نادان محبت!

By SabihaRehman1

34.3K 1.6K 620

یہ کہانی ہے ایک کمسن لڑکی کی جو پاک ائیر فورس کے آفیسر سے محبت کر بیٹھی ہے لیکن اسے بتانے سے کتراتی ہے۔۔ اس ک... More

part:1
part:2
part:3
part:4
part:5
part:6
part:7
part:8
part : 10
part:9
part :11
part:12
part:13
part:14
part:16
part:17
part:18
part::19
part:20
last part✔️

part:15

1.2K 75 30
By SabihaRehman1

قسط نمبر: پندرہ

" ذولفقار صاحب خاموش نظروں سے اپنے سامنے کھڑے بیٹے کو گھور رہے تھے)

" وجاہت صاحب میں بھی اتنی ہمت نہیں تھی کہ اپنے باپ کا نام ہی پکار لیتے)

( مجھے میرا جائیداد سے حصہ چاہئیے ابا جی میں اب مزید یہاں نھیں رہ سکتا بھائی صاحب اپنی فیملی کو لیں کر الگ ہو گئے ہیں اور سکون میں بھی ہیں مجھے بھی یہ حق حاصل ہے کہ میں اپنی بیوی بچوں اور ہونے والے بچے کیلئے کچھ سوچوں اس گھر کو بیچ دیں اور جو حصہ بنتا ہے میرا وہ میرے حوالے کریں اور ہاں آپ میرے ساتھ رہ سکتے ہیں۔۔۔۔

" اس بات پر سامنے کھڑی رباب نے وجاہت کو گھورا تھا ۔۔۔۔

" لیکن احمد ساتھ نھیں جاسکتا آپ کے اگر آپ اکیلے آنا چاہتے ہیں تو آ جائیے۔۔۔۔۔

" کیا مطلب ہے تمھارا ہاں میں یہ گھر بیچ دوں جو میں نے اپنی محنت کر کہ بنایا تھا ۔۔۔۔

" سب بیچتے ہیں ابا جی۔۔۔۔۔

" ٹھیک ہی بیچ دیتا ھوں میں یہ گھر مگر میں اپنے احمد کو چھوڑ کر نھیں جاؤں گا۔۔۔

" پاس کھڑا احمد اپنے باپ کے منہ سے یہ الفاظ سن کر مسکرا دیا تھا"

"ٹھیک ہے اگر آپ کو احمد کے ساتھ ہی رہنا ہے تو اسی کے ساتھ رہیے آپ مگر میں پوری زندگی آپ سے نہیں ملوں گا اور آپ پوری زندگی میری شکل دیکھنے کو ترس جائیں گے۔۔۔ مجھے کچھ دنوں میں میرے پیسے چاہئیے۔۔ چلیے رباب

" وجاہت صاحب تو اپنی بیوی کو لیں کر کمرے کی طرف بڑھ گئے تھے اور پیچھے کھڑا بوڑھا باپ مسکرا دیا تھا "

" دادا جان۔۔۔

( ذولفقار صاحب عنایہ کی آواز پر ہوش کی دنیا میں آئے تھے اور ان کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھی)

" دادا جان۔۔۔۔

" جی میری جان؟؟؟؟

" دادا جان ہم  سب آپ کے گھر مہمان آئے ہیں اور آپ ہمیں اندر آنے کا بھی نہیں بول رہے بلکہ گھوری جا رہے ہیں۔۔۔۔۔

( عنایہ نے داداجان کا ہاتھ پکڑتے ہوئے بات کا آغاز کیا تھا)

" میرے گھر کے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں مگر صرف تمھارے اور حسنین کیلیئے مگر کسی غیر کیلئے اس گھر میں کوئی جگہ نہیں ہے۔۔۔۔

( وجاہت صاحب کی آنکھ سے نکلا آنسو باپ کے قدموں میں گر گیا تھا مگر ذولفقار صاحب نے نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا تھا)

" عنایہ اور حسنین نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا تھا)

" دادا جان کیا ہمارے ماں باپ کو بھی اس گھر میں آنے کی اجازت نہیں ہے کیا؟؟؟؟

" اگر تمھارا باپ میری اولاد نا ہوتا تو میں خوشی سے ان کو یہاں آنے دیتا مگر بد قسمتی سے یہ میرا بیٹا ہے اور اس کو میں اس گھر میں آنے کی اجازت نہیں دے سکتا جو میرے بیٹے نے اتنے مان سے سجایا ہے۔۔۔۔۔

" ابا جی کون آیا ہے آپ اندر کیوں نھیں آ رہیں؟؟؟؟

( احمد ابا جی کو پکارتے ہوئے دروازے تک آیا تھا سامنے سر جھکا کر کھڑے بھائی کو دیکھ کر وہی رک گیا تھا)

" چاچو دیکھیے نا دادا جان باباجان کو اندر نہیں آنے دے رہیں آپ بولیے نا دادا جان کو۔۔۔۔۔

" ہونہہہ۔۔۔۔۔

" اسلام و علیکم کیسے ہیں بھائی بھابھی؟؟؟؟

" وعلیکم السلام۔۔۔۔

( سلام کے جواب کے علاوہ وہ کوئی جواب نہیں تھا ان کے پاس)

" ابا جی اندر آنے دیجیئے بھائی کو۔۔۔۔

" نہیں احمد اس سے پوچھ اب یہ کیا کرنے آیا ہے یہاں؟؟؟؟

" دادا جان بابا کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے آپ معاف کر دیں نا....

( حسنین نے منت کی تھی)

" اسے اب غلطی کا احساس نہیں ہوا اسے اب اپنی آخرت کا احساس ہو گیا ہے اس لئیے آیا ہے یہ یہاں اسے اب یہ خیال آیا ہو گا کہ اللہ کہ ہاں کس منہ سے جاؤں گا اس لئیے باپ سے معافی مانگنے آ گیا باپ کے مرنے سے پہلے۔۔۔۔۔۔

" دادا جان پلیز ایسا نہیں بولیے نا پلیز
صبح کا بھولا اگر شام کو واپس گھر  آ جائے تو اسے بھولا نھیں کہتے۔۔۔۔۔

" اگر یہ صبح کا بھولا ہوتا تو میں معاف کر دیتا مگر یہ تو سالوں کا بھولا ہے عنایہ کیسے معاف کر دوں اسے؟؟؟

( ذولفقار صاحب کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے گئے تھے)

( عنایہ نے حسنین کی گود سے شیری کو لیا تھا اور اسے لے کر دادا جان کی طرف بڑھ گئ تھی)

" دادا جان یہ دیکھیے شیری آپ کا شیری جسے آپ یاد کرتے تھے"

" ذولفقار صاحب شیری کو دیکھ کر مسکرائے تھے)

" یہ میرا شیری ہے میرا شہزادہ میرے حسنین کا بیٹا ؟؟؟؟

" جی جی دادا جان یہ آپ کا شیری ہے۔۔۔۔۔

( ذولفقار صاحب نے شیری کا گال چھوا اور اسے اپنی گود میں لے لیا تھا. شیری بھی دادا جان کے پاس جا کر خوش ہو گیا تھا)

