نادان محبت!

By SabihaRehman1

34.3K 1.6K 620

یہ کہانی ہے ایک کمسن لڑکی کی جو پاک ائیر فورس کے آفیسر سے محبت کر بیٹھی ہے لیکن اسے بتانے سے کتراتی ہے۔۔ اس ک... More

part:1
part:2
part:3
part:4
part:5
part:6
part:7
part:8
part : 10
part:9
part:12
part:13
part:14
part:15
part:16
part:17
part:18
part::19
part:20
last part✔️

part :11

1.2K 68 15
By SabihaRehman1

قسط نمبر:گیارہ

"ماں جی آ گئ آپ کے بھائی کی گاڑی۔۔۔۔

(دود سے آتی گاڑی دیکھ کر احسان نے اپنی ماں کو کہا تھا)

"آ گیا میرا بھائی شاہدہ بیگم خوشی سے کِھل اٹھی تھی)

"جی اماں۔۔۔۔

"اتنے میں احمد، عنایہ اور عمران گیٹ پر پہنچ گئے تھے"

" اسلام و علیکم آپا۔۔۔۔۔

" وعلیکم السلام

(شاہدہ بیگم آنکھوں کی نمی چھپاتے ہوئے بھائی کی طرف بڑھی تھی)

" میرا بھائی

(شاہدہ نے احمد کو گلے لگایا تھا)

" آپا کیسی ہی آپ؟

' زندہ ہوں نھیں تو لگتا تھا اب تم لوگوں کے بنا مَر جاؤں گی۔۔۔۔۔۔

"آپا پلیز ایسا نہیں بولیں۔۔۔۔۔

" ہائے احمد اور کیا بولوں بھول گئے تم سب مجھے ایک بار بھی مُڑ کے میری یاد نا آئی تم لوگوں کو۔۔۔۔

( شاہدہ بیگم کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تھا اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی)

" آپا معاف کردیں اپنے بھائی کو ہم بہت بُرے بھائی ہیں آپ کے.....

(دونوں بھائی باقی لوگوں کی موجودگی کو بلکل بھول گئے تھے)

" ہائے کتنا مان تھا مجھے تم تینوں بھائیوں پر تم لوگوں نے مُڑ کر یہ بھی نا پوچھا کہ بہن زندہ ہے کہ مر گئ۔۔۔۔۔۔

" آپا خدا کا واسطہ بس کر دیں ہم گناہگار ہے آپکے۔۔۔۔۔

" اچھا اب اپنی بہن کو چھوڑ کر مت جانا۔۔۔۔۔

" کبھی نہیں جاؤں گا آپا۔۔۔۔۔

( شاہدہ بیگم نے احمد کے ماتھے کو چوما اور خود سے الگ کیا احمد کے پیچھے کھڑے عمران اور اس کے ساتھ کھڑی لڑکی کو دیکھا جو پنک رنگ کے کپڑوں میں سر پر و سلیقے سے ڈوپٹہ جمائے بلکل گڑیا کی طرح لگ رہی تھی)

" عمران میرا بچہ۔۔۔۔۔

"پھوپو کیسی ہے آپ۔۔۔۔۔

" بہت خوش ہوں آج تو میں۔۔۔۔

" اللہ آپ کو ہمیشہ خوش رکھے۔۔۔۔۔

( شاہدہ بیگم کی نظر پھر عنایہ پر پڑی جس کی آنکھیں یہ منظر دیکھ کر بھیگی ہوئی تھی)

" احمد۔۔۔۔

( شاہدہ بیگم نے احمد کو پکارا تھا)

" جی آپا؟؟؟

" یہ لڑکی کون ہے؟؟؟؟

" ارے یہ یہ تو آپکی بھتیجی ہے آپا وجاہت بھائی کی بیٹی اپنی عنایہ ہے یہ۔۔۔۔۔

" میری عنایہ اتنی بڑی ہو گئ "ماشااللہ" اِدھر آؤ اپنی پھوپو کے پاس۔۔۔۔۔

" شاہدہ بیگم کے بلانے پر عنایہ آنکھیں پھونچتے ہوئے پھوپو کی طرف بڑھ گئ تھی)

" پھوپو جان

( عنایہ پھوپو کے گلے لگ کر رو دی تھی)

' ارے میری گڑیا چپُ اب نہیں رونا

( شاہدہ بیگم نے عنایہ کو پیار سے دیکھا تھا)

" ماں جی اب کیا آپ اِن سب کو دروازے میں ہی کھڑا رکھے گی۔۔۔۔

( پاس کھڑے احسان نے معصومیت سے پوچھا تھا)

" ارے نہیں نہیں چلو نا سب اندر چلو۔۔۔۔۔

"آپا یہ احسان ہے نا؟؟؟؟

" ہاں۔۔۔۔۔۔

" ارے بھانجے اِ دھر آ نا ۔۔۔۔۔

" آ گیا ماموں جان۔۔۔۔۔۔

" واہ یار توں تو جوان ہو گیا۔۔۔۔۔

" ہاہاہاہا اور کیا میں چھوٹا ہی رہتا۔۔۔۔۔

" نہیں نہیں جناب بڑے ہو آپ ماموں کے جتنے

( احمد نے پیار سے اِس کے گال کو چھوا تھا)

"اچھا چلو اب سب اندر۔۔۔۔۔۔

" جی آپا

( سب لوگ شاہدہ بیگم کے پیچھے چل دیے تھے)

" احمد یہ تمھارا اور عمران کا کمرہ ہے۔۔۔۔ اور میری بچی میری ساتھ میرے کمرے میں رہے گی

" جی پھوپو جی۔۔۔۔

" اچھا چلو اب تم سب ہاتھ منہ دھو لو تب تک میں کھانا لگواتی ہوں۔۔۔۔۔۔

" ٹھیک ہے آپا۔۔۔۔۔

( سب لوگ اپنے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے تھے اور شاہدہ بیگم کچن کی طرف بڑھ گئ تھی آج وہ بہت خوش تھی اپنوں سے مل کر۔۔۔۔)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

" ذیشان اپنا موبائل پکڑ کر کمرے میں ٹہل رہا تھا....

