قسط ٧

740 79 108
                                    


انتقامِ وفا
بقلم
سحر قادر

####EPISODE 7####

"کیا سوچ رہی ہو اسوہ؟" میر نے اسوہ سے پوچھا  جو سوچوں کے گرداب میں اس قدر الجھی ہوئی تھی کہ اسے میر کے آنے کی خبر تک نہ ہوئی۔
"کچھ نہیں لالہ آپ کب آئے؟"  اسوہ چونکی تھی۔
"بس ابھی تھوڑی دیر پہلے آیا تو دیکھا میری بہنا گہری سوچوں میں گم ہے۔" میر نے مسکراتے ہوئے کہا اور اسکے سامنے بیٹھ گیا۔
"لالہ یہی گہری الجھی سوچیں میرا مقدر ہیں۔" اسوہ نے پھیکی مسکراہٹ چہرے پر سجاتے ہوئے کہا ۔
"اسوہ ایسی باتیں کیوں کرتی ہو مجھے اپنی شوخ سی چنچل سی اسوہ واپس چاہیے کہاں گم کر دیا ہے تم نے اسے۔" میر اسکی بات پر تڑپ اٹھا تھا۔
"لالہ وہ اسوہ تو اسی دن مر گئی تھی جب....." اسوہ نے کچھ کہنا چاہا مگر ایک دن سے اسکی خوبصورت غزالی آنکھیں چھلک گئیں۔
"لالہ کی جان ایسے نہ کرو ہم سبکو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ بھول جاؤ سب کچھ اور اب تم میرے ساتھ کراچی چلو گی۔"  میر نے اسے ساتھ لگاتے ہوئے کہا۔
"نہیں لالہ مجھے یہیں رہنا ہے۔" اسوہ نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا اور پھر وہ میر کے ساتھ لگی روتی رہی۔
پچھلے چند سالوں سے ایسے ہی ہوتا تھا وہ میر کی لاڈلی بہن تھی۔ میر کو سامنے دیکھ کر وہ خود پر قابو نہیں رکھ پاتی تھی جبکہ میر کو اس سب سے بہت تکلیف ہوتی تھی
وہ اسے کراچی اپنے ساتھ لے جانا چاہتا تھا مگر وہ مانتی نہیں تھی۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
"داؤد لالہ!" عمیر نے داؤد کے آفس کے باہر کھڑے ہو کر کہا۔
"ارے عمیر تم اندر آؤ نا۔" داؤد اٹھا اور اسکے گلے لگا۔
"کس کو سوچ رہے تھے لالہ اور غصہ کیوں ہے؟" عمیر نے شرارت سے پوچھا کیونکہ جب وہ آیا تھا تو داؤد کے ماتھے کی شکنیں واضح تھیں۔
"ارے کوئی غصہ نہیں بس ایسے ہی کاروباری الجھن تھی۔" مشوانی نے اسے ٹالا تھا۔
"رہنے دیں کاروباری الجھن آپ کو اس طرح کبھی نہیں الجھا سکتی۔ میں جانتا ہوں آپ کو آپ اور میر لالہ بہت کم الجھتے ہیں۔" عمیر نے منہ بنا کر کہا۔
"شرم کرو چھ سال بڑے بندے کو جھوٹا ثابت کرنا چاہتے ہو۔" مشوانی نے اسے لتاڑا۔
" ایک آپ اور میر  لالہ ہر وقت چھ سال بڑے ہونے کا رعب ہی جماتے رہیے گا۔" عمیر نے اسکی بات ہواؤں میں اڑائی تھی۔
"چلو باتیں کم پڑھائی زیادہ کل سے تم نے میڈیکل کالج جانا ہے۔" مشوانی نے کہا اور پھر وہ لوگ باتیں کرنے لگے۔
- - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - -
"نور!" نور کو اپنے پیچھے سے آواز سنائی دی جسکو سن کر وہ پلٹی تھی۔
" تمممم؟" سامنے والے کو دیکھ کر نور کی آنکھیں کھلی رہ گئی تھیں۔
"کیوں اپنی آنکھیں باہر نکالنی ہیں۔" اس نے مسکرا کر کہا جو بلیک ہڈی پہنے کھڑا تھا۔
"تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ شاہ نے دیکھ لیا تو مصیبت ہو جائے گی۔"
"شاہ؟ یا پھر ڈاکٹر شاہ؟" اگلے کے لہجے میں کاٹ تھی ۔
آ" یک ہی بات ہے شاہ کہوں یا پھر ڈاکٹر شاہ!" نور نے اسے جواب دیا جس پر وہ طنز کرتے ہوئے بولا۔
" نہیں ایک بات نہیں ہے۔ڈاکٹر شاہ سے شاہ کا سفر ایک طویل داستان کا نام ہے۔"
" تم ہمیشہ ایک الگ نرالی منطق لاتے ہو۔ ایسا کچھ نہیں ہے اور جاؤ یہاں سے۔ ڈاکٹر شاہ نے دیکھا تو برا ہوگا۔" نور نے تنگ آ کر کہا۔
"چلتا ہوں میں لیکن یاد رکھنا تمہاری آنکھوں سے میں ہر بات پڑھ کر سنا سکتا ہوں۔" اسنے کہا اور پھر وہاں سے چل دیا اور وہ اسے دیکھ رہی تھی کہ ایک دم پیچھے سے آتی آواز سن کر کرنٹ کھا کر پلٹی تھی۔
- - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - -
"مہمل کیسے لگے لڑکے والے؟" رقیہ بیگم نے اس سے پوچھا جو اپنے ہاتھ میں موجود ان لوگوں کی پہنائی ہوئی انگوٹھی کو گھمائے جا رہی تھی۔
"ٹھیک ہیں۔" مہمل نے مختصر جواب دیا۔
