7

22 3 0
                                    

مہندی کا فنکشن شورو ہو چکا تھا۔ مہمان سارے آ چکے تھے۔اور سب سے بڑی بات عائزہ مہندی لگوا رہی تھی۔سب کو بھت خوشی ہوئی کی وہ بنا کسی کے بولے خود سے تیار ہو گئی-ہانیہ نہ مہندی لگوائی تھی. اور ہمیشا کی ترہا آنکھ بند کر کے چل رہی تھی۔ اور ارسلان کے ہاتھ میں ٹکرا گئی اور ساری مہندی کھرب۔ ارسلان چلانے والا تھا کیو کی کوٹ کی آستینیں کھراب ہو گی ۔ پر ہانیہ کا رونا مہ دھیک کر سارا گوسہ ختم۔
"رو کیو راہی ہو کیا ہوا؟"انہوں نے پاریشن ہو کر بولا اور بھول گیا کی اسکا کوٹ خراب ہوا ۔
"آپ نے میری ساری مہندی خراب کردی" وہ اپنا ہاتھ دیکھ کر بولی.
"رونے والی کون سی بات ہے واپس لگوا لو اور تم نے جو میرا کوٹ خراب کرا" وہ اپنا کوٹ ڈھیکا کر بولا۔
"اچھا آپکی ہی گلتی تھی پتہ نہیں کہاں دیکھ کر چل راہے ہے" وہ اور رونا مہ بنا کر بولی۔
"اچھا اچھا میری گلتی ہے بس چپ ہو جاو اور چلو وپیس مہندی لگوا کر آٹے ہے ہم لاگ" ارسلان بھٹو سکھوں سے بولا اور سوچ رہا تھا یہ لڑکی کتنی معصوم ہے ایک مہندی پر رو رہی ہے۔

بہار شیریال اور باقی سب کچھ بات کر رہے ہیں۔تب وہن فلک آ گئی ۔ولی اسے دیکھ کر خدا ہو گیا۔اور عادل نہ برا سا مہ بنایا-
"شیری بھائی آپ کی چائی" اوسکو کپ دیتے ہوئے بولی۔وہ کچھ اور بولتی پر کوئی خاتون آ گئی بولی۔
"بیٹا کچن کہاں ہے مجھے ہلدی چاہیئے تھوڑی دیکھو نہ کاٹ گیا دعویٰ نہیں آؤنگی بس ہلدی ہی ڈیڈو تھوڑی" وہ بولی-
"اچھا اندر جایا بائیں ہاتھ پر کچن ہے اور تھوڑا نمک بھی ڈال لینا ہلدی میں "اسکی بات سن کر شیریال کو چائی اٹک گئی اور عادل کا واہی ایک ہی ردعمل کی کیو پیڈا کر لیا پھپھو نی ​​اسکو۔ حماد اپنا مہ چپہ کر خدا تھا کہ میری بہن نہیں ہو اور حامد اسے کوئی فرق نہیں پڑتا وہ باس اپنا سا موہ لے کے بیٹھا تھا۔ولی سوچ رہا تھا کتنی معصوم ہے۔
"ہاتھ کٹا ہے انکا فلک نمک کیو لگاؤنگی وہ" شیریال نی بولا۔
"آپ نے ہی سے کے ایل کہا تھا کٹے پر نمک لاگو عادل بھائی سے"بلکل معصوم سا مہ بنا کر بولی۔
"فلک تم کٹنی---" عادل کی بات بھی پوری نہ ہوئی اور فلک بولی۔
"ذہین اور حسین ہنو نا" اپنا بال پچھے کر بولی۔
"بھٹ زیدا اتنی کی دل کرتا ہے کہ اپنی نوکری سے استعفیٰ دے دیں" عادل طنزیہ انداز میں بولا۔
"شکریہ "بول کے فلک اندر چلی گئی-
"پھپھو نے کیو کر لیا اسکو "عادل نہ بھولے افسوس کے ساتھ فلک کی تراف دیکھ کر بولا-
"تمیز سے بھابھی ہے تمہاری"ولی عادل کے کندھے پر مار کے کہا۔
"بھابھی چابی جیسہ مہ دھیکا ہے اسکا میں اوسکو بھابھی بولی" عادل آنکھ گھما کر بولا-پتہ نہیں عادل کو کیا پریشانی تھی؟