" دادا جان شیری کیلیئے ہی اب بابا جان کو اندر آنے دیجیئے۔۔۔۔

" ذولفقار صاحب ایک لمحے کیلئیے خاموش ہو گئے تھے۔۔۔۔۔۔)

" ٹھیک ہے احمد یہ لوگ اندر آ سکتے ہیں مگر میں انھیں معاف نہیں کروں گا۔۔۔۔

( ذولفقار صاحب شیری کو اٹھائے اندر کی طرف بڑھ گئے تھے)

" احمد عنایہ اور حسنین ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرائے تھے "

" احمد نے وجاہت صاحب کا ہاتھ تھاما اور اندر کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔

" عنایہ رباب بیگم اور حسنین کا ہاتھ پکڑے احمد کے پیچھے چل دی تھی۔۔۔۔۔۔

" ارے ارے میرا پیارا بچہ پردادا کے ساتھ کھیلنا تھا میرا سونا بیٹا میرے حسنین کی کاپی۔۔۔۔۔

( ذولفقار صاحب ننھے شیری کو اٹھا کر سب کچھ بھول گئے تھے)

" بابا جان دادا جان سے بات کریں پلیز۔۔۔۔

( عنایہ نے وجاہت صاحب کے کان میں سرگوشی کی تھی
وجاہت صاحب نے نفی میں سر ہلا دیا تھا)

" پلیز بابا جان دادا جان بہت خوش ہیں اب شیری سے مل کر آپ بات کریں اب وہ غصہ نہیں کریں گے پلیز یہ لاسٹ چانس ہے آپ کے پاس اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کا۔۔۔۔۔۔

( وجاہت صاحب عنایہ کو دیکھ کر مسکرائے تھے
وجاہت صاحب ہمت کرتے ہوئے باپ کے قدموں میں جا بیٹھے تھے)

" یہ کیا کر رہے ہو تم؟؟؟

( ذولفقار صاحب گرجے تھے)

" ابا جی ایک دفعہ میری بات سن لیں پھر میں چلا جاؤں گا۔۔۔

( وجاہت صاحب نے باپ کے آگے ہاتھ جوڑے تھے
اور ذولفقار صاحب آنکھیں پھیر گئے تھے)

" دادا جان پلیز نا آپ ایک مرتبہ باباجان کی بات تو سن لیں.....

' کیا بات سنو  میں عنایہ اس کی ہاں کیا بات سنو اس کی جو مجھے اکیلا چھوڑ کر چلا گیا تھا صرف اس وجہ سے کہ میں اپنے چھوٹے بیٹے کو اکیلے چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا تھا اس بیٹے کو جو ہمیشہ میرے ساتھ رہا جس نے ہر رات ہر دن اپنے باپ کے ساتھ گزارا جس نے باپ کیلئے دن رات محنت کی میرے بچے نے کوئی چھوٹا کام کرنے میں بھی شرم محسوس نہیں کی اس نے پھل تک بیچ کے  اپنے باپ کو سنبھالا تھا۔۔۔ اور یہ تمھارا باپ چاہتا تھا کہ میں اسے چھوڑ جاؤ اور ان کے ساتھ آ جاؤ تا کہ یہ دو وقت کا کھانا بھی مجھے ذلیل کر کے دیتے۔۔۔

( بولتے بولتے ذولفقار صاحب کا سانس پھول گیا تھا)

" ابا جی بس کر دیں گزری باتوں کو کیوں یاد کر رہے ہیں جو ہونا تھا جو گیا اب اسے یاد کر کہ بس تکلیف ہو گی آپ بھول جائیے سب۔۔۔۔

( احمد نے ذولفقار صاحب کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا اور شیری کو ان کی گود سے لے لیا تھا بچہ ذولفقار صاحب کے اس طرح بولنے پر پریشان ہو گیا تھا)

" کیا بھول جاؤ احمد وہ زیادتیاں جو میرے بچوں نے میرے ساتھ کی؟؟؟ یا یہ بھول جاؤ کہ اس اولاد کی وجہ سے ان کی ماں منوں مٹی تلے جا سوئی۔۔۔۔۔

( وہاں موجود ہر انسان کی آنکھوں میں نمی نظر آ رہی تھی سچ ہے زندگی میں ایک وقت ایسا ضرور آتا ہے جب انسان  کو اپنے کئیے پر پچھتاوا ہوتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اب اس کا ہر گناہ معاف کر دیا جانے کیونکہ موت قریب ہوتی ہے ہاں مگر تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے اور گزرا وقت کبھی واپس نھیں آتا کتنا ہی اچھا ہوتا اگر ہر انسان اس بات کو سمجھ جائے کہ گزرا وقت کبھی واپس نھیں آئے گا اور جو جو اعمال ہم کر رہے ہیں ان کا بدلہ ہمیں مل کر رہے گا۔۔۔۔)

" ابا جی۔۔۔۔

( رباب نے پہلی بار گفتگو میں حصہ لیا تھا)

" ابا جی وجاہت کی کوئی غلطی نھیں ہے میں نے ہی ان کو مجبور کیا تھا کہ یہ آپ سب کو چھوڑ کر اپنا حصہ لیں کر الگ ہو جائے اور اپنے بچوں کا سوچے میں ہی تھی جس نے آپ کا پیارا بیٹا آپ سے الگ کیا تھا آپ وجاہت کو معاف کر دیں ابا جی میری غلطی ہے مجھے سزا دیں مگر ان کو معاف کر دیں۔۔۔۔۔

( رباب نے ذولفقار صاحب کے آگے ہاتھ جوڑ دیے تھے)

" نہیں میری بچی تمھاری کوئی غلطی نہیں ہے تم کیوں معافی مانگ رہی ہو۔۔۔

( ذولفقار صاحب نے رباب کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا)

" میری ہی تو غلطی ہے ابا جی میری ذمہداری تھی کہ میں اپنے اس گھر کو سنبھال کر رکھتی سب کا خیال رکھتی رشتوں کو جوڑ کر رکھتی مگر میں نے کیا کیا جب احمد کے ساتھ غلط کیا گیا اور بھابھی سائرہ اپنا حصہ لیں کر اپنے بچوں کے ساتھ خوش رہ رہی تھی یہ دیکھ کر میرے دل میں بھی لالچ آ گیا اور میں نے وجاہت سے ضد کرنا شروع کر دی کہ کچھ بھی کر کہ اس گھر سے نکلیں۔۔۔۔

( آج شاید گناہوں کے اعتراف کا دن تھا)

" یہ دودھ پیتا بچہ تھا جو تمھاری انگلی پکڑے پیچھے پیچھے چل دیا۔۔۔

( ذولفقار صاحب نے افسوس سے اپنے بیٹے دیکھا تھا
اور وجاہت صاحب نے اپنی جھکی نظریں مزید جھکا لی تھی)

