قسط ١٥

752 81 68
                                    


انتقامِ وفا
بقلم
سحر قادر

#####EPISODE 15#####

وہ اس حویلی کی دوسری منزل پر بنے مہمان خانے میں مقیم تھی۔
اپنے سیاہ بالوں کو ٹیل پونی میں مقید کیے چہرے پہ بلا کی سنجیدگی تھی، آنکھیں آج بھی سرد تاثر لیے ہوئے تھیں۔
"کیا ہم بات کر سکتے ہیں؟" پیچھے سے آواز آئی تو وہ جو لیپ ٹاپ پہ کام کر رہی تھی، چونک گئی۔
"ارے اسوہ آپ؟ کیوں نہیں بیٹھیں۔" نور نے اسوہ کے لیے صوفے پر جگہ بناتے ہوئے کہا۔
"لگتا ہے آپ کو زیادہ باتیں کرنا پسند نہیں ہے۔" اسوہ بھی اسکی آنکھوں سے اسکے بارے میں اندازہ لگا رہی تھی۔
"سنا تو آپ کے بارے میں بھی یہی تھا۔" نور نے لیپ ٹاپ سائیڈ پر رکھا۔
"شاید پہلے خود پر ایک بوجھ سا محسوس ہوتا تھا لیکن اب پرسکون ہوں، اور آپ نہیں سمجھ سکتی میری کیفیت کیونکہ آپ کچھ نہیں جانتی میرے بارے میں۔" اسوہ کے انگ انگ سے خوشی ظاہر ہوتی تھی۔
"میں آپکے ماضی سے واقف ہوں اسوہ! اور حقیقت یہ ہے کہ آپ میرے بارے میں کچھ نہیں جانتی۔"نور نے سارے لحاظ بالائے طاق رکھتے ہوئے دانت پیس کر کہا تھا۔
"آپ کو لگتا ہے مجھ سے بات کرنا اچھا نہیں لگ رہا۔" اسوہ کا چہرہ ماند پڑا تھا۔
"نہیں میں ایسے ہی بات کرتی ہوں۔" نور کا لہجہ ہر احساس سے عاری تھا۔
"اوہ! مجھے لگا شاید میرے ماضی کی وجہ سے میں آپ کو اچھی نہیں لگی۔" اسوہ پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ بولی۔
"اسوہ یوں شرمندہ ہونا چھوڑ دو تمہیں بچپن میں زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں تھا اور ہاں یاد رکھنا یہاں کسی کا ماضی خوشگوار یادیں نہیں رکھتا۔ کچھ نہ کچھ ظلم ہر کسی کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسکے ذمہ دار آپ ہیں۔ اس لیے خود کو مجرم سمجھ کر سزا نہ دو۔ اگر سزا دینی ہی ہے تو اس شخص کو دو جو تکلیف کی وجہ بنتا ہے۔" نور اب کھڑکی کے سامنے کھڑی ہو چکی تھی۔
"کوشش کرونگی کہ آپ کی باتوں پر عمل کروں لیکن اس سب کے بعد مجھے ایک بات تو معلوم ہو گئی ہے کہ... " اسوہ نے بات ادھوری چھوڑی تو نور نے مڑ کر اسے سوالیہ انداز میں دیکھا۔
"کہ آپ کبھی اپنے کسی مجرم کو معاف نہیں کرنے والی اور یہ کہ لالہ کو آپ کیوں اچھی لگیں اس لیے کہ انھیں اپنے حق کے لیے اٹھنے والی لڑکیاں پسند ہیں۔" اسوہ نے بات مکمل کی اور کمرے سے نکل گئی۔
وہ جا چکی تھی مگر اسکے لفظوں کا فسوں نور پر چھا چکا تھا۔وہ سوچ میں گم تھی کہ کیا واقعی وہ کسی کو معاف نہیں کر سکتی۔ لیکن پھر وہ مسکرا دی کیونکہ ایسا ہی تھا بچپن سے لے کر آج تک اسنے کسی کو معاف نہیں کیا تھا۔
جہاں تک دوسری بات ہے وہ یاد کر کے اس کے ہونٹوں پر ایک مبہم مسکراہٹ آئی تھی، کیونکہ اگر وہ میر یوسفزئی المعروف ڈاکٹر شاہ کو اچھی لگی تھی تو پلان کامیاب جا رہا تھا۔
اپنی کامیابی کا سوچ کر اسے سب اچھا لگ رہا تھا۔ پشاور کا موسم تو حسین تھا ہی لیکن اسکے اندر بھی کہیں سکون کی لہر دوڑی تھی۔ آخر کو اتنے لمبے سفر کے بعد وہ منزل کے قریب تھی بس اسے تھکنا نہیں تھا۔
کھڑکی سے نیچے دیکھا تو میر یوسفزئی عمیر یوسفزئی کے ساتھ محوِ گفتگو تھا۔
نجانے کتنی دیر وہ انہماک سے میر یوسفزئی کو دیکھتی رہی پھر اچانک میر کی نظر اوپر اٹھی تو ایک لمحے کو ان کی نظر ملی تھی مگر وہ کھڑکی سے ہٹ گئی تھی۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - - -
"مہمل یہ کیا کر رہی ہو؟" رقیہ بیگم جو کب سے چپ چاپ سر جھکائے آنسو بہا رہیں تھیں، اسے روکنے کے لیے آگے بڑھیں تو مہمل نے انھیں بھی روک دیا۔
"نجانے کس پر گئی ہو؟ تمہارے ماں باپ تو ایسے ظالم، ہٹ دھرم نہیں ہیں۔" جہانداد خان نے زچ ہوتے ہوئے کہا۔
"میں اپنی تائی اور تایا پر گئی ہوں۔" مہمل نے چبا کر لفظ ادا کیے تھے۔
"جہانداد خان اس وقت کہاں تھے آپ جب آپ کے بھائی کو مفلوج کیا گیا تھا؟ جب آپ کے بھائی کے بچوں کو قتل کیا گیا تھا؟ جب مجھے بجلی کے جھٹکے دیے گئے تھے؟ جب ہم بے سرو سامان تھے؟ اس وقت آپ ہمارے پاس موجود نہیں تھے! اور بہتر یہی ہوگا کہ اب بھی آپ ہمارے اردگرد کہیں موجود نہ ہوں۔" مہمل نے ان کا گریبان چھوڑا دیا تھا۔