"تم میری بہن کو چابی بول رہے ہو" حماد عادل کے سر پر مار کر بولا اور والی نی گھیرا-
"واہی تو بیچاری چابی کی بیزاتی ہو گئی کوئی بات نہیں اب---" عادل کچھ اور بولتا پر اسکی نظر دعا پر گیا اور وہ اس کے پاس جانے لگا-اور وہ سب سوچنے لگے کی کیا ہوا اسکو-
"دعا میری بات سنا" عادل نے دعا کو آواز دی پر ہی نہیں روکی-
"لڑکی میری بات تو سنلو کہاں جا رہی ہو بھیری ہو"عادل دعا کے ساتھ آ گیا اور اسکا راستہ روک لیا-
"کیا مسلہ ہے ہٹو سمنے سے" دعا بلکل چڑچڑا کر بولی۔
"بات سن لو پھر چلی جانا مجھے بھی کوئی شوق نہیں ہے تم سے بات کرنے کا" عادل بھی بلکل بھڑک کر بولا۔
"جلدی بولو زیدا وقت نہیں ہے"دعا آنکھ گھما کر بولی۔
"وہ کال والی بات کے لیے سوری میں زیدا بول گیا تھا میرا وہ مطلب نہیں تھا"عادل بھٹو سکھوں سے بولا اسکی آواز بھٹو نرم تھی وہ حقیت میں شرمندہ تھا-
"مجھے تمہاری معافی کی ضرورت نہیں ہے۔اب سائیڈ ہو"دعا کو اسکی بات میں بلکل بھی دلچسپی نہیں تھی۔
"میں تمسے معافی مانگ رہا ہنو اور تم ناٹک ڈھیکا رہا ہو"عادل کو جیسے بھروسہ نہیں ہوا آسنی اپنی زندگی میں کبھی معذرت نہیں کری کسی سے اور یہ لڑکی اسے مہ ڈھیکا رہی ہائے- پر وہ کچھ نہیں بولی اور بس وہان سے چلی گئی۔عادل اوسکو جاٹے دھیک رہا تھا ۔اور کچھ نہیں کر سکا-
پھر عادل، ولی، حماد، اور حامد والی کے کمرے میں گئے اور اس کے کمرے کی حال ایسی تھی جیسے چوری ہوئی ہر سماں اُدھر اُدھر تھا پورا کمرہ گانڈا۔
"یہاں چوری ہوئی تھی؟"عادل نے کامرے کا حال دیکھ کر پوچھا-
"نہیں نہیں وہ تو بس صاف کرنے کا وقت نہیں ملا" وہ اندر جا کر بستر پر سے کپڑا اٹھا کر سوفی پر رہک کر بولا-
"اچھا میری بات سنو کسی بھی ترہا صدیق صاحب کو یہ بتانا ہے کہ ہم یہاں کس کیس پر کام کر رہے ہیں"حماد کچھ سوچ کر بولا۔
"اچھا تو بولنا ہے آ بیل مجھے مار" والی بولا۔
"پوری بات سنو،اور پھر امّی سے بولیں گے کی آج ہی حامد بھائی کے رشتے کی بات کر لے-جہاں تک میرا منا ہے وہ اپنی بیٹی کی شادی کسی فائدے کے لیے کارا راہے ہائے-اور انکا فیدا سب زیدہ یہ چیز میں ہے کی انکو پتا چل جائے کی ہم کب کہاں اور کسے کر رہے ہیں"حماد ایک بات ہے سوچ سوچ کر بولا۔
"کیا مطلب پلان بھی بتانا ہے انکو"ولی جھٹکا کھا کے بولا۔
"ابے یار اسکو ایجنٹ کسنے بنایا"حماد تھوڈا چڑچڑا کر بولا۔
"واہی جِسنے آپکو میجر بنا "ولی جان کے مشکورا کر بولا۔
"اچھا کرنا کیا ہے؟" حامد سے صبر نہ ہوا وہ بس جیسے بھی انابیہ کو جہنم سے بہار جانا چاہتا تھا-
"آپ سے صبر کرے ابھی بہار جائیں گے نہ تب کرینگے بات "عادل تھوڑا روز سے بولا پھر سب بہار چلے گئے-
