قسط ٣

884 80 116
                                    

انتقامِ وفا
بقلم
سحر قادر

#####EPISODE 3#####

داؤد مشوانی اس وقت اپنے فارم ہاؤس پر موجود تھا۔
کالی شلوار قمیض زیب تن کئے ہوئے وہ ایک شہزادہ لگ رہا تھا۔
بالوں کو نفاست سے سیٹ کیا گیا تھا جبکہ پاؤں میں چارسدہ چپل پہنی ہوئی تھی۔
"عبدالکریم لالہ!" داؤد نے اپنے وفادار ملازم کو آواز لگائی۔
"جی داؤد لالہ!" عبدالکریم نے کہا،
"هغه هلکان زما مخې ته راوړه! (ان لڑکوں کو ذرا میرے سامنے لاؤ)" داؤد نے کہا۔
"زه به دوی لالا راوړم۔ (میں انھیں لاتا ہوں لالا)" عبدالکریم نے کہا۔
عبدالکریم ان چاروں لڑکوں کو لے کر داؤد کے سامنے آیا تو داؤد نے اسے وہاں سے جانے کا اشارہ کیا۔ وہ خود انکے سامنے کرسی پر بیٹھ گیا اور ٹانگ پر ٹانگ چڑھا لی۔
وہ مسلسل انھیں دیکھے جا رہا تھا جبکہ ان لڑکوں کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ان کے ساتھ کیا ہوگا۔
وہ بلاشبہ بہت خوبصورت تھا۔ لیکن اس وقت اسکی دہشت سے وہ لڑکے کانپ رہے تھے۔ اسکی آنکھوں میں عجیب تاثر تھا۔
"کیا کر رہے تھے تم لوگ وہاں؟" داؤد نے سختی سے آگے ہوتے ہوئے پوچھا۔
"ک..... ککچھ... ن.. نہیں!" ایک لڑکے نے تھوک نگلتے ہوئے کہا۔
"وہ لڑکی کیا پاگل تھی جو ایسے ہی الجھ رہی تھی۔ جلدی بکواس کرو کیا کر رہے تھے تم وہاں؟" اب کی بار داؤد نے اونچی آواز میں کہا تھا۔
"دیکھیں ہمیں چھوڑ دیں اس لڑکی کی تو عادت ہے راہ چلتے........." اس لڑکے کے الفاظ ابھی اسکے منہ میں تھے کہ داؤد مشوانی کا ہاتھ اٹھا اور اس لڑکے کے چہرے پر نشان چھوڑ کر گیا۔
داؤد نے  اس لڑکے کا چہرہ دبوچا اور بولا "بیٹا تمہاری بھی بہن ہے۔ اگر کوئی فضول بکواس کی نہ تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔" یہ کہتے ساتھ ہی داؤد نے اسکے منہ پر مکا مارا تھا اور پھر وہ چلایا تھا۔
"عبدالکریم عبدالکریم!!!"