"کیا مطلب ٹھیک ہیں؟ کیا کوئی الجھن ہے تمہیں؟" رقیہ بیگم نے اسکی غائب دماغی دیکھتے ہوئے کہا اور وہ انھیں دیکھ کر رہ گئی کیونکہ وہ ہمیشہ اسکی الجھن محسوس کرتی تھیں۔
"امی مجھے بہت حیرت ہے اور الجھن سی بھی محسوس ہو رہی ہے۔" مہمل نے شام کے اداس منظر کو دیکھتے ہوئے کہا۔
"الجھنوں میں خود کو الجھانے سے تو یہ الجھنیں  نہیں سلجھتیں۔" رقیہ بیگم نے اسکے روشن چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔
"مگر یہ الجھن ایسی ہے جس میں خودبخود میں الجھتی جا رہی ہوں۔" مہمل نے انکو دیکھا تو وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگیں۔
"امی آخر ایسی کیا بات ہے کہ حماد لغاری کا رشتہ آیا ہے۔ اتنا بڑا سیاسی خاندان جہاں شادیاں بھی سیاسی نفع و نقصان دیکھ کر کی جاتی ہیں۔ اس خاندان سے یوں رشتہ آنا اچنبھے کی بات ہے۔" مہمل نے بتایا۔
" ارے بیٹا یہ تو اللہ کی رحمت ہے اور دوسرا میری بیٹی جیسی لڑکی تو انھیں پوری دنیا میں بھی نہیں ملنی تھی۔" رقیہ بیگم نے اسکا ماتھا چومتے ہوئے کہا تو وہ مسکرا کر رہ گئی کہ اسکی ماں کتنی بھولی ہے۔
"امی مگر کچھ تو ہے جو یہ سب ہو رہا ہے۔" مہمل نے انھیں کہا اور اٹھ کر اندر جہانگیر خان کے کمرے میں چلی گئی۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - - -
"حماد یار کیا بنا پھر تمہارا؟" حماد کے دوستوں نے پوچھا تو وہ ہنس کر بولا "حماد لغاری کو آج تک کبھی انکار سننا پڑا ہے جو اب سنتا؟"
"یہ تو ہے! تم تو شہزادے ہو تمہیں کوئی انکار کیوں کرتا؟" اسکے ایک دوست علی نے کہا تو وہ ہنسا تھا۔
"ویسے ہے کون وہ جس کے گھر حماد لغاری کی نظر پڑ گئی۔ ورنہ تو یہ صاحب دور ہی رہتے ہیں سب چیزوں سے۔" اسکے دوسرے دوست اسفر نے کہا جو کل ہی لندن سے آیا تھا اور کچھ زیادہ نہیں جانتا تھا۔
"ارے یوسفزئی خاندان پہ نظر ڈالی ہے۔" اس نے پہلے دوست علی نے کہا۔
"کیا ایسے کیسے ہو سکتا ہے؟ حماد انکل کے مقابلے میں  ہر بار جہانداد خان یوسفزئی ہوتا اور تم یوسفزئی خاندان میں ہی؟" اسکے دوست اسفر نے حیرانی سے اسے دیکھا۔
"ایسا کچھ نہیں وہ یوسفزئی خاندان سے انتقام لینا چاہتی ہے اور میں اس کی مدد کرنا چاہتا ہوں۔ آسان سی بات ہے سمجھ آنی چاہیے تمہیں۔" حماد نے اسے بتایا تو وہ سوچ میں پڑ گیا۔
"مگر ایک بات بتا دوں میری اطلاع کے مطابق مشوانی گروپ آف انڈسٹریز میں اس لڑکی کا آنا جانا ہے اور تمہیں معلوم ہے نا کہ شاہ کا دوست ہے مشوانی کا۔ یعنی اس لڑکی کا شاہ سے کوئی نا کوئی تعلق تو ہے۔" اسکے دوست نے اسے تازہ اطلاع دی تو وہ چونکا تھا۔
"کون مشوانی؟ کہیں داؤد مشوانی کج بات تو نہیں کر رہے؟" حماد نے پوچھا۔
" ہاں اسی کی بات کر رہا ہوں۔" اسکے اطلاع دینے والے دوست نے کہا۔
"مگر اسکا داؤد مشوانی سے کیا تعلق ہے؟" حماد الجھا تھا۔
" اگر ایسا ہے تو بہت برا ہے کیونکہ داؤد مشوانی سے ٹکرانا آسان نہیں اور وہ کبھی بھی کوئی ایسی چیز نہیں ہونے دیگا جو شاہ کی مرضی یا مفاد کے خلاف ہو۔" اسفر نے پریشانی سے کہا تو حماد سوچ میں پڑ گیا کیونکہ مہمل نے اسے نہیں بتایا تھا کہ اسکا مشوانی سے کوئی تعلق ہے۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - - -
مہمل کے فون پر میسج کی بیپ بجی تھی۔
مہمل نے دیکھا تو داؤد کا میسج تھا جس میں لکھا تھا۔ "کیا ہم سب بھول نہیں سکتے۔ میں اس دن کیلئے معذرت چاہتا ہوں تم سے۔"
مہمل نے میسج دیکھا اور پھر اسے لکھا "بھول جاؤ مجھے میں اب تم سے بات نہیں کروں گی۔ تم شاہ کی چمچہ گیری کرو۔"
مہمل کے میسج کے تھوڑی ہی دیر بعد میسج آیا۔
"ایسا ممکن نہیں ہے اور جو وہ حماد چاہتا وہ بھی میں ہونے نہیں دونگا۔"
مہمل اسکا میسج دیکھ کر لمبی سانس بھر کر رہ گئی تھی۔
تھوڑی ہی دیر بعد دوبارہ میسج آیا جو کہ وائس میسج تھا
مہمل نے سنا تو اس میں داؤد نے اپنی آواز میں ایک نظم بھیجی تھی