بہار عائزہ کے پاس نازیہ بیگم تھی والی اور عادل واہن چلے گئے ان سے بولنے کی حامد کے لیے انابیہ کی بات کرے اور حماد اور حامد بہار صدیق صاحب کے پاس چلے گئے گی-حماد کو دیکھ کر صدیق صاحب کا رنگ بدلا پر پھر انہو نے ہنس کر سب چھپا لیا-حماد تم بولنے پر کی یہ کہاں کچھ گلت ہو رہی ہے۔ صدیقی صاحب کو پسینہ چٹ گی-حامد بھی انکی ہر ایک حرکت دیکھ رہا تھا۔ پر انہو نہ زیدہ ظاہر نہیں کارا پھر حماد نہ بتائے کہ اسکا نکاح ہو چکا ہے- پر حامد کے لیے لڑکی دیکھ رہا ہے۔ وہ ساری بات اکلے صدیق صاحب سے بولی تھی وہ اور کوئی نہیں تھا-منصوبہ کے حساب سی 15 منٹ بعد والی کو حماد کو کال کرنی تھی ۔ اور ہوا بھی واہی پھر وہ اندر چلے گائے-اُدھر نازیہ بیگم نی بھی انابیہ کی امّی سے بات کر چکی تھی پر انہو نہ صاف صاف منا کر دیا-پر حماد کو پورا بھروسہ تھا کی شیریال کی شادی ختم ہونے تک وہ اپنی بیٹی کا رشتہ خود لے کر آئیں گے حامد کے لیے-
آج کا دن ختم ہوا سارے لوگ اپنے کاموں میں چلے گئے- شیریال جانماز برابر بیٹھ کر ہاتھ اٹھا کر دعا کر رہا تھا۔ وہ اللہ سے اپنے اور عائزہ کے نئے رشتے کی خوشی کے علاوا کچھ نہیں مانگتا تھا آج کل-وہ عیزا کو کبھی آنکھ بھر کر نہیں دیکھتا تھا کیوں کہ اسکا حق نہیں تھا- کبھی ایسا نہیں دیکھا ایسا بس واہی اس کے لیے سب کچھ ہے۔وہ بھی گلت نہیں تھا پر ہر انسان ہر بات کو کائی ترہ دکھتا ہے جب جب عائزہ آسکے آ جانے پر چلی جاتی شیریال کے اندر کچھ ٹوٹ جاتا جِس کی آواز سے بھت تیز تھی پر شیریال کے الوا کوئی سن نہیں سکتا تھا۔
آج کا دن بھٹو بڑا تھا آج کے بعد شیریال کبھی وہ شیریال نہ رہے جسکو آئزا کی کسی بات کا فراق نہیں پڑتا پر کچھ دن سے شیریال کو عائزہ کی ہر بات سے فراق پڑتا تھا پتہ نہیں کیو- آج حماد اپنا مشن اور گھر کے کام میں مصروف تھا کہ زارا کے لیے وقت ہی نہیں ملا۔ارسلان کی تو بھی ہانیہ سے کم ہی بات ہوتی تھی۔آج عادل نے بھی دعا سے بات نہیں کی۔ پتہ نہیں کیو وہ اسے دیکھ کر چپ ہو جاتا تھا جو کی دعا کو اجیب لگا پر عادل اب اپنے کسی بھی بات سے دعا کو تکلیف نہیں دینا چاہتا تھا-ولی اور فلک کیا ہی بولو بھائی بہن کا پیار ہی ایسا ہے چھڈو-عائزہ سبھا سے چپ تھی کسی سے نہیں بولا جو کی بھت اجیب تھا- ابھی بس 10 منٹ میں نکاح ہونے والا تھا۔ حویلی بلکل دلہن سی سجانے گئی تھی ۔ہر جگھا لائٹس پھول شیریال اپنے کمارے میں تیار ہو رہا تھا اسک پاس سب دی پھر ارسلان بھی آیا-
"شیری" ارسلان اندر آ کر بولا۔
"جی بھائی" شیریال پوری ترہا ارسلان کی تراف متوجہ ہو کر بولا۔
