نادان محبت!

By SabihaRehman1

34.3K 1.6K 620

یہ کہانی ہے ایک کمسن لڑکی کی جو پاک ائیر فورس کے آفیسر سے محبت کر بیٹھی ہے لیکن اسے بتانے سے کتراتی ہے۔۔ اس ک... More

part:1
part:2
part:3
part:4
part:5
part:6
part:8
part : 10
part:9
part :11
part:12
part:13
part:14
part:15
part:16
part:17
part:18
part::19
part:20
last part✔️

part:7

1.3K 75 25
By SabihaRehman1

قسط نمبر :سات

"بھائی کہاں سے آ رہے ہیں؟؟"

" دوستوں کے ساتھ تھا۔ تم کب آئی واپس؟؟"

" مجھے چاچو چھوڑ کر گئے کچھ ٹائم پہلے۔۔۔"

" اچھا۔۔۔"

" اتنا تیار ہو کس دوست سے ملنے گئے تھے آپ؟؟؟ " (عنایہ نے آنکھ دباتے ہوئے پوچھا)

" کیا مطلب ہے ؟؟" ( حسنین نے عنایہ کا کان پکڑتے ہوئے پوچھا)

" مطلب یہ کہ بلیک شرٹ بلیو جینز پہنے اور پرفیوم کی دوکان خود پہ چھڑک کے کہاں گئے تھے؟؟؟" ( عنایہ نے حسنین کو سر سے پاؤں تک دیکھا تھا)

" شک کر رہی ہے مجھ پہ؟؟؟"

" ہائے نہیں۔۔۔"

" شرم کر لڑکی۔۔۔۔"

" شرم تو نہیں ہے مجھ میں بھائی جان۔۔۔"

" پتہ تھا مجھے شہریار کہاں ہے؟؟؟"

" وہ سو گیا۔۔۔"

" تنگ تو نہیں کرتا؟؟؟"

" کرتا ہے بچہ ہے نا اپنی ماما کو مس کرتا ہے۔۔۔"

" اسے اس کی ماما کہ بنا رہنا سیکھا دو تم۔" ( حسنین کا موڈ ایک دم سے خراب ہو گیا تھا)

" کیوں بھائی؟؟"

" کیونکہ اس کی ماں یہاں نہیں آنا چاہتی۔۔۔۔"

" سب ٹھیک ہو جائے گا بھائی۔۔"( عنایہ نے حسنین کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا)

" کچھ ٹھیک نہیں ہو گا گڑیا کچھ بھی نہیں۔ وہ ماں کہلانے کے قابل ہی نہیں ہے۔۔۔"

" بھائی ایسا نہیں بولیں۔" ( عنایہ کو حسنین کی بات سے تکلیف ہوئی تھی)

" ٹھیک بول رہا ہوں میں میری جان۔۔۔"

" بھائی وہ بیوی ہے آپ کی۔۔۔"

" ایسی ہوتی ہے بیوی عنایہ؟؟"

" کیسی؟؟"

" جسے نا شوہر کا خیال ہے اور نا اپنے بچے کا۔۔۔"

" بھائی وہ غصے میں ہیں..."

" کس بات کا غصہ گڑیا؟؟"

" آپ جانتے ہیں بھائی..."( عنایہ نے پانی کا گلاس ہونٹوں سے لگاتے ہوئے کہا)

" میں اپنی پھول سی بہن اس کو نہیں دے سکتا ۔۔۔"

" بھائی بھابی غلط نہیں ہے۔۔۔"

" کیسے؟؟"

" میں بہن ہوں آپکی آپ کو جان سے زیادہ عزیز ہوں؟؟؟ ہے نا؟؟"

" ہاں میری جان تم میری زندگی ہو۔۔۔"

" مجھے پتہ ہے بھائی جان۔ دیکھے ایسے ہی حاتم بھائی دانیہ آپی کے بھائی ہیں اور وہ بھی اپنے بھائی سے بہت پیار کرتی ہیں۔ ان کو اپنا بھائی ساری دنیا سے پیارا لگتا ہو گا جیسے میں آپ کو۔۔۔۔۔"

(حسنین کو عنایہ ایک بار پھر لاجواب کر گئ تھی)

" ایک بات بتاؤ عنایہ..."

" جی بھائی؟؟؟"

" تمھارا دل اتنا صاف کیوں ہے؟؟؟"

" دل تو سب کا صاف بناتا ہے وہ اللہ "( عنایہ نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا)

" اور جن کے دل سیاہ ہوتے ہیں؟؟؟"

" وہ تو ہم لوگوں نے اپنے اعمالوں سے کالے کر لئیے ہیں۔ اللہ نے تو ہمیں پاک صاف بنایا تھا۔ جیسے جیسے ہم گناہ کرتے جاتے ہیں ویسے ویسے ہمارے دل پہ ایک سیاہ نقطہ لگتا جاتا ہے اور آخر پہ ہمارا دل سیاہ ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔"

" عنایہ تم کیسے اچھا سوچ سکتی ہو ان لوگوں کیلئے جو تمھیں اتنا برا بولتے ہیں۔۔۔۔"( حسنین حیران ہوا تھا)

" میں بھی ان کو برا بولوں تو کیا فرق رہ جائے گا ان میں اور مجھ میں؟؟؟"

" پتہ نہیں۔۔۔۔"

" کوئی فرق نہیں رہ جائے گا بھائی اگر میں بھی ویسا ہی کروں تو۔۔۔۔"

" عنایہ میں تمھاری طرح اچھا نہیں بن سکتا ۔۔۔"

" میں اچھی نھیں ہوں بھائی۔۔۔"

" بہت اچھی ہو تم۔۔۔"

" نہیں میں صرف اللہ کی باتیں ماننے کی کوشش کرتی ہوں شاید آپ اس لئیے اچھا بول رہے نہیں تو میں بہت نافرمان ہو اپنے اللہ کی۔۔۔"

" نھیں گڑیا تم اللہ کی نافرمان نھیں ہو سکتی۔۔۔"

" پھر دعا کریں بھائی کہ جیسا آپ مجھے سمجھتے اللہ مجھے ویسا بنا دے۔۔ آمین!"

