قسط ١٢

726 85 73
                                    

انتقامِ وفا
بقلم
سحر قادر

####EPISODE 12####

"یار نور بس کر دو غصہ! ایسا کیا کر دیا ہے اب میں نے؟" اس کے نور کو کال کی۔
"ہاں ایسا کیا کر دیا ہے تم نے! شاہ کو میرا فون ٹیپ کر کے دیا اور کہہ رہے ہو ایسا کیا کر دیا ہے۔ واہ مسٹر!" نور نے طنز کیا۔
"صرف فون ٹیپ کر کے بیچ میں سے نمبرز کا ریکارڈ لیا ہے۔ راز تو نہیں نہ کھولے۔" اسنے معصومیت سے کہا۔
"تمہارا کچھ پتہ نہیں، وہ بھی نہ بتا دو کہیں۔"نور غصے میں تھی۔
"نہیں وہ کیوں بتاؤں گا اور سمجھا کرو نا ،یہ تمہارا کام آسان کرنے کے لئے ہی تو کیا ہے۔" اس نے جھنجھلا کر کہا۔
"وہ کیسے؟" نور نے سوال کیا۔
"وہ ایسے کہ میں نے اسے ایسے معلومات دی جیسے کوئی تمہیں ڈرا رہا ہے اور اب یقین مانو وہ تمہارے عشق میں ڈوبا ہوا بندہ تمہارے گھر کے باہر بھی گارڈز لگا چکا ہے۔" اسنے مزے سے پلان بتایا۔
"کیا؟؟ یہ کیا کیا ہے تم نے؟ اگر وہ میرے گھر آیا تو شاہ کے گارڈز اسے پکڑ لیں گے۔ تم نے شاہ کا تو سوچا ہے مگر اس کا نہیں۔" نور نے اپنا سر پکڑا۔
" نہیں اس کا بھی سوچا ہے اسے میں نے فالوقت دبئی بھیج دیا ہے۔ فکر نہیں کرو پیچھے کام پورا کرنا ہے لیکن ایک بات کہوں گا۔ پھر سوچ لو شاہ اچھا انتخاب نہیں ہے۔" اسنے نور کو خبردار کیا۔
" پتہ ہے میں خود بھی ایسا نہیں چاہتی تھی۔ مگر پتہ نہیں کب کس وقت میری کایا پلٹ گئی۔" نور نے دھیمی آواز میں کہا۔
" ہمم! چلو خیر دل پہ زور چلتا تو اس بدنصیب کو تمھیں بھلانا آسان ہوتا۔  مگر مسئلہ ہی یہی ہے کہ تم کہیں اور دل لگا بیٹھی اور وہ تمہارے در پر!" اسنے افسوس سے کہا۔
"تمہیں کتنی بار کہا ہے الفاظ اچھے چنا کرو ایسے تو یوں لگتا جیسے میں کوئی بداخلاق لڑکی ہوں۔" نور نے غصے سے فون بند کیا اور سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
آج تین سال بعد وہ اسکے آفس آئی تھی۔
تین سال پہلے اسنے مشوانی کو کہا تھا کہ وہ مہمل خان سے تب تک دور رہے جب تک وہ اسے خود نہ بلائے۔
تب سے مشوانی نے اسکی بات کی لاج رکھی تھی اور مڑ کر اسکو کبھی دیکھا بھی نہیں تھا۔
آج تین سال بعد وہ اسکے آفس میں کھڑی تھی۔ مشوانی نے بہت ترقی کر لی تھی اسکا آفس مکمل تبدیل ہو چکا تھا اور سٹاف بھی۔
"السلام علیکم! مجھے داؤد مشوانی سے ملنا ہے۔" مہمل نے نئی سیکرٹری سے کہا جو اسے بڑے غور سے دیکھ رہی تھی۔
مہمل ایک سادہ سی سفید کیپری پر سفید کرتا ہی پہنے ہوئے تھی۔ سر پر سفید حجاب اچھے سے سیٹ کیا ہوا تھا۔
"جی سر تو ایک ضروری پراجیکٹ کے سلسلے میں کینیڈا گئے ہوئے ہیں۔" سیکرٹری نے اسے مشکوک نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا کیونکہ اسنے مہمل کو پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
"کب تک آئیں گے؟" مہمل نے پریشانی سے پوچھا۔
"انھیں دو ہفتے اور لگیں گے لیکن آپ کون؟" سیکرٹری نے پوچھا۔
"میں انکی دوست ہوں کیا آپ مجھے ان کا نمبر دے سکتی ہیں؟" مہمل نے لب کاٹتے ہوئے پوچھا۔
"سوری میم ان کا ذاتی نمبر کسی کو بھی نہیں دیا جا سکتا۔ انھوں نے منع کیا ہے۔" سیکرٹری نے دوٹوک جواب دیا اور کام کرنے لگ گئی۔
مہمل آفس سے ہارے ہوئے شخص کی طرح نکلی تھی۔ اسکی ایک ہی امید تھی مشوانی! لیکن اب وہ بھی ختم ہو گئی تھی۔ وہ بار بار مشوانی کا پرانا نمبر ملا رہی تھی مگر وہ شاید نمبر بدل چکا تھا۔
اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اپنے باپ کے آپریشن کے پیسے کہاں سے لائے؟
- - - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - - -
مہمل ہسپتال کے کوریڈور میں رقیہ بیگم کے ساتھ بینچ پر آ کر بیٹھی تھی۔
"مہمل بچے کچھ بنا؟" رقیہ بیگم نے جلدی سے پوچھا۔
"نہیں امی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔" مہمل نے کہا اور ساتھ ہی اسکی آنکھوں سے آنسو نکلے تھے۔
بچپن کے بعد وہ آج پہلی بار روئی تھی ورنہ وہ ہمیشہ اپنے آنسو پی جاتی تھی۔
"مہمل بچے ایسے نہیں کرو ورنہ میری ہمت ٹوٹ جائے گی۔" رقیہ بیگم اسکے آنسو دیکھ کر تڑپ کر اسے گلے لگاتی بولیں تھیں۔
" امی مجھ سے نہیں برداشت ہوتا سب کچھ تو چھن گیا تھا۔ اب ابو بھی میں نہیں کھونا چاہتی ابو کو۔ آپی اور دانی کا غم کیا کم تھا، جو اب ابو بھی..." مہمل یہ کہتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔
" مہمل گھر جاؤ کچھ زیور پڑا ہوگا الماری میں۔ تمہاری شادی کے لئے بنایا تھا۔ اسے بیچ دو!" رقیہ بیگم نے اسکے آنسو پونچھتے ہوئے کہا وہ بہت مشکل سے خود کو سنبھالے ہوئے تھی۔
مہمل انکی بات سن کر خود کو سنبھالتی بمشکل اٹھی تھی۔
اسکے جانے کے بعد رقیہ بیگم ماضی کی یاد میں گم ہو گئیں تھیں۔
- - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - -
ماضی :-
"خان آپکے گھر والے کبھی نہیں مانیں گے۔" رقیہ گل نے کہا جو پٹھان لڑکیوں کا روایتی لباس پہنے ہوئے تھی۔
"بھلا وہ کیوں نہیں مانیں گے ہم خود داجی سے بات کریں گے۔" جہانگیر خان نے مسکرا کر کہا۔
"خان ہمارا قبیلہ اور آپ کا قبیلہ مختلف ہے۔ دونوں قبائل کبھی روایات کے خلاف کچھ نہیں کریں گے۔" رقیہ گل نے پریشانی سے کہا۔
"اسلام اجازت دیتا ہے گل یہ تو جاہلانہ باتیں ہیں۔ میں آج ہی داجی سے بات کروں گا۔" جہانگیر خان نے ضدی لہجے میں کہا اور جہانگیر خان تو ویسے ہی پورے قبیلے میں اپنی ضد پوری کرنے کی وجہ سے مشہور تھے۔
اور وہی ہوا جسکا رقیہ گل کو خدشہ تھا۔
یوسفزئی خاندان کے سردار اور جہانگیر خان کے داجی نے اس بات کے سنتے ہی  انکار کر دیا تھا۔ لیکن جہانگیر خان پوری حویلی کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو گئے تھے۔
حویلی میں ایک بھونچال سا آ گیا تھا۔ جہانگیر خان کے بڑے بھائی جہانداد خان جو غصے کے تیز تھے انھوں نے اپنی بندوق جہانگیر خان پہ تان لی لیکن داجی نے انھیں روکا۔
سب سے زیادہ شور زرینہ گل نے کیا تھا جنکی بہن جہانگیر خان کے ساتھ بچپن سے منسوب تھی۔ لیکن جہانگیر خان نے بھابھی زرینہ گل کو صاف کہہ دیا کہ وہ انکی بہن سے شادی نہیں کرینگے۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - - -
مہمل نے تھوڑا سا زیور جو اسکی ماں کی کل جمع پونجی تھا لیا اور ایک جیولری شاپ پر چلی گئی۔
وہ زیور بمشکل ڈیڑھ لاکھ کا تھا اور حقیقت یہی تھی کہ رقیہ بیگم نے دن رات لوگوں کے کپڑے سی کر کڑھائی کر کے سارا روپیہ مہمل کی پڑھائی پہ لگایا تھا تبھی تو وہ آج میڈیکل کے چوتھے سال میں تھی۔
"بھائی آپ ڈیڑھ لاکھ روپے دے دیں۔" مہمل نے بادل نخواستہ اس زیور کی رقم وصول کی اور باہر نکلنے لگی تو حماد لغاری ایک ماڈرن سی لڑکی کے ساتھ جیولری شاپ میں اینٹر ہوا اور اسکے ہاتھ میں رقم دیکھ کر سمجھ گیا کہ مہمل نے کچھ بیچا ہے۔
