10

17 3 2
                                    

صبح میں ناشتہ سب کر چکے اوسکے باد-
"عرش بھائی آپ نہ ہانی کو یونیورسٹی چھوڑ دینا مجھے کچھ کام ہے"عادل اپنی گاڑی کی چابیاں میز سے اٹھا کر بولا۔آج عادل نے سفید شرٹ اور نیلی جینز پہنی رہکی تھی-اور بلیو جیکٹ -اپنا چشمہ آج پھینا تھا۔ سب کو پتہ تھا کی کچھ ایجنسی کے کام سے جا رہا ہے۔بال بس ویسی ہائ پیشانی پر بکھرے۔بھٹ ہینڈسم لگ رہا تھا ۔دعا مانے یا نہ مانے اوسکو بھی اتنے دن ہینڈسم لگا ہی گیا تھا-وہ دو تین قدم ہی چلا جب اسے دعا کی آواز آئی-
"آنٹی میں بھی چلتی ہنو مجھے گھر کچھ کام ہے۔کچھ سماں لینا ہے۔ بابا کی کال آئی تھی وہ ابھی نہیں آ رہا ہے۔ تو مین یہاں رک سکتی ہو نا؟" بھٹ سادہ سا بولی۔
"جی بیٹا جب تک چاہو تب تک رہو تمہارا اپنا گھر ہے اور عادل کے ساتھ ہی چلی جاؤ تمکو گھر چھوڑ دے گا پھر چلا جائے گا"بڑی بیگم بولی۔
"نہیں نہیں میں چلی جاونگی"وہ عادل کی تراف ایک نظر ڈال کر بولی جو اپنی جگا پر روک تھا اوسکا پیچھے اوسکی تراف تھا-
"نہیں بیٹا عادل لے جائے گا" بڑی امّی نے بولا انکو پتا تھا عادل انکی بات پر کبھی نہ نہیں بولتا-
"امّی مین آفس--"پر بڑی امّی کی آنکھ دیکھ کر رک گئی ۔"چلے پھر" دعا سے بولا اور خدا حافظ بول کے بہار چلا گیا-
دونوں وہان سے نکل گئے اس بات سے نامعلوم کی کوئی اونکا پچھے ہے-
راہ میں دعا نے بات شورو کاری
"چشمہ بھی لگتے ہو نظر کا ہے"بینا اوسکی تراف دھیکے بولی۔
"نہیں ویسا ہی زیدا اچھا لگتا ہنو تو لگا لیا"وہ بھی عادل تھا عام سا جواب دے کر چپ ہو گیا۔
"تم سے سہی ترہا بات نہیں ہوتی" دعا نہ چڑچڑا کر پچھا۔
""نہیں" پھر واہی ٹھنڈا سا جواب پتہ نہیں کیا مسلہ تھا عادل عیسی تھا نہیں پر دعا کے ساتھ اسے کچھ ہو جاتا تھا-دعا کے گھر کے ساتھ کار روکی اور بولا۔۔
"تم اپنا سماں لے کر آؤ مین انتظار کر راہا ہنو" بینا اوسکی تراف دھیکے بولا۔وہ دائیں طرف کے کار کے آئینہ میں کسی کو دیکھ سکتا تھا۔کوئی آدمی تھا-
"جب میں آواز نہیں لگاؤ ​​گھر سے بہار نہیں آنا"عادل سنجیدہ ہو کر بولا دعا کے لیے یہ نیا تھا۔پھر عادل نی گن نکلی۔
"لیکن تم بندوق کیوں..."