"جی داؤد لالہ!" عبدالکریم سر نیچے کر کے اسکے سامنے آیا۔
"د عسکرو څخه دلته راځي (لے جاؤ ان کو یہاں سے)" اس نے کہا تھا۔ غصے سے اس وقت اسکی آنکھیں لال ہو رہیں تھیں اور کنپٹی کی رگیں تنی ہوئیں تھیں۔
عبدالکریم ان کو وہاں سے لے جانے لگا تو وہ بولا تھا۔
" عبدالکریم ان کا وہ حال کرو کہ آئندہ یہ مجھے دیکھ کے ہی تھر تھر کانپیں۔"
عبدالکریم اسکی بات پر سر ہلاتا چلا گیا تھا جبکہ وہ شدید غصے کے عالم میں اِدھر اُدھر چکر کاٹ رہا تھا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اس وقت کسی کا سر پھاڑ دے۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - - -
" ڈاکٹر نور ابھی تک ہسپتال نہیں آئیں،نور انتہائی غیر ذمہ دار ہیں۔  ڈاکٹر شاہ آپ ان سے غفلت کی وجہ پوچھیں۔"
ڈاکٹر ماریہ نے شاہ سے کہا تو اسنے چونک کر انھیں دیکھا تھا۔
"جی ڈاکٹر ماریہ آپ نے کچھ کہا؟" شاہ نے پوچھا۔
"میں کہہ رہی ہوں کہ ڈاکٹر نور آج پھر دیر سے آنے والوں میں شامل ہیں۔ آپ ان سے اس بابت کوئی سوال تو کریں۔" ماریہ نے کہا تو وہ بولا
"آپ جائیں اور جب وہ آئیں تو انھیں میرے آفس میں بھیجئے گا۔"
ڈاکٹر ماریہ نے ڈاکٹر نور کے آنے پر اسے شاہ کے آفس بھیجا تو وہ آفس کے اندر جا کر بیٹھ گئی۔
" آپ صاف صاف بتائیں آپ کیا چاہتی ہیں نور؟" شاہ نے دونوں ہاتھ سامنے میز پر رکھتے ہوئے اس سے پوچھا۔
"کیا؟" نور نے ابرو اچکائے تھے۔
   وہ اسے دیکھتی ہوئی بولی تھی" میں نے کیا کیا ہے اب؟ آپ کو میرے علاوہ اور کوئی کام نہیں کیا؟ م"
"آپ کام کرنے کہاں دے رہی ہیں؟ آپ روزانہ دیر سے آتی ہیں اور آپ کی وجہ سے یہاں کا نظم و ضبط خراب ہو رہا ہے۔" شاہ نے دانت پیستے ہوئے اسے کہا تھا۔
نور کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ ابھری تھی نور نے اسے جواب دیتے ہوئے کہا" کل میری غفلت تھی۔ میں مانتی ہوں مگر آج سڑک پر حادثہ ہوا تھا اور زخمی کو یہاں لانے میں مجھے دیر ہو گئی اور میرے خیال سے ایک ڈاکٹر کا فرض جان بچانا ہے نہ کہ کہیں پر جلدی پہنچنا۔"
"نور میرا یہ مطلب نہیں تھا میں کچھ اور کہنا چاہ رہا تھا خیر معذرت اگر آپ کو برا لگا۔" شاہ نے شاید زندگی میں پہلی بار کسی سے معذرت کی تھی۔
" کوئی بات نہیں ڈاکٹر شاہ!"
نور نے ڈاکٹر شاہ پر زور دے کر کیا اور باہر جانے لگی جب پیچھے سے اسے آواز آئی تھی کہ" بیڈ نمبر پانچ کی مریضہ کی فائل کے کر آئیں میرے پاس۔" جس پر وہ اسے گھورتی وہاں سے جا چکی تھی۔
جبکہ شاہ سر جھٹک کر ایک مریض کے ایکسرے دیکھنے لگا۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
"رقیہ باہر آؤ!" ایک عورت مہمل کے گھر میں واویلا مچا رہی تھی۔
" کیا ہوا ہے خالہ کیا بات ہے؟" مہمل نے باہر آتے ہوئے کہا۔
"ارے رہنے دو خالہ تم جیسی لڑکیوں کی خالہ نہیں ہوں میں۔" اس عورت نے ڈھٹائی سے کہا۔
"یہ آپ کس لہجے میں بات کر رہی ہیں؟" مہمل کے ماتھے پر بل پڑے تھے۔
