت فیصلہ ہو جاتا ہے کہ ایمان کا دعوٰہ کرنے والا سچا ہے کے نہیں - ترکِ نماز دراصل ترکِ اطاعت ہے - ہم اللہ تعالی سے اتنی امیدیں وابستہ کرتے ہیں تو اسے بھی امید ہوتی ہے کہ اس کا بندہ اس کے آگی سجدہ شُکر بجا لاۓ گا - " اپنی بات کے اختتام میں وہ مسکرائ اور انکے ہاتھ پر دھرا اپنا ہاتھ اٹھایا -
چڑیوں کے زور سے بولنے کی آواز پر وہ ہوش میں آۓ تو دیکھا کے منظر بدلہ ہوا ہے - اپنے ہاتھ پر وہی لمس محسوس کر کے انکی آنکھوں میں نمی آگئی آ یادوں کے سہارے جینا کتنا مشکل ہے یہ کوئ ان سے پوچھتا -

شبِ ہجر ڈھل جاۓ ✅ Where stories live. Discover now