" آمین۔۔۔چل اب سونے۔ باقی کی باتیں صبح کریں گے۔۔۔"

" اوکے بھائی گڈنائیٹ۔۔۔۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"کیسی ہو مریم۔۔۔؟؟"

" اللہ خیر آج بڑے پیار سے پوچھا جا رہا ہے کہ مریم کیسی ہو توبہ قیامت تو نہیں آنے والی؟؟" ( مریم نے عنایہ کو دیکھتے ہوئے کانوں کو ہاتھ لگایا تھا)

" عزت تو تجھے راس نہیں احمد چاچو کی طرح۔۔۔"

( احمد کے نام پہ مریم کو کچھ ہوا تھا)

" او! کہاں کھو گئ؟؟؟" ( عنایہ نے مریم کے کندھے پہ تھپڑ رسید کرتے ہوئے کہا)

" کہیں نہیں۔۔۔"

" اچھا سن، گھر پہ سب کیسا چل رہا؟؟؟؟"

" ٹھیک ہے سب۔۔۔"

" تیری کھڑوس مامی ٹھیک ہے؟؟؟"

" ہاں ٹھیک ہے۔۔۔"

" کچھ کہتی تو نہیں اب تجھے؟؟؟"

"نہیں بہت پیار کرتی ہے اب مجھے وہ۔۔۔"( مریم نے منہ بناتے ہوئے کہا)

" ہاہاہاہاہاہا اچھا مزاق تھا۔۔۔"

" جب تجھے پتہ ہے کہ میری مامی میرے ساتھ کچھ اچھا نہیں کر سکتی تو پوچھتی کیوں ہے"(مریم کی انکھوں میں نمی تھی)

" یار مریم ایسی شکل تو نا بنا پلیز ۔۔"

" میری زندگی میں کچھ ٹھیک نہیں ہو سکتا عنایہ۔" ( مریم اپنی آنکھیں رگڑتی ہوئی کالج کے گیٹ کی طرف بڑھ گئ)

" مریم رک نا بات تو سن میری کیا ہو گیا یار!" ( عنایہ بھی مریم کے پیچھے کالج سے باہر آ گئ تھی)

( گیٹ پہ عنایہ کہ انتظار میں کھڑا احمد روتی ہوئی مریم اور اس کے پیچھے بھاگتی ہوئی عنایہ کو دیکھ کے پریشان ہوا تھا)

" عنایہ کیا ہوا؟؟؟"

( احمد کی آواز پہ عنایہ اور مریم نے پلٹ کے احمد کو دیکھا تھا)

" لکی آپ یہاں؟؟؟"

" ہاں میں فری تھا تو تمھیں لینے آ گیا ( احمد نے مریم کی انکھوں کو دیکھا تھا جو آنسوؤں میں بھیگی اور بھی خوبصورت لگ رہی تھیں)

" میں چلتی ہوں عنایہ کل ملتے ہیں۔۔۔۔"( مریم نے پلکیں جھکاتے ہوئے کہا)

" یار تو تو رک جا میری ماں۔۔۔"( عنایہ نے مریم کا بازو دبوچتے ہوئے کہا)

" کیا ہوا عنایہ ان محترمہ کو؟" ( احمد نے مسکراتے ہوئے پوچھا)

" کچھ نہیں لکی وہ میرا اور مریم کا جھگڑا ہو گیا اور اسے برا لگ گیا اور وہ رونے لگ گئ۔" ( عنایہ نے اصلی بات چھپا لی تھی)

" چھپکلی تو نے کچھ کہا ہو گا اس بیچاری کو۔" ( احمد نے عنایہ کا کان کھینچتے ہوئے کہا)

" آپ کو میں ایسی لگتی ہوں لکی؟" ( عنایہ نے آنکھیں گھماتے ہوئے کہا)

" ہاں تو مجھ معصوم کو تو تو بخشتی نہیں اس کا کیا حال کرتی ہو گی توبہ توبہ۔۔۔۔"

( احمد کے انداز پہ مریم کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ پھیل گئ تھی)

" ہنس لو ہنس لو تم بھی ہنس لو اور آپ مسڑ چھپکلے آپک کو تو میں بعد میں دیکھوں گی۔۔"

" بعد میں بھی نا دیکھی ایسے مجھے نظر لگا دے گی۔۔۔۔"( احمد کونسا منع ہونے والا تھا)

" ہاں آپ کو ہی تو نظر لگنی ہے پھیکے کدو۔" ( عنایہ نے منہ بگاڑتے ہوئے کہا)

( عنایہ کے خطاب پہ احمد اور مریم دونوں کی ہنسی چھوٹ گئی)

" ہائے شکر ہے میری پیاری دوست تجھے ہنسی تو آئی۔۔۔"

" اسے تو ہنسی آ گئ مگر تجھے میں معاف نہیں کروں گا چھپکلی۔۔۔"

" بڑے دیکھے آپ جیسے چھپکلے۔۔۔۔"

" اچھا عنایہ میں گھر چلتی ہوں۔" ( مریم عنایہ اور احمد کو ہنستا دیکھ کے اپنا غم بھول گئ تھی اس کا دل نہیں کر رہا تھا اس خوبصورت منظر کو چھوڑ کر اس دوزخ میں جانے کا مگر وہ کیا کرتی آخر اسے جانا تو وہیں تھا)

" ارے مریم میں اور عنایہ لنچ کرنے جا رہے ہیں۔آپ بھی آ جاؤ نا ساتھ۔" ( احمد نے عانیہ کے طرف منت بھرے انداز سے دیکھتے ہوئے کہا تھا)

( عنایہ نے احمد کو ابھرو اچکاتے ہوئے دیکھا تھا جیسے پوچھ رہی ہو کہ جناب یہ لنچ کا پلین کب بنا تھا)

" نہیں پھر کبھی۔ ابھی مجھے گھر جانا ہے۔۔۔"

" ارے مریم آ جاؤ نا۔۔۔۔"

" نہیں یار پھر کبھی۔ دیکھ وین بھی آ گئ پھر ملوں گی۔۔۔"

" اوکے یار۔۔۔"

( مریم احمد پہ ایک نظر ڈالتے ہوئے آگے کی طرف بڑھ گئ اور احمد تب تک اسے دیکھتا رہا جب تک مریم وین میں بیٹھ کے چلی نہیں گئی)

" اؤ ہیلو۔۔۔۔۔"

( عنایہ کی آواز پہ احمد جھٹ سے مڑا تھا)

" کیا ہے..."