" ابا جی وہ کہتے ہیں نا کہ پتھر پر بھی مسلسل پانی پڑتا رہے تو وہ بھی نرم پڑ جاتا ہے یہ تو پھر انسان تھے میں بار بار ان سے ایک ہی بات کرتی تھی کہ الگ ہو جائیں پہلے پہلے تو یہ مجھے منع کرتے رہے پھر مسلسل میری طرف سے مجبور کرنے پر یہ بھی مجبور ہو گئے تھے اور انہوں نے میری بات مان لی اور آپ سب کو چھوڑ کر ہم سب چلے گئے اپنی نئی دنیا بنانے ابا جی میری ہی غلطی ہوئی نا ساری ان کی کوئی غلطی نھیں ہے آپ معاف کر دیں نا ان کو۔۔۔۔۔۔

" میری بچی تمھاری کوئی غلطی نہیں ہے یہ ساری ذمہداری اس کی تھی اس نے مڑ کر میرا حال بھی نا پوچھا میں تڑپتا رہا اپنی اس اولاد کیلیئے میری اکلوتی بیٹی روتی رہی ان بھائیوں نے مڑ کر اس کا حال نا پوچھا اس کے سسرال والے برے تھے وہ ہمیں ملنے نہیں دیتے تھے تو ان بھائیوں کو توفیق نا ہوئی کہ اکلوتی بہن کا حال ہی پوچھ لیں۔۔۔۔۔

" دادا جان بس کر دیں نا آپ کی طبعیت خراب ھو جائے گی۔۔۔۔۔۔

" ہونے دے میری جان طبعیت خراب  میں  نے کیا کرنا زندہ رہ کر اپنے احمد کیلئے زندہ تھا میں اب میرے بچے کی شادی ہو جانی ہے اس کی بھی اپنی فیملی بن جائے گی مگر مجھے یقین ہے پھر بھی میرا یہ بیٹا اپنے باپ کو نہیں بھولے گا۔۔۔۔۔

( احمد نے مسکراتے ہوئے اپنے باپ کو دیکھا تھا اور دل میں عہد کیا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے وہ اپنے باپ کو کبھی چھوڑ کر نہیں جائے گا)

" ابا جی مجھے معاف کر دیں میں بہت غلط کیا میں نے اپنا کوئی فرض پورا نہیں کیا میری غلطی ہے ابا جی آپ مجھے جو مرضی سزا دے دیں مگر مجھے معاف کر دیں میں ہاتھ جوڑتا ہوں آپ کے آگے۔۔۔۔۔۔

( دونوں میاں بیوی اسی باپ کے سامنے ہاتھ جوڑے بیٹھے تھے جسے بے آسرا چھوڑ کر چلے گئے تھے سچ کہتے ہیں دنیا گول ہے)

" اگر تم نے بس میرے ساتھ زیادتی کی ہوتی تو میں ضرور معاف کر دیتا مگر تم لوگوں نے میرے معصوم بچے کے ساتھ زیادتی کی تم لوگوں نے اس کو اس کا حق بھی نہیں دیا تم دونوں بھائی اپنا حصہ لے کے تو چلے گئے مگر میرے معصوم بچے کا کسی نے نہیں سوچا ایک بار بھی تم لوگوں نے نا سوچا کہ ایک معصوم کا حق کھا کر تم لوگ کیسے خوش رہو گے؟؟؟؟؟

" نہیں سوچا ابا جی دولت نے ہمیں اندھا کر دیا تھا اور دیکھے نا آج سب کچھ ہے میرے پاس گھر جائیداد ہر طرح کی آسائشیں ہیں میرے پاس لیکن ابا جی میرے پاس سکون نہیں ہے اور اسی سکون کی تلاش کیلئے میں یہاں آیا ہوں کیوں کہ جب تک آپ مجھے معاف نہیں کریں گے مجھے موت بھی نہیں آئے گی مجھے معاف کر دیں ابا جی تا کہ مجھے موت ہی آ جائے۔۔۔۔

( وجاہت صاحب پھوٹ پھوٹ کر رو دیے تھے باقی نفوس خاموشی سے یہ سب دیکھ رہے تھے ذولفقار صاحب بیٹے کی آخری بات سن کر خاموش ہو گئے تھے)

" داداجان معاف کر دیں نا میرے بابا جان کو وہ شرمندہ ہے۔۔۔۔۔

" میں کون ہوتا ہوں میری بچی اسے معاف کرنے والا میں تو باپ ہوں نا ان کا اور باپ کی حیثیت بچوں کی نظر میں ایک نوکر سے ذیادہ کی نھیں ہوتی ساری  زندگی اپنی اولاد کو پالتا ہے دو بچے بھی ہو نا عنایہ تب بھی باپ اور ماں اپنے بچوں کو پالتے ہیں ماتھے پر ایک بھی شکن لائے بغیر وہ اپنی اولاد کو پالتے ہیں۔ اور وہی بچے جب بڑے ہو جاتے ہیں کامیاب انسان بن جاتے ہیں اپنے ماں باپ کی وجہ سے تو وہی ماں باپ ان کو بوجھ لگنے لگ جاتے ہیں ارے ایک باپ تو دس بچوں کو پال سکتا مگر یہ اولاد ایک باپ اور ایک ماں کو نہیں سنبھال سکتی۔۔۔۔
تیری دادی عنایہ بیمار پڑ گئ تھی جب تیری تائی نے میرے بچے پر الزام لگایا تھا تیری دادی بڑا روتی تھی پھر تیرا تایا گھر چھوڑ کر چلا گیا وہ مزید بیمار پڑ گئ میرا بچہ یہ میرا احمد اپنے باپ کے پاس بیٹھ کر رویا کرتا تھا اور مجھے کہا کرتا تھا اباجی آپ کو مجھ پر یقین ہے نا میں نے ایسا کچھ نہیں کیا بھابی مجھ پر الزام لگاتی ہے میرا بچہ اتنا رویا اتنا تڑپا تب ان بھائیوں کی ذمےداری بنتی تھی کہ یہ میرے بچے کا ساتھ دیتے مگر کیا کیا ان دونوں نے؟؟ میرے احمد کو چھوڑ گئے اپنی ماں کو ان لوگوں نے مارا اس اولاد نے جن کی کامیابیوں کیلئے وہ دعا کرتی تھی مجھے  چھوڑ گئے احمد کے سہارے پر جس کے پاس کچھ نھیں تھا گھر بھی مجھے بیچنا پڑا ان دونوں کی وجہ سے پتہ ہی کتنی راتیں ہم دونوں نے سڑکوں پر گزاریں کبھی احمد کے دوستوں کے گھر تو کبھی کہیں مگر میری اولاد نے مڑ کر باپ کو پوچھا تک نھیں میرا بچہ رلتا رہا نوکری کیلئے ارے اس کی تو تعلیم بھی مکمل نہیں ہوئی تھی اللہ جانے کیسے اس نے لوگوں کی نوکریاں کیں اور اپنی تعلیم مکمل کی کبھی مجھے ایک بات نہیں بتائی میرے بچے نے میں کبھی بوجھ نھیں لگا میرے بچے کو۔ میں اور عنایہ ہی زندگی تھے اس کی عنایہ کی اور میری خوشی کیلئے اس نے سب کچھ کیا ہزاروں جھوٹ بولے صرف ہماری خوشی کیلئے ۔۔۔۔