"میری بہن کا بھت خیال رکھنا۔ ہاں تھوڈی ضدی ہے پر کیا کرتا ہے بھی پیاری وہ نہیں پر تم سے امید ہے کی تم یہ رشتا بٹ اچھے سے سنبھل لو گے-اگر وہ گلتی کردے تو معاف کر دینا۔زیڈا ڈانٹنا نہیں جلدی رونے لگتی ہے۔بس اسکا خیال رکھنا پلیز"یہ ساری بات سن کے عادل کے انکھو میں انسو آ گیا اور وہ رونے لگا-اسکا رونا سن کر سب اسے ڈھکنے لگے-
"تمہیں کیا ہوا؟"ارسلان نہ پچھا۔
"کل کو مجھے بھی اپنی بہن کو وڈا کرنا ہے مجھے وہ سوچ کر رونا آ گیا" اوسکی اتنی پیاری بات سن کر والی نے اسے گلے لگا کر لیا اور بولا۔
"وہ تو حماد بھائی کے ساتھ ہی جائے گی اگر انہو نے کچھ کارا تو ہم ہے نا" والی اسکا گل صاف کرتا بولا- اور عادل بھٹ معصومیت سے سر ہل گیا ۔پھر ارسلان واہن سے چلا گیا عائزہ کے پاس-
عائزہ اپنے کمرے میں پوری تییار اکیلی تھی- ارسلان اندر گیا اور اوسکے پاس جا کر بیٹھا۔ عائزہ اوسکو دھیک کر مسکرا دی-
"عائزہ ڈھیکو میں یہ نہیں بول رہا کی تم شیریال کو پسند کرنے لگا یا ہار مان لو مین باس اتنا بولونگا ایک بار موقع دے کر ڈھیکو شیری کو- وہ بھی اچھا ہے۔بھٹ خوش رہکے گا-وعدہ کرو ایک موقع ڈوگی"ارسلان اسے ہاتھ پکڑ کر بولا۔ عائزہ بس سر ہل گئی ۔اسے لگا اگر وہ بولے گی تو رو دے گی۔نکاح کا وقت آ گیا پھلے عائزہ سے پوچھ گیا-
وہ 3 بار بولی۔
"قبول ہے (میں آج سے عائزہ شیریال بیگ ہنو)"
"قبول ہے (میں ایک بار موقع ضرور دونگی)"
"قبول ہے (مجھے اللہ کے فیصلے پر اور اللہ پر پورا بھروسہ ہے)"
پھر شیریال سے پوچھ گیا- وہ 3 بار بولا۔
"قبول ہے (آج سے ایزا میری ہوئی)"
"قبول ہے (میں رشتہ اور عائزہ کی زندگی خوش حال بناؤنگا)"
"قبول ہے (آج سے میں میری زندگی اور میرا سب کچھ عائزہ کا ہوا)"
اور پھر وہ ہمیشہ کے لیے ایک ہو گئے۔ دنیا کا سب سے پاک رشتہ شوہر اور بیوی کا-دنیا کا پہلا رشتہ شوہر اور بیوی کا-وہ تب تک ساتھ رہیں گے جب تک انکو موت الگ نہ کر دے-
سب مہمان کے جانے کے بعد آئیزا کو شیریال کے کمرے میں لے جایا گیا۔عائزہ دسری بار شیریال کے کمرے میں اے تھی-وہ یاہان نہیں آتی تھی اسکا اور سیریل کوئی ایسا رشتہ ہی نہیں تھا کی وہ یہاں اتی-ہمیشا لڈنا پاریشن کرنا- پر بچپن میں شیریال ہمیشہ عائزہ کی حفاظت کرتا-اگر ارسلان کبھی نہ ہوتا تو وہ عائزہ کو ہر پریشانی سے دور رکتا- پر عائزہ کو ہمیشہ سے یہ لگا کے وہ اسکو پریشاں کرنے کے لیے یہ سب کرتا ہے-پھر واہی بات ہر انسان کا ہر بات کو دیکنے کا الگ طریقہ ہوتا ہے-