" ہمیں لنچ کرنے جانا ہے۔۔۔۔"( عنایہ نے احمد کا کان کھینچے ہوئے کہا)

" اوووو میڈم کوئی پیسے نہیں ہے تیرے غریب چچا کے پاس۔ ابھی تک آفس سے تنخواہ بھی نہیں ملی ہائے۔۔۔" ( احمد نے سر پہ ہاتھ مارتے ہوئے کہا)

" ابھی تو ہولا تھا آپ نے لنچ کا۔" ( عنایہ کا منہ احمد کی بات سے کھل گیا تھا)

" وہ تو میں نے وہ مریم رو رہی تھی اس لئیے بولا۔" ( احمد نے زبان دانتوں میں دباتے ہوئے کہا)

" کیا۔۔۔۔۔۔۔ لکی آپ نے مریم کیلئے بولا اور میں؟؟؟؟"

" تو تو میری جان ہے...."

" ہٹ جائے پرے۔ بات نا کیجئے گا جا رہی ہوں میں گھر ۔۔۔۔"

' رک تو۔۔۔۔۔"

" ہاں یاد آیا۔۔۔۔"( عنایہ جاتے جاتے مڑی تھی۔۔۔)

" کیا؟؟؟؟"

" وین تو چلی گئ آپ کی باتوں میں اب مجھے گھر چھوڑ کر آئیں ہونہہ۔۔۔۔" ( عنایہ نے حکم جاری کیا تھا)

" اوکے میڈم چلیں آپکا ڈرائیور حاضر ہے۔" ( احمد نے ہاتھ ماتھے تک لے جاتے ہوئے کہا)

" ہاہاہاہاہاہا"

( احمد کے انداز پہ دونوں چچا بھتیجی ہنس دیے تھے)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"اماں جی کیا پلین ہے آپکا؟؟؟"

" کونسا پلین؟" ( سائرہ نے سوالیہ انداز میں حاتم کو دیکھا تھا)

" ماں جی آپ نے ہی بولا تھا کہ اب آخری پلین عنایہ سے شادی کا وہی پوچھ رہا ہوں۔۔۔" ( حاتم پریشان نظر آ رہا تھا)

" ہاں وہ یاد آیا۔۔"

" کیا ؟؟؟"

" تیرا چچا کبھی نہیں مانے گا رشتے کیلئے۔۔۔۔"

" کیا مطلب ہے آپکا؟؟؟" ( حاتم غصے سے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہو گیا تھا)

" بیٹھ جا سکون سے تجھے کیوں آگ لگ رہی ہے؟؟"

" کیا مطلب ہے مجھے شادی کرنی ہے عانیہ سے ماں جی۔۔۔۔"

" دیکھ مجھے صاف صاف بتا کیا معاملہ ہے؟؟؟ کیوں مرا جا رہا ہے عانیہ کیلئے؟؟ کہیں محبت تو نہیں کرتا اس سے؟؟" ( سائرہ بیگم کی آنکھوں میں غصہ تھا)

" نہیں نہیں ماں جی ایسا کچھ نہیں ہے۔" ( حاتم ماں کی نظروں سے گھبرا گیا تھا)

" دیکھ حاتم میں کہہ دیتی ہوں اگر ایسی ویسی کوئی بات ہوئی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا..."

( حاتم نظریں جھکا گیا تھا)

" ایسا کچھ نہیں ہے ماں جی۔" ( حاتم کا ماتھا پسینے سے بھر گیا تھا)

" تیری شادی اس سے بس بدلہ لینے کیلئے ہو گی سمجھا! وہ صرف تیری نام کی بیوی ہو گی۔ تیری اولاد اس لڑکی سے نہیں ہو گی۔۔ بعد میں اسے طلاق دے کہ میں اپنے بیٹے کیلئے شہزادی بیاہ کے لاؤ گی۔۔۔ سمجھا؟؟؟"

" جی جی ماں جی۔" ( حاتم ماں کی سوچ پہ حیران ہوا تھا)

" ہاں یہ بات یاد رکھنا اب مجھے دوبارہ نا بتانا پڑے" ( سائرہ حاتم کو گھورتے ہوئے کمرے سے باہر چلی گئ تھی)

" ہائے میری بھولی بھالی ماں تو کیا جانے تیرا بیٹا اپنا دل ہار بیٹھا ہے اس پری کے آگے ۔۔ہائے اس کے پاؤں کی جوتی بن کہ بھی رہ سکتا ہے تیرا یہ بیٹا۔ اتنی حسین بیوی ہو تو کون پاگل دور رہے گا اس سے کون اس معصوم پہ ظلم کرے گا بس ایک دفعہ میری ہو جا عنایہ دنیا کی ہر خوشی دوں گا تجھے۔۔۔"

( حاتم اپنی دنیا عنایہ کے ساتھ بسائے بیٹھا تھا)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"وجاہت آپ کچھ سمجھاتے کیوں نہیں حسنین کو؟؟"

" کیا سمجھاؤ میں اسے رباب بیگم؟؟"

" یہی کہ وہ دانیہ کو کسی بھی طرح واپس لے کر آئے بیوی ہے وہ اس کی۔۔۔۔۔"

"یہ بات آپ کا بیٹا مجھ سے بہتر جانتا ہے کہ دانیہ بیوی ہے اس کی۔۔۔۔"

" وجاہت آپ ایسے خاموش کیوں بیٹھے ہیں کچھ کریں نا۔۔۔۔" ( رباب بیگم بہت پریشان نظر آ رہی تھیں)

" اگر اس وقت تم مجھے بولنے دیتی تو آج میرے بچے اس عذاب میں مبتلا نا ہوتے۔۔۔۔" ( وجاہت صاحب نے رباب کو پھر سے ماضی یاد کروا دیا تھا)

" غلطی ہو گئ مجھ سے اس وقت بس اپنا اور اپنے بچوں کا سوچا میں نے۔ سب سوچتے ہیں اپنے بچوں کا اگر میں نے بھی سوچا تو کیا غلط ہے؟؟؟؟" ( رباب نے شرمندگی چھپاتے ہوئے کہا)

