2

37 4 0
                                    

گھر کے سب نوکر جلدی جلدی کام کر رہے ہوتے ہیں بڑی بیگم یانی وسیم صاحب کی بیگم جو تھی وہ  اپنے بیٹے کے لیے کافی بنا رہی تھی کیو کی انکو چاہی نہیں پاسند تھی اور چھوٹی بیگم یانی کلیم صاحب کی بیگم کچھ نوکروں کو بول رہی تھی "اچھے سے صاف ہونا چاہیئے اگر مجھے کہیں پر کچھ دھیک گیا تو بس 2 منٹ کی اندر چھٹی"انکو اپنے بیٹے کی شادی کی بڑی خوشی تھی اور کلیم صاحب کی بیگم یہ صوفیہ بیگم کھانے کی میز پر ناشتہ لگا رہی تھی کیوں کے سب کو  آفس جانا تھا اور کچھ لاگ کو یونیورسٹی اب سارے لاگ ڈائننگ ٹیبل پر ارسلان اپنا واہی پرانا سا موہ لے کے کافی پی رہا تھا شیری عادل سے کچھ ہنس ہنس کے بول رہا تھا اسک سمنے بیٹھی عائزہ کی آگ لگ رہی تھی اسکی زندگی خراب کر کے بڑا مزے سے ناشتہ کر رہا ہے یہ جہل تب ہی بڑی بیگم یاہی شبان بیگم نے پوچھا۔
"شیری چائی می شوگر کٹنی"
"جی ایک چمچ" اسے بڑے ہی نرمی اور مسکورا کر کہا۔
""ایک چمچ زہر ہی ڈال دو" عائزہ نے بلکل آگ لگی دھیمی آواز میں کہا جیسی اسے شبانہ بیگم کی شیریال سے پیار سے بات کرنا پسند نہیں آیا
"عائزہ تمیز سے ہونے والا سحر ہے ایسے نہیں بولتے" شبانہ بیگم آنکھوں سے دیکھ کر کہا
"شوہر وہ بھی زبردستی کا نہ جانے بابا کو اس جہل میں کیا پڑھ کے پھوک دیا ہے جو انکو ساری دنیا کو لڑکے چھوڑ کر یہ ملا تھا"اسے سوچنا اور مہ بنا کر اپنا ناشتہ کارنے لگی۔ اور شیرال کے مہ پر ایک دل جلا دینے والی مسکراہٹ دیکھ کر اور آگ لگ گئی ۔
"سنبھل کر راہیے گا شیری بھائی پلان بتا دیا ہے عائزہ باجی نے کہیں پہلی رات ہی زہر نہ دیدے پتا چلا ولیمے کی جگا سب آپ کے گامی کی بریانی کھائیں"ولی نی شیریال کے کان میں اپنا موہ دے کے بولا  عادل اور شیریال کو ایک ساتھ ہنسی آگئی ہالا کی انہو نی روکنے کی کوشش کاری پر ہو نا سکا بکی لاگ جو کھانے کی میز پر کھا رہے ہیں۔ انکو دہکنے لگے
"یہ کیا حرکت ہے کہنا کھتے ہوئے ہنس رہے ہو جہلو کی ترہا تمیز نہیں ہے" صوفیہ بیگم نہ تھوڑا سا گسا۔ ظہیر کرتے ہوئے کہا تو زارا اور عائزہ نے اپنی مسکوراہٹ  دبا لی
خانے کی میز پر بس ناز اور ہانیہ کو چھوڑ کر صاب حاضر کیو کی ناز ڈاکٹر تھی اور اسکو تھوڑا سا کام تھا تو اپنے کمرے میں کچھ کر رہی تھی اور ہانیہ کی تیار ہو رہی تھی یونیورسٹی کے لیا پر کسی کی نظر بار بار وہاں جاتی جہاں سے ہانیہ کو آنا تھا تب ہائے عادل بولا
"یہ نظر جن کو دھونڈ راہی ہے لگاتا ہے وہ اج یونیورسٹی نہیں جا رہا ہے "اسکی بات سن کے ارسلان نے اپنی نظر عادل پر ڈالی اور ایک بھنویں اپر کی جیسی سوچ رہا ہو کیا بول رہا ہے۔  اسکا عشرہ سماج کر والی بولا۔
"عرش بھائی وہ ہانی کو کل رات بخار تھا تو اسلیئے ہو سکتہ ہے کی وہ یونیورسٹی نہ جائے" والی کی بات سن کے ارسلان بلکل ہی بے چین ہو گیا وہ اب جیسی بھی ہانیہ کو دیکھنا چاہتا تھا اور گسے میں بولا۔
