❣غازی❣(Episode 2)

198 23 27
                                    

"فوزیہ".
" جی".
فوزیہ بیگم جو اپنے ہی خیالوں میں گم تھیں چونک کر حسن حیدر کی طرف دیکھا اور بے دھیانی میں جواب دیا.

"فوزیہ کن خیالوں میں گم ہو چلو سو جاؤ کافی رات ہو گئی ہے".
حسن حیدر نے فوزیہ بیگم کو تھوڑی سختی سے کہا لیکن وہ تو جیسے سن ہی نہیں رہیں تھیں .

" کیا آپکو اس کی یاد نہیں آتی".
فوزیہ بیگم کی آواز میں اتنی تکلیف تھی کہ حسن حیدر بے چین ہو کر اٹھ بیٹھے.

"فوزیہ مانا کہ تم ماں ہو تم نے جنم دیا اس کو تمہاری تکلیف کی کوئی حد نہیں. لیکن میں بھی تو باپ ہوں. میرے بھی تو وہ جگر کا ٹکڑا ہے. بس فرق صرف اتنا ہے کہ مجھے تمہیں سنبھالنا ہے اس لیے ساری اذیت' ساری تکلیف دل میں دبائے بیٹھا ہوں".

حسن حیدر بہت اذیت سے بولے. اور " اس" کے لیے 'تھی" استعمال نہیں کر سکے تھے. شا ید ان کو یقین تھا کی انکی بیٹی زندہ ہے.

"حسن آپ کو یاد ہے جب وہ اسکول سے واپس آتی تھی تو پورا گھر سر پہ اٹھا لیتی تھی".

'مما مما .....مما'
'کیا ہو گیا پریشے کیوں چیخ رہی ہو'?
فوزیہ نے 10 سالہ پریشےکو اتنا اونچا پکارنے پر ڈانٹا تھا. لیکن وہ پھر بھی باز نہیں آئی تھی.
'مما بھوک لگی ہے'.
وہ اتنی اونچی آواز میں بولی کہ کچن میں موجود کھانا کھاتے ذیشان نے کانوں پر ہاتھ رکھے تھے.
'آہستہ بولیں لڑکی میرے معصوم سے کانوں نے آپکا کیا بگاڑا ہے '
17 سالہ ذیشان نے اب رخ پریشے کی جانب موڑا تھا.
'آپ مجھ سے بات مت کریں' شان میں آپ سے ناراض ہوں' کل رات آپ نے مجھے ڈانٹا تھا'.
وہ پھولے منہ کے ساتھ بولی تو ذیشان اور فوزیہ بیگم ہنس پڑے.
'لیکن...ڈانٹنے کے بعد سوری بھی تو کیا تھا نہ وہ یاد نہیں ہے آپ کو"?
ذیشان نے بولتے ہوئے ابرو اچکا ئے. لیکن وہ جواب دینے کی بجائے اب ذیشان کے سامنے رکھے کھانے میں سے کھانا شروع ہو چکی تھی.
'توبہ ہے'ذرا جو اس لڑکی سے بھوک برداشت ہو'پریشے میں دوسرا کھانا نکال کر دیتی ہوں یہ ذیشان کو کھانے دو اس کو ابھی جا کر ٹیسٹ کی تیاری بھی کرنی ہے'.
فوزیہ پہلے ہلکی آواز میں بولی اور پھر پریشے سے مخاطب ہوئ . لیکن کوئی فائدہ نہیں تھا وہ اب بھی پوری توجہ سے کھا رہی تھی .
'مما رہنے دیں' میں ویسے بھی کھانا کھا چکا ہوں'.
ذیشان جانتا تھا کہ وہ بھوک کی کچی تھی. اس لئے فوزیہ بیگم سے بولا. جو اب بھی غصے سے پریشے کو گھور رہیں تھیں.

"فوزیہ سو جاؤ تمہاری طبیعت خراب ہو جائے گی".
حسن حیدر کی آواز فوزیہ بیگم کو کا فی دور سے آئی تھی. پھر وہ حسن حیدر کی طرف مڑیں. انکی آنکھوں میں آنسو تھے اور ماضی کی یاد دھندلائ تھی.
"حسن جب کوئ بہت اپنا بھی مر جائے تو صبر آجاتا ہے'لیکن میرا دل کہتا ہے کہ وہ بھی اسی دنیا میں سانس لے رہی ہے'حسن کیا وہ مجھے یاد کرتی ہوگی'کیا اس کو پتا ہوگا کہ اس کی ماں بھی ہے جو اس کے لیے پل پل تڑپ رہی ہے'کیا وہ ....."
فوزیہ بیگم کی روتے روتے ہچکی بندھ گئ تھی اور ان سے بولا نہں جارہا تھا. ان کا غم آج بھی دس سال پہلے اس دن کی طرح تازہ تھا جب پریشے ان سے جدا ہوئ تھی.حسن حیدر بھی بے آواز آنسو بہانے لگے اور فوزیہ بیگم کا سر اپنے کندھے سے لگا کر ان کو تسلی دینے لگے.

❣غازی❣بقلم; اقراءاشرف                                   ✔ COMPLETE✔Where stories live. Discover now