"جیتنا بول رہا ہونا کرنا ہر وقت کی بحث زروری ہے جاو اندر" اب کی بار بھت گس میں بولا۔ پھلے کی اسکی واجہ سے آج دعا پھنس گئی۔ دعا اندر چلی گئی۔عادل آرام سے کار سے بہار نکلا پر وہ کچھ سوچ پتا یا کر پتا پچھے سے گولی چل گئی۔عادل نیچے ہو گیا-اندر دعا گولی کی آواز سن کر وپس بہار اتی اوسے پھلے اوسکو عادل کی بات اور اوسکا گسا۔ یاد آ گیا-بہار گولیو کی آواز تیز ہو گئی۔ پر پھر 2 منٹ بعد ختم ہو گئی ساری آواز-  پھر گھر کے دروازے پر دستک ہوا-دعا در گئی اور رونے لگی-
"دعا دروازہ کھولو میں ہوں عادل"دعا نہ بھاگ کر دروازہ کھولا۔ عادل کے ہاتھ کی ہتھیلی پر گولی لگی تھی-
"عادل کھو-خون "وہ اسکا ہاتھ دیکھ کر بولی بس پکڑ لیتی پر عادل نے ہاتھ پیچھے کر لیا-
"چلو گھر یہاں ہم محفوظ نہیں ہے"عادل اب کی بار نرمی سے بولا اسے کیا ہوا تھا اسے خود نہیں پتہ تھا-
"پر تمھارا ہاتھ تم ڈرائیو کیسے کرو گے؟" دعا نے روتے ہوئے کہا-
"کچھ نہیں ہوتا چلو گھر اور رونا بند کرو گولی لگی ہے مار نہیں گیا ہنو مین" عادل نے دعا سے کہا اور کار میں جا کر بیٹھا-
مکمل سفر ویسا ہی گُزر گیا- دعا خاموش آواز میں رو رہی تھی پر عادل کچھ نہیں بولا۔ ۔مکمل سفر میں دعا بس یہ سوچ رہی تھی کی عادل کون ہے۔ پورا ترہا انجان کی کار کے ٹرنک میں کوئی انسان بے ہوش کر کے رکھ گیا ہے۔عادل حویلی کے اندر جانے سے پھلے  بولا۔
"کسی کو بولنا نہیں میرے ساتھ کیا ہوا"
"مگر کیوں؟" دعا رونی آواز میں بولی۔ جس ترہا وہ آنسو پوچ پوچ کر بول رہی تھی عادل کو پتہ نہیں کیوں اچھا لگا رہا تھا۔
"میں جو بولو وہ کر دیا کرو ہر بات میں ساول کرنا زروری ہوتا ہے تمہارا"عادل سنجیدہ ہو کر بولا اور بینا اوسکے جواب سونے اندر چلا گیا-
وہ سدھا 5 فلور پر گیا اُدھر اُدھر ڈھیکا دروازے کا پاس ورڈ ڈالا اور اندر چلا گیا-
اندر حامد حماد اور والی کچھ بات کر رہے ہیں۔
"جس چیز کا در تھا وہ ہوا ۔ پر آپ ایسا نہیں ہونا تھا-"وہ اندر آ کر  کسی بم کی ترہا پھٹ گیا۔
"کیا ہوا ہے اور یہ گولی کہاں سے لگی" والی اٹھا اور چوٹ صاف کرنے کے لیے فرسٹ ایڈ باکس اٹھا نے چلا گیا-اونکے لیا یا عام سی بات تھی۔گولی خون زخم- ٹریننگ کے وقت نہ جانے کیا دیکھا ہوگا۔ پر آج عادل کو گولی سے زیدہ دعا کی آنکھوں کے آنسو زخم دے گئے ہیں۔
"میں گھر سے نکلا تو کوئی پچا کر رہا تھا۔دعا صرف ساتھ تھی-مجھے نہیں شام آیا کی کہاں جانا ہے تو میں دعا کے گھر ہی چلا گیا-"عادل نے ساری بات سنا دی-
"وہ آدمی کہاں ہے"حماد نے کرسی سے اٹھا کر پوچھا-