" ہاں بلکل سب سوچتے ہیں۔اگر سوچا ہی تھا تو حسنین کی شادی کیوں کروا دی وہاں ؟؟؟ یہ بھی بتا دو آج مجھے؟؟؟"

وہ وجاہت۔۔۔" ( رباب کے پاس کوئی جواب نہیں تھا)

بتائیں نا بیگم مجھے کیا وجہ تھی۔۔۔؟؟؟"

" آپ تو جانتے ہیں دانیہ کتنی پڑھی لکھی ہے اور حسنین اور دانیہ ایک دوسرے کو پسند بھی کرتے تھے۔۔۔۔"( رباب نے ڈرتے ڈرتے بتایا تھا)

" یہ بات مجھے پتہ ہے بیگم جو اصل مقصد تھا وہ بتائیں مجھے؟؟؟؟"

" وہ جہیز۔۔" ( رباب نے پلکیں جھکاتے ہوئے کہا)

" واہ بیگم کیا بات ہے۔ جہیز کی وجہ سے آپ نے میرے بچے کی زندگی برباد کر دی؟؟؟ کیا کہنا ہے آپکا۔ بلکل نہیں سوچا آپ نے کہ یہ جہیز لینا عذاب بن جائے گا۔ ہماری زندگی برباد کر دی، عذاب بنا دی اس جہیز نے۔۔۔۔"

" وجاہت مجھے معاف کر دیں پلیز۔" ( رباب نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا)

" بس کریں بیگم اب آپ بیٹھی پوجتی رہے اس جہیز کو۔۔۔"

" وجاہت پلیز ایسا نہیں بولیں کچھ کریں آپ؟؟؟"

" کیا کروں؟؟؟ اپنی معصوم سی بچی اس عورت کے حوالے کر دوں؟؟ یا اس نالائق کو دے دوں اپنی شہزادی؟؟؟ میں اپنی بیٹی پہ ایک آنچ بھی برداشت نہیں کر سکتا سمجھیں آپ؟؟؟؟" ( وجاہت غصے سے کمرے سے باہر نکل گئے تھے.اور پیچھے بیٹھی رباب اپنے کئیے پہ آنسو بہا رہی تھی۔ اس سے زیادہ وہ اور کچھ نہیں کر سکتی تھی)

( جہیز ایک بہت بڑی لعنت آپ سب جانتے ہیں۔۔ اور ہمارے معاشرے میں اس لعنت نے لاکھوں بیٹیوں کی زندگیاں برباد کر دی ہے۔۔ ہماری ہزاروں بہنیں شادی کے انتظار میں بیٹھیں ہیں صرف اس جہیز کی وجہ سے۔ بوڑھے ماں باپ اپنا سب کچھ بیچ کے بیٹیوں کے لئیے جہیز بناتے ہیں مگر جب وہ جہیز وہ چند دنیاوی چیزیں لڑکے والوں کو پسند نہیں آتیں، تو وہ بہنوں، بیٹیوں کو نکاح کے وقت ہی چھوڑ جاتے ہیں۔ ذرا نہیں سوچتے وہ ظالم لوگ، کہ بوڑھے ماں باپ پہ کیا گزرتی ہو گی اور اس وقت اس بھائی پہ کیا گزرتی ہو گی جو ایک پاؤں پہ کھڑا سارا دن کام کرکے چند پیسے کماتا ہے اپنی بہنوں کیلیئے۔۔۔ اور کچھ لوگ بڑے سکون سے ان ماں باپ کی ساری زندگی کی محنت کو خاک میں ملا دیتے ہیں۔۔۔۔ ماں باپ ایک ایک پیسہ جوڑ کر اپنی بیٹیوں کی شادی کا کھانا دیتے ہیں۔ اور ان جیسے لوگ بڑے سکون سے ان کی عزت خاک میں ملا آتے ہیں اس کھانے کی بے عزتی کر کے ہائے مسلمانوں اللہ کے رزق کی نا شکری؟ اللہ کی نعمتوں کو جھٹلانا کیسے کر لیتے ہو یہ سب؟؟ دوسروں کی جگہ خود کو رکھ کے کیوں نہیں سوچتے؟؟
کیا بن جائے گا چند دنیاوی چیزوں سے آپ کا؟؟؟
کیا پوری زندگی گزر جائے گی ان چیزوں کے ساتھ؟
کیا بوڑھے ماں باپ کی آہوں کے سائے تلے آپ سکون سے زندگی گزار لیں گے؟؟؟؟
کیا ان ماں باپ کے آنسوں ان بیٹیوں کے آنسو جو آپ لوگوں کی وجہ سے بہتے ہیں ان سب کا حساب دے دیں گے اپنے اللہ کو؟؟
کس منہ سے اللہ کا سامنا کریں گے؟؟
کیا بولیں گے اللہ کو کہ اللہ چند دنیاوی چیزوں کے لئیے تیرے بندوں کو دھتکار دیا ہم نے؟؟
ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ آجکل ہر کوئی امیر فیملی میں رشتہ کرنا چاہتا۔ اگر لڑکے والے امیر ہو تو وہ امیر ترین خاندان کی لڑکی لانا پسند کرتے ہیں۔
اگر لڑکی والے امیر ہو تو وہ اپنے جیسے امیر ترین لوگوں میں رشتہ کرتے ہیں۔۔۔
اس سب کا نقصان کیا ہے؟
نقصان یہ ہے کہ امیر لوگ امیروں میں رشتہ کر کے مزید امیر ہو جاتے ہیں۔۔ اور غریب لوگ بیچارے ان کی بیٹیاں وہی کی وہی رہ جاتیں ہیں۔ان کی زندگی کبھی نہیں بدلتی۔۔
ہر ایک کو زندگی جینے کا حق ہے۔ اس لئیے میں درخواست کرتی ہوں ان لڑکے والوں سے خاص کر جو امیر  فیملی سے تعلق رکھتے ہیں کہ وہ لوگ غریب خاندان کی بیٹیوں سے اپنے بیٹوں کا رشتہ کریں تا کہ غریبوں کی بیٹیاں ہمیشہ غریب نا رہیں۔)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"یااللہ عنایہ کو ہمیشہ خوش رکھنا۔اس کے نصیب میں ایسا انسان لکھنا جو اسے ہمیشہ خوش رکھے۔ یا اللہ میں اسے روتا نہیں دیکھ سکتا تو تو جانتا ہے نا میرے مالک میرے دل کا حال تو اس کے دل سے میری محبت ختم کر دے ختم کر دے میرے مالک۔۔"