"اور تم اب مجھ  بتا رہے ہو رات کو کیو نہیں بتائے میں گھر ہی تھا اگر کچھ ہو جاتا تو کیا ہوتا" پھر والی بولا۔
"بھائی اب اتنا بھی کوئی سنجیدہ معاملہ نہیں تھا جو آپ کو بتاتے ہیں، ایسے وقت میں بھائیو کو ٹینشن ہو جاتی ہے مجھے بھی ہوئی تھی لیکن خیر ہے ۔" اور والی کی یہ بات سن کے عادل اور باقی سب نے اپنی ہنسی روکی کی ولی ارسلان کو ہانیہ کا بھائی بولا رہا تھا اور سب کو پتا تھا کی یہ بات اسکو نہیں  پسند ہے تب ہی ہانیہ آ گئی اور سب کو سلام کارا سب نے جواب دیا پر ارسلان اسے بلکل غیر آرام دہ ہو کے دیکھ رہا تھا جیسے بس ابی اسے گلے لگانا اور پوچھے کی کسی تبیات ہے پر وہ ایسا کر نہیں سکتا تھا کیو کی اسے پتا تھا ہانیہ دھرتی ہے اسے اور اسے نظر بھی چورتی ہے کبھی اسکی آنکھوں میں نہیں دیکھتی تھی
"ہانی بیٹا کسی تب ہے" شبانہ بیگم نے پوچھا
"تھک ہنو بڑی امّی بس رات میں تھوڑا بخار تھا اب تھک ہنو یونیورسٹی جاونگی اب"۔ہانیہ نی نیچی آواز میں کہا وہ ایسی ہی تھی کم بولنا اور ہر بات پر بس مسکورا دینا گھر میں سب سے بات کرتی اور مزک بھی کرتی تھی پر ارسلان سے نہیں بولتی پتہ نہیں کیوں پر اسے دل جب ارسلان کے آس پاس ہوتا تو تیز دھڑکنا شورو کر دیتا اور وہ اتنا گھبرا جاتی کی کچھ بول ہی نہیں پاتی
"کیا ضروت ہے یونیورسٹی جانے کی جب تھک نہیں ہو تو اور آو چلو ڈاکٹر کے پاس ہو تے ہیں کیا پتہ کچھ سنجیدہ ہو اور آج تم گھر ہی رہوگی کوئی ضرورت نہیں ہے اپنی اتنی سی جان کو ہلکان کرنی کی" ارسلان نے کہا اور اسکی آواز میں پریشانی صاف نظر آ رہی تھی پر آخری بات اسے تھوڑا سا سنجیدہ ہو کر کہا تکی ہانیہ اسکی بات سنی اور رکو جائے پر وہ بھی ہانیہ کلیم بیگ تھی ہانیہ نہ کہا۔
"ڈاکٹر کے پاس جانے کی کیا ضروت ہے عرش بھائی میں نے ناز دی کو دیکھا لیا انہو نے کہا میں تھک ہنو بلکل اور یونیورسٹی جانا زروری ہے آج میری اہم  کلاس ہے چلی عادل چلتے ہیں ورنا دیر ہو جائے گا بس کر دو کتنا کھاو گائے کب سے کھا ہی رہے ہو چلو اب "بھت سکھوں سے بولی پر بھائی بول کے کسی کو بے چین کر دیا پر ارسلان اسکی بات جیسے انسونی کر گیا یا بولا
"جیتنا کہا اُتنا کرو اپنا دمگ نہ لگو زیدا بول دیا کی یونیورسٹی نہیں جانا تو نہیں جانا جو بھی ہے عادل سے نوٹس لے لینا پر تم کہیں نہیں جاو گی چپ سے گھر رہو اور آرام کرو ٹھیک ہے کی کسی۔ اور زبان میں شمجانا پڑیگا" ارسلان نی سنجیدہ ہو کے یہ کہا اور ہانیہ جی اچھا بول کے چلی گئی اپنے کمرے میں اسنے نظر اٹھا کر ارسلان کو ڈھیکا بھی نہیں بس اسکی بات سنی اور چلی گئی جب ہانیہ چلی گئی تو شیریال بولا۔