( احمد نے اپنی گیلی آنکھیں رگڑیں تھیں عنایہ نے بھیگی پلکوں سے احمد کو دیکھا تھا )

" اور اور یہ جو گاڑی کھڑی ہے نا باہر۔۔۔۔

" ابا جی پلیز۔۔۔

( احمد نے ذولفقار صاحب کو بولنے سے روکا تھا)

" کیوں چپ بولنے دے مجھے۔۔۔۔۔۔

" نہیں ابا جی آپ اب کچھ نہیں بولیں گے۔۔۔۔۔

" دادا جی آپ کیا بتا رہے تھے بتائیے۔۔۔۔

( عنایہ نے دادا جی کا ہاتھ پکڑتے ہوئے ضد کی تھی)

" کچھ نہیں بول رہے تھے ابا جی عنایہ میں بول رہا ہوں نا۔۔۔۔۔.

( احمد نے عنایہ کو سختی سے ڈپٹا تھا)

" نھیں داداجی آپ بتائیے۔۔۔۔۔

" ہاں یہ جو گاڑی ہے نا یہ بھی اس کی نہیں ہے نا ہی اسے دفتر کی طرف سے ملی ہے یہ اور نا ہی اس کو کوئی نوکری ملی ہے گارڈ کی نوکری کرتا ہے ایک بینک میں صرف میری بچی تمھارے لئیے کیونکہ تم روتی تھی اسے اس حال میں دیکھ کر۔۔۔۔

( عنایہ نے آنکھیں اٹھا کر احمد کو دیکھا تھا۔۔۔
اور باقی سب کی جھکی نظریں مزید جھک گئ تھی اور احمد اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا تھا وہ جانتا تھا عنایہ کا دل بہت اداس ہو گیا ہو گا یہ حقیقت جاننے کے بعد۔۔۔)

" لکی لکی۔۔۔۔

( عنایہ نے احمد کی بائیک کے پیچھے بیٹھے ہوئے اسے پکارا تھا)

" جی لکی کی جان؟؟؟؟

" لکی سب کے پاس گاڑیاں ہیں بابا کے پاس تایا جان کے پاس بھائی کے پاس آپ کے پاس کیوں نھیں ہے؟؟؟

( عنایہ کی بات سن کر احمد خاموش ہو گیا تھا)

" بولیے نا چاچو۔۔۔۔

" کیونکہ مجھے ضرورت نہیں ہے نا ان گاڑیوں کی۔۔۔۔

" کیوں چاچو؟؟؟؟

" میرے پاس میری عنایہ کا پیار ہے جو باقی سب کے پاس نہیں ہے اس لئیے مجھے اور کچھ نہیں چاہیئے۔۔۔۔۔

" لیکن چاچو میرا دل کرتا میرے چاچو کے پاس بڑی سی گاڑی ہو بڑا سا گھر ہو اور آپ کے پاس بھی وہ سب کچھ ہو جو باقی سب کے پاس ہے۔۔۔۔

" ہاں تو جب اللہ چاہے گا مل جائے گا ابھی اسی بائیک پر گزارا کرتے ہیں۔۔۔۔۔

" نہیں نا یہ تو خراب ہو چکی ہے اب تھوڑا سا چلتی ہے اور بند ہو جاتی ہے۔۔۔۔۔

" نھیں ہو گی نا آج دیکھنا۔۔۔۔۔

" ہو گی۔۔۔۔۔

" ارے نہیں نا۔۔۔۔۔

( ابھی بائیک تھوڑا ہی آگے گئ تھی کہ ایک دم سے بند ہو گئ)

" ہاہاہاہاہاہا

( احمد کا قہقہ ہوا میں بلند ہوا تھا)

" بھتیجی تیری زبان ہی کالی ہی دیکھ رک گئ بائیک۔۔۔۔۔۔

" احمد نے مڑ کر عنایہ کو دیکھا تو جو بائیک سے اتر کو روڈ پر کھڑی تھی پارک کے باہر اور اس کی آنکھوں سے آنسوں ابل ابل کر باہر آ رہے تھے"

' عنایہ کیا ہو گیا؟؟؟؟

( احمد پریشانی سے بائیک سے اترا تھا)

" لکی دیکھا نا یہ بند ہو گئ۔۔۔۔

" ہاں تو اس میں رونے والی کونسی بات ہے۔۔۔

" ہے نا بات۔۔۔۔

" کونسی بات ہے؟؟؟؟

" میں بھی چاہتی ہوں کہ میرے چاچو کے پاس گاڑی ہو۔۔۔۔

( عنایہ بچوں کی طرح رو رہی تھی اور احمد اپنی پیاری بھتجی کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا تھا )

" اچھا ٹھیک ہے نا میں وعدہ کرتا ہوں تمھارے چاچو کے پاس بھی گاڑی ہو گی اب رونا بند کر نہیں تو یہ سڑک پہ گزرتے ہوئے لوگ مجھے مارنا شروع کر دیں گے۔۔۔۔۔

( احمد نے آنکھ دباتے ہوئے کہا تھا)

( اس دن کے ٹھیک دن دو بعد احمد عنایہ کے کالج کے باہر موجود تھا گاڑی کے ساتھ)

" عنایہ کیا ہو گیا یار؟؟؟؟

( احمد کی آواز سے عنایہ حال میں لوٹی تھی)

" لکی آپ نے مجھ سے جھوٹ بولا؟؟؟؟

( عنایہ نے بھیگی آنکھوں سے پوچھا تھا)

" نہیں میری جان بس چھوڑو اس بات کو۔۔۔۔

" نہیں لکی آپ ایسی نوکری کیسے کر سکتے ہیں؟؟ ایک گارڈ کی نوکری کیسے لکی کیسے؟؟؟؟

( سب لوگ عنایہ اور احمد کی طرف متوجہ ہو گئے تھے)

" میری جان میرے نصیب میں یہ ہی کام کرنا لکھا تھا۔۔۔۔

" کیوں لکھا ہے ایسا کام ہاں کیوں؟؟؟؟

" عنایہ کیا ہو گیا میری جان کوئی کام چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا۔۔۔۔۔

" مگر میرے لکی گارڈ کی نوکری نہیں کر سکتے سمجھے آپ؟؟؟؟

( عنایہ اتنی زور سے چلائی تھی کہ سب پریشان ہو گئے تھے)

" اچھا بس ٹھیک ہے ریلیکس ہو جاؤ نا عنایہ۔۔۔۔

" نہیں ہونا مجھے ریلیکس چاچو نہیں ہونا یہ سب آپ کی وجہ سے ہوا ہے بابا جان آپ کے اور آپ کے بھائی کی وجہ سے آپ لوگ اگر میرے چاچو کو ان کا حصہ دے دیتے تو آج میرے چاچو کو ایسی نوکری نا کرنی پڑتی آپ کی وجہ سے میرے چاچو ذلیل ہوتے رہے صرف آپ کی وجہ سے سمجھے آپ۔۔۔۔