"اسمارہ یہ تھی میری بےوقوف سابقہ منگیتر جس نے دولت کو ٹانگ ماری اور منگنی ختم کر دی۔" حماد نے ساتھ موجود لڑکی کو مسکرا کر کہا جبکہ مہمل کے اعصاب اسکی بات سن کر تن گئے تھے۔
مہمل سایڈ سے گزرنے لگی تو حماد اسکے سامنے آیا۔
"بہت چالاک سمجھتی تھی نا تم خود کو اسفر سعید کو ساتھ ملایا ہے نا تم نے؟ مگر یاد رکھنا اسفر سعید صرف اپنی مرضی تک کام کرتا ہے پھر بندے کو ایسی جگہ چھوڑتا ہے جہاں سے وہ ساری زندگی نہیں نکل پاتا۔ خیر فی الحال تو اپنے باپ کو بچاؤ تم مس حسینہ!" حماد نے اسے طنزاً کہا جب مہمل نے ایک زوردار تھپڑ اسکو مارا اور وہاں سے نکلتی رکشہ روک کر ہسپتال کی طرف چلی گئی۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
" جا رہی ہو پھر اسوہ کی شادی پر تم؟ اسنے نور کے گھر میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔
"نور جو پیکنگ کر رہی تھی ایک دم مڑی اور بولی "یاد رکھنا اگر میری کھڑکی کسی دن تمہارے اس طرح آنے جانے کی وجہ سے ٹوٹی تو میں تمہیں نہیں چھوڑوں گی۔"
"اچھا بتاؤ جانا ہے؟" اسنے ڈھیٹ پنے سے نور کا لیپ ٹاپ کھولتے ہوئے کہا۔
" ہاں جا رہی ہوں کیونکہ کام ختم کرنا ہے۔" نور نے پیکنگ کرتے ہوئے کہا۔
"کام شادی ہو جانے کے بعد کرنا تم!" اسنے لیپ ٹاپ پر جی پی ایس ایکٹیویٹ کرتے ہوئے کہا۔
" کیوں؟؟" نور نے حیرانگی سے پوچھا۔
" وہ اس لئے کہ اسوہ پر بے قصور ہوتے ہوئے بھی بہت بڑا داغ ہے اگر یہ شادی نہ ہوئی تو زمانہ اس پر اور کیچڑ اچھالے ۔گا اس لئے نکاح کے بعد سب دیکھیں گے۔" اسنے لیپ ٹاپ پر اپنا کام کرتے ہوئے کہا۔
"اوکے لیکن تم کیا کر رہے ہو؟" نور نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
"لیپ ٹاپ پر سیکیورٹی لگا رہا ہوں اور جی پی ایس ایکٹیویٹ کر رہا ہوں تاکہ مجھے پتہ ہو تمہاری لوکیشن کا۔ تمہارے موبائل میں بھی یہ کام کر چکا ہوں جب تم شاہ کے ساتھ راؤنڈ پر تھی۔" اسنے مزے سے کہا اور نور کا منہ کھلا تھا۔
" تم نہیں سدھر سکتے۔" نور نے کہا مگر وہ اسکی بات ان سنی کرتے ہوئے کھڑکی سے باہر کودا اور ہڈی کو سر پر پہن کر بھاگنے لگا جبکہ نور نفی میں سر ہلا کر رہ گئی کیونکہ وہ اپنی مرضی سے کام کرتا تھا۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
ماضی:-
جہانگیر خان جو بلا کے ضدی تھی انھوں نے رقیہ گل کے ساتھ کورٹ میرج کی اور اسکا اعلان کیا۔
جب دونوں قبیلوں کو پتہ چلا تو رقیہ گل کے قبیلے نے ان سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا۔
یوسفزئی قبیلہ بھی غصے میں تھا لیکن داجی نے سب کو روکا اور جہانگیر خان کو حویلی میں پناہ دے دی۔
داجی کو اس سب کے بعد ہارٹ اٹیک ہوا جس کی وجہ سے وہ انتقال کر گئے۔
اس سب کے بعد زرینہ گل کے دل میں نفرت کا بیج اگا تھا کیونکہ جہانگیر خان نے انکی بہن کو رد کر کے رقیہ گل سے شادی کی تھی۔
وہ بدلے کی آگ میں جل رہیں تھیں انھیں موقع کی تلاش تھی اور قدرت نے انھیں چند سالوں بعد موقع بھی فراہم کر دیا۔
جہانداد خان تین ماہ کے لئے لندن گئے تو زرینہ گل نے بدلہ لینا شروع کیا اور یہیں سے رقیہ گل کی زندگی بھونچال کی زد میں آ گئی تھی۔
حال:-
"امی امی کدھر گم ہیں؟" مہمل نے رقیہ بیگم کا کندھا ہلایا تو وہ ماضی نکل کر حال میں آئیں۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
جاری ہے

Stay tuned!

انتقامِ وفا (مکمل) Where stories live. Discover now