قسط ٨

729 85 135
                                    


انتقامِ وفا
بقلم
سحر قادر

####EPISODE 8####

نور پلٹی تو شاہ اسکے سامنے کھڑا تھا۔
"ڈاکٹر نور کیا کر رہی ہیں آپ یہاں۔ جائیں جا کر وارڈ کا راؤنڈ لگائیں۔" شاہ نے اسکے چہرے کو دیکھا جہاں ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔
"ج... جی.. میں جاتی... ہوں۔" نور نے بمشکل چہرے پر مسکراہٹ لائی اور مڑ کر دیکھا کہ وہ چلا گیا یا نہیں۔
"نور آپ ٹھیک ہیں؟" شاہ الجھا تھا۔
"جی میں ٹھیک ہوں۔" ڈاکٹر نور نے اسے کہا۔
"لگ تو نہیں رہیں خیر وہ کون تھا جس سے آپ باتیں کر رہی تھیں۔" شاہ نے سرسری سے لہجے میں پوچھا جبکہ نور کا سانس وہیں اٹک گیا تھا۔
"آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟" نور نے گڑبڑا کر کہا۔
"نور کیا ہو گیا ہے؟ میں نے ویسے ہی پوچھ لیا تھا۔ آپ نے نہیں بتانا تو نہ بتائیں مگر اس میں پریشان ہونے والی کوئی بات نہیں ہے۔" شاہ نے اسے کہا تو وہ فوراً بولی "نہیں میں پریشان نہیں ہوں۔" اور وہاں سے چلی گئی۔
- - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - -
"مجھے آپ سے کوئی خاص کام تو نہیں ہے۔" مشوانی نے اسے چبھتی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
"پھر یہاں آنے کا مقصد بتا سکتے ہیں آپ؟" حماد نے بھی اسی کے لہجے میں کہا کیونکہ اسے مشوانی کا آنا کچھ زیادہ اچھا نہیں لگا تھا۔
"مقصد بتانا ضروری ہے کیا؟" مشوانی نے تیکھے لہجے میں سوال کیا تو وہ بولا" اگر بتانا نہیں تو پھر آنا نہیں چاہیے تھا۔"
"چلو بتا دیتا ہوں میر یوسفزئی المعروف ڈاکٹر شاہ تم سے ملنا چاہتا ہے۔ اگر کل خود آ جاؤ تم میرے آفس تو ٹھیک ورنہ ہمیں خاص بندے بھیجنے پڑیں گے بلانے کیلئے۔" مشوانی کا انداز بلکل سرد تھا
"یہ دھمکی ہے کیا؟" حماد نے ابرو اٹھایا۔
" ارے نہیں حماد لغاری میں بھلا آپ کو کیوں دھمکی دونگا۔ چلیں اب چلتا ہوں کل آ جائیے گا آپ۔" مشوانی نے کہا اور پھر ہاتھ آگے بڑھایا جسے حماد تھامنے لگا تو مشوانی نے فوراً پیچھے کھینچ لیا اور مسکرا کر بولا "پھر ملتے ہیں مسٹر۔" اور چشمہ چڑھاتا وہاں سے چلا گیا۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - - -
عمیر کا آج میڈیکل کالج میں پہلا دن تھا۔
صبح ہی میر بھی کراچی پہنچ گیا تھا۔
مہمل آج میڈیکل کالج جانے کے موڈ میں نہیں تھی۔ کیونکہ اسے حماد کے ساتھ اپنی منگنی کی شاپنگ کرنی تھی جو کہ اتوار کی رات کو تھی۔
"ہیلو حماد کیا ہوا ہے؟ منہ کیوں بنا ہوا ہے تمہارا؟" مہمل نے حماد سے پوچھا اور اسکے سامنے بیٹھ گئی۔ ٹھیک اسی جگہ جہاں مشوانی بیٹھا تھا۔
"کچھ نہیں بس ایک فضول انسان مل گیا تھا۔" حماد نے موڈ ٹھیک کرتے ہوئے کہا۔
"ہممم!" مہمل نے جواب دیا۔
"مہمل ایک بات پوچھوں۔" حماد نے محتاط ہوکر کہا
ہاں پوچھو مہمل الجھی تھی۔
"تم نے بتایا تمہیں یوسفزئی خاندان سے بدلہ لینا کیوں کہ وہ تمہارے ابو کی اس حالت کے ذمہ دار ہیں اور تمہارے خاندان کی بربادی کے بھی۔ لیکن آخر ایسی کیا وجہ تھی جو وہ تم لوگوں کے خلاف گئے اور تم کیوں مشوانی سے ملنے جاتی ہو۔"
حماد نے اس سے پوچھا تو مہمل کا چہرہ زرد پڑ گیا۔