عائزہ شیریال کے کمرے میں تھی-شیریال بھی جیتنا جلدی ہو ساکے کمرہ میں جانا چاتا تھا۔پر یہاں کے لاگ جین دیتے تاب۔شیریال کے کمرے کے بہار سب کھڈے جیسے کچھ ملنے والا ہو۔آج دعا اپنے گھر نہیں گئی- ایسی تو تم سے دعا انکا رشتہ دار کی بیٹی تھی دعا کے ابو عادل کے چاچا لگتے ہیں- وہ اپنے کام سے ملک سے بہار گئے ہیو دی تو دعا وہان رک گئی اب وہ 1 ہفت وہان رہے گی۔
"تم سب میری جان چھوڑ دو یار اب کیا مسلہ ہے" شیریال انکو دیکھ کر بگڑ کر بولا۔
"اندر جانے اور اپنی بیوی سے ملنے کے لیے پیسہ لگے گا "والی ہاتھ باہر کر کے بولا جیسا پیسہ مانگتے ہیں-
"میرا کمرہ میری بیوی پیسہ کیوں دو-اور یہ نہ مسجد کی بہار جا کر اچھا پیسہ مل جائے گا" شیریال والی کے ہاتھ پر مار بولا-
"وائس شیری بھائی اندر نہ ہی جائے تو اچھا ہے" عادل شیری کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا-
"کیوں"شیریال نی پچھا۔
"اچھا خاصا چہرہ ہے عائزہ باجی نہ کچھ اٹھا کر مار دیا تو سارا کا سارا جغرافیہ بدل جائے گا-"عادل بھٹ سنجیدہ ہو کر بولا۔
"ہو گیا بکواس تو دور ہٹ جاؤ" شیریال نی عادل کو گھر کر بولا-
"اچھا چلے نا شری بھائی پیسے نکلے" فلک ایکدم خوش ہو کر بولی-
"میں نہیں دے رہا پیسہ" شیریال ہاتھ ہوا میں کر بولا۔
""اللہ شائری بھائی اتنا پیسہ ہے کبر میں لے کر جانا ہے"ولی نے کان کو ہاتھ دے کر بولا۔
"تمسے مطلب میرا پیسہ آگ لگ دو یا کب میں لے کر جانو"شیریال نے ناک سے مکھی اٹھا کر کہا۔
"استغفر اللہ یہ باقی تھا بس"عادل آنکھ گھما کر بولا۔
"شیری بھائی آئی" فلک بولی اور اسکو گورا-
"اچھا کٹنا چاہیہ" شیریال نہ بولا۔
" بلینک چیک" فلک بولی۔
"مہ دیکھو انکا رف کاپی جیسہ اور انکو بلینک چیک چاہیئے"عادل نے آنکھ گھما کر کہا-
"اچھا جلدی بولو کٹنا دنو باس 10 ہزار ہے میرا پاس"شیریال بولا۔
ناشکری کی ہوتی ہے ہم 5 لاگ ہے 5 ہزار نکلو۔"عادل بولا۔ اور شیریال بورا سا مہ بنا کر پیسہ نکلنے لگا پھر بولا۔
"تم سے 4 ہیلو"
"عائزہ باجی کا بھی ہے" فلک بولی۔
"اب انکا ہی سب کچھ ہے جو میرے پاس ہے" شیریال یہ بول کر کمرہ میں چلا گیا-

وہ 5 نہیں دی بلکی 6 دعا بھی تو تھی ۔پر وہ زارا کے کمرے میں تھی-

اندر کامرے میں عائزہ بستر پر بیٹھی تھی۔شیریال اندر گیا دروازہ بینڈ کارا اور سلام کارا۔عائزہ نے جواب دیا- شیریال نے بیڈ کے سائیڈ والے دراز میں سے ایک باکس نکلا۔ اسمائے ایک لاکٹ تھی جس پر بس ایک چھوٹا سا دل بنا تھا۔ اور دل پر ایک ہیرے لگا تھا-
"تمہارا تحفہ"شیریال نی باکس آئزا کو دے کر بولا۔
"شکریہ بٹ پیارا ہے" عائزہ باکس لے کر بولی۔
"چلو بدلو کرلو میں بھی کرنے دیتا ہوں پھر نماز پڑھنا ہے" پھر شیریال اور عائزہ نے ڈریس بدلو کارا آواز کارا اور نماز پڑھی-