( ذیشان سجدے میں پڑا گڑگڑا رہا تھا۔ کیا اسے بھی محبت ہو گئ تھی کسی سے؟؟ اگر ہو گئ تھی تو؟؟)

ذیشان ملک کو بھی رلا گئ تھی کسی کی محبت۔
محبت نے اسے سجدوں میں آنسوں بہانے پہ مجبور کر دیا تھا۔۔۔۔۔
وہ جو بڑے بڑے غم ہنس کے برداشت کر جاتا تھا۔
ایک معصوم کی محبت نے اسے سجدے میں لا گرایا تھا
"ہاں یہ سچ ہے کہ! فوجی کو بھی رلا دیتی ہے محبت کبھی کبھی۔۔۔۔"

ذیشان نے جائےنماز رکھ کے اپنا موبائل پکڑا اور عنایہ کو نمبر ملایا۔۔۔

( عنایہ نے فوراً کال ریسیو کر لی تھی جیسے وہ ذیشان کے انتظار میں ہی تھی)

" ہیلو کیسے ہیں آپ ذیشان بھائی؟"

( ذیشان مسکرا دیا تھا)

" ٹھیک ہوں تم کیسی ہو؟؟؟"

( عنایہ ذیشان کے تم کہنے پہ حیران ہوئی تھی۔کیونکہ ذیشان نے عنایہ کو کبھی تم کہہ کے مخاطب نہیں کیا تھا وہ ہمیشہ آپ کہتا تھا)

" میں بھی ٹھیک۔۔۔ آپ ٹھیک ہے نا؟؟"

"ہاں کیوں میں ٹھیک نہیں لگ رہا؟؟؟"

' نہیں وہ میں نے بس ایسے ہی بولا تھا۔۔۔"

" اور آج کیسے یاد آ گئ میری؟؟؟" ( عنایہ نے ہمت کر کے پوچھ ہی لیا تھا)

" یاد تو کافی دنوں سے آ رہی ہو یہ سوچ رہا تھا کہ تم کس منہ سے میرے سامنے آؤ گی اس لئیے کال نہیں کی۔۔۔۔'

" مطلب؟؟؟ میں کچھ سمجھی نہیں۔۔۔"( عنایہ حیران ہوئی تھی)

" میں تمھیں وہی معصوم عنایہ سمجھتا تھا مگر میں بھول گیا تھا کہ تم اب بڑی ہو گئ ہو۔۔۔"

" آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟؟پلیز صاف صاف بتائیں...."

" کہنا تو بہت کچھ چاہتا ہوں۔۔۔"

" بولیے میں سن رہی ہوں۔۔۔"

" ایسے نہیں مجھے ملنا ہے تم سے۔۔۔"

" جی بھائی آپ گھر آ جائیے۔۔۔۔"

" بھائی ( ذیشان منہ میں بڑبڑایا تھا)

" کچھ کہا آپ نے؟؟؟"

" نہیں میں کہہ رہا تھا کہ گھر پہ نہیں ملنا۔۔۔"

" تو پھر کہاں ملنا ہے؟؟؟"

" کہیں باہر۔۔۔۔"

" کیوں؟؟؟ "

" تمھیں نہیں ملنا تو کوئی بات نہیں خیال رکھنا اللہ حافظ۔۔۔۔۔" ( وہی کھڑوس انداز)

" میں نے ایسا کب بولا کہ مجھے نہیں ملنا۔۔۔"

" ہممم۔۔۔۔"

" کہاں پہ ملنا ہے؟؟؟"

" آجکل بہت مصروف ہو گی تم گھر پہ بہت کام ہوتے ہیں نا؟؟؟"

" جی " ( عنایہ کو ذیشان کی باتوں کی کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی اور شاید ذیشان کو بھی آج اپنی باتیں سمجھ نہیں آ رہی تھی)

" تو جس دن تم فری ہو گی مجھے میسج کر دینا جو گھر کہ پاس پارک ہے وہی ملیں گے۔۔۔۔"

" جی ٹھیک ہے۔۔۔۔"

( ذیشان نے جھٹ سے فون بند کر دیا تھا...عنایہ نڈھال سی بیڈ پہ بیٹھ گئ تھی)

" اللہ پاک یہ کس انداز میں بات کر رہیں تھے ذیشان مجھ سے۔ ایسا کیا کر دیا میں نے؟؟ کیوں وہ ایسے بات کر رہیں تھے مجھ سے اللہ پاک؟؟ کیا میرا خواب سچ ہونے والا ہے؟ کوئی دور ہونے والا ہے مجھ سے ؟؟؟ نہیں اللہ پاک پلیز ایسا نہیں کیجئیے گا پلیز میں مر جاؤں گی میں نے ذیشان سے بہت محبت کی ہے مجھے نہیں پتہ کب وہ میرے دل میں آ گئے کب ان کو دیکھتے دیکھتے مجھے وہ اچھے لگ گئے اور پھر "آرمی یونیفارم" میں انہیں دیکھ کہ مجھے ان سے محبت ہو گئ ۔۔۔اللہ پاک پلیز میرے ساتھ ایسا نہیں کیجئیے گا میں نے تو ان سے پاک محبت کی ہے ۔۔ میں نے گناہ نہیں کیا پلیز میرے ساتھ کچھ ایسا نہیں کیجئیے گا۔۔۔"
( عنایہ آج پھر رو دی تھی بلک بلک کر ایک فوجی کیلئے... ہاں یہ محبت انسان کو ایسے ہی بچہ بنا دیتی ہے ضدی بچہ)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"حسنین۔۔۔۔'

" جی ماما؟؟"

" بیٹا ذرا دیکھنا عنایہ آج ناشتہ کرنے نہیں آئی ابھی تک اس نے کالج جانا ہے شاید سو رہی ہو گی اسے جگا دو ذرا۔۔۔۔'