" تہہ خانے میں ہے فرقان سے بولا تھا اسکو واہن بہند دے"عادل بھٹ آرام سے بول رہا تھا وہ وہ عادل نہیں تھا جو سب کو پتا تھا کی وہ ویسی ہے ۔ پر یہ کوئی اور تھا بھٹ پریشن بھٹ کھوف میں-
"حماد بھائی دعا کا اب اپنا گھر جانا ٹھیک نہیں۔ جب تک کیس نہیں حل ہوتا وہ یہاں رہگی" وہ بینا کسی کی تراف ڈھیکے سنجیدہ ہو کر بولا۔اور حامد اور حماد بس ہاں میں سر ہلا کر چلے گئے ۔انکے جانے کے باد-
"کیا ہوا ہے اتنا پریشاں کیوں ہے؟"ولی نے پوچھا وہ اب بھی اسکا زخم صاف کر رہا تھا-
"پتہ نہیں بھائی ایک عجیب سا درد اور در ہے- کبھی ایسا نہیں ہوا-آج زندگی میں پھلی بار مینے سوچا اگر میں مار گیا تو کیا ہو گا؟میں کبھی مرنے سے نہیں دارا-کبھی زارا کے لیا بھی نہیں- میں حماد بھئی کو جانتا ہوں۔ بھائی اسکو بٹ پیار کرتے ہیں۔اور آج مینے دعا کے لیے یہ سوچا کی مین مار گیا تو کیا ہو گا؟آسکے آنسو مجھے تکلیف دیتے ہیں۔کیوں؟" اور عادل کو نہیں پتا کب آسک آنسو اپنا راستہ بنا لیا اسکی آنکھوں سے-
"کبھی کبھی انسان، ساری بات نہیں سمجھ سکتہ -کچھ چیز اللہ پر چھوڑ دینا ہوتی ہے۔بس تم اپنے آپ کو مضبوط رکھو -اللہ اپنے بندو کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑتے"-ولی عادل کے ہاتھ پر پٹی لگا چکا تھا۔اور اسکا آنسو اپنے ہاتھ سے صاف کر بولا۔
"ہمیشہ نہ واہی پرانا والا عادل راہ کر ایسے مجھے تو اچھا نہیں لگتا"ولی کی بات سن کر عادل ہنس دیا پھر وہاں سے چلا گیا-
دھیرے دھیرے دن نہ اپنا دم تھوڑ دیا اور رات نہ سانس لے لی-حویلی کی تمام لائٹ چلو ہو چکی تھی-عادل لان میں اکیلا تھا جب دعا آئی-
"کیسے ہو" اپنے پیچھے آواز سن کر عادل گھما-تھوڈا سا مسکورایا پھر بولا۔
"میں ٹھک ہنو تم کسی ہو؟"
"گولی تمکو لگی ہے مجھے نہیں میں ٹھک نہیں"دعا بھی تھوڑا مسکورا کر بولی۔
"پر مجھے جو تکلیف ہوئی ہے وہ گولی لگنے سے زیدہ تھی"عادل بلکل اسکی تراف دھیک کر بولا جو اسکی تراف نہیں دھیک رہی تھی-وہ تھی نہیں اتنی خوبصورت آم سا چہرہ تھا- کالی آنکھے۔حجاب بندھا ہوا ۔
"تم ہمیشا حجاب کرتی ہو"عادل کو خدا نہیں پتا اوسنے کیوں پوچا-
"نہیں گھر ہوتی ہنو تو نہیں کارتی دوپٹہ سے کام ہو جاتا ہے۔ کوئی گھر میں ہے ہی نہیں ایک خاتون ہے جو کہنا بناتی ہے اور گھر صاف کرتی ہے- بس مین اور بابا"اب دونوں بات کرتے کرتے واک کرنے لگے۔
"بابا کب تک آ رہا ہے"
"نہیں پتا آج کال نہیں کری انکو"
"اچا سنو اکیلی باہر نہیں جانا مجھے لے جانا میرا مطلب ہے۔مجھے یا کسی کو بھی لے جانا لیکن اکیلی نہیں جانا"
"کیوں"