"مہ میں کریلا ہائے? کسے اتنا بورا بول دیتے ہیں. آپ سے پیار سے بولنا نہیں ہوتا. منا کی یہ زہر جیسی لڑکی آپ کی بہن ہے پر کچھ تو خیال کرے بھائی ایسے آپ سے اور در جائے گی ہانی"شیریال نہ عائزہ کی تراف انگلی کر کے بول سے عائزہ بولی۔
"یہ ظاہر جیسی لڑکی تمہاری ہو والی بیوی ہے روکو زارا نہ تمہاری زندگی میں زہر مکس کیا تو میرا نام بھی عائزہ وسیم بیگ نہیں"عائزہ نے اپنی آنکھوں سے چھوٹی کر بولی جیسی وارننگ دے رہی ہو تو شیریال بولا
"تمھارا نام یہ ہے بھی نہیں تمہارے نام پنٹو بیگم ہے "شیریال کی بات سن کے سب کے ایک ساتھ ہنسی نکل گئی جس سے پوری ہولی گونج اٹھی اور عائزہ بلکل گسے میں نیلی پیلی ہوتی بولی
"چاچو ڈھکے یہ پھر مجھے پنٹو بیگم بول رہا ہے میں اسکو جان سے مار دونگی"شیریال بولا کو
"سوچ لو بیوہ ہو جاؤ گی بینا شادی کے" عائزہ کچھ بولنے والی تھی پر ارسلان نے بولا بیچ میں بول دیا
"اچھا بھئی بھٹ  ہوا چلو اب سب اٹھاو اور اپنا اپنا کام کرو بھٹ کام ہے اور تم والی کریم بیگ اگر آپ مجھے آفس میں نہ ملے تو پھر ڈھیکنا میں کرتا کیا ہو" ارسلان اسے انگلی ڈھیکا کر بول رہا تھا جس پر والی بولا۔
"معذرت بھائی آج سے نہیں آج گھر کی خواتین کو شاپنگ پر لے جانا ہے تو معذرت "اپنے ہاتھ ہوا میں کر بولا تو شازیہ بیگم یانی کریم صاحب کی بیگم نے کہا
"ہان بیٹا ویسی ہی اگے دن ہائے 4 ہے اور کام  مزید ہے"
پھر ارسلان سلام کر کے چلا گیا شیریال بھی چلا گیا پر جاتے جاتے عائزہ کو پنٹو بیگم بولنا نہ بھولا جس پر عائزہ بس گھر کر رہا گائ پھر عادل بھی یونیورسٹی چلا گیا اور ناز بھی ہسپتال چلی گئی باقی وسیم صاحب اپنے بھائیو کے ساتھ مل کر باقی کام میں لگ گئے اور اپنا اپنا کام ختم کر کے عائزہ اور زارا  باقی اور سب خواتین شاپنگ پر چلی گئی ہانیہ کو چھوڑ کر کیو کی ارسلان  کے حکم تھا کی ہانیہ کو وو ہی شاپنگ پر لے کر جائے گا اور وہ  تو راہی تھی
شام میں نازیہ بیگم یانی ارسلان کی پھپھو کو انا تھا اپنی فیملی کے ساتھ سب سے زیدہ والی خوش تھا کیو کی انکو  اپنے دل کی ٹھنڈک کو ڈھیکنے کا موکا مل رہا تھا
شاپنگ کرتے کرتے عصر کی نماز کا وقت ہو گیا والی سب کو گھر چھوڑ کر مسجد چلا گیا زارا اور عائزہ اپنی کمرہ میں اے کے تھوڈا سا آرام کر کے پھر نماز پڑھلی انہو نے۔اُدھر آفس میں شیریال اپنے کام پر توجہ نہیں کر پا رہا تھا کچھ کچھ وقت کے بعد اس کو عائزہ کا چہرہ یاد آ رہا تھا اور  ایک الگ سا سکھون مل رہا تھا اور اسے بنا پتا چلے اسکا ہونٹ ایک بھت خوش مسکان میں  بدل جاتا تو بھی اسے کچھ آیا اور وہ اٹھا اپنا کوٹ  ہاتھ پر ڈال کر  فون اٹھا کر ایک ہات جینز کے جیب میں ڈال کر بہار چلا گیا اور جاتے جاتے عادل اور ولی کو کال بھی کر کے انکو بولا لیا ۔
حویلی مین نازیہ بیگم آ چکی تھی اپنی بیٹی اور حامد کے ساتھ حماد 3 دن بعد ان والا تھا ابھی تک والی کو نہیں پتا چلا تھا کی اسکی پھپھو آ چکی ہے اور فلک بھی.
