" پھوپو جان

( عنایہ پھوپو کے گلے لگ کر رو دی تھی)

' ارے میری گڑیا چپُ اب نہیں رونا

( شاہدہ بیگم نے عنایہ کو پیار سے دیکھا تھا)

" ماں جی اب کیا آپ اِن سب کو دروازے میں ہی کھڑا رکھے گی۔۔۔۔

( پاس کھڑے احسان نے معصومیت سے پوچھا تھا)

" ارے نہیں نہیں چلو نا سب اندر چلو۔۔۔۔۔

"آپا یہ احسان ہے نا؟؟؟؟

" ہاں۔۔۔۔۔۔

" ارے بھانجے اِ دھر آ نا ۔۔۔۔۔

" آ گیا ماموں جان۔۔۔۔۔۔

" واہ یار توں تو جوان ہو گیا۔۔۔۔۔

" ہاہاہاہا اور کیا میں چھوٹا ہی رہتا۔۔۔۔۔

" نہیں نہیں جناب بڑے ہو آپ ماموں کے جتنے

( احمد نے پیار سے اِس کے گال کو چھوا تھا)

"اچھا چلو اب سب اندر۔۔۔۔۔۔

" جی آپا

( سب لوگ شاہدہ بیگم کے پیچھے چل دیے تھے)

" احمد یہ تمھارا اور عمران کا کمرہ ہے۔۔۔۔ اور میری بچی میری ساتھ میرے کمرے میں رہے گی

" جی پھوپو جی۔۔۔۔

" اچھا چلو اب تم سب ہاتھ منہ دھو لو تب تک میں کھانا لگواتی ہوں۔۔۔۔۔۔

" ٹھیک ہے آپا۔۔۔۔۔

( سب لوگ اپنے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے تھے اور شاہدہ بیگم کچن کی طرف بڑھ گئ تھی آج وہ بہت خوش تھی اپنوں سے مل کر۔۔۔۔)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

" ذیشان اپنا موبائل پکڑ کر کمرے میں ٹہل رہا تھا....

" دو دن سے عنایہ آن لائن نہیں ہوئی پتہ نہیں ٹھیک بھی ہو گی کہ نہیں۔۔۔۔۔

" اس کا ہاتھ ٹھیک ہوا ہو گا کہ نہیں۔۔۔۔

( ذیشان میں محبت کرتی ہوں آپ سے)

" اچانک ذیشان کو عنایہ کی آواز سُنائی دی تھی)

" اللہ پاک میری لئیے کوئی بہتر فیصلہ کر دے۔عنایہ کے دل سے میری محبت ختم کر سے پلیز اللہ اسے یہ محبت بس رلائے گی توں تو بہتر جانتا ہے نا میں نے یہ سب اس کی خوشی کیلئے کیا تھا نا بس اس کا دل بدل دے۔۔۔۔۔

( ذیشان موبائل بیڈ پر اُچھالتا ہوا باتھ روم کی طرف بڑھ گیا تھا)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

" ماما عنایہ کدھر ہے؟؟؟

( حسنین سارے گھر میں عنایہ کو ڈھونڈنے کے بعد رباب بیگم کے پاس آیا تھا)

" وہ تو تمھارے دادا ابو کے گھر ہے۔۔۔۔۔

" دادا جان کے گھر مجھے بتایا بھی نھیں

نادان محبت!Where stories live. Discover now