" دو دن سے عنایہ آن لائن نہیں ہوئی پتہ نہیں ٹھیک بھی ہو گی کہ نہیں۔۔۔۔۔

" اس کا ہاتھ ٹھیک ہوا ہو گا کہ نہیں۔۔۔۔

( ذیشان میں محبت کرتی ہوں آپ سے)

" اچانک ذیشان کو عنایہ کی آواز سُنائی دی تھی)

" اللہ پاک میری لئیے کوئی بہتر فیصلہ کر دے۔عنایہ کے دل سے میری محبت ختم کر سے پلیز اللہ اسے یہ محبت بس رلائے گی توں تو بہتر جانتا ہے نا میں نے یہ سب اس کی خوشی کیلئے کیا تھا نا بس اس کا دل بدل دے۔۔۔۔۔

( ذیشان موبائل بیڈ پر اُچھالتا ہوا باتھ روم کی طرف بڑھ گیا تھا)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

" ماما عنایہ کدھر ہے؟؟؟

( حسنین سارے گھر میں عنایہ کو ڈھونڈنے کے بعد رباب بیگم کے پاس آیا تھا)

" وہ تو تمھارے دادا ابو کے گھر ہے۔۔۔۔۔

" دادا جان کے گھر مجھے بتایا بھی نھیں

( حسنین منہ میں بڑبڑایا تھا)

" کچھ کہا بیٹا؟؟؟؟

" نھیں ماما۔۔۔۔۔

" کب گئ عنایہ؟؟؟

" صبح۔۔۔۔۔

" اچھا شیری ٹھیک ہے۔۔۔۔۔

" ہاں وہ تو ٹھیک ہے سو رہا ہے۔۔۔۔۔

" ٹھیک ہے ماما میں باہر ہوں لان میں چائے بھجوا دیں آپ۔۔۔۔۔

" ٹھیک ہے بیٹا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

" عنایہ ڈائنگ روم کی طرف بڑھ رہی تھی کہ اس کا فون بجنے لگا۔۔۔۔۔۔

" بھائی جان کی کال۔۔۔۔۔

" اسلام و علیکم بھائی۔۔۔۔۔

" وعلیکم السلام۔۔۔۔

" بات نا کر مجھ سے۔۔۔۔۔

( حسین نے منہ پھلائے ہوئے کہا)

" کیوں کیوں کیا ہو گیا؟؟؟؟

"توں چاچو کے ساتھ ہے اور مجھے بتایا بھی نہیں۔۔۔۔۔

" ہاہاہاہا مطلب حسنین ملک جیلس ہو رہے ہیں؟؟؟

" ایسا کچھ نہیں ہے مجھے کیوں نہیں لے کر گئ ساتھ؟؟؟؟

" میری مرضی۔۔۔۔۔

" جا میں بھائی ہی نہیں تیرا۔۔۔۔۔

" ہاہاہاہا ابھی تو آپ اور جیلس ہونے والے ہیں جب آپ کو پتہ لگے گا کہ میں کس کے گھر ہوں۔۔۔۔۔

" ہاں تو مجھے پتہ ہے دادا جان کے گھر ہو۔۔۔۔

"نہیں۔۔۔۔۔

" کیا مطلب نھیں؟؟

" مطلب میں چاچو کے ساتھ کسی اور کے گھر آئی ہوں۔۔۔۔۔۔۔

" اوئے کدھر ہے توں سچ سچ بتا۔۔۔۔۔

" اففففف حسنین ملک آپ نھیں جانتے میں کتنی حسین جگہ پر ہوں۔۔۔۔۔

" بتا کہاں ہے؟؟؟

" نھیں بتاؤ گی۔۔۔۔

" بتا نھیں تو میں ماما کو بتانے جا رہا ہوں۔۔۔

( حسنین نے دھمکی دی تھی جو کہ کام بھی آ گئ تھی)

" نھیں نھیں بتاتی ہوں نا میں۔۔۔۔۔

" ہاں بتا اب شرافت سے۔۔۔۔۔

" میں نا پھوپو شاہدہ کے گھر ہوں۔۔۔۔۔

" کیا؟؟؟؟
( حسنین چلایا تھا)

" ہاں نا۔۔۔۔۔

" بکواس نا کر عنایہ.....

" ارے یار قسم سے میں پھوپو کے گھر ہوں۔۔۔۔۔

" مجھے یقین نہیں آ رہا۔۔۔۔۔

" نا کریں یقین آپکی مرضی۔۔۔۔۔

" یار مگر وہاں کیسے۔۔۔۔۔

" بتاتی ہوں سُنے۔۔۔۔

( عنایہ نے حسنین کو ساری بات بتا دی)

" شرم تو نہیں ہے تجھ میں۔۔۔۔

" بلکل آپ کی بہن ہوں شرم کیسے آئے گی مجھے۔۔۔

( عنایہ نے آنکھ دبائی تھی)

" تجھے بتاتا ہوں میں گڑیا۔۔۔۔۔

"ہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔

" مجھے کیوں نہیں لے کر گئ ساتھ؟؟؟؟

" یاد نہیں رہا۔۔۔۔۔

"کوئی نہیں بیٹا میں بھی صبح آ رہا ہوں اپنی پھوپو سے ملنے۔۔۔۔

( حسنین نے یہ خبر سنا کر عنایہ کو حیران کیا تھا)

" سچی بھائی؟؟؟؟

" ہاں بھائی کی جان صبح آ رہا ہوں میں۔۔۔۔۔

" لیکن بھائی۔۔۔۔۔

" کیا بات ہے؟؟؟؟

" ماما کو نھیں پتہ کہ میں یہاں ہوں اور ہم ایک دو دن یہی رکیں گے آپ بھی آ جائیں گے تو؟؟؟

" فکر نھیں کر میری جان پکا انتظام کر کے آئے گا تیرا بھائی۔۔۔۔۔۔

( حسنین نے ایک ہاتھ سے اپنی شرٹ کا  کالر پکڑا تھا)

