6

18 3 0
                                    

نیچے بھٹ شور تھا ۔ وہ چارو بھی بھر باغ میں آ گا  انکھو کے اشارے سے والی نے حماد کو صدیقی صاحب کا دھکے اور حامد کی نظر انکی بیٹی پر گئی اور وہان کی ہو کر رہ گئی- صدیقی صاحب وسیم صاحب سے بات کر رہے ہیں- دنیا کے لیے یہ بہت اچھے انسان ہیں- وسیم صاحب کی اچھی بات تھی-  انکی بیگم رضیہ بس سب کو دیکھ رہی تھی۔ انابیہ بھی گلابی لباس میں تھی سر سے دوپٹہ لیا ساڈا سی لڑکی بس اپنی کھلی انکھو سے ادھار اُدھر دیکھ رہی تھی- نازیہ بیگم کو لڑکی ایک نظر میں پسند آگئی۔ انہو نی بات اپنی بڑی بھابھی کو بتائے تو انہو نے بتائے کی لاڈکی کی شادی پکی ہو چکی ہے پر لڑکی ہیرا ہے۔ نازیہ بیگم کو برا لگا پر پھر بھی انہو نے سوچا ایک بار  بات کرلے کیا جاتا ہے۔حماد، ولی، عادل اور حامد قدم قدم چلتے  وسیم صاحب کے پاس گائے تو انکا تعارف وسیم صاحب نے صدیق صاحب سے کرایا اور ساتھ میں یہ بھی بتائے کے والی آفس جاتا ہے۔عادل یونیورسٹی۔ حامد پولیس میں ایس پی ہے۔ اور حماد میجر۔ سب نے باری باری ہاتھ ملایا اور حماد بولا۔
"اب سے ہم ملتے رہیں گے"اور اپنی واہی خوشصورت سی مسکراہٹ دے دی اسکی بات سن کر صدیق صاحب کے چہرے کا رنگ بدلہ پھر ٹھیک ہو گیا ۔ حماد کو وہ بدلتا رنگ بھٹ پسند آیا۔
"یہ کون ہے؟" عادل نے انابیہ کی تراف دیکھ کر کہا-
"یہ میری بیٹی ہے انابیہ"صدیقی صاحب نے کہا۔
"کیسی ہے آپ"حامد سے صبر نہ ہوا جیسا وہ پوچھتا اور وہ بتاتی کی مین بھٹ پاریشاں ہنو.
"مین ٹھک ہنو"انابیہ نے چھوٹا سا جواب دے دیا پھر ویسی ہی بیٹ گائ.
"صدیقی صاحب میں سنا انابیہ کی شادی ہے" وسیم صاحب نے پوچھا۔
"ہاں اگلے مہینے ہائے"انکی بات سن کر حامد کی دنیا ہی رک گئی وہ کچھ بولنے والا تھا پر والی نی اسکا ہاتھ پکڑ لیا وہ بس گہری سانس لے کر رہا گیا ۔
پھر ہے وہان سے نکل گئی.
" کیوں روکا مجھ سے؟"حامد نہ گسوں مجھے پچھا.
"ہاں آپ کو سارا کام خراب کرنا دیتا نہ 2 دن صابر کرلے  پھر کچھ کریا گا"ولی بولا۔حماد کچھ سوچ رہا تھا پھر مشکورا کر بولا۔

"وہ خود اپنی بیٹی کی شادی حامد بھائی سے کرینگے بس سب لاگ صابر کرو"
"حماد بھائی کچھ الٹا نا کر دینا آپ "عادل بولا۔پر حماد کچھ نہیں بولا بس مسکورا کر چلا گی.
فنکشن ختم ہو گیا تھا رات کا 12بجا تھا عادل بہار تھا بس واس ہی بیٹھا تھا پھر زارا آئی کافی لے کر۔
"بھائی لے کافی کیا سوچ رہے ہیں آپ" وہ بھی واہن بیٹھیں.
""کچھ نہیں گڑیا" زارا کے ہاتھ سے مگ لے لیا.
"آپ خفا ہے ہم سے"
"نہیں کیوں؟"
"آج میں دعا کی طرف سے بولا اسلیے"
"نہیں میں تم اتنا چھوٹا لگتا ہوں۔"
"آپ کو پتہ ہے میں کیوں کر ایسا؟"
"نہیں کیوں؟"
"دعا نے اپنی امّی کو نہیں دیکھا, جس دن وہ دنیا میں آئی اوسکی امّی چلی گئی دنیا سے- اوسک امّی کی دعا تھی کی انکو بیٹی ہو اسلیا اسکا نام دعا ہے. پر وہ شمجتی ہے کی آسکی امّی کے لیے وہ دعا نہیں تھی باددعا تھی. آج آپ نے انجانے میں اسے ہی بول دیا جو کائی سالو سے شمجتی ہے۔
عادل بس اسکی بات سن رہا تھا اسکی نظر مگ پر تھی اور وہ سوچ رہا تھا کہ وہ اتنی بڑی گلتی کسے کر سکتا ہے.اوسکو کو تو پتا ہے امّی ابو کے چلے جانے کا درد.

SAZA-E-ISHQजहाँ कहानियाँ रहती हैं। अभी खोजें