باب: ۱۴

169 9 5
                                    

~ہو بھی سکتا ہے وہ ، لیکن ہو بہو دیکھا نہیں
کچھ دنوں سے میں نے اپنے چار سو دیکھا نہیں
جاگزیں ہوا دل میں ایسا کہ میں نے اس کے بعد
ایک پل اسے اپنے روبرو دیکھا نہیں
(ظفر اقبال)

دوپہر کے کھانے سے فارغ ہوکر مورے اور مادر بزر آرام کرنے چلی گئیں تو اس کے پاس کچھ کرنے کو نہ تھا - دارب اس دن کے بعد سے ایسا غائب ہوا کہ اب ہفتہ ہونے کو تھا اس نے اسے دیکھا نہیں تھا - اس دن کے رویے کو وہ محض وقتی غصّہ سمجھ کر ذہن سے جھٹک چُکی تھی -
"باجی آپ کو کچھ چاہیے؟" ملازمہ کی آواز پر وہ متوجہ ہوئ -
"نہیں کچھ نہیں -" وہ اتنا کہہ کر کچن سے باہر آگئی - سائڈ پر رکھی کتاب کھولی ہی تھی کے باہر سے گیٹ کھلنے کی آواز آئ - اس کا دل زور سے دھڑکا - اگر بڑے بابا ہوۓ تو ؟ ۰۰۰ وارن سانس روکے اندر آتے قدموں کی آواز سُن رہی تھی - اور اسکا خدشہ واقعے صحیح تھا - اس کو سامنے دیکھ کر وہ ایک پل کو رُکے - شائد نظر کا دھوکا سمجھ رہے تھے -
"السلامُ علیکم -" وارن نے نم آنکھوں سے سلام کیا اور انکے آگے پیار کے لیے سر جھکایا لیکن اس کا سر جھکا ہی رہ گیا۔ اس نے تکلیف سے سر اٹھا کر انھیں دیکھا جن کے چہرے پر اب کرختگی تھی -
"عائشہ ۰۰ عائشہ ! " انھوں گرجدار آواز میں مورے کو پُکارا - وارن نے سہم کر ان کو دیکھا جہاں رحم کا شائبہ تک نہ تھا - مورے اپنے کمرے سے باہر نکلیں اور حیرت سے دونوں کو دیکھا -
"یہ لڑکی یہاں کیا کر رہی ہے ؟" وہ گرجدار آواز میں بولے -
"آپ بیٹھیں تو سہی میں بتاتی ہوں ۰۰" مورے نے فکرمندی سے وارن کو دیکھا جس کی آنکھوں سے مسلسل اشک بہہ رہے تھے -
"میں پوچھا یہ یہاں کیا کر رہی ہے ؟ " وہ چیخ کر بولے -
"آپ میری بات تو سنیں ۰۰" مورے بے بسی سے بولیں -
"میں اس کو ایک منٹ بھی اپنے گھر میں برداشت نہیں کروں گا -" وہ اسکا بازو دبوچ کر دروازے کی سمت بڑھے - مورے نے پیچھے سے بُلاتی رہ گئیں لیکن وہ کان بند کیے اسے باہر کی طرف لے گئے اور دہلیز پر جا کر بااہر پٹخا - وارن کے لبوں سے ایک چیخ برآمد ہوئ لیکن اس سے پہلے وہ زمین پر گرتی دو مضبوط بازو اسے تھا م چُکے تھے -
وارن نے ڈبڈبائ سُرخ آنکھوں سے اسے دیکھا جو اپنے باپ کو دیکھ رہا تھا -
"یہ کیا کر رہیں ہیں آپ ۰۰۰" وہ وارن کو اپنے برابر کھڑا کر کے اسکا ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھ میں پکڑے پوچھ رہا تھا - تحفظ کا ایک ایسا احساس جاگا جو پہلے کبھی محسوس نہیں کیا تھا - وارن نے کتنے دن بعد اسے دیکھا تھا - چاکلیٹ براؤن بینٹ کے ساتھ وائٹ ٹی شرٹ میں وہ بلا کا خوبصورت لگ رہا تھا - بال بے ترتیبی سے ماتھے پر گِرے ہوے تھے اور شہد رنگ آنکھیں دھوپ میں سرمئی لگ رہیں تھیں -
"اس کو نکالو یہاں سے ۰۰۰"
"یہ کہیں نہیں جاۓ گی ۰۰۰" اس کی بات پر وارن جھٹکے سے سر اٹھا کر اسے دیکھا لیکن وہ اپنے باپ کر طرف متوجہ تھا جو اسے حیرت سے دیکھ رہے تھے - لیکن اگلے ہی پل حیرت کی جگہ غصے نے لے لی -
"کیوں نہیں جاۓ گی -"
"کیونکہ یہ میری بیوی ہے ۰۰۰ اور بیوی اپنے شوہر کے گھر ہی رہتی ہے ۰۰" وہ اطمینان سے اسکا ہاتھ تھامے کھڑا بول رہا تھا -