" کیا ہوا ہے بہن کیوں شور کر رہی ہیں؟" رقیہ بیگم نے کمرے سے باہر صحن میں آتے ہوئے کہا۔
" ارے پوچھو اپنی بیٹی سے کہ میرے بیٹے کو کیوں پٹوایا اس نے؟" اس عورت نے مہمل کی طرف اشارہ کیا۔
"میں نے کب پٹوایا؟ کسی وزیر کی بیٹی نہیں ہوں میں کہ لوگوں کو پٹواتی رہوں۔" مہمل نے طنز کرتے ہوئے کہا تھا۔
" ارے  تم وزیر کی بیٹی نہیں ہو مگر امیر لڑکوں کو پھانسا ہوا ہے تم نے، وہی تمہارے اشاروں پر ناچنے کیلئے کافی ہیں۔" اس عورت کی زبان درازیاں بڑھتی چلی جا رہیں تھیں۔
" آپ یہ کس قسم کے الفاظ استعمال کر رہی ہیں۔" رقیہ بیگم نے انکو ٹوکا تھا۔
"امی آپ اندر چلی جائیں ان سے میں بات کرتی ہوں۔ شرافت کی زبان ان کو سمجھ نہیں آتی۔" مہمل نے غصے سے کہا تھا۔
" ارے دیکھ لی اس کی لمبی زبان قینچی کی طرح چلتی ہے۔ بڑوں کا کوئی لحاظ ہی نہیں اسے۔" وہ عورت مسلسل مہمل کے خلاف بول رہی تھی۔
" بڑے اس قابل تو بنیں پہلے۔" مہمل نے اسے کہا۔
" دیکھ لو رقیہ اسکے لچھن! سنبھالو اسے نہیں تو کوئی گل کھلا دینا ہے۔ میرے بیٹے کو پٹوایا ہے اس نے ایک امیر کبیر لڑکے سے میں تو پورے محلے کو چیخ چیخ کر بتاؤں گی اس نے پتہ نہیں کس کس کے ساتھ....." اس عورت کے الفاظ ابھی منہ میں تھے کہ مہمل آگے بڑھی تھی وہ تو اسے رقیہ بیگم نے اسے روک لیا ورنہ اس نے شاید اس عورت کو چھوڑنا  نہیں تھا۔
" مہمل کیا سن رہی ہوں میں؟ کون تھا وہ؟ بتاؤ مجھے!" رقیہ بیگم نے اس سے پوچھا تو اس نے اس عورت کو دیکھا۔
اور بولی" امی ان کا آوارہ بیٹا مجھے چھیڑ رہا تھا  اور مجھ پر ہاتھ بھی اٹھایا اس نے پیچھے سے ایک گاڑی والا آیا جسے میں نہیں جانتی تھی۔ وہ اس لڑکے کو لے گیا۔ اس میں میرا کیا قصور؟ ان کے بیٹے کے کرتوت ہی ایسے ہیں۔"
"خبردار جو میرے بیٹے کے خلاف ایک لفظ بھی کہا ورنہ ...." وہ عورت انگلی اٹھا کر بولی تو مہمل اس کے سامنے جا کر کھڑی ہوئی اور بولی۔
" ورنہ کیا ہاں بولیں اب کیوں زبان تالو سے چپک گئی ہے آپ کی؟ محلے کو بتائیں گی آپ؟ یہی کہنا ہے نا آپ نے؟ تو کان کھول کر سن لیں جس کو جو بتانا ہے.بتائیں۔ مہمل خان کسی کے باپ سے بھی بھی نہیں ڈرتی۔ آپ کے بیٹے کے کرتوت سب کو بتاؤں گی میں بھی۔ لوگوں کی بیٹیوں پر بری نظر ہے اسکی گلیوں میں لڑکیوں کو روک کر ان پر ہاتھ اٹھاتا ہے، نشہ کرتا ہے۔اپنے چرسی بیٹے کو بھی بتا دیں دور رہے مجھ سے نہیں تو ہڈی پسلی ایک کر دوں گی اس کی۔"
مہمل کا چہرہ غصے سے لال ہو رہا تھا وہ آگے بڑھی اور اس عورت کو بازو سے پکڑ کر کھینچا اور اپنے گھر کے دروازے سے باہر دھکا دے دیا۔
وہ ایسے ہی تھی اگر کوئی عزت کرے تو عزت کرتی تھی، ورنہ لمحوں میں اگلے کو بے عزت کر دیتی تھی۔
اور یہاں تو بات اسکے کردار پر آ رہی تھی تو وہ کیسے خاموش رہتی۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
"شاہ صاحب کیا حال ہے آپ کا؟" داؤد اسکے سامنے کھڑا تھا۔
"تم یہاں کیا کر رہے ہو؟؟" شاہ نے لب بھینچتے ہوئے کہا تھا۔