" ہائے مجھے یہی امید تھی آپ سے بھائی جان۔۔۔۔۔

" ہاہاہاہا پگلی۔۔۔۔۔۔

"اچھا سنیے۔۔۔۔۔

" جی  بولیے۔۔۔۔۔

" میرے کچھ کپڑے لیں آئیے گا بیگ میں رکھ کر۔۔۔۔

" لو مجھے کیا پتہ کونسے کپڑے لے کر آنے ہیں۔۔۔۔

" یار بھائی لیں آئیے گا نا کچھ بھی ۔۔۔۔۔

" اوکے یار۔۔۔۔

" اور ہاں۔۔۔۔۔۔

" اب کیا ہے؟؟؟؟

" میرے موبائل کا چارجر بھی لیں آئیے گا۔۔۔

" ہاں ہاں نوکر لگا ہوں نا تیرا۔۔۔۔۔

" میں تو آپ کو بھائی ہی سمجھتی ہوں اب آپ میرے نوکر بننا چاہتے ہیں تو میں کیا کر سکتی ہوں ہاہاہاہا۔۔۔۔

" بیٹا کل آ کر ٹانگیں توڑوں گا تیری۔۔۔۔۔

" ہاہاہاہا اوکے اب کال بند کیجئیے میں کھانا کھانے جا رہی ہوں اپنی پھوپو کے ہاتھ کا۔۔۔۔۔

( عنایہ نے پھوپو پر زور دیتے ہوئے کہا تھا)

"جلا جلا میرا دل۔۔۔
۔

" ہاہاہاہا جیلس ہو رہے نا؟؟؟؟

" بیٹا جا کر کھانا کھا کل ملتا ہوں تجھے۔۔۔۔۔

" ٹھیک ہے بھائی جان کل ملتے ہیں اللہ حافظ۔۔۔۔

" اللہ حافظ بھائی کی جان۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"واہ پھوپو جان آپ کے ہاتھ کا کھانا تو بہت لذیذ ہے۔۔۔۔

( عنایہ نے کھانا کھاتے ہوئے تعریف کی تھی)

" ہاں ہاں بھتیجی توں بھی کچھ سیکھ لے آپا سے۔۔۔۔

( احمد نے عنایہ کے سر پہ تھپڑ رسید کرتے ہوئے کہا)

" کیا مطلب ہے آپکا لکی؟؟؟؟

" مطلب یہ کہ تیرے ہاتھ کا کھانا بہت ہی بدمزہ ہوتا ہے۔۔۔۔۔

( احمد نے منہ بسورا تھا)

"اب مجھے بلائیے گا نا کہ آ کر کھانے کو کچھ بنا دو۔۔۔۔۔۔

" بلاؤ گا کیا کر لو گی۔۔۔۔۔۔

" کچا چبا جاؤ گی آپ کو۔۔۔۔۔

( عنایہ نے دانت پیستے تھے)

" چل چل چڑیل کی بہن۔۔۔۔

( احمد کونسا کم تھا)

" بس کر دے احمد کھانا کھانے دے میری بچی کو۔۔

" آپا کب سے تو ٹھونس رہی ہے۔۔۔۔۔۔

" کیا ٹھونس رہی ہوں میں ہاں۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟

" کچھ نہیں بھتیجی معاف کر دے۔۔۔۔۔

" اب آرام سے رہیے گا سمجھے۔۔۔۔۔؟؟؟؟

" جی جی سمجھ گیا میڈم ۔۔۔۔۔

( احمد نے دونوں ہاتھ اٹھائے تھے)

" گڈ بوائے۔۔۔۔۔۔

" اسلام و علیکم ماموں جان۔۔۔۔۔

( ہاشم نے آ کر احمد کو پیچھے سے گلے لگایا تھا)

"وعلیکم السلام ارے میرا بھانجا۔۔۔۔

" شکر ہے ماموں جان آپ آ گئے۔۔۔۔۔

" کیسے ہو ہاشم۔۔۔۔۔

" ٹھیک ہوں عمران بھائی آپ کیسے ہیں؟؟؟؟

" میں بھی ٹھیک۔۔۔۔۔

" ہاشم۔۔۔

" جی ماں جی؟؟؟

"بہن کو ملو بیٹا۔۔۔۔۔

" کونسی بہن؟؟؟

" ارے یہ بہن عنایہ۔۔۔۔۔

" اسلام و علیکم بہن۔۔۔۔

( ہاشم نے دانت دکھائیں تھے)

"وعلیکم السلام۔۔۔۔

( عنایہ فقط مسکرا سکی تھی)

" ہاشم۔۔۔۔۔

" جی ماں جی؟؟؟؟

" عامر کدھر ہے؟؟؟

" عامر بھائی باہر ہء آ رہے ہیں۔۔۔۔۔

" اچھا۔۔۔۔۔

( اتنے میں عامر بھی ڈائننگ روم میں آ گیا تھا۔اپنے ننھیالی رشتہ داروں کو دیکھ کر اس کا منہ کڑوا ہو گیا تھا)

"ماں جی میں روم میں جا رہا ہوں میرا کھانا وہی بھجوا دیجئیے گا۔۔۔

( عامر نے احمد کو گھورتے ہوئے کہا تھا)

" عامر ماموں کو سلام کرو۔۔۔۔۔

" کون ماموں۔۔۔۔۔

" عامر۔۔۔۔۔

" میرے کوئی ماموں نہیں ہے۔۔۔۔۔

( عامر کی بات سے احمد کو تکلیف ہوئی تھی مگر وہ آنکھیں جھکا گیا تھا)

" پلیز ماں جی۔۔۔۔۔

( عامر کی نظر عنایہ پر پڑی تھی جو آنکھیں گھما گھما کر اسے دیکھ رہی تھی)

" آپ کون ہے محترمہ؟؟؟؟

( عامر نے عنایہ سے پوچھا تھا)

"میں عنایہ ہوں۔۔۔۔۔

"کون عنایہ۔۔۔۔

" آپکی کزن۔۔۔۔۔

" ہمممم۔۔۔۔۔

" ماں جی کھانا بھجوا دیں۔۔۔۔۔

( عامر کہتے ہوئے مڑ گیا تھا مگر جاتے جاتے عنایہ کو دیکھ کر مسکرانا نھیں بھولا تھا۔اور ہماری عنایہ کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا تھا)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"بابا جان آپ یہاں بیٹھے ہیں۔۔۔۔