" آپ کی لالچ نے ماما میرے چاچو کو برباد کر دیا سب کچھ تھا ان کے پاس مگر آپ کی لالچ نے سب چھین لیا میرے چاچو سے سب چھین لیا سمجھی  اگر آپ لالچ نا کرتی تو آج ہم سب خوش ہوتے آپ نے لالچ کی آپ کو سزا ضرور ملے گی۔۔۔۔

( رباب اور وجاہت عنایہ کی باتوں سے مزید پریشان ہو گئے تھے وجاہت صاحب کے ہاتھوں نے خودبخود باپ کے پیروں کو چھوڑ دیا تھا وہ مزید شرمندہ ہو گئے تھے)

" حسنین روتے ہوئے شیری کو چپ کروانے کیلئے باہر کی طرف بڑھ گیا تھا مزید یہ سب دیکھنے کی اس میں ہمت نہیں تھی)

" عنایہ ادھر آؤ میرے ساتھ۔۔۔۔۔

" نھیں جانا مجھے کہیں  ان کو بولیے مجھے جواب دیں جواب دیں یہ مجھے کیا ملا ان کو لالچ کر کہ ہاں؟؟؟؟

" میں دیتا ہوں تمھیں جواب ساتھ آؤ میرے۔۔۔۔

" نھیں چاچو۔۔۔۔

" میری جان آؤ میرے ساتھ۔۔۔۔۔

( عنایہ نے خاموشی سے اپنا ہاتھ احمد کے ہاتھ میں رکھ دیا تھا اور اس کے ساتھ چھت کی طرف بڑھ گئ تھی۔۔۔۔
احمد نے گزرتے ہوئے بھائی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تسلی دی تھی۔۔۔
وجاہت صاحب چھوٹے بھائی کو دیکھ کر پھیکا سا مسکرا دیے تھے)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

" لکی کیوں لائے ہیں آپ مجھے چھت پر؟؟

" عنایہ تم بھول رہی ہو ہمارا کیا مقصد تھا؟؟؟

" عنایہ خاموش ہو گئ تھی....

" جواب دو عنایہ....

" اب گھر والوں کو اکٹھا کرنا تھا ہمیں۔۔۔۔

( عنایہ نے احمد کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے جواب دیا تھا)

" تو اب جب سب ٹھیک ہو رہا ہے بھائی صاحب معافی مانگ رہے ہیں تو تم کیوں ان کو مزید شرمندہ کر رہی ہو۔۔۔۔۔

" کیونکہ ان کی وجہ سے میرے لکی نے ایسی نوکری کی۔۔۔۔

" عنایہ اس پیٹ کو بھرنے کیلئے انسان ہر طرح کے کام کرتے ہیں حرام تک بھی کما لیتے ہیں تمھارے لکی نے تو صرف نوکری کی حلال کا کام کیا میں نے کوئی گناہ نھیں کیا میری جان اور میں نے ابا جی کو بھی سنبھالنا ہوتا ہے مجھے پیسے چاہئیے تھے اس وقت بس یہی کام ملا مجھے اور میں نے کر لیا اور مجھے کوئی شرمندگی نہیں اس کام پہ کیونکہ میں نے حلال کمایا حرام نھیں سمجھی؟؟؟؟

( احمد نے عنایہ کے سر پر تھپڑ رسید کرتے ہوئے پوچھا تھا)

" وہ کار کس کی ہے؟؟؟

( عنایہ نے جواب میں ایک اور سوال کر دیا تھا)

" میرے دوست کی۔۔۔۔

"کیوں لی آپ نے ان سے؟؟؟

" کیونکہ میں اپنی پیاری بیٹی کو روتا نہیں دیکھ سکتا تھا میری جان تمھیں تکلیف ہوتی تھی مجھے اس ٹوٹی پھوٹی موٹر سائیکل پر دیکھ کر اس لئیے میں نے دوست کی کار لی۔۔۔۔۔

" لکی آپ نے مجھے جھوٹی خوشی دی؟؟؟؟

" خوشی تو دی نا چاہے جھوٹی ہی تھی.....

" لیکن لکی.....

" لیکن ویکن کچھ نھیں میری جان چھوڑ دو یہ بات اب جو ہونا تھا ہو گیا۔۔۔۔۔

" ٹھیک ہے ہم یہ کار واپس کر رہے ہیں آپ کے دوست کو۔۔۔۔۔

" ٹھیک ہے میری جان صبح ہی واپس کر دوں گا کار ۔۔۔۔۔۔

" پکا ؟؟؟؟

" پکا میری جان۔۔۔۔۔۔

" آ جا اب چاچو کے پاس۔۔۔۔

( عنایہ نے مسکراتے ہوئے احمد کے بازو پر سر رکھ دیا تھا)

" میری پیاری جان۔۔۔۔

" میرے پیارے چاچو۔۔۔۔۔

" چل بھتیجی نیچے چل کر تیرے دادا جی کو سمجھاتے ہیں اور ہاں انھیں بس تو ہی ٹھیک کر سکتی ہے سمجھی؟؟؟

" لیکن میں کیسے کرو چاچو؟؟؟ دادا جان تو سمجھنے کو تیار ہی نہیں ہیں۔۔۔۔۔

" یہ تمھیں پتہ ہو کہ کیا کرنا ہے میں بھی دیکھنا چاہتا ہوں کہ میری بھتیجی مصیبتوں کے حل کیسے نکالتی ہے ۔۔۔۔

( احمد عنایہ کو دیکھ کر مسکرایا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر نیچے کی طرف بڑھ گیا
اور عنایہ کا دماغ تیزی سے کام کرنا شروع ہو گیا تھا)

"ابا جی معاف کر دیں ہمیں پلیز آپ کا دل تو بہت بڑا ہے نا ہمیں معاف کر دیں غلطی ہو گئ ہم سے معاف کر دیں.......