" جی ماما میں دیکھتا ہوں۔۔۔۔۔"

۔۔۔۔۔۔۔

عنایہ! عنایہ!۔۔۔۔۔۔"

( حسنین عنایہ کے کمرے میں داخل ہوا تو عنایہ بیڈ کے ساتھ بیٹھی سو رہی تھی)

" گڑیا! کیا ہوا عنایہ۔۔۔"( حسنین نے عنایہ کے چہرے سے بال ہٹائے اس کے چہرے پہ آنسوؤں کی لکیریں تھیں شاید وہ رات بھر روتی رہی تھی)

" عنایہ اٹھو۔ عنایہ!" ( حسنین نے عنایہ کے گال تھپکتے ہوئے کہا)

( عنایہ نے حسنین کی آواز پہ آنکھیں کھولیں)

" بھائی۔۔۔۔"

" جی بھائی کی جان؟؟؟ کیا ہوا میری بیٹی کو؟؟؟'

" بھائی" ( عنایہ نے رونا شروع کر دیا تھا)

" بیٹا کیا بات ہے؟ میری جان کیوں رو رہی ہو ؟؟ کیا ہو گیا بھائی کی جان کو؟؟؟"

" بھائی کوئی مجھ سے دور ہونے والا ہے۔۔۔" ( عنایہ اس ٹائم بہت دکھی نظر آ رہی تھی)

" کیا بول رہی ہو گڑیا کوئی دور نہیں جا رہا ایسا کیوں بول رہی ہو چپ کر پگلی۔۔۔۔"

" بھائی سچی کوئی دور ہونے والا مجھ سے۔۔۔۔"

" اچھا چپ میری جان یہاں آؤ بیٹھو آرام سے۔" ( حسنین نے عنایہ کو بیڈ پہ بیٹھایا اور پانی کا گلاس اسے تھمایا)

" بھائی۔۔۔۔۔"

" اچھا پہلے پانی پی ریلیکس ہو جا پھر ہم باتیں کرتے ہیں۔۔۔۔۔"

( عنایہ نے پانی کا گلاس ہونٹوں کو لگایا)

" اب کچھ ٹھیک لگ رہا ہے؟؟؟" ( حسنین نے عنایہ کے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا)

" جی بھائی۔۔۔۔

" تو اب بتاؤ کیا بات ہے؟؟؟"

" کچھ نہیں بھائی میں نے ڈراؤنا خواب دیکھا تھا بس ڈر گئ۔۔۔۔"

" عنایہ سچ بتاؤ۔۔۔۔"

" سچ بتا رہی ہوں بھائی..." ( عنایہ حسنین جو مزید پریشان نہیں کر سکتی تھی۔ وہ پہلے ہی دانیہ کی وجہ سے بہت پریشان تھا)

" تو پھر بیڈ کے پاس ایسے کیوں سوئی تھی؟؟؟"

" وہ بھائی مجھے پتہ نہیں کیا ہو گیا تھا..."

" اچھا اب ٹھیک ہو۔۔۔۔؟"

" جی "

(عنایہ نے نظریں جھکا لیں تھیں مگر حسنین کو وہ اب بھی ڈسٹرب لگ رہی تھی)

" گڑیا کیا بات ہے؟؟؟"

" بھائی مجھے دادا جی کے پاس جانا ہے پلیز آپ چھوڑ دیں مجھے وہاں۔۔۔۔"

( حسنین خاموش ہو گیا تھا)

" پلیز بھائی میں کالج کے لئیے تیار ہوتی ہوں آپ مجھے وہاں چھوڑ دیں ماما مجھے جانے نہیں دیں گی پلیز۔۔۔۔۔"

" عنایہ۔۔۔۔۔۔"

" پلیز بھائی" ( عنایہ نے حسنین کے آگے ہاتھ جوڑ دیے تھے)

" یار یہ کیا کر رہی ہو پاگل۔۔۔۔"

" لیں چلیں نا بھائی پلیز۔۔۔۔"

" اچھا بابا تم تیار ہو جاؤ میں لے چلتا ہوں۔۔۔۔"

( عنایہ کی حالت دیکھ کے حسنین مان گیا تھا نہیں تو وہ کبھی بھی اسے وہاں نا لے کر چلتا)

" تھینک یو بھائی آپ بہت اچھے ہیں.... "

"ہاں اب مکھن نہیں لگا اور جلدی تیار ہو جا۔۔۔۔'

" ہاہاہاہاہاہا اوکے بھائی میں بس آ رہی ہوں۔۔۔۔"

" ہاں ٹھیک ہے گڑیا۔۔۔۔'
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"عنایہ بیٹا اتنی جلدی میں کیوں کھا رہی ہو؟؟؟"

" ماما نہیں وہ مجھے بھائی کے ساتھ جانا ہے نا کالج اس لئیے جلدی کھا رہی ہوں نہیں تو بھائی نے مجھے چھوڑ کر چلے جانا ہے۔۔۔۔"

( حسنین عنایہ کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا جو شہریار کو گود میں بیٹھائے جلدی جلدی کھا رہی تھی)

" حسنین کے ساتھ کیوں جانا ہے عنایہ؟؟؟ ڈرائیور کے ساتھ جاؤ حسنین کو آفس جانا ہے۔۔۔"

" ارے نہیں ماما میں چھوڑ آؤں گا عنایہ کو کالج کوئی بات نہیں۔۔۔۔"

" لیکن بیٹا۔۔۔"

" ماما پریشان نہیں ہو آپ ناشتہ کر لیں آپ ٹھیک سے۔۔۔۔"

" اچھا بیٹا۔۔۔۔"

" ماما جان بابا جانی جلدی کیوں چلیں گئے آج؟؟"

" پتہ نہیں بیٹا بول رہے تھے کہ کوئی کام ہے ان کو اس لئیے۔۔۔۔'

" اچھا اچھا۔۔۔۔"

" عنایہ چلیں؟؟؟ '

" جی بھائی" (عنایہ نے شہریار کو پیار کیا اسے رباب بیگم کی گود میں رکھا اور چادر لینے بھاگ گئ)

" حسنین بیٹا عنایہ کچھ پریشان لگ رہی ہے. سب ٹھیک ہے نا؟؟" ( رباب بیگم آجکل اپنی بیٹی کو لے کر بہت فکرمند تھیں)