"کیوں بیٹا جی میں یہاں نہیں بیٹھ سکتا کیا؟؟؟

(وجاہت صاحب نے مسکراتے ہوئے پوچھا تھا)

" ارے نھیں نھیں میں تو بس ویسے ہی پوچھا۔۔۔

"اچھا بیٹھو مجھے کچھ بات کرنی ہے تم سے۔۔۔۔

" جی بابا جان بیٹھ گیا حکم فرمائیں آپ۔۔۔

"حسنین تمھارے تایا جان کی کال آئی تھی آج۔۔۔۔

( تایا جان کا نام سن کر حسین کی تیوری چڑھ گئ تھی)

" کیا بول رہیں تھے؟؟؟؟

" عنایہ اور حاتم کے رشتے کی بات۔۔۔۔

" ان کو بول دیں یہ بات نکال دیں اپنے ذہین سے۔۔۔۔۔

" حسنین دانیہ کا کیا ہو گا؟؟؟؟

" کیا ہو گا دانیہ کا؟؟؟؟

" وہ بیوی ہے تمھاری۔۔۔۔۔

" میں نے نہیں نکالا اسے گھر سے۔۔۔۔۔

" لیکن بیٹا۔۔۔۔۔

" بابا وہ اپنی مرضی سے گئ ہے واپس آنا چاہے تو آ سکتی ہے مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔۔۔۔۔

( وجاہت صاحب بلکل خاموش ہو گئے تھے)

" بابا جان آپ کو پتہ عنایہ کہاں گئ ہے؟؟؟؟

" حسنین نے خاموشی کو توڑا تھا...
" ہاں احمد کے ساتھ ہے عنایہ اس کے گھر۔۔۔۔۔

" نہیں وہ لوگ تو کہیں اور پہنچے ہیں۔۔۔۔۔

( حسنین مسکرایا تھا)

" کیا مطلب کہاں ہے وہ سب؟؟؟؟

" شاہدہ پھوپو کے گھر۔۔۔۔۔

( حسنین نے بڑے سکون سے اپنے باپ کے سر پر بم پھوڑا تھا)

" آپا

( وجاہت صاحب اپنی جگہ سے جھٹکے سے اٹھے تھے)

" بابا ریلیکس پلیز۔۔۔۔۔۔

" حسنین عنایہ وہاں کیسے پہنچی؟؟؟؟

" چاچو اور عمران بھائی کے ساتھ۔۔۔۔۔

" اس نے مجھے بتایا کیوں نہیں؟؟؟؟

" ماما سے ڈرتی ہے اس لئیے۔۔۔۔۔

" آپا میری بہن کیسی ہے؟؟؟؟

( وجاہت صاحب نے حسنین کے کندھے سے سر ٹیک دیا تھا۔۔۔)

" بابا جان پھوپو ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔

" لیکن یہ لوگ اچانک کیوں گئے وہاں؟؟؟!

" پھوپو ٹھیک نھیں تھی ہاشم کی کال آئی تھی اس لئیے وہ اچانک چلیں گئے۔۔۔۔۔

" کیا ہوا میری بہن کو؟؟؟؟

( وجاہت صاحب کو آج اپنے کئیے پہ پچھتاوا ہو رہا تھا)

" اب ٹھیک ہے وہ۔۔۔۔۔

" بابا جان۔۔۔۔

" ہونہہ؟؟؟

" میں صبح پھوپو کے گھر جا رہا ہوں ہم لوگ وہی رہیں گے کچھ دن آپ ماما سے بول دیجیئے گا کہ ہم لوگ 'مری' گئے ہیں گھومنے پلیز۔۔۔۔

" بے فکر ہو کر جاؤ اور میری بہن سے میری طرف سے معافی مانگنا۔۔۔۔

( وجاہت صاحب کی آنکھیں بھیگ گئیں تھیں)

" بابا آپ بھی چلیے نا ہمارے ساتھ پھوپو بہت خوش ہو گی۔۔۔۔۔

" نہیں بیٹا مجھ میں ہمت نہیں ہے اپنی بہن کا سامنا کرنے کی۔۔۔۔

"بابا جان پلیز۔۔۔۔۔

" نھیں میرا بچے میں نہیں جا سکتا۔۔۔۔۔

"ٹھیک ہے بابا جان میں چلتا ہوں مجھے پیکنگ کرنی ہے۔۔۔۔۔

"آپ بھی سو جائیں اب۔۔۔۔۔

" ہاں اچھا۔۔۔۔۔

( حسنین کے جاتے ہی وجاہت صاحب نے کرسی کی پشت سے سر ٹیک کر آنکھیں موند لیں تھیں)

" رات کے دو بجے وجاہت صاحب کا فون بجنے لگ گیا تھا"

" وجاہت فون اٹھائیے عنایہ کی نیند خراب ہو جائے گی

(رباب نے بے زاری کہا تھا)

" ہاں اٹھ رہا ہوں۔۔۔۔۔

" کس کا فون ہے؟؟؟

( رباب نے پھر سے سوال کیا تھا)

" شاہدہ آپا کا۔۔۔

( وجاہت صاحب نے نمبر دیکھتے ہوئے کہا)

" رات کہ اس پہر ان کو کیا مسئلہ ہے؟؟؟؟

(رباب کا منہ کڑوا ہو گیا تھا)

" یہ جاننے کیلئے مجھے کال ریسیو کرنی ہو گی۔۔۔۔

" کیجئے نھیں تو بار بار کال کر کے میرج بچی کی نیند خراب کر دیں گی۔۔۔۔۔

" ہممممم۔۔۔۔

" جی آپا؟؟؟ کوئی کام

( وجاہت صاحب نے فون اٹھاتے ڈائریکٹ وجہ پوچھی تھی)

" وجاہت میرے بھائی

( دوسری طرف شاہدہ بیگم کے رونے کی آواز ا رہی تھی)