"میں مانتا ہوں میری غلطی ہے اور میں شرمندہ ہوں۔" جہانداد خان یہ کہتے ہوئے چارپائی کی طرف بڑھے تو مہمل بھاگ کر چارپائی کے سامنے کھڑی ہو گئی۔
"دور رہیں یہاں سے!" اس وقت مہمل کے چہرے سے وحشت عیاں تھی۔
مشوانی کو کچھ غلط ہونے کا احساس ہو رہا تھا۔
جہانداد خان نے جب دیکھا کہ اچھا بننے سے مہمل نہیں سننے والی تو انھوں نے گارڈز کو اشارہ کیا وہ مہمل کی طرف بڑھے اس سے پہلے کے وہ آگے بڑھتے مشوانی کے گارڈز درمیان میں آ گئے۔
"دیکھو داؤد بچے تم دو قبیلوں کی لڑائی کا سامان مت کرو۔ مجھے صرف اپنے بھائی کا چہرہ دیکھنا ہے اور بس۔" جہانداد خان نے اسے کہا۔
"مہمل جو چاہے گی وہی ہوگا اگر وہ اجازت دے دے تو میں کیوں روکوں گا آپ کو۔" مشوانی آرام سے بولا۔
اسے لمحے مظفر مشوانی یعنی داؤد کے داجی اندر داخل ہوئے۔
جہانداد خان کی لاکھ کوششوں کے باوجود بھی انھیں ناکام لوٹنا پڑا کیونکہ پہلے شاید وہ لڑ بھی لیتے لیکن مظفر مشوانی کی موجودگی میں وہ زیادہ مزاحمت نہ کر سکے۔
جنازے کو اٹھانے کا وقت ہو رہا تھا مگر مہمل چپ چاپ چارپائی کے ساتھ لگی باپ کا چہرہ تکتی جا رہی تھی۔ کتنا وجیہہ چہرہ تھا نا، جوانی کے دنوں میں تو اس چہرے کو دیکھ کر انسان فدا ہو جائے۔ آج اس پر لاتعداد جھریاں تھیں لیکن اس چہرے کی وجاہت آج بھی کم نہیں ہوئی تھی۔ مہمل کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ کسی طرح بھی جہانگیر خان کی آنکھوں میں اپنی تصویر دیکھے۔ کتنے سالوں سے یہی تو کرتی تھی وہ انکے سامنے جا کر بیٹھ جاتی اور وہ اسے دیکھتے رہتے۔
لیکن آج مہمل پاس بیٹھی تھی مگر وہ آنکھیں بند ہو چکیں تھیں۔ مہمل اٹھنے کو راضی نہیں تھی، بچپن سے وہ جہانگیر خان کے ساتھ زیادہ لگاؤ رکھتی تھی اور دیکھنے والے بھی یہی کہتے تھے کہ وہ ہوبہو باپ پر گئی ہے اور رقیہ بیگم کے بقول وہ باپ کی طرح ضد کی پکی تھی۔
جب جنازہ اٹھایا گیا تو سب کو لگتا تھا وہ چیخے گی چلائے گی لیکن اس کے منہ سے تو ایک آہ تک نہ نکلی تھی۔ وہ یک ٹک سب دیکھے جا رہی تھی آنکھوں میں ایک حسرت تھی کہ کاش زندگی یوں نہ ہوتی لیکن کسی کے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔
وہ بھاگ کر دروازے پر گئی جب تک جہانگیر خان کی میت آنکھوں سے اوجھل نہ ہوئی۔ وہ دیکھتی رہی لیکن جب باپ کی میت آنکھوں سے اوجھل ہوئی اسے یقین ہو گیا کہ اب دوبارہ  اپنے باپ کو کبھی نہیں دیکھ پائے گی تو وہ وہیں دھڑام سے گری تھی۔
رقیہ بیگم جو پہلے ہی غم سے نڈھال تھیں بیٹی کی یہ حالت دیکھ کر مزید ٹوٹ رہیں تھیں۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
وہ اس وقت لان میں گھوم رہی تھی جو حویلی کی پچھلی طرف تھا کیونکہ سامنے کی طرف لان میں خواتین کو جانے سے منع کیا گیا تھا۔
وہ بعض اوقات سوچتی تھی کہ اسکی زندگی باقی لڑکیوں کی طرح کیوں نہیں ہے؟ کیا ساری زندگی وہ یوں ہی بھٹکتی رہے گی؟ کیا اپنا کام کرنے کے بعد اسے کوئی قبول کر لے گا؟
لیکن پھر وہ خود ہی سوچوں کو جھٹک دیتی تھی۔
ابھی بھی وہ چہل قدمی میں مصروف تھی کہ عمیر یوسفزئی نے لان میں قدم رکھے، لیکن اسے دیکھ کر وہ حیران ہوا تھا۔
نور کے چہرے پہ ایک مسکراہٹ آئی تھی۔
"تم یہاں؟؟" عمیر نے سوال کیا۔
"جی میں اور یہاں۔ تم نے ڈاکٹر نور کو ہلکا لے لیا ہے." نور نے اسے جواب دیا۔
"ڈاکٹر نور یہ صرف آپ کی خوش فہمی ہے کہ آپ یہاں ٹک سکیں گی؟" عمیر نے اس پر طنز کیا۔
"اچھی بات ہے تم نے مجھے آپ کہا اور اب عادت ڈال لو آپ کہنے کی کیونکہ میری عزت تو اب تمہیں ناچاہتے ہوئے بھی کرنی پڑے گی۔" نور کے چہرے پر تپا دینے والی مسکراہٹ تھی۔
"میں سب کو تمہاری حقیقت بتاؤں گا۔" عمیر نے دانت پیسے تھے۔
" اور میں سب کو تمہارے کرتوت بتاؤں گی۔" نور  اسکے مقابل کھڑے ہوتے ہوئے بولی۔
عمیر کے چہرے پر اسکی بات سن کر ناگواری واضح محسوس کی جا سکتی تھی۔ وہ وہاں سے جانے کیلئے مڑا تو نور پیچھے سے بولی:
"ڈاکٹر عمیر آپ نے پریکٹس کیوں نہیں کی؟"
" مجھے اپنا بزنس چوروں سے بچانا تھا اس لیے! "عمیر نے مڑ کر غراتے ہوئے کہا اور چل دیا جب پیچھے سے نور کی آواز آئی۔
تمہیں غلط لگتا ہے کہ تم سب بچا رہے ہو، سچ یہ ہے کہ تم سب گنوا رہے ہو۔"