"کتنا ساول کرتی ہو تم"عادل مشکورا کر بولا۔
"تم میرے سوال کا جواب بھی تو نہیں دیتے"
"نہیں بتاتا کیوں"عادل رک گیا اور اسکی تراف چہرہ کر لیا- 20 سیکنڈ کی دعا چپ راہی پھر بولی۔
"ٹھک ہے" اور چلی گئی عادل اسکو جاتا دھیک مکورا دیا پھر بھی اندر چلا گیا۔دونوں کو دھیک کر چاند بھی شرما گیا اور بادل کے پیچھے چھپ گیا-
"ڈائننگ ٹیبل پر سب کھانا کھا رہا ہے جب فلک نے عادل سے پوچھ
"عادل بھائی درد ہو رہا ہے"
"نہیں نہیں بھت مزہ آ رہا ہے" عادل بلکل مشکورا کر بولا۔
"کیا سچ میں"فلک تو فلک تھی -اُسکی بات سن کر عادل نی والی کو دھیکا اور سوچا "یہ پسند ہے آپ کو"پھر مشکورا کر فلک سے بولا۔
"تمھے ہلکا ہلکا محسوس ہوتا ہے نا"
"کیوں" فلک نی کنفیوزڈ ہو کر پکا-
""دماغ ہے نہیں وزن کس چیز کا ہوگا" عادل کی بات سن کر سب نے اپنی ہنسی روکی اور فلک بولی۔
"حامد بھائی ڈھکے یہ کیا بول رہے ہیں"
"عادل نہیں کرو" حامد بینا ڈھکے بولا۔ایک تراف حماد بار بار زارا کے گلاس سے پانی پی رہا تھا۔پھر والی نہ دیکھ لیا- اب کیا والی نے دیکھا سمجھو ساری دنیا نے دیکھا-شیریال اپنی پلیٹ چھوڑ کر عائزہ کی پلیٹ سے کھا رہا تھا۔ جب کی عائزہ نی 2 بار آسکے ہاتھ پر مارا۔اور آنکھ ڈھیکا کر مانا کارا۔پر وہ شیریال ہی کیا جو عائزہ کی بات مان لی-
"ہانی بیٹا کھنا کر روم میں آنا کچھ بات کرنی ہے" ہانیہ کی امّی بولی جس پر ہانیہ جی بول کر کھنا کھنے لگی
"لگتا ہے آج انکر ہو کر رہے گا" عادل ارسلان کے کان میں بولا۔اور ارسلان نے اس کی ٹانگ پر اتنا زور سے مارا۔کی عادل چلا دیا پر والی نے اسکا مہ کور کر دیا۔

رات کو 10 بجے.شیریال کے کمرے میں.
شیریال  نائٹ ڈریس چینج کر کے آیا تھا سفید کرتا پاجامہ پہنا تھا۔اور عائزہ اپنا بال کھولے آئینہ کے سامنے کھادی تھی -شیریال  آیا اور بیڈ پر بیٹھ گیا ۔ اوسکی نذر عائزہ کے بال پر تھی ۔ وہ بولا۔
"بیگم"پر عائزہ کچھ نہیں بولی۔شیریال پھر بولا۔ پر عائزہ کچھ نہیں بولی۔ کچھ سوچ رہی تھی-پھر شیریال اٹھا اور جا کر اسے تھوڑا سا ہلایا-
"بیگم کیا ہوا ہے کیا سوچ رہی ہو"
"ہمم کچھ نہیں"پھر اپنا کام کرنے لگی- شیریال نے اسکا ہاتھ پاکڑا اور بولا یاہان-
"بیٹھو"بیڈ پر اسے بیٹھا کر بولا۔اور خود بھی اس کے سمنے بیڈ کے نیچے بیٹھ گیا-
"اب بتاو کیا ہوا ہے آپ کو"(آپ کو🤭)
"شیری"
"جی شیری کی جان"اور پھر عائزہ سب بھول گئی۔
"بولو" شیریال اوسی ہائ بیٹھ کر اسکی تراف دیکھ رہا تھا اور جو بال عائزہ کے چہرے پر آ رہا تھا وہ اسکو آسکے کان کے پیچھے کرتا تھا- پیار سے اسکا ہاتھ پاکڈ کے بیٹھا تھا اور اپنی انگلی اوسکے ہاتھ پر چلا رہا تھا-