' کیا ہوا آپا آپ رو کیوں رہی ہے؟؟؟؟

" وجاہت تمھارے بہنوئی مجھے گھر سے نکال رہے ہیں خدا کا واسطہ مجھے یہاں سے لے جاؤ آ کر۔۔۔۔۔

" کیا اس وقت آپ کو لینے آ جاؤ۔۔؟؟؟

( وجاہت کی بات سن کر رباب بیگم فوراً بستر سے اٹھ گئ تھی)

"آپ کہیں نھیں جائیں گے

( رباب نے وارننگ دی تھی)

" وجاہت صاحب نے رباب کا ہاتھ دبا کر تسلی دی تھی)

" آپا میں اس وقت نھیں آ سکتا آپ بھائی صاحب کو کال کر لیں۔۔۔۔۔

" بھائی صاحب نے منع کر دیا ہے آنے سے۔۔۔

(شاہدہ بیگم نے روتے ہوئے بتایا تھا)

" تو میں کیا کروں؟؟ کب تک رہنا ہے آپ کو یہاں؟؟؟

" وجاہت اللہ کا واسطہ مجھے لے جاؤ ۔۔۔۔۔

" دیکھے آپا میرے گھر جگہ نہیں ہے سوری۔۔۔۔۔

" وجاہت میں ہاتھ جوڑتی ہوں تمھارے آگے۔۔۔۔۔

" دیکھیے آپا یہ آپ کا اور آپ کے گھر کا مسئلہ ہے میرا شوہر آپ لوگوں کیلئے نھیں کماتا اور ایسا کیا کیا آپ نے؟؟ جو بھائی صاحب آپ کو گھر سے نکال رہے ہیں وہی رہیے آپ اس گھر میں آپ کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے سمجھی آپ۔۔۔۔

( رباب نے وجاہت کے ہاتھ سے فون لے کر شاہدہ بیگم کو صاف صاف منع کر دیا تھا)

" بھاوج کی آواز سن کر شاہدہ بیگم نے اپنے آنسوؤں کا گلہ گھونٹتے ہوئے فون بند کر دیا تھا۔۔" وہ رات شاہدہ بیگم نے شدید سردی میں اپنے تین بچوں کے ساتھ گھر کی چوکھٹ پر گزاری تھی ان کے پاس آنسو بہانے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا)

" وجاہت صاحب نے آنکھیں کھولیں جن میں ماضی کے کئیے پر پچھتاوا تھا وہ آج اپنی بہن سے نظریں ملانے کے قابل نہیں تھے اور ان کی بیٹی عنایہ پھوپو کے گھر پہنچ گئ تھی شاید عنایہ 'اللہ کی طرف سے انعام تھا میریے لئیے جو مجھے میرے بچھڑوں سے ملوا رہی ہے۔۔۔۔

( وجاہت صاحب نے بھیگی پلکوں سے مسکراتے ہوئے سوچا تھا)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"عنایہ بیٹا۔۔۔۔۔

" جی پھوپو جان؟؟؟

" بیٹا یہ چائے عامر کے کمرے میں دے آؤ ذرا۔۔۔۔

(شاہدہ بیگم نے عنایہ کی طرف چائے کا کپ بڑھاتے ہوئے کہا)

"پھوپو مجھے نہیں پتہ عامر بھائی کے روم کا۔۔

( عنایہ کو یہی بہانہ ٹھیک لگا تھا اس وقت وہ عامر کے روم میں نھیں جانا چاہتی تھی)

" ارے بیٹا وہ آگے جا کر سیدھے ہاتھ کو مڑنا وہی دوسرا کمرہ عامر کا ہے۔۔۔۔۔

" پھوپو وہ احسان دے آتا ہے نا چائے۔۔۔۔

( عنایہ نے پاس بیٹھے احسان کو دیکھ کر کہا تھا)

"بیٹا یہ تو اٹھنے پہ ہی گھنٹہ لگائے گا تم دے آؤ۔۔۔۔

" جی پھوپو....

( عنایہ بیچاری کو نا چاہتے ہوئے بھی اٹھنا پڑا تھا)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"دروازے پہ ہونے والی دستک پہ عامر نے مڑ کر دیکھا تھا سامنے عنایہ کو کھڑی دیکھ کر اس کے ہونٹوں پر دلکش سی مسکراہٹ چھا گئ تھی)

( اس کی مسکراہٹ دیکھ کر عنایہ کا دل کر رہا تھا  کہ ایک تھپڑ اُس کے منہ پر لگائے)

" آئیے آئیے ڈئیر کزن اندر آئیے۔۔۔۔۔

" نہیں مجھے نھیں آنا یہ چائے بھجوائی ہے پھوپو جی نے۔۔۔۔۔

"ہاں تو اندر آ جائیں نا یہاں۔۔۔۔۔

" نھیں۔۔۔۔۔۔

" ارے آ جائیے کزن میں نھیں کھاتا آپ کو۔۔۔۔۔

"نہیں آنا بول رہی ہوں نا۔۔۔۔۔۔

( عنایہ نے عامر کو گھورتے ہوئے کہا)

" ڈر لگ رہا ہے مجھ سے۔۔۔۔۔

( عامر نے عنایہ کی طرف قدم بڑھائے تھے)

" عنایہ ملک" کسی سے نہیں ڈرتی۔۔۔۔۔

" ہو سکتا ہے کسی سے نا ڈرتی کو مگر "عامر ملک" سے ضرور ڈرتی ہے

( عامر نے اور آگے بڑھتے ہوئے کہا)

" اب آپ بدتمیزی کر رہے ہیں مسٹر۔۔۔۔۔۔

" اس میں بدتمیزی والی کونسی بات ہے؟؟؟؟؟

" مجھے نھیں پتہ چائے پینی ہے تو پکڑ لیں کپ نہیں تو میں جا رہی ہوں۔۔۔۔۔۔

" کزن آپ مجھے چائے پیلانے آئی ہیں....