عادل، ہانیہ، عائزہ، زارا سب کی سب والی کے کمرے میں چلے گئے ولی بستر پر سویا تھا اور کچھ سوچ رہا تھا تب ہی عادل بولا
"ولی بھائی کیا سوچ رہا ہے" اور بستر پر بیت گیا زارا اور ہانیہ سوفے پر بیت گیا یا عائزہ قالین پر بیت گائ والی اٹھتے ہوا بولا
"کچھ نہیں یار تو بتا فلک آ گئی" والی کی آنکھ میں ایک عجب سی خوشی والی چمک تھی
"ہان نا ہونے والی بھابھی اگئی ہے ویسی آپس کی بات ہے ولی  بھائی آپ کو فلک دیدی بھاؤ دیتی نہیں ہے پر پھر بھی آپ اگلے درجے کے بیگارت ہو کی شرم نہیں آتی"زارا بولی اور ہانیہ زارا کی بات پر ہان میں سر ہل گئی اور عائزہ روز سے ہنس دی
"بیہایا لڑکی بڑے بھائی کو ایسا کون بولتا ہے اور وہ تو  شرمتی ہے اسلیے ایسا ہے وارنا میری شکل ڈھیکو اتنا حسین لڑکا سری زندگی نہیں ڈھیکا ہو گا اسے نی"ولی نہ اپنے آپ کی ہاتھ سے نذر اتار کر کہا
"استغفراللہ، انسان جنور پال لے گلت فہمی نہ پیلے "عادل نے اپنے ہاتھ کان پر رکھ کر بولا

"ہان اسلیے اے ہم لوگو نی تمکو پالا ہے اب چلو اچّھا ہو گائ  ہو بکواس تم لوگو کی تو" عائزہ نے کہا
"شیری بھائی کے آنے کا وقت نہ ہو گیا اسلیے اتنی جلدی ہے اوہو رہا نہیں جاتا بلکل بھی" والی نے ایکدم سے چھیڑنا شور کارا عائزہ نے اس کے کندھے پر ایک رکھ کے مارا یا بولی "بتامیزی نہیں کرو" اور آنکھ گھما کر چلی گئی باقی سب اسکی حرکت پر ہنس دیے.
بس کامرے سے بہار جانے والے کی عادل کا کال آ گیا شیری کا انکو وہ مال  بول رہا تھا کچھ شاپنگ کرنا تھا اسلیے  شیریال سے بات کر کے عادل نے والی کو بتایا کہ جانا ہے چلو تو اسنے بلکل گندھا سا مہ بنایا جیسے پتہ نہیں کیا ہو گیا.
نیچے ہال میں سب لاگ بیٹھے بات کر رہے تھی جب عادل اور ولی اے عادل نے سب کو سلام کارا اور والی جیسی بھول ہی گئی کی دنیا میں اور لاگ بھی ہے تب ہی عادل نے اسے کندھے پر مارا اور بولا
"محبت میں لاگ بدتمیز نہیں ہو جاتے جو آپ سلام کرنا بھول گئے سب آپکو ہی دیکھ رہا ہے" عادل نے کہا تو والی آپنی خیالو کی دنیا سے بہار آیا اور سلام کارا پھر بولا۔
"سلام فلک کیسی ہو؟" ہونٹوں پر ایک بھت خوبصورت مسخراہٹ تھی تھا بھی وہ بھوت حسین کالی شرٹ نیلی جینز اور آستین کو کہنی تک موڑا ہوا تھا بعل سہی سے بنے ایک ہاتھ جیب میں اور ایک میں گھڑی تھی اگر کوئی بہار کی لاڈکی دھیکتی سے پکا دل ہار جاتی
"میں ٹھک ہنو والی بھائی آپ بتاو سب تھک" فلک نے ایک معصوم سی مسکورہٹ کے ساتھ کہا اسکی بات سن کر والی جو کب سے مسکورا رہا تھا ایکدم سے ساری مسکورہات ختم ہو گئی اور بلکل گندھا سا مہ منا کر عادل کو ڈھیکا جو اپنی ہنسی روکنی کی پوری ناکام کوشش کر رہا تھا اسکو دھیک کر والی کو اور گسہ آیا اور ایک جھپڑ اسے مارا اور مہا
"ہملوگ چلتے ہیں شیری بھائی نے بلایا ہے کسی کام سے اور تو بہار مل سالے تو بتاتا ہنو خدا حافظ" سب سے بولا پھر عادل کو گھر کر بہار چلا گیا عادل بھی سب کو خدا حافظ بول کر اس کے پیچھے بھاگا.


Thank you so much please do like and share my work ❤️❤️✨✨

SAZA-E-ISHQWhere stories live. Discover now