بہت بڑے کھیل کا آغاز ہونے والا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کس کو مات ہوتی ہے اور کس کو کامیابی ملے گی۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
آج  دو ہفتے بعد مہمل کا بخار کچھ کم ہوا تھا۔
پچھلے دو ہفتوں سے وہ بستر پر بےسدھ پڑی تھی۔ لیکن آج اسکا بخار کم تھا اس لیے وہ اٹھ کر قرآن کی تلاوت کر رہی تھی۔
اسے خود سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ بھرپور کوشش کے باوجود وہ خود کو سنبھال نہیں پا رہی تھی۔ کوئی اس کا نام پکارتا ہی تھا کہ اسکے آنسو چھلک پڑتے تھے۔ اتنی کمزور تو وہ کبھی بھی نہیں تھی لیکن اب وہ شکست خوردہ محسوس کر رہی تھی۔
ان دو ہفتوں میں اسفر نے کافی کچھ سنبھالا ہوا تھا جبکہ داؤد مشوانی اپنے داجی یعنی مظفر مشوانی کے ساتھ روز یہاں آتا تھا۔
رقیہ بیت ہو گئی ضد اب آپ میرے ساتھ چلو۔" مظفر مشوانی یعنی مشوانی کے داجی اور قبیلے کے خان جی رقیہ بیگم سے مخاطب تھے۔
" خان جی میں نہیں جا سکتی۔" رقیہ بیگم نے صاف انکار کیا تھا۔
" رقیہ بچے بہت پہلے تم نے غلط فیصلہ کیا تھا اب دوبارہ غلطی مت کرو چلو ہمارے ساتھ۔" مظفر مشوانی انھیں ہر صورت ساتھ لے کر جانا چاہتے تھے۔
"وقت نے بہت کچھ بدل دیا ہے. ہم سب کے درمیان اجنبیت کی دیواریں کھڑی ہیں." رقیہ بیگم کی آنکھوں میں نمی تیر رہی تھی۔
"وقت نے چاہے جتنا مرضی دور کر دیا ہو لیکن دلوں میں موجود محبت تو ختم نہیں ہوئی نا؟" مظفر مشوانی کا لہجہ نرم تھا۔