( عامر نے مسکراتے ہوئے کہا)

" دل تو کر رہا ہے۔۔۔

" کیا دل کر رہا ہے کزن۔۔۔

( عامر نے مسکراہٹ دباتے ہوئے پوچھا تھا)

" آپ کو تھپڑ لگانے کا۔۔۔۔

( عنایہ نے منہ بناتے ہوئے کہا)

" ہاں اچھا تھپڑ لگا لو گی؟؟؟؟

" جی اور ایسا تھپڑ لگاؤ گی کہ آپ کا منہ دوسری نہیں بلکہ تیسری سائیڈ پہ لگ جائے گا۔۔۔۔۔

( ڈر کے مارے جو عنایہ کے منہ میں آیا اس نے بول دیا تھا جسے سُن کے عامر کی ہنسی کمرے میں گونج گئ تھی)

" اووو میرا منہ تیسری سائیڈ پر لگاؤ گی یہ لو پھر لگاؤ تھپڑ۔۔۔۔۔

( عامر نے عنایہ کے قریب پہنچتے ہوئے کہا)

" دور ہٹے مجھ سے۔۔۔۔۔

" نھیں ہٹو گا تھپڑ لگاؤ نا۔۔۔۔۔

" میں کہتی ہوں پیچھے ہٹے نہیں تو۔۔۔۔۔

" نھیں تو کیا کرو گی؟؟؟؟

"میں میں وہ میں بھاگ جاؤ گی۔۔۔۔

( عنایہ نے کہتے ہوئے وہاں سے دوڑ لگا دی تھی)

"ہاہاہاہاہاہا پاگل۔۔۔۔۔

( عنایہ کو اپنے پیچھے ابھی تک عامر کے ہنسنے کی آواز آ رہی تھی)

"ارے عنایہ بیٹا چائے نہیں دے کر آئی آپ عامر کو؟؟؟

( شاہدہ بیگم نے عنایہ کے ہاتھ میں چائے کا کپ پکڑا دیکھ کر پوچھا)

"وہ پھوپو جان میں گئ تھی بھائی روم میں نہیں تھے اس لئیے میں واپس آ گئ

"اچھا ہاں شاید واشروم میں ہو گا۔۔۔۔۔۔

" جی شاید۔۔۔۔۔

" اچھا بیٹا تم بیٹھو آ کر میرے پاس۔۔۔۔۔

" جی پھوپو۔۔۔۔۔۔

( عنایہ مسکراتی ہوئی شاہدہ بیگم نے ساتھ بیٹھ گئ تھی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"اتنے دن ہو گئے عنایہ سے ملاقات نھیں ہوئی اور میرا موبائل بھی بند تھا بیچاری پریشان ہو رہی ہو گی وہ میرے لئیے اب کچن کے کام ختم ہو گئے ہیں میں عنایہ کو کال کر کہتی ہوں....

"اے مریم

( مریم نے عنایہ کا نمبر ملانے کیلئے ابھی موبائل پکڑا ہی تھا کہ مامی کی آواز سے اس کا موبائل اچھل کے زمین پر گرا تھا)

" جی جی مامی جی

( مریم ہچکچائی تھی)

"کیا کر رہی تھی ؟؟؟

" کچھ نہیں مامی جی۔۔۔۔

" موبائل کیوں پکڑا تھا؟؟؟

( نسرین  نے مریم کو گھورا تھا)

" وہ مامی جی میں عنایہ کو کال کرنے لگی تھی بہت دن سے اسے ملی نہیں تھی نا اس لئیے

( مریم نے ڈرتے ڈرتے بتایا تھا)

" کچن کے کام تیری ماں کرے گی خود تو مر گئے تیرے ماں باپ اور توں عذاب کی طرح ہمارے سر پر مسلط ہو گئ ہے۔۔۔۔۔

" پلیز مامی میرے ماں باپ کو ایسے یاد نہیں کیا کریں پلیز۔۔۔۔۔۔

" تو اور کیسے یاد کروں؟؟؟ مرنا تھا تو تجھ منہوس کو بھی ساتھ لے کر مرتے نا۔۔۔۔۔۔

" پلیز مامی میں کام ختم کر کے آئی تھی۔۔۔۔۔

" ہونہہ کلموہی۔۔۔۔۔

( مریم بیچارے آنسو پی کر رہ گئ تھی)

" اچھا سُن۔۔۔۔

" جی؟؟؟؟

" اپنی سہیلی کو فون کرنے لگی ہے؟؟؟؟

" جی.....

" تو اسے اپنی شادی ہے بھی بلا لینا۔۔۔۔

( نسرین نے مکارانا انداز سے کہا تھا)

" کیا کیا مطلب ہے آپ کا؟؟؟

" مطلب یہ ہے کہ تیرے ماموں نے تیرا رشتہ طہ  کر دیا ہے۔۔۔۔

( نسرین نے مریم کے سر پر بڑھ سکون سے بم پھوڑا تھا)

" میرا رشتہ؟؟؟

( مریم کو لگ رہا تھا کمرے کی چھت اس کے سر پر آ گری ہے)

" ہاں تیرا رشتہ۔۔۔۔۔

" مگر مامی جان میری شادی کیسے ہو سکتی ہے؟؟؟

" کیا مطلب کیسے ہو سکتی ہے جیسے سب لڑکیوں کی ہوتی ہے ویسے ہی۔۔۔۔۔

" لیکن مامی جان مجھے نہیں کرنی شادی۔۔۔۔

" کیا بکواس کر رہی ہے تو کیا ساری زندگی ہمارے سروں پر مسلط رہے گی۔۔۔۔۔۔

" مامی جان پلیز میں پوری زندگی یہاں نوکروں کی طرح رہ لوں گی مگر مجھے شادی نھیں کرنی پلیز۔۔۔۔۔

" اے لڑکی سُن لے کان کھول کر اگلے ہفتے تیری شادی غفور کے ساتھ ہے۔۔۔۔۔

( نام سن کر مریم کی آنکھوں کے سامنے کسی کا چہرہ آیا تھا)

" کون غفور؟؟؟

" وہی غفور شاہدہ کا سب سے بڑا بیٹا۔۔۔۔۔

( مریم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے تھے)