( عنایہ اور احمد نیچے آئیں تو رباب اور وجاہت ابھی تک معافی مانگنے میں مصروف تھے

عنایہ چلتی ہوئی آئی اور سیدھی ذولفقار صاحب کے سامنے جا کھڑی ہوئی تھی)

" بابا جان ماما جان اٹھیے آپ۔۔۔

( عنایہ کی آواز پر رباب اور وجاہت نے مڑ کر دیکھا تھا)

" بابا جان اٹھیے مجھے بات کرنی ہے اپنے دادا جان سے۔۔۔۔۔

( اب کی بار رباب اور وجاہت خاموشی سے اٹھ کھڑے ہوئے تھے)

( عنایہ فرش پر بیٹھ گئ تھی اس طرح کے اس کے ہاتھ دادا جان کے ہاتھوں میں تھے اور اس کی پشت باقی سب کی طرف تھی)

" دادا جان آپ بولا کرتے تھے کہ معافی مانگنے سے کوئی بڑا چھوٹا نہیں ہو جاتا ہے نا؟؟؟؟

( ذولفقار صاحب نے سر کو ہاں میں ہلایا تھا)

" اور جب کوئی چل کر آپ کے پاس آئے وہ شرمندہ ہو اپنے کئیے پر تو آپ کو بھی تو دل بڑا کر کہ اسے معاف کر دینا چاہئیے کیوں داداجان؟؟؟؟

( ذولفقار صاحب نے نظریں جھکا لی تھیں)

" ہم بے انتہا گناہ کرتے ہیں ناشکری کرتے ہیں ہر وقت اس کی دی ہوئی نعمتوں کی نا شکری کرتے ہیں مگر اس کا ظرف دیکھئیے نا دادا جان وہ ایک بار توبہ کرنے پر ہمیں معاف کر دیتا ہے وہ یہ نہیں دیکھتا کہ اس کے بندے نے کتنے گناہ کئیے ہیں کتنی بار اس کی ناشکری کی ہے کتنی کتنی بار اس کی دی ہوئی نعمتوں کو ٹھکرا کر دسترخوان سے اٹھ جاتے ہیں۔ وہ بس یہ دیکھتا ہے کہ میرے بندے نے توبہ کر لی ہے تو  ہم کیا چیز ہے دادا جان؟؟؟؟
ہم کون ہوتے ہیں ایسا کرنے والے۔ ہم کیوں نھیں معاف کرتے ان انسانوں کو جو اب پچھتا رہے ہیں اپنے کئیے پر۔۔۔۔
( عنایہ نے وجاہت اور رباب کی طرف اشارہ کیا تھا
احمد اپنی بھتجی کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا جو اچانک سے اسے بڑی لگنے لگ رہی تھی)

" داداجان یاد ہے جب بارہ سال کی تھی تو ماما سے جھگڑا کر کہ آپ کے پاس آ گئ تھی کیونکہ وہ مجھے آپ سے اور چاچو سے ملنے نہیں دیتی تھیں تب آپ نے کیا کہا تھا مجھ سے یاد ہے؟؟؟

( ذولفقار صاحب نے آنکھیں موند لی تھیں)

" کیا ہو گیا میری پری کو؟؟؟
(ذولفقار صاحب نے اپنی بارہ سالہ پوتی کو گود میں بیٹھاتے ہوئے پوچھا تھا)

" دادا جان میں ماما بابا سے ناراض ہوں ۔۔۔۔

" کیوں ناراض ہے میری بچی؟؟؟

" کیونکہ وہ مجھے آپ سے ملنے نہیں دیتے۔۔۔۔

( ذولفقار صاحب ایک لمحے کیلئے خاموش ہو گئے تھے)

" اچھا تو ماما کی بات مان لیتے ہے نا میرا بچہ۔۔۔

" لیکن میں آپ کے بنا نہیں رہ سکتی۔۔۔۔۔

" تو میں کب بولا کہ میرے بنا رہو ۔۔۔۔

" تو پھر کیا کرو؟؟؟

( بارہ سال کی عنایہ نے آنکھیں گھول گھول گھما کر پوچھا تھا)

" ہاں تو کیا کریں ہم یہی سوال ہے نا؟؟؟
( ذولفقار صاحب نے عنایہ کے ماتھے کو چومتے ہوئے پوچھا تھا))

" جی جی دادا جان یہی سوال ہی نا.....

" ہاں تو اس کا جواب یہ ہی کہ جب ماما غصہ کر رہی ہو تو تب ضد کر کہ یہاں مت آیا کرو جب ان کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے تو پھر آ جایا کرو۔۔۔۔

" ایسا کرنا چاہئیے مجھے دادا جان؟؟؟

" ہاں میری بچی ایسا کرنا چاہئیے۔۔۔۔۔

" مگر اب میں کیا کروں؟؟؟

" کیا مطلب میری جان؟؟؟؟

" مطلب کہ ماما تو مجھ سے ناراض ہے میں اب گھر جا کر کیسے مناؤں گی ان کو؟؟؟

( معصوم عنایہ اب پریشان نظر آ رہی تھی)

" ہاں تو یہ بھی مسئلہ ہے۔۔۔۔

" جی جی دادا جان یہی مسئلہ ہے نا۔۔۔۔

" اسکا حل بھی ہے تمھارے دادا کے پاس۔۔۔۔۔

" سچی
عنایہ ایک دم سے کھل اٹھی تھی)

" ہاں میری جان سچی۔۔۔۔۔

" پھر بتائیے نا۔۔۔۔۔

" ہاں ہاں بتا رہا ہوں حل یہ ہے  کہ میری جان  جا کر اپنی ماما سے معافی مانگ لو۔۔۔۔۔

" معافی مانگ لوں؟؟؟

" ہاں میری جان۔۔۔۔۔

" وہ مجھے معاف کر دینگے؟؟؟؟

" ہاں میری جان ماں باپ ذیادہ دیر تک بچوں سے ناراض نھیں رہ سکتے وہ ضرور معاف کر دیے گی تمھیں ماں ہے تمہاری بہت پیار کرتی ہے تم سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

" واہ مطلب معافی مانگنے سے سب ٹھیک ہو جاتا ہے۔۔۔

( عنایہ ذولفقار صاحب کی گود سے نکل کر صحن میں گول گول گھومنا شروع ہو گئ تھی)

" کچھ یاد آیا دادا جان؟؟؟

( عنایہ کی آواز سے ذولفقار صاحب ہوش میں آئے تھے)

" دادا جان اولاد آزمائش ہوتی ہے؟؟ ایسا ہی ہے نا؟؟؟

( ذولفقار صاحب نے ابھی بھی سر کو بس ہاں میں حرکت دی تھی)

" اور اولاد سے غلطی ہو  جائے تو ماں باپ کو معاف کر دینا چاہئیے ہے نا؟؟؟؟

" ہاں۔۔۔۔

( اب کی بار ذولفقار صاحب نے جھکا دیا تھا)

" تو وہ جو سامنے کھڑا انسان رو رہا ہے سر جھکا کر وہ آپ کو بیٹا ہے اور اس کے ساتھ کھڑی عورت آپ کی بہو ہے جسے بیاہ کر آپ بڑی خوشی سے لے کر آئیں تھے ہے نا دادا جی وہ اپنے کئیے پر شرمندہ ہے اس سے پہلے اب وقت آپ کے ہاتھوں سے نکل جائے اسے روک لیں اور اپنے بچوں کو معاف کر دیں کیونکہ یہ ماں باپ کا فرض ہے کیونکہ یہ جو اولاد ہے یہ آزمائش ہے ان لوگوں نے جو کیا اس کی سزا ان کا اللہ دے گا ہمیں کوئی حق نھیں کہ ہم خدا بن کر فیصلے سنائے ٹھیک ہے دادا جان۔۔۔۔
ایک آخری بات بولوں گی دادا جان اب اگر آپ نے میرے ماما بابا کو معاف نھیں کیا تو آج کہ بعد آپ اپنی پوتی کی شکل بھی نھیں دیکھ سکیں گے۔۔۔کیونکہ یہ میرے ماں باپ ہیں میں ان کی اولاد ہوں ان کیلئے آزمائش لیکن ابھی ان کی آزمائش کا وقت نھیں آیا۔۔۔