" جی ماما سب ٹھیک ہے آپ پریشان نہیں ہوا کریں۔۔۔۔'

" اچھا بیٹا خیال رکھا کرو بہن کا۔۔۔۔"

" جی ماما۔۔۔۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"عنایہ بیٹا۔۔۔۔"

" جی بھائی؟؟؟"

" میری گڑیا ٹھیک ہے نا؟؟؟'

" جی بھائی میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔"

" گڑیا کوئی پرابلم ہے تو اپنے بھائی کو بتا دو۔۔۔۔"

" نہیں بھائی ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔۔"

" عنایہ آج تمھاری جو حالت تھی مجھے بہت ٹینشن ہے تمھاری وہ سب دیکھ کر۔۔۔"

" بھائی آپ پریشان نہیں ہو میں نے ڈراؤنا خواب دیکھا تھا بس اس لئیے میں ڈر گئی تھی۔۔۔۔"

" عنایہ ایک بات پوچھوں۔۔۔۔؟؟؟"

" جی بھائی پوچھیے نا۔۔۔۔"

" سچ سچ جواب دو گی نا؟؟؟"

" جی بھائی آپ سے کبھی جھوٹ بولا ہے آپکی بہن نے۔۔۔۔!"

" میری جان بھائی کو بتاؤ ۔۔۔"

" کیا بھائی؟؟؟"

" عنایہ کوئی ہے آپکی زندگی میں؟؟؟"

" کیا مطلب بھائی؟؟؟"

" مطلب کہ کیا میری گڑیا کسی سے محبت کرتی ہے؟؟؟" ( حسنین نے عنایہ کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا)

( عنایہ کے سر پر بڑے آرام سے حسنین نے دھماکہ کیا تھا)

" نہیں نہیں بھائی ایسی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔'
( عنایہ کو پسینہ آنے لگ گیا تھا)

" دیکھو عنایہ اگر ایسی بات ہے تو بھائی کو بتا دو میں ہوں تمھارے ساتھ۔۔۔۔"

" نھیں بھائی ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔۔'

" دیکھو عنایہ یہ تمھاری زندگی ہے تم نے اسے اپنی مرضی سے گزارنا ہے۔ پسند کی شادی کرنا گناہ نہیں ہے۔ ہاں گناہ یہ تب بنتا ہے جب ہم اپنے پیار کو حاصل کرنے کیلئے غلط راستہ اختیار کرتے ہیں۔ مگر تمھارا بھائی تمھارے ساتھ ہے تمھیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔"

" نھیں بھائی ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔۔"

" اچھا میری گڑیا لیکن پھر بھی اگر کبھی کوئی پسند آ جائے تو اپنے بھائی کو ایک اشارہ ضرور کر دینا پھر دیکھنا تمھارا بھائی کیسی دھوم دھام سے شادی کرواتا ہے اپنی بہن کی۔۔۔۔'

" جی بھائی ٹھیک ہے۔۔۔۔" ( عنایہ کے دل میں سکون اتر گیا تھا اس کی آنکھوں کے سامنے ذیشان کی تصویر آ گئ تھی)

" لو آ گیا دادا جان کا گھر۔۔۔" ( حسنین نے گاڑی روکتے ہوئے کہا)

" جی بھائی۔۔۔۔"

" اچھا عنایہ سنو۔۔۔"

" جی بھائی؟"

" یہ پیسے لو اور دادا جان کو دے دینا۔۔۔۔"

" یہ کس لئیے بھائی ؟؟؟ "

" دادا جان کو کچھ لے دینا۔۔۔۔"

" اگر آپ یہ پیسے خود دیں گے دادا جان کو تو ان کو زیادہ خوشی ہو گی۔۔۔" ( عنایہ نے حسنین کی آنکھوں میں جھانکا تھا جہاں آج عنایہ کو دادا جان کیلئے پیار نظر آ رہا تھا)

" عنایہ تم دے دینا ضد نہیں کرتے۔۔۔۔"

" نہیں بھائی آپ پاس رکھیں یہ پیسے دادا جان کو ان پیسوں کی نہیں آپ سب کے پیار اور توجہ کی ضرورت اگر آپ یہ سب نہیں دیں سکتے تو پیسوں کی بھی ضرورت نہیں دادا جان کو۔۔۔۔۔"

حسنین خاموش ہو گیا تھا۔۔۔۔

" بھائی۔۔۔۔"

" ہونہہ۔۔۔"

" اندر آئیے نا دادا جان سے مل لیں اتنے سے وہ خوش ہو جائیں گے وہ بہت پوچھتے ہیں آپ کا۔۔۔"

" عنایہ پھر کبھی آؤں گا۔۔۔۔"

" بھائی چاچو نہیں ہیں گھر پر اس ٹائم آپ پریشان نہیں ہو۔۔۔۔"

( حسنین کے پاس کوئی جواب نہیں تھا)

" ٹھیک ہی بھائی مت آئیے آپ لیکن میری دعا ہے کہ اللہ جلدی آپ پر یہ راز کھول دے کہ میرے چاچو بے گناہ تھے کچھ نہیں کیا تھا میرےچاچو نے۔۔۔۔"

( عنایہ گاڑی کا دروازا زور سے بند کر کہ آگے پڑھ گئ تھی اور پیچھے حسنین کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا تھا)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( عنایہ کے پاس احمد کے گھر کی چابی تھی اس لئیے وہ دروازہ کھول کر دادا جان کے کمرے میں آ گئ تھی)

" دادا جان۔۔۔"

" ارے میرا بچہ آج صبح صبح کہاں سے آ گیا۔۔۔" ( دادا جان اپنی جان سے پیاری پوتی کو دیکھ کر یونہی کھل اٹھتے تھے)

" آپ کی پوتی کو آپ کی شدت سے یاد آ رہی تھی اس لئیے میں آ گئ۔۔۔۔"

" بہت اچھا کیا میری جان نے جو دادا جان کو ملنے آ گئی میں بھی اکیلا ہوتا ہوں اب آج کا دن تو بہت اچھا گزرے گا میری بچی کے ساتھ۔۔۔"

" جی دادا جان میں آپ کے پاس رہو گی آج۔۔۔"