" غفور چچا پانچ بچے۔۔۔۔۔

" ہاں ہاں وہی غفور پانچ بچوں کا باپ ہاہاہاہا۔۔۔

" مامی خدا کا واسطہ مجھ پہ یہ ظلم نا کریں۔۔۔۔۔

" کیوں نا کرو تو کونسا میرے اولاد ہے۔۔۔۔۔

" مامی میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں ۔

" جو مرضی کر لے شادی تو تیری وہی ہو گی۔۔۔۔

" مامی میں آپ کے پیر پڑتی ہوں خدا کا واسطہ ایسا نھیں کریں۔۔۔۔

( مریم نسرین کے قدموں میں بیٹھ گئ تھی)

" پڑے ہٹ پورے پچاس ہزار دے رہا ہے وہ تیرے تو کیوں نا تیرا فائدہ اٹھایا جائے آج تک بس تو نے ہمارا نقصان ہی کروایا ہے اب اگر چند پیسے مل رہے ہیں تو کیوں نا لوں میں۔۔۔۔۔

( مریم کے پاس بولنے کو کچھ بھی نہیں تھا وہ چپ چاپ ایک کونے میں جاکر بیٹھ گئ تھی)

" تیار رہنا اگلے ہفتے نکاح ہے تیرا۔۔۔۔

( نسرین مریم کی حالت دیکھ کر لطف اندوز ہوتے وہ باہر کی طرف بڑھ گئ تھی)

( اللہ جی ماں باپ کیوں مر جاتے ہیں؟؟ماں باپ مر جائیں تو مجھ جیسے ہزاروں بچے اس دنیا والوں کے ہاتھ ذلیل و رسواء ہو کر رہ جاتے ہیں کیوں ہوتا ہے ایسا اللہ پاک ماں باپ کیوں مر جاتیں ہیں۔ ماں ہو تو اپنے بچوں کو  چھپا کر رکھتی ہے اس دنیا کی سختیوں سے اس دنیا کی آزمائشوں سے ان دنیا والوں کی گندی نظروں سے پھر ایک دن ماں مر جاتی ہے اور اس کے بچے اس دنیا والوں کی سختیاں برداشت کر کر کہ اس حالت میں پہنچ جاتے ہیں کہ وہ خودکشی کرنے سے بھی نہیں کتراتے۔۔
اللہ پاک میری کیا غلطی تھی اگر  میری ماں میرے بابا جانی مجھے چھوڑ کر چلیں گئے اور قسمت کا ستم تو دیکھیے میں ان کی اکلوتی اولاد تھی میں تو بلکل تنہا رہ گئ اللہ میں تجھ سے شکوہ نہیں کر رہی مگر کیا کروں میں بچپن سے لے کر آج تک میں نے مامی ماموں کی غلامی کی ہی مگر پھر بھی مامی نے میرے ساتھ اتنا برا سلوک کیا میں نے سب برداشت کیا لیکن اب وہ مجھ چند پیسوں کے بدلے میں پانچ بچوں کے باپ کے ہاتھوں بیچ رہی ہے اللہ ایسا کیوں ہوگا ہے کیوں ہم جیسی لڑکیوں کو یوں بیچ دیا جاتا ہے کیوں چند پیسوں کے بدلے ہمارے جذبات ہماری عزت سب کچھ بیچ دیا جاتا ہے ۔ہمیں خریدنے والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ آج وہ ہمیں خرید رہے ہیں کل اگر میرا اللہ ایسے حالات پیدا کر دے کہ تمھیں بھی اپنی اولاد اپنی بیٹی بیچنی پڑے تو کیا کرو گے؟؟؟ دنیا تو گول ہے نا آج جو کرو گے وہ کل  تمھارے سامنے بھی ہو گا کیوں بھول جاتے ہو کہ "اللہ تو سب کا ہے نا" "وہ تو اپنےایک ایک  بندوں سے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے نا وہ پھر کیسے برداشت کر سکتا ہے اپنے بندے کو تڑپتا ہوا دیکھ کر مجھ جیسے کمزور بندے اپنا بدلہ لینے کہ قابل نا ہو تو وہ اللہ تو موجود ہے نا وہ ایسا بدلہ لے گا  نہ کہ تم جیسوں کی نسلیں بھی یاد رکھے گی۔۔۔
روز قیامت کس منہ سے اللہ کے سامنے جاؤ گے ؟؟ کس منہ سے بتاؤ گے اپنے گناہوں کی لسٹ اللہ کو؟؟ کس منہ سے حساب دو گے اپنے گناہوں کا؟؟؟
کیسے حساب دو گے اے اللہ کے بندوں کبھی سوچا ہے تم لوگوں نے؟؟؟
یا اللہ میرا تو اس دنیا میں کوئی نہیں ہے نا ماں نا باپ ماموں مامی  جو  کے مجھ سے شدید نفرت کرتے ہیں ماموں کی بیٹیاں ہیں جو مجھے دیکھنا بھی پسند نہیں کرتیں میں کیا کروں ؟کہاں جاؤں؟
کیا میں چپ کر کہ شادی کر لوں؟ اس کے آگے فروخت ہو جاؤ اپنی زندگی برباد کر لوں؟؟ یا خود کو ختم کر لوں؟ اس دنیا سے چلی جاؤں یہاں کے لوگوں کے سینے میں دل نہیں پتھر فکس ہیں یااللہ  میں کس کے پاس جاؤں میں کس سے مدد مانگو میں۔۔۔

(مریم گود میں سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی)

" عنایہ۔۔۔۔۔۔۔

(اچانک مریم کے دماغ میں دھماکہ ہوا تھا عنایہ ہاں عنایہ ہی تو ہے جو میری مدد کر سکتی ہے جو مجھے اس جہنم سے نکال سکتی ہے میری بہن عنایہ ۔۔ مریم نے موبائل پکڑا اور مسکراتے ہوئے عنایہ کا نمبر ملانے لگ گئ تھی)

( ٹھیک کہتے ہیں جب ایک در بند ہو جاتا ہے تو اللہ ہزاروں در اور کھول دیتا ہے کیونکہ وہ اپنے بندروں کو تنہا نہیں چھوڑتا)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