( عنایہ نے آخری پتہ پھینک دیا تھا
جو شاید کام بھی کر گیا تھا
ذولفقار صاحب فورا اپنی جگہ سے اٹھے تھے
پیچھے کھڑے احمد کی مسکراہٹ اور گہری ہو گئ تھی وہ شاید جانتا تھا کہ اس بھتیجی یہ کر دیکھائے گی
گھر میں داخل ہوتا ہوا حسین یہ منظر دیکھ کر مسکرا دیا تھا اسے اپنی بہن پر فخر محسوس ہو رہا تھا۔۔۔)

" میں کیسے رہو گا تمھارے بنا عنایہ یہ ظلم نا کرنا اپنے بوڑھے دادا پر تجھے اللہ کا واسطہ ہے۔۔۔۔

( ذولفقار صاحب روتے ہوئے عنایہ کی طرف بڑھے تھے)

" کیا میں چاہتی ہوں اپنے دادا جان کو چھوڑنا؟؟؟ نھیں دادا جان میں کبھی نھیں چاہوں گی کہ میں آپ کہ اور چاچو کے بنا رہو میری تو زندگی ہی میری فیملی سے ہے دادا جان معاف کر دیں بابا جان کو نھیں تو آپ مجھے بھی کھو دیں گے۔۔۔۔

" نھیں نھیں میں نھیں رہ سکتا اپنی بیٹی کہ بنا  میں نے معاف کیا میرے بچے  میں نے معاف کیا تمھیں معاف کیا میں نے معاف کیا تمھیں میری بچی رباب تم سے تو میں کبھی ناراض تھا ہی نہیں ناراض تو میں اپنے آپ سے تھا مجھے یہی لگتا تھا کہ میں اپنی اولاد کی تربیت ٹھیک طرح سے نہیں کر سکا اس لئیے میری اولاد نے میرے ساتھ ایسا کیا میں کسی سے نہیں ناراض۔۔۔

" سچ ابا جی آپ نے معاف کیا مجھے؟؟؟

( وجاہت صاحب باپ کے گلے لگ کر معصوم بچوں کی طرح پوچھ رہے تھے)

" ہاں میرے بچے میں نے معاف کیا تمھیں میں اپنی بچی کے بنا نہیں رہ سکتا ۔۔۔۔

" ابا جی آپ کا بہت بہت شکریہ آپ نے ہمیں موقع دیا ایک بار پھر اپنی زندگی اور آخرت سنوارنے کا۔۔۔۔

( رباب کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے)

" میری پیاری بچی

( ذولفقار صاحب نے آخرکار اپنے بچوں کو معاف کر ہی دیا تھا
احمد اور عنایہ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئے تھے ان کی آنکھیں بھی خوشی سے بھیگ گئ تھیں
حسین بھی چلتا ہوا عنایہ کے پاس آ کھڑا ہوا تھا اور اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر شاباش دی تھی
عنایہ محض مسکرا سکی تھی)

" اچھا اچھا اب بس کریں نا سب رونا دھونا بھئی کل نکاح ہے میرا اس کی تیاری کرنی ہے کہ نہیں؟؟؟؟

( احمد کی معصومانہ صدا پر سب مسکرا دیے تھے)

" ہاہاہاہا ہاں بھئی وجاہت کل تیرے گدھے بھائی کا نکاح ہے اس کی تیاری بھی تو کرنی ہے ابھی...

" جی جی ابا جی آپ حکم کیجئیے کیا انتظامات کرنے ہیں  ہو جائے گا سب کچھ۔۔۔

" ارے بیٹا کرنا کیا ہے کل نکاح کرنے جانا ہے سادگی سے نکاح کرنا ہے کل نکاح کر کہ اپنی بہو کر گھر لے آؤ گا بس بہو کیلئے کچھ کپڑے لے آؤ رباب بیٹا ۔۔۔۔

" جی ابا جی۔۔۔۔

" دادا جان سادگی سے کیوں نکاح ہو گا ایک ایک تو چاچو ہے میرے بہت دھوم دھام سے شادی کریں گے ہم۔۔۔

" لیکن کیسے میری بچی لڑکی والوں نے بس سادگی سے نکاح کا بولا ہے۔۔۔۔۔

" ہاں تو عنایہ کے پاس پلان موجود ہے نا۔۔۔

( عنایہ نے احمد کی طرف گھومتے ہوئے کہا تھا)

" کیا آئیڈیا ہے ہمیں بھی تو پتہ لگے۔۔۔۔

" جی جی بابا جان سنیے۔۔۔

" سب سے پہلے تو آج رات ہی ہم  داداجان اور چاچو کو ہمارے گھر کے ساتھ جو گھر ہے جو کہ میرا ہے ہے نا بابا جان؟؟؟

( عنایہ نے وجاہت سے پوچھا تھا)

" جی میرا بچہ آپ کا ہی ہے۔۔۔۔۔

" ہاں تو ہم آج رات داداجان اور چاچو کو وہاں شیفٹ کر رہے ہیں۔۔۔۔۔

" ٹھیک ہے میری جان۔۔۔۔

" نھیں عنایہ میں وہاں نھیں جاؤں گا۔۔۔

" کیوں مسٹر احمد؟؟؟

" کیونکہ میں یہی ٹھیک ہوں۔۔۔۔

" آپ یہاں بلکل ٹھیک نھیں ہیں۔۔۔۔

" ہم ٹھیک ہے عنایہ ویسے بھی اب عادت ہو چکی ہے مجھے اور ابا جی کو یہاں رہنے کی کیوں ابا جی؟؟؟

" ہاں عنایہ احمد ٹھیک کہہ رہا ہے۔۔۔

" دادا جان ہم لوگ آج سے نئی زندگی شروع کر رہیں ہیں اور وہی ہو گا جو میں چاہو گی کلئیر؟؟؟؟

" لیکن عنایہ۔۔۔۔

" پلیز چاچو۔۔۔۔

" اچھا ٹھیک ہے آگے بتاؤ۔۔۔۔

" سنیے اور آج ہی ہم پھوپو کو کال کر کہ یہاں بلا لیں گے جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ ہم مل چکے ہیں پھوپو جی سے۔۔۔۔

( سب نے ہاں میں سر ہلایا تھا کیونکہ عنایہ پہلے ہی سب کو بتا چکی تھی اس بارے میں۔۔۔۔۔)

" ہاں تو پھر ہم کل نکاح کرنے جائیں گے صرف گھر کے بڑے افراد جائیں گے ہم بچے گھر رہ کر سارا انتظام دیکھے گے۔۔۔۔۔

" اوکے ہو گیا۔۔۔۔

" ایک اور بات

( عنایہ نے ہنستے ہوئے احمد کو دیکھا تھا)