"میں تو چلی جاؤں مہمل نہیں جائے گی، اپنے باپ کی طرح ضدی ہے وہ۔ اور اس گھر سے جہاں اسکے باپ نے زندگی گزاری یہاں سے دور وہ نہیں جائے گی۔ وہ اپنے باپ کی لاڈلی تھی یہ الگ بات ہے کہ قسمت نے جہانگیر کو لاڈ اٹھانے کا موقع نہیں دیا لیکن وہ باپ کی محبت ہمیشہ محسوس کرتی تھی اور اپنے باپ سے اسے دنیا میں سب سے زیادہ محبت تھی۔" رقیہ بیگم نے بےخودی میں نکل جانے والے آنسوؤں کو صاف کیا۔
" اسی کے لیے تو کہہ رہا ہوں اکیلی لڑکی کے ساتھ زمانہ کہاں جینے دیگا۔" وہ بہت مان سے کہہ رہے تھے۔
" وہ انتقام لینا چاہتی تھی کہ اپنے باپ کو اس حویلی میں شان سے لے کر جائے اور اب جب اس کا باپ نہیں رہا تو وہ بہت ٹوٹی ہوئی ہے اور مجھے ڈر ہے کہ وہ وہاں گئی تو جذبات میں آ کر غلط کر دیگی کیونکہ اسے ایک ہی جنون ہے کہ میں نے یوسفزئی خاندان کو برباد کرنا ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ وہ مانیں گی ہی نہیں۔"  رقیہ بیگم مہمل کی وجہ سے پریشان تھیں۔
" رقیہ اسے ایک نہ ایک دن تو جانا ہے شادی کر کے اس گھر سے تو ابھی کیوں نہیں، میں اسے اپنی بیٹی بنانا چاہتا ہوں۔ اور تم اسکی خوشیوں کے لیے میری مدد کرو۔ تم جب وہاں چلی جاؤ گی تو وہ خود آ جائے گی تمہاری محبت میں۔" مظفر مشوانی نے جب اتنی بڑی بات کہی تو رقیہ بیگم بس انھیں دیکھ کر رہ گئیں تھیں۔
تھوڑی دیر پس وپیش کرنے کے بعد وہ انکے ساتھ پشاور جانے کے لیے تیار تھیں۔انھوں نے سامان باندھ کر جب مہمل کو سب بتایا تو اس نے صاف انکار کر دیا۔
اب وہ مہمل کو یہیں چھوڑ کر جانے والی تھیں کیونکہ مہمل کی خوشیوں کے لیے کچھ عرصہ تکلیف برداشت کرنی تھی۔
مہمل چپ چاپ سب دیکھ رہی تھی۔
مظفر مشوانی کے وہ پاس بھی نہیں جا رہی تھی۔
جب رقیہ بیگم وہاں سے نکلنے لگی تو مہمل انکے گلے لگ کر رو دی تھی لیکن پھر انھیں کہنے لگی کہ "وہ اسکی فکر نہ کریں وہ ان سے ملنے آیا کریگی۔"
رقیہ بیگم کے بعد جب مظفر مشوانی اسکے قریب آئے تو اسکا چہرہ سپاٹ تھا۔
انھوں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بولے "میں بھی تمہارے باپ کی طرح ہوں اور جب تمہیں ہمارے خلوص کا یقین ہو تو آ جانا"
"جی خان جی!" مہمل بس انھیں اتنا ہی کہہ سکی تھی۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
جاری ہے!!

Stay tuned!

انتقامِ وفا (مکمل) Unde poveștirile trăiesc. Descoperă acum