"کیا یہ سب بتانا ضروری ہے؟" مہمل نے گھبرا کر کہا۔
" ہاں میں چاہتا ہوں کہ رشتہ ہونے سے پہلے سب بتا دو تم مجھے۔" حماد نے اس کو کہا۔
"مگر میں اس معاملے پر بات نہیں کرنا چاہتی۔" مہمل نے کہا اور پھر بیگ اٹھا کر ہوٹل سے باہر نکل آئی کیونکہ مزید اب وہ اسکے ساتھ نہیں بیٹھ سکتی تھی۔
- - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - -
"کیسا گزرا تمہارا دن؟"  شاہ نے عمیر سے پوچھا۔
"بہت اچھا گزرا ہے میں دو دن لیٹ ہوں ویسے۔" عمیر نے شاہ یعنی میر یوسفزئی کو کہا۔
"اچھا اور سناؤ دوست بنے کہ نہیں۔" شاہ نے پوچھا
"نہیں آج تو نہیں بنے۔ ویسے دو دن میں ہی ایک لڑکی نے سب پروفیسرز کو متاثر کیا ہے. آج وہ نہیں آئی تو سب پوچھ رہے تھے اسکا۔ مجھے بہت حیرانی ہوئی کہ ایسا کیا ہے اس میں لیکن واقعی میں اسکا تعلیمی ریکارڈ شاندار ہے۔" عمیر نے پرجوش انداز میں کہا۔
" کون ہے وہ اور کیا ریکارڈ ہے؟" اس کا شاہ نے ٹی وی آن کرتے ہوئے کہا۔
"لالہ وہ میٹرک اور انٹر میں فیڈرل بورڈ کی ٹاپر ہے اسکے علاوہ کئی سرٹیفکیٹس ہیں اسکے پاس۔ باقی آج تو وہ آئی نہیں اس لئے زیادہ نہیں معلوم۔ لیکن مہمل خان نام ہے۔" اسکا عمیر نے شاہ کے سر پر بم پھوڑا تھا۔
" کیا؟؟ مہمل خان ؟" شاہ چونکا تھا۔
"لالہ آپ جانتے ہیں اسے؟" عمیر نے متجسس ہو کر پوچھا۔
" نہیں نام سنا ہے لیکن تم اس سے دور رہنا۔" شاہ نے اسے نصیحت کی۔
" لیکن کیوں لالہ؟ کیا مسئلہ ہے؟" عمیر نے پوچھا۔
" بس وہ لڑکی کردار میں اچھی نہیں ہے۔" شاہ نے آج پہلی بار کسی کی بیٹی کے بارے میں ایسا کہا تھا۔
اسے شرمندگی بھی ہو رہی تھی لیکن وہ عمیر کو ماضی بتانا نہیں چاہتا تھا اور اسے مہمل سے دور بھی رکھنا تھا۔
"لالہ پلیز وہ ایسی ویسی لڑکی نہیں ہے اسکے بارے میں سب اچھا بتاتے ہیں۔"
عمیر نے شاہ کی بات کی نفی کی تو شاہ پلٹا اور بولا "عمیر تمہیں میری ایک بار کہی ہوئی بات سمجھ نہیں آتی اور تم تو ایک سنجیدہ طبیعت کے انسان ہو تو پھر آج کیوں اتنے خوش ہو رہے ہو۔ اپنے کام سے کام رکھنا ہے تمہیں! سمجھے؟" شاہ نے اسے اچھی خاصی سنائیں تھیں۔
" جی لالہ!" عمیر نے کہا اور اٹھ کر باہر چلا گیا۔
- - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - -
مہمل رکشے کے انتظار میں کھڑی تھی کہ اسکے سامنے مشوانی کی گاڑی رکی اور اسکے ماتھے پر بل پڑے تھے کیونکہ یہ مشوانی کی پرانی عادت تھی۔
جب سے مشوانی کراچی میں آیا تھا تب سے وہ اسکی ہر خبر رکھتا تھا۔
"تم آج پھر پیچھا کر رہے ہو میرا؟" مہمل نے غصے سے کہا جس پر وہ مسکراتا گاڑی کا دروازہ کھول کر بولا۔
"بیٹھو پھر بتاتا ہوں۔"
مہمل بیٹھی تو وہ بولا "نہیں آج تو تمہارے اس نام نہاد منگیتر سے ملنے آیا تھا۔ اور تم بھی یہیں آ گئی تو بس ملاقات ہو گئی۔"
"رہنے دو جانتی ہوں تمہیں اور تم ہی ہو اسکا مطلب جو حماد کو بھڑکا کر آئے ہو۔" مہمل نے اس سے پوچھا۔
"ارے وہ بھڑک گیا؟ حیرانی کی بات ہے کسی کی باتوں میں آ کر وہ تم پر بھڑک گیا۔ نکما انسان!" مشوانی نے افسوس کرتے ہوئے کہا۔
"بکواس بند کرو کیا کہا ہے تم نے اسے؟" مہمل نے اس سے پوچھا۔