" ایسی کونسی بات ہے جو ایسے ہنس رہی ہے۔۔۔

" سنیے سنیے مسٹر احمد۔۔۔۔

" جی جی سنائیے۔۔۔۔

" ہاں تو کل جب نکاح ہو گا تو مریم جو کہ میری چچی بن جائے گی وہ دادا جان کے گھر نھیں بلکہ ہمارے گھر رہے گی رخصت ہو کر ہمارے گھر ہی آئے گی۔۔۔۔

" ارے ارے وہ کیوں
( احمد فورا لڑاکا عورتوں کی طرح میدان میں اتر آیا تھا)

" کیونکہ آپ میرے اکلوتے چاچو ہیں مریم ہمارے گھر رہے گی پھر آپ کی دھوم دھام سے شادی کی جائے گی تو کیسا لگا میرا آئیڈیا ۔۔۔

" بہت اچھا۔۔۔

( سب نے ایک ساتھ کہا تھا)

" تھینک یو۔۔۔۔

" مجھے نھیں اچھا لگا۔۔۔۔

" وجہ؟؟؟

" کیونکہ اتنے سالوں بعد شادی ہو رہی ہے اور وہ بھی تو نے یہ چول مار دی۔۔۔۔

" کونسی چول؟؟؟

( دونوں چچا بھتیجی ایک دوسرے کے سامنے کھڑے تھے کمر پر ہاتھ رکھ کر بلکل لڑاکا عورتوں کی طرح)

" یہی مریم کو اپنے گھر رکھنے والی....

( احمد نے منہ پھلایا تھا)

" تو اور آپ کو کیا لگا کہ آپ چپ چاپ مریم کو پسند کر کہ نکاح کر لیں گے اور میں کچھ کروں گی بھی نھیں؟؟؟

( عنایہ نے یہ بات احمد کہ کان میں کہی تھی)

" یار توں تو جانتی ہے اس ٹائم کیا حالات تھے میں کونسا خوشی سے کیا تھا ایسا۔۔۔

( احمد نے معصومیت سے جواب دیا تھا)

" آپ کو کیا لگتا ہے میں جانتی نہیں تھی آپ کے دل کا حال؟؟؟

( احمد کے ماتھے پر پسینہ آیا تھا)

" یہ لیں ٹشو پسینہ صاف کر لیں اور یاد رکھیے گا آج کہ بعد مجھ سے کچھ چھپایا تو چھوڑوں گی نھیں یاد رکھیے گا۔۔۔۔

( عنایہ نے وارننگ دی تھی)

" معاف کر دے چھپکلی "

" یہ کیا باتیں ہو رہی ہے بھئی چچا بھتیجی میں ہمیں بھی تو پتہ چلے۔۔۔۔

" کچھ نھیں بابا جان وہ میں اور چاچو جان شاپنگ کرنے جا رہے ہیں مریم کیلئے نکاح کا ڈریس لینے تو اور کون کون ساتھ چلے گا ہمارے؟؟؟؟

" کوئی بھی نہیں تم دونوں جاؤ ہم سب گھر چلتے ہیں وہاں بھی انتظامات دیکھنے ہیں

( رباب نے جواب دیا تھا)

" ٹھیک ہے ماما۔۔۔۔

" احمد چاچو ہم  کیب کر لیں گے آپ کے اس دوست کی کار پر میں نہیں جاؤ گی۔۔۔۔۔

" اچھا میری ماں چل۔۔۔۔

" احمد۔۔۔۔

" جی بھائی جان؟؟؟

" یہ لو میری کار کی چابی اور اب سے یہ تمھارے پاس رہے گی۔۔۔۔۔

" لیکن بھائی صاحب۔۔۔۔

" لیکن ویکن کچھ نھیں احمد یہ حق ہے تمھارا۔۔

( رباب نے چابی احمد کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے کہا تھا
احمد نے خاموشی سے چابی تھام لی تھی)

" لیکن بھائی آپ لوگ گھر کیسے جائیں گے؟؟؟

" اس کی فکر نھیں کریں آپ چاچو میں بھی اپنی کار لے کر آیا ہوں ۔۔۔۔

" ٹھیک ہے پھر ۔۔۔۔

" عنایہ

" جی بابا جان ۔۔۔۔

" یہ میرا ' اے ٹی ایم ' کارڈ۔۔

' تھینک یو بابا جان۔۔۔

( عنایہ کارڈ لیتے ہوئے باہر کی طرف بھاگ گئ تھی بغیر بات سنے)

" ارے لڑکی میری بات تو سن لیتی اپنی پھوپو کو کال کر کہ بلا لو۔۔۔۔

" جی جی بابا جانی ۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

" عنایہ اور احمد ہاتھ پکڑے کار کی طرف بڑھ رہے تھے اور عنایہ موبائل سے عامر کا نمبر ڈھونڈ رہی تھی جو کہ اسے مل نھیں رہا تھا....

( جی جی وہ نمبر تو ہمارے فوجی صاحب ڈیلیٹ کر چکے تھے)

" اففففف نمبر کہاں گیا عامر کا ۔۔۔۔۔

"ڈیلیٹ ہو گیا ہو گا۔۔۔۔

" لیکن میں نے نہیں۔۔۔۔

( اچانک عنایہ کہ دماغ میں دھماکہ ہوا تھا
سامنے کھڑا ذیشان اس مسکراتا ہوا نظر آ رہا تھا
افففففف یہ سڑیل فوجی کھڑوس کہیں کا۔۔۔۔
عنایہ منہ میں بڑںڑائی تھی)

" کیا ہوا؟؟؟؟

کچھ نہیں چاچو آپ کے پاس نمبر ہے تو مجھے دیجیے گا۔۔۔۔۔

" ہاں بھئی یہ لو۔۔۔۔۔

( عنایہ نے نمبر ملایا اور کار میں بیٹھ گئ تھی)

( اب آگے دیکھتے ہیں کہ یہ خوشیاں ملک فیملی کو راس آئیں گی بھی یا نھیں)

                                       جاری ہے۔۔۔۔۔

Continue Reading

You'll Also Like

12.4K 605 19
یہ کہانی ایک جواںٔن فیملی میں دو سوتیلی بہنوں کی ہے اور ایک ایسی لڑکی کی ہے جو دنیا کی طرف سے اور اپنوں کی طرف سے دھتکاری ہوئی ہے۔ یہ کہانی کسی کے صب...
40.8K 2.2K 46
یہ کہانی ہے۔۔۔عشق حقیقی اور عشق مجازی کی۔۔۔۔محبت کی۔۔۔محبت میں آزمائش کی۔۔۔۔لڑکیوں کی نازک عزت کی۔۔۔۔محبت میں خلوص کی۔۔۔۔دل لگی کی۔۔۔۔۔گناہ کی۔۔۔۔ایک...
35 3 6
Its a story of a girl named ''Minha" and a boy named "Zaviyar". The story starts from 1981 in Lahore , Pakistan. Minha and Zaviyar both Love to expl...
63.3K 2.8K 27
Qalb e Aashna is base on social issue....family melo drama and love story