"آگر ہانی نی ارسلان بھائی کو منا کر دیا"عائزہ نے اپنی نظر کو نیچے کر کے بولی۔اسے نہیں پتہ وہ کیا محسوس کر رہی تھی-
"اور آپ کو ایسا کیوں لگتا ہے؟"(پھر آپ کی بات ہے شیری 🤭🤭❤️)شیریال نے اوسکے بال میں انگلی چلا کر بال پچھے کارا۔
"پتہ نہیں کیو ارسلان بھائی چپ ہوتے ہیں اور گسا بھی ہوتے ہیں -ہانی کو ان سے ڈر لگتا ہے۔پر ارسلان بھائی ویسی نہیں ہے بھت اچھے ہیں وہ" عائزہ بٹ سادہ بول رہی تھی بھت معصوم سا شیریال تھوڈا سا مشکور دیا پھر بولا۔
"ایسا کچھ نہیں ہوگا اپنے چھوٹے سے دیماگ پر زیدہ زور نا ڈالو"اور پھر اس کی پیشانی پر بوسہ کر کے بال پچھے کارا اور اسکا چہرہ اپنے دونوں ہاتھ میں لے لیا-
"چلو سنے چلے" شیریال بولا اور اپنی انگوٹھا عائزہ کے گل پر چلایا-
"رکو بال بہند کر اتی ہنو"عائزہ اٹھا کر جانے لگی تو شیریال نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا-
"نہیں بندھو پلیز"وہ بھت معصومیت سے بولا جیسی اگر بال بہند لیا عائزہ نے تو دنیا ہی رک جائے -عائزہ بھی کچھ نہیں بولی اور چپ چاپ سو گئی-

اُدھر ہانیہ اپنی امّی کے کمرے میں گی-
"جی امّی بولے"ہانیہ بیڈ پر بیٹھ گئی۔
"بیٹا تمہارے ابو سوچ راہے ہے کی تمہاری منگنی کرا دے آگر تمکو کوئی پریشانی نہیں ہو تو حامد کے نکاح والے دن تمہارے منگنی کر دے" ہانیہ کی امّی بولی۔
"پر امی میری ابھی گریجویشن بھی پوری نہیں ہوئی"
"تو کیا ہوا بیٹا بس منگنی کر راہے ہے"
"اچھا ٹھیک ہے"ہانیہ نے دکھی من بول دیا-
"پچھوگی نہیں کون ہے لڑکا"
آپ خود ہی بتا دو"
"ارسلان"
"(ایک ارسلان زندگی میں کام ہے جو اب شوہر بھی ارسلان مل رہا ہے بس انکی ترہا خداس نہ ہو)"ہانیہ نے سوچا۔
"کون ارسلان"
"ارسلان اپنا ارسلان اور کون"
"ارسلان بھائی"وہ بیڈ پر سے اٹھا کر کھادی ہو گئی۔
"ہاں تو"
"امی میں شادی کیسے کرلو"ہانیہ بلکل پاریشاں ہو کر بولی۔
"ہاں تو کیا پریشانی ہے وسی بھی تمہارے ابو ہاں تو بول ہی دیا ہے"
"امی لیکن---"پھر وہ چپ ہو گئی 2 منٹ بعد بولی۔
"اچھا مین سوچنگی" بس تم بول کر ہی چلی گئی۔
اوسکی امّی کو پتا تھا کی وہ اپنے ابو کی بات کو کبھی ماننا نہیں کر سکتی- اسلیئے ابو کا نام لگا دیا۔
ہانیہ بہار نکلی اپر جانے لگی تو ارسلان اسے سیڑھی پر ملا پر بینا کچھ بولے دھیکے وہ سیدھا اپر چلی گئی-



Thank you so much please do like my work and share with your friends ❤️ ❤️✨✨

SAZA-E-ISHQUnde poveștirile trăiesc. Descoperă acum