" کچھ نہیں بس بتایا ہے کہ شاہ اس سے ملنا چاہتا ہے۔ شاہ کو تو جانتی ہو نا وہی ہے نا میر یوسفزئی تمہارا.........." مشوانی مسکرا کر بولا تو مہمل تپ کر بولی تھی
"کچھ نہیں ہے وہ میرا اور تم حماد سے دور رہو تو بہتر ہوگا۔ حسد کا شکار مت ہو تم۔"
کیا؟؟ کیا کہا؟ حسد؟؟ اور بھی مجھے ہوگا بھلا بتاؤ تو کس سے ہوگا مجھے حسد؟ مشوانی نے مذاق اڑاتے لہجے میں کہا۔
" حماد سے حسد ہے تمہیں۔" مہمل نے جواب دیا تھا۔ جس پر مشوانی کا قہقہہ گونجا تھا لیکن جیسے اس نے گاڑی کی سپیڈ بڑھائی تھی اس سے یہ صاف ظاہر تھا کہ اسے غصہ آ رہا ہے لیکن وہ مہمل پر اپنا غصہ کبھی بھی نہیں نکال سکتا تھا۔
"بھلا کس چیز کی کمی ہے میرے پاس اس سے زیادہ ہینڈسم ہوں، پیسہ ہے، طاقت ہے، قبیلے کے سردار کا بیٹا ہوں۔ ہر چیز ہے میرے پاس تو تم بتاؤ ایسے میں مجھے اس سے حسد کیوں ہوگا ہے کیا ایسا اسکے پاس جو میرے پاس نہیں؟ کچھ ایسا جو مجھے اس سے حسد پر مجبور کرے۔" مشوانی نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
" کیا خاص چیز ہے اسکے پاس یہ جاننا ہے نا تمہیں۔ تو سنو اسکے پاس مہمل خان ہے۔" مہمل نے زہر خند لہجے میں کہا لیکن اس بات کو سنتے ہی مشوانی نے فوراً بریک لگائی تھی جس پر مہمل کا سر سیدھا ڈیش بورڈ سے ٹکرایا تھا اور خون کی ایک لکیر اسکے ماتھے سے نکلی تھی جبکہ مشوانی اپنی جگہ پر ساکت بیٹھا تھا۔
پیچھے موجود گارڈز کی گاڑی بھی انہی گاڑی سے ٹکرائی تھی۔
"تم دیکھ کر نہیں چلا سکتے اگر چلانا نہیں آتی تو پھر کیوں چلاتے ہو۔" مہمل نے اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا جس سے خون بہہ رہا تھا۔
"اوہ مہمل تمہارا خون بہہ رہا ہے۔" مشوانی کو ایک دم جیسے ہوش آیا تھا اس نے فوراً گاڑی سٹارٹ کی اور ہسپتال لے گیا اور مہمل کی بینڈیج کروا کر اسے گھر چھوڑا۔
- - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - -
"شاہ میں انتہائی بدتمیز انسان ہوں۔" مشوانی نے اس سے کہا۔
فون کی دوسری طرف سے شاہ بولا "چل تو نے آج مان لیا اور یقینا یہ مہمل نے منوایا ہوگا تجھ سے۔"
"ہاں اسی نے منوایا ہے۔" مشوانی نے سگریٹ سلگاتے ہوئے کہا۔
"کیا ہوا ہے تو ٹھیک ہے نا۔" شاہ نے اسکے غیر معمولی لہجے کو محسوس کرتے ہوئے کہا۔
" منہیں یار کچھ ٹھیک نہیں ہے اتوار کو اسکی منگنی ہے اور نکاح بھی ہو جائے گا۔ مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا۔ میرا دل کر رہا ہے آگ لگا دوں میں دنیا کو۔" مشوانی غصے سے چیخا تھا۔
"یار سنبھالو خود کو میں آتا ہوں دیکھ لیں گے نا اس حماد کو پریشان نہ ہو۔" شاہ نے اسے کہا اور گاڑی کی طرف بھاگا تھا۔
" شاہ اس نے بھی آج مجھے کہہ دیا کہ میرے پاس مہمل خان نہیں ہے یہی کمی ہے میرے پاس اور تو جانتا ہے کہ ساری کمیاں برداشت ہیں مجھے مگر یہ گھاٹا مجھے منظور نہیں۔" مشوانی نے کہا اور فون دیوار پر مارا تھا۔
اس وقت وہ غصے میں تھا اسکی آنکھیں لال ہو رہیں تھیں۔
کوئی پندرہواں سگریٹ اس نے لگایا تھا جسے وہ اپنی ہتھیلی پر رگڑ رہا تھا۔ اسے اس وقت ہاتھ کے جلنے کا بھی احساس نہیں تھا۔
- - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - -
جاری ہے!!!!

Stay tuned!!!

انتقامِ وفا (مکمل) Where stories live. Discover now