" عنایہ بیٹا یہ یونیفارم کیوں پہنا ہے؟؟' ( دادا جان کی نظر عنایہ کے یونیفارم پر پڑی تھی)

" دادا جان وہ نا ماما کو نہیں بتایا نا کہ میں آپ سے ملنے آ رہی ہوں وہ کالج سے چھٹی نہیں کرنے دیتی نا۔۔۔۔۔۔"

" لیکن میری بیٹی نے چھٹی کی کیوں۔۔۔۔"

" پتہ نہیں دادا جان مجھے بس آپ سے ملنا تھا۔۔۔۔" ( عنایہ نے دادا جان کو گلے لگا لیا تھا)

" کیا بات ہے میری بچی کو اور میری بیٹی کی آنکھیں کیوں سوجھی ہیں کیا بات ہے عنایہ اپنے دادا سے کچھ چھپانا نا۔۔۔۔۔"

(دادا جان کے پوچھتے ہی عنایہ نے پھر سے رونا شروع کر دیا تھا)

" عنایہ نا کر میری بچی کیا بات ہے؟؟؟ کیوں رو رہی ہے بتا نا ؟؟؟ "

' دادا جان" ( عنایہ دادا جان کے  گلے لگی رو رہی تھی )

" رو لیا؟؟ " ( جب عنایہ نے بہت سارا رو لیا تو دادا جان نے عنایہ کے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا)

" جی دادا جان" ( عنایہ نے اپنا چہرہ صاف کرتے ہوئے کہا)

" اب بتا میرا بچہ کیا بات ہے؟؟؟"

" دادا جان میں نے برا خواب دیکھا تھا۔" ( عنایہ کسی کو بھی ابھی اصلی بات نہیں بتانا چاہتی تھی)

" تو میری بیٹی ایک خواب سے ڈر کر رو رہی ہے؟؟؟؟'

" پتہ نہیں دادا جان۔۔۔۔"

" اچھا مجھے بتا کیا دیکھا خواب میں؟"

" دادا جان عجیب سا خواب تھا۔۔ بس مجھے ایسا لگ رہا کہ کوئی دور ہونے والا ہے مجھ سے۔" ( عنایہ کی آنکھیں پھر آنسوؤں سے بھر گئ تھی اس بے رحم کا چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے آ گیا تھا)

" ارے میری بیٹی کو کوئی کہیں چھوڑ کر نہیں جائے گا ایسا کیوں سوچ رہی ہے میری بچی۔۔۔۔"

" دادا جان کوئی دور ہو جائے گا مجھ سے۔۔۔" ( عنایہ بچوں کی طرح تو رو رہی تھی)

" کس نے ہونا ہے دور تیرا دادا بوڑھا ہو گیا ہے لگتا اللہ نے میری بچی کو اشارہ دے دیا کہ اب میرے جانے کا وقت آ گیا ہے۔۔۔" ( ذولفقار اپنی پوتی کی حالت دیکھ کر پریشان ہو گئے تھے)

"اللہ نا کرے دادا جان آپ کیسی بات کر رہے ہیں اللہ آپ کو میری بھی عمر لگا دے۔" ( عنایہ نے دادا جان کے ہونٹوں پہ ہاتھ رکھ دیا تھا)

" ارے میرا بچہ موت تو برحق ہے نا سب نے مرنا ہے میں نے بھی۔ ایسے نہیں روتے بہادر بنتے ہیں۔۔۔۔۔"

"داداجان پلیز چپ کر جائیں آپ مجھے اور رلانا چاہتے ہیں۔۔۔"

' ارے میرا بچہ! اچھا اب میں کچھ نہیں بولتا۔۔۔۔"

" دادا جان آپ سب ہمیشہ میرے ساتھ رہیں گے۔۔۔"

" ہاں میرا بچہ ہم سب ساتھ ہیں۔۔۔۔"

" میرے پیارے دادا جان۔۔۔"

" دادا کی جان ایسے خواب دیکھ کر پریشان نہیں ہوتے برے خواب آ جائے تو صدقہ دے دیتے ہیں۔ صدقہ بلاؤں کو ٹالتا ہے۔۔۔۔"

" جی داداجان۔۔۔"

" سمجھ رہی ہے میری بچی۔۔؟؟؟"

" جی دادا جان۔۔۔۔"

" اچھا دادا جان میں بھی پاگل ہوں آ کر بیٹھ گئی میں آپ کیلئے ناشتہ بنا کر لاتی ہوں۔۔۔"

" ارے نہیں میرا بچہ ناشتہ تو تیرے چچا نے بنا دیا تھا مجھے اب بڑا اچھا ناشتہ بنا دیتا ہے ہاہاہاہاہاہا۔۔۔"

" ہاہاہاہاہاہا دادا جان مجھے لگتا ہے میری چچی جان کے آنے تک میرے چچا جی پوری عورت بن جائیں گے۔۔۔"

" ہاہاہاہاہاہا" ( عنایہ کی بات پر داد پوتی ہنس دیے تھے)

" اچھا دادا جان آپ آرام کریں میں کچن میں جاتی ہیں کھانا بنا لیتی ہوں لکی کیلئیے۔۔۔۔"

" ہاں بھئی بنادو کھانا۔ آج اس کھوتے کو بھی گھر کا کھانا نصیب ہو جائے گا۔۔۔۔"

" ہاہاہاہاہاہا" ( عنایہ ہنستے ہوئے کچن کی طرف بڑھ گئ تھی آج وہ اپنے لکی کی فیورٹ ڈش بنانے کا سوچ رہی تھی)

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔

Continue Reading

You'll Also Like

11 1 7
عشق کی انتہا مگر اذیتوں کے بعد۔۔۔۔۔۔
127K 4.7K 16
A story written by heart❤
45.1K 1.9K 15
اسلام علیکم یہ میرا پہلا ناول ہے احساس محبت... یہ کہانی ایک محبت کی کہانی ہے جس میں محبت کا احساس ہے.. وہ محبت جو ایک اٹل حقیقت ہے.. وہ محبت جس کا ا...
57 4 1
(سفرِ محبت) is a love story of Syed Romaan Meer and Hoor-e-Arsh, set-up in the backdrop of Pakistani bureaucratic culture It is a story of silent lo...