چلو اب ایسا کرتے ہیں...
محبت پھر سے کرتے ہیں
گریباں چاک کرتے ہیں....
شکستہ آرزوؤں کو،،،،،،،
سپردِخاک کرتے ہیں!!!!!!!
دلِ رنجیدہ کو پھر سے
دلِ شاد کرتے ہیں!!!!!
نئی امیدیں پھر سے
اس میں آباد کرتے ہیں
چلو یہ مان لیتے ہیں کہ
پانچوں انگلیاں...
ہوتی نہیں ایک ساتھ
مگر یہ بات بھی سچ ہے
تمھیں کیسے بھلائیں گے
تمہاری یاد کو دل سے
کیسے مٹائیں گے؟؟؟؟؟؟
چلو پھر ایسا کرتے ہیں
محبت پھر سے کرتے ہیں
اور تمھیں سے کرتے ہیں
                                    (سائرہ بانو)

مہمل نے آگے سے اسے لکھا تھا۔
"یہ محبت میرے نصیب میں نہیں لکھی ہے اس لئے تم اب اسکو  دفن کر دو تو بہتر ہوگا تمہارے لئے۔"
- - - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - - -
"السلام علیکم!" آنکھوں پر کالا چشمہ چڑھائے پاؤں میں ہمیشہ کی طرح چارسدہ چپل پہنے نیوی بلیو شلوار قمیض زیب تن کئے ہوئے وہ حماد لغاری کے سامنے آ بیٹھا تھا جو شہر کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں لنچ کر رہا تھا۔
"وعلیکم السلام! آپ کی تعریف؟" حماد نے پوچھا۔
"مجھے داؤد مشوانی کہتے ہیں۔" داؤد نے چشمہ اتار کر ٹیبل پر رکھا تھا۔
"آپ کو مجھ سے کیا کام ہے۔" حماد کے ماتھے پر شکنیں آئیں تھیں۔
- - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - -
جاری ہے!!!!

Stay tuned!!

انتقامِ وفا (مکمل) Where stories live. Discover now