"تو پھر تم بھی دفعہ ہوجاؤ اس کے ساتھ ۰۰۰ آج کے بعد شکل نہ دیکھانا اپنی مجھے ۰۰" وہ کرخت لہجے میں کہتے اندر کی طرف بڑھ گئے - اور یہ تو حویلی کا اصول تھا جو انھوں نے کہ دیا سو کہ دیا -
"وہ غصے میں ہیں تم فکر نہ کرو ۰۰" مورے نے آگے بڑھ کے دراب کو کہا وہ جانتی تھیں کہ وہ غصے میں باپ پر گیا ہے -
"وہ نہیں سمجھیں گے - آپ جانتی ہیں - ہم چلتے ہیں "
"دارب بچے غصے میں کیے فیصلے ہمیشہ غلط ہوتے ہیں - وہ باپ ہیں تمہارے وقتی غصہ ہے " وہ اسے سمجھاتی ہوئ بولیں -
"مجھ سے بہتر آپ جانتی ہیں ان کو - جلد ملاقات ہوگئ - اپنا خیال رکھئے گا - اللہ حافظ -" اسکا ہاتھ تھامے ہوۓ ہی وہ مورے سے پیار لینے جھُکا اور اپنی گاڑی کی طرف بڑھنے لگا - وارن نے اسکے ہاتھ پر گرفت مضبوط کی تو وہ چونکا -
"بڑے بابا غصے میں ہیں ۰۰۰ آپ تو ایسا نہ کریں ۰۰۰" وہ ڈرتے ہوے بولی -
"تمہیں چلنا ہے ساتھ یا نہیں - " وہ رعب سے بولا تو وارن خائف ہوگی -
مورے آنکھوں میں انسو لیے اپنے ضدی بیٹے کو دیکھ رہیں تھیں -
"میں مورے سے مل ۰۰۰لوں۰۰" دارب نے گئرا سانس لیا اور اس کا ہاتھ آزاد کر کے گاڑی کی طرف بڑھ گیا - وہ سختی سے مورے کے گلے لگ گئ -
"مجھے معاف کردیں ۰۰۰ یہ سب ۰۰ یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے " - وہ زارقطار رو رہی تھی -
"بس بچے جو اللہ کو منظور ہو وہی ہوتا ہے ۰۰۰ میں سمجھاؤ گی دارب کے بابا کو تم فکر مت کرو ۰۰۰" وہ اسکے آنسو صاف کرتیں بولیں تو ہارن کی آواز ہر وہ انھیں اللہ حافظ کہتی گاڑی میں آئ -
سارا راستہ خاموشی رہی - وارن نے پوچھنے کی ہمت ہی نہیں کی کہ کہاں جا رہے ہیں - وہ غصے سے گاڑی چلا رہا تھا اور ہر غلط گاڑی چلانے والے شخص کو انگریزی میں گالیاں دے رہا تھا - اب یہ باہر کا ملک تو تھا نہیں جہاں اس کو گاڑی چلانے کی عادت تھی -
"تم کچھ کھاؤ گی ؟" تقریباً ایک گھنٹے کے سفر کے بعد اسے خیال آیا -
"نہیں - ہم کہاں جا رہے ہیں ؟" وہ آخر ہوچھ بیٹھی -
"خود پتا چل جاۓ گا -" وہ ہنوز سنجیدگی سے بولا - اشارہ صاف تھا کہ وہ مزید کوئ سوال نہیں سننا چاہتا - کتنا غصہ کرتے ہیں - یہ پہلی راۓ تھی جو اس نے دارب احمد کے لیے قائم کی تھی -
_____________________
"آپ کب تک یوں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے کچھ کرتے کیوں نہیں -" عقیلہ بیگم غصے میں بولیں - وارن کے فون کے چار دن بعد کی انھیں فلائٹ ملی تھی - اور اب ان کو پاکستان آئے تیسرا دن تھا -
"حویلی کے ملازم کو فون کیا ہے میں وہ کہہ رہا ہے کہ وہ دونوں حویلی میں نہیں ہیں ۰۰۰ آج ہی کہیں گئے ہیں - " وہ صوفے پر بیٹھتے ہوۓ بولے -
"کتنا شاطر نکلا آپ کا بھتیجا ۰۰۰ میری معصوم بچی کو زبردستی لے گیا ۰۰۰"
"چھوڑوں گا نہیں میں اس کو۰۰۰ کہیں سے بھی ڈھونڈ لاؤں گا ۰۰۰ اور طلاق کرواؤں گا ۰۰" انکی بات پر وہ چونکی ۰۰۰ دارب کی بات یاد آئ کہ وہ اپنے آپ کو وارن کا شوہر کہہ رہا تھا ۰۰۰ حویلی کا نام سن کر غصہ اتنا چڑھا کہ کچھ اور یاد ہی نہیں رہا -
"طلاق ۰۰۰ آپ کیا کہہ رہے ہیں -" وہ بے یقینی سے بولیں -
"ہاں ۰۰۰ جب مورے ہسپتال میں تھیں تو دارب اور وارن کا نکاح ہوا تھا ۰۰" وہ ایسے بولے جیسے سب سے بڑی غلطی کی ہو -
"او مائ گاڈ ۰۰۰ نکاح ؟" وہ سر تھامے صوفے پر بیٹھتی چلیں گئیں -
______________________

شبِ ہجر ڈھل جاۓ ✅ Where stories live. Discover now