"یہ لو" ایسا سیریل کو تکیہ اور کمبل دیکر بولی۔
"کیا" شیریہ نے الجھ کر کہا-
"کیا جا کر صوفہ پر سو یہاں بستر پر نہیں"عائزہ تکیہ ٹھک کارتی بینا شیریال کو ڈھکے بولی-
"عائزہ بی بی آپ کو کیا لگا میں شیریال کلیم بیگ سوفے پر سونگا" شیریال اپنا تراف انگلی کر بولا-
"جی ہاں "
"میں یہاں سونگا بستر پر شام میرا بستر ہے"وہ بستر کے ایک طرف سو گیا-
"تو کیا میں صوفہ پر جاو"عائزہ بھیگی انکھو کے ساتھ بولی۔
"نہیں یہ سو جاو میرے پاس"وہ آنکھ بند کر کے اپنے پاس کی جگا پر ہاتھ رکھ کر بولا-1 منٹ تک جب عیزا کی آواز نہ میں سے شیریال نے آنکھیں کھول کر ڈھیکا تو عائزہ رو رہی تھی-
"کیا ہوا تو کیو رہی راہی ہو" شیریال اٹھا کر آئزا کے پاس آیا اور اسکا ہاتھ پکڑ لیا-شیریال کو لگا اسے کوئی بات اسکو بری لگ گئی-
"آپ بٹ بورے ہو مجھے آپ سے شادی نہیں کرنی تھی"عائزہ ہاتھ چھوڑ کر بولی پر شیریال نے پھر پکا لیا اور اب کی بار مسبوتی سے پاکڑا-
"اور کیو نہیں کرنی تھی میں بھت بڑا ہو"شیریال اسکا گل صاف کر بولا- اسکی لال آنکھوں میں دیکھ کر-
"مجھے ایسا شہر نہیں چاہئیے جسنے مجھے کبھی ڈھیکا ہی نہیں کبھی پیار سے بولا بھی نہ ہو مجھے پتہ ہے آپ مجھے پاسند نہیں کرتے بس امّی اور بابا کے لیے شادی کرلی ہے"اس نے رونی آواز میں بولی۔
"اور تم کو ایسا کیوں لگا ہے؟میں کبھی ڈھیکا نہیں کبھی کچھ بولا نہیں کیو کی میرا حق نہیں تھا تم پر-میں تمکو پسند کرتا ہنو امّی اور بابا کو میں ہی بولا کی ہماری شادی کارا دیتمکو ایسا کیوں لگا میں تمھے پاسند نہیں کرتا- ڈھیکو عائزہ میں یہ نہیں بولنگا کی تم بھی مجھے پسند کرو پر مہربانی کر کے ایک موقع کی میں ظاہر کر سکوں کی میں ایسے میں تمے پاسند کرتا ہوں"وہ ایزا کے گل پر ہاتھ رکھ کر اسکا آنسو صاف کر رہا تھا اور وہ بس اسکی بات سن رہی تھی-
" ڈوگی نا موقع"وہ بھولے یاکین اور معصومیت سے بولا اور عائزہ اِتنا اُسکی آنکھوں میں کھو چکی تھی کی ہاں میں سر ہل گئی-شیریال مسکورا دیا اور اس کی پیشانی پر بوسہ دے کر بولا۔
"چلو اب سوتے ہے بہت رات ہو گئی ہے"پھر وہ دونو سکوں سے سو گئے-

جب ہولی میں تم ہو رہا تھا تب ہولی کے بگل والے گھر میں ایک آدمی بیٹھا بھول پرشان تھا- اوسکو لگ رہا تھا جیسی اوسکی زندگی بھر کی مہنت خراب ہونے والی ہے- وہ کچھ سوچ رہا تھا پھر مشکورا کر اپنی بیٹی کو بلایا۔

حماد کا منصوبہ پورا ہو گا یا نہیں پتہ- پر اسے بھروسہ تھا کی صدیق واہی کرے گا جو سوچ رہا ہے-





Thank you so much please do like my work and share with your friends❤️❤️✨✨

SAZA-E-ISHQWhere stories live. Discover now