" ابا جی کون آیا ہے آپ اندر کیوں نھیں آ رہیں؟؟؟؟

( احمد ابا جی کو پکارتے ہوئے دروازے تک آیا تھا سامنے سر جھکا کر کھڑے بھائی کو دیکھ کر وہی رک گیا تھا)

" چاچو دیکھیے نا دادا جان باباجان کو اندر نہیں آنے دے رہیں آپ بولیے نا دادا جان کو۔۔۔۔۔

" ہونہہہ۔۔۔۔۔

" اسلام و علیکم کیسے ہیں بھائی بھابھی؟؟؟؟

" وعلیکم السلام۔۔۔۔

( سلام کے جواب کے علاوہ وہ کوئی جواب نہیں تھا ان کے پاس)

" ابا جی اندر آنے دیجیئے بھائی کو۔۔۔۔

" نہیں احمد اس سے پوچھ اب یہ کیا کرنے آیا ہے یہاں؟؟؟؟

" دادا جان بابا کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے آپ معاف کر دیں نا....

( حسنین نے منت کی تھی)

" اسے اب غلطی کا احساس نہیں ہوا اسے اب اپنی آخرت کا احساس ہو گیا ہے اس لئیے آیا ہے یہ یہاں اسے اب یہ خیال آیا ہو گا کہ اللہ کہ ہاں کس منہ سے جاؤں گا اس لئیے باپ سے معافی مانگنے آ گیا باپ کے مرنے سے پہلے۔۔۔۔۔۔

" دادا جان پلیز ایسا نہیں بولیے نا پلیز
صبح کا بھولا اگر شام کو واپس گھر  آ جائے تو اسے بھولا نھیں کہتے۔۔۔۔۔

" اگر یہ صبح کا بھولا ہوتا تو میں معاف کر دیتا مگر یہ تو سالوں کا بھولا ہے عنایہ کیسے معاف کر دوں اسے؟؟؟

( ذولفقار صاحب کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے گئے تھے)

( عنایہ نے حسنین کی گود سے شیری کو لیا تھا اور اسے لے کر دادا جان کی طرف بڑھ گئ تھی)

" دادا جان یہ دیکھیے شیری آپ کا شیری جسے آپ یاد کرتے تھے"

" ذولفقار صاحب شیری کو دیکھ کر مسکرائے تھے)

" یہ میرا شیری ہے میرا شہزادہ میرے حسنین کا بیٹا ؟؟؟؟

" جی جی دادا جان یہ آپ کا شیری ہے۔۔۔۔۔

( ذولفقار صاحب نے شیری کا گال چھوا اور اسے اپنی گود میں لے لیا تھا. شیری بھی دادا جان کے پاس جا کر خوش ہو گیا تھا)

" دادا جان شیری کیلیئے ہی اب بابا جان کو اندر آنے دیجیئے۔۔۔۔

" ذولفقار صاحب ایک لمحے کیلئیے خاموش ہو گئے تھے۔۔۔۔۔۔)

" ٹھیک ہے احمد یہ لوگ اندر آ سکتے ہیں مگر میں انھیں معاف نہیں کروں گا۔۔۔۔

( ذولفقار صاحب شیری کو اٹھائے اندر کی طرف بڑھ گئے تھے)

" احمد عنایہ اور حسنین ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرائے تھے "

" احمد نے وجاہت صاحب کا ہاتھ تھاما اور اندر کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔

نادان محبت!Where stories live. Discover now