"مجھے چھوڑیں آپ بتائیں اب تو ہسپتال میں بھی یوسفزئی ڈاکٹر ہیں۔ اتنا پیار یوسفزئی قبیلے سے ہے تمہیں، چلو خیر تمہارا بنتا ہے۔" داؤد کا اشارہ نور کی طرف تھا۔
"اسے بیچ میں مت لاؤ وہ یوسفزئی ضرور ہے مگر اس کا ہماری لڑائی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔" شاہ نے خود پر ضبط کرتے ہوئے کہا۔
"شاہ لڑکیوں کو استعمال کرنا ہمارا شیوہ نہیں ہے۔ مشوانی قبیلے کی روایات کو کبھی نہیں توڑوں گا میں۔" داؤد نے اسکی پریشانی اس بات سے دور کردی تھی۔
" کہو کیا کہنا چاہتے ہو؟؟" شاہ نے نرم پڑتے ہوئے کہا۔
"شاہ وہ وقت بھی تھا جب میں تمہارا بہترین دوست تھا۔ تمہارے لیے ہر کام کرتا تھا۔ مگر اب وقت وہ نہیں رہا لیکن پھر بھی بتانے آیا ہوں عمیر کو ناران مت جانے دینا ورنہ مہمل سے نہیں بچا سکو گے۔"
اسے داؤد نجانے کس احساس کے تحت اسے سب بتا چکا تھا۔
"داؤد تم عمیر کو ہمیشہ کیوں بچاتے ہو؟ تم نے یوسفزئی خاندان کو برباد کرنا ہے تمہاری مجھ سے دشمنی ہے۔ مگر عمیر کیلئے اتنا پیار مجھے سمجھ نہیں آتا۔" شاہ کے لہجے میں طنز کی بجائے الجھن تھی۔
" اسلئے کے مجھے آج بھی یاد ہے کہ میں نے بچپن میں عمیر کو اپنا چھوٹا بھائی مانتے ہوئے قسم کھائی تھی کہ جب تک زندہ رہوں گا اس پر آنچ نہیں آنے دونگا۔ مگر باقی یوسفزئی خاندان کو میں موقع نہیں دینے والا اس لئے کسی خوش فہمی کا شکار مت ہونا۔"
داؤد نے اسے کہا اور چلا گیا تھا۔
شاہ کی اس سے جتنی بھی دشمنی صحیح مگر شاہ یہ جانتا تھا کہ وہ عمیر کو کبھی کچھ نہیں ہونے دیگا۔
وہ واقعی عمیر کو بھائی مانتا تھا اور کبھی تو شاہ حیران ہوتا تھا کہ یوسفزئی خاندان کے دشمن بننے کے باوجود وہ عمیر کیلئے نفرت نہیں رکھتا تھا۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - - -
داؤد کو وہ فون ملا رہی تھی مگر وہ اٹھا نہیں رہا تھا۔
یہ کوئی ستائیسویں دفعہ اس نے کال ملائی تھی جو کہ اٹھا لی گئی تھی۔
"زہے نصیب آج تو بڑے لوگوں کا فون آیا ہے۔" داؤد کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔
"مشوانی صاحب کیا چاہتے ہیں آپ؟" مہمل نے چبا کر لفظ ادا کئے تو داؤد سنجیدہ ہوتے ہوئے بولا۔
"کچھ ہوا ہے مہمل؟"
"کچھ؟" مہمل ہنسی تھی۔
"تمہارے ہوتے ہوئے کچھ نہیں ہوتا بلکہ بہت کچھ ہوتا ہے اور تمہاری وجہ سے ہوتا ہے۔" مہمل نے کہا تو وہ پریشان ہوتا ہوا بولا۔
"کچھ بتاؤ تو سہی"
"کیوں مارا تم نے ان لڑکوں کو؟" مہمل نے کڑے تیوروں سے پوچھا تھا۔
"یہ میرا اور ان کا معاملہ ہے تمہیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے۔"  داؤد نے جان چھڑانے والے لہجے میں کہا۔
"ہاں تمہارا معاملہ ہے نا اسی لئے ان میں سے ایک لڑکے کی ماں میرے گھر آئی۔ میری ماں کے سامنے میرے کردار کی دھجیاں بکھیر گئی۔  کیا کیا الزام نہیں لگایا اس نے مجھ پر۔ تمہاری وجہ سے مجھے یہ سننا پڑا کہ میں لڑکے پھانستی ہوں۔" مہمل بولے جا رہی تھی اور وہ سن رہا تھا مگر اسکی آخری بات پر داؤد چیخا تھا
"مہمل قابو میں رکھو اپنی زبان!"
" میں اپنی زبان قابو کروں تو کیا ہو جائے گا؟ اس عورت نے جو کہنا تھا وہ کہہ چکی اب وقت پیچھے تو نہیں جا سکتا۔" مہمل نے اسے بہت کچھ جتایا تھا۔
" لگتا ہے ان لڑکوں کی عقل ٹھکانے نہیں آئی ورنہ کبھی وہ عورت تمہارے گھر نہ آتی۔ تم فکر نہیں کرو میں پتہ کرتا ہوں کہ کس کی ماں تھی وہ اور پھر اس لڑکے کو سبق سکھاتا ہوں۔" داؤد نے جب یہ کہا تو وہ آگ بگولہ ہو کر بولی۔
"جان چھوڑو میری خبردار جو اب تم نے کچھ کیا روز کتنی لڑکیوں کو لڑکے چھیڑتے ہیں انکی خبر لو مہمل کو احسان کی ضرورت نہیں۔"
"اچھا غصہ نہ کرو نہیں کرتا کچھ!" اسنے مہمل کو ٹھنڈا کرنا چاہا۔
"نہیں تم بتاؤ آج ایک بات؟ کیا رشتہ ہے تم سے میرا جو یوں تم میرے پیچھے پڑے ہو؟" مہمل آج سب پوچھنا چاہ رہی تھی۔
" دیکھو داؤد میں مشوانی قبیلے کی لڑکی نہیں جس کی عزت کی حفاظت تم پر فرض ہو۔ میں مہمل خان ہوں نہ کہ مہمل مشوانی! سمجھے؟ اس لئے میرا پیچھا چھوڑ دو۔" مہمل نے آہستہ آواز میں کہا تھا۔
" مہمل مشوانی قبیلے نے تو تم لوگوں کو اپنا حصہ مانا تھا نا؟" داؤد نے کہا تو وہ تپ کر بولی۔
" اگر ہم وہ حصہ بننا چاہتے تو کبھی بھی پشاور سے یہاں نا آتے۔ اس لئے اب تم یہ فضول کے کام چھوڑ دو زندگی عذاب کی ہوئی ہے تم نے میری۔"
مہمل نے کہا اور فون کاٹ دیا۔
جبکہ وہ ہمیشہ کی طرح اسکی باتیں سن کر چپ ہو چکا تھا۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
جاری ہے!!!

Stay tuned!!!

مشوانی نام کی وجہ یہ ہے کہ مشوانی ایک قبیلہ ہے جسکے لوگوں کا سرنیم مشوانی ہوتا ہے اسلئے داؤد کے نام کے ساتھ مشوانی ہے اور یوسفزئی قبیلہ تو کافی مشہور ہے 

انتقامِ وفا (مکمل) Where stories live. Discover now