" احمد ۔۔۔۔۔

" جی آپا۔۔۔۔

" تم کب شادی کر رہے ہو۔۔۔۔۔

" وہ آپا ۔۔۔۔۔۔

" ہائے میرے چاچو کو شرم آ رہی ہے۔۔

( عنایہ نے آنکھ دباتے ہوئے کہا)

" چپ کر بھتیجی ۔۔۔۔۔

"آپا اب آپ کروائیں گی نا میرا رشتہ اب یہ ذمہداری آپکی ہے۔۔۔۔۔

( احمد نے آپا کی گود میں سر رکھتے ہوئے کہا)

" ہاں ضرور میں خوبصورت سی دلہن لاؤ گی اپنے بھائی کیلئے۔۔۔۔

" پھوپو جان چاچو کی دلہن عنایہ جیسی ہونی چاہیئے

( عمران نے عنایہ کو دیکھتے ہوئے کہا)

" کیوں بھئی کیا دشمنی ہے تیری مجھ سے بھتیجے اس چڑیل کو پہلے برداشت کر رہا اب توں مجھے پوری زندگی پھنسانے کی بددعا دے رہا ہے۔۔۔

( احمد نے عنایہ کو چرایا تھا)

" نا شکرے بندے ہیں آپ مسٹر احمد اور ہاں یاد رکھیے گا مجھ جیسی حسین لڑکی آپ کو کہیں نہیں ملے گی چراغ لے کر ڈھونڈیں گے پھر بھی نہیں ملے گی آپ کو۔۔۔۔ کیوں پھوپو؟؟

( عنایہ نے شاہدہ بیگم سے پوچھا تھا)

" ہاں بھئی بلکل میری بچی جیسی کوئی نہیں ہے۔۔۔۔۔

" جی آپا اس کے جیسا پاگل کوئی نہیں ہے۔۔۔۔

(احمد کونسا منع ہونے والا تھا)

"ویسے ماموں اتنی اچھی تو ہے عنایہ آپی آپ کیوں پیچھے پڑے ہیں ان کے؟؟؟

" ارے احسان تم جانتے نہیں نا اس پاگل کو

"احسان رہنے دو چاچو ہے ہی ایسے۔۔۔۔۔

" کیسا ہوں میں؟؟؟؟

( احمد نے آنکھیں گھمائیں تھیں۔۔۔۔۔)

" بہت بڑے وہ ہیں آپ۔۔۔۔

" شہزادہ ہوں نا میں؟؟؟؟

" جی کوہ قاف" کے

( عنایہ کی بات پر سارے ہنس دیے تھے)

( کھڑکی میں کھڑا عامر عنایہ کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔عنایہ کو دیکھ کر اسے ایک انجان سے رشتے کے بننے کی خوشی تھی۔ننھیال کے رشتےداروں میں عنایہ واحد تھی جسے دیکھ کر عامر کو غصہ نہیں آیا تھا آیا بلکہ خوشی ہو رہی تھی بہت زیادہ خوشی)

"عنایہ کی نظر کھڑکی میں کھڑی عامر پر پڑی تھی جو اسے عجیب نظروں سے دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔عنایہ نے عامر کو گھورا اور عامر سے رخ موڑ کر بیٹھ گئ)

( سب لوگ باتوں میں مصروف تھے کہ اچانک عنایہ کا موبائل بجنے لگا)

" ارے مریم کی کال اففف اتنے دن بعد۔۔۔۔۔

( مریم کا نام سن کر احمد کی چلتی ہوئی زبان رک گئی تھی)

( عنایہ کال ریسیو کرنے ہی لگی تھی کہ اچانک اس کا موبائل خاموش ہو گیا)

" اففففف اس بیٹری کو بھی ابھی ختم ہونا تھا۔۔

( عنایہ نے موبائل کو چارپائی پر پھٹکا تھا)

" کیا ہوا میرا موبائل لے لو عنایہ...

( احمد نے موبائل عنایہ کی طرف بڑھایا تھا)

" نہیں چاچو میں بعد میں کر لوں گی موبائل چارج کر کے)

" اچھا جیسے تمھیں ٹھیک لگے۔۔۔۔۔۔

" میں موبائل چارجنگ پر لگا کر آتی ہوں۔۔۔

( عنایہ کہتی ہوئی اٹھ گئ تھی)

( اور دوسری طرف عنایہ کے فون نا اٹھانے پر مریم کی امید پھر سے ٹوٹ گئ تھی اسے لگنے لگا تھا کہ اس کی اندھیری زندگی میں مزید اندھیر ہونے والا تھا)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

" کیا کام ہے؟؟؟

( جینز گھٹنے تک چڑھائے میں منہ پان ڈالے ہاتھ میں سگریٹ کی ڈبیہ اور سامنے گن رکھے ہوئے شخص نے سامنے بیٹھے سوٹ بوٹ پہنتے ہوئے شخص سے یہاں آنے کی وجہ پوچھی تھی)

" ایک لڑکی کو اغواء کروانا ہے۔۔۔۔

" اغواء کروانا ہے یا قتل بھی؟؟؟؟

( آدمی نے پان تھوکتے ہوئے پوچھا تھا)

" نہیں نہیں کوئی خراش بھی نھیں آنی چاہئیے اس کو صرف اغواء کروانا ہے۔۔۔

" دس لاکھ لوں گا۔۔۔۔۔

" دس لاکھ صرف اغواء کروانا ہے۔۔۔۔

( سامنے بیٹھا شخص حیران ہوا تھا)

"کام کروانا ہے تو پیسے اتنے ہی لگے گے۔۔۔۔۔

" ٹھیک ہے مگر اسے کچھ ہونا نہیں چاہئے اور کسی کو مجھ پہ بھی شک نہیں ہونا چاہئیے۔۔۔۔

" ٹھیک ہے ہو جائے گا کام۔۔۔۔۔

" یہ ہے لڑکی۔۔۔۔۔

( یونیفارم پہنے لڑکی اور فخر سے اٹھی ہوئی ناک کے ساتھ اپنے باپ کے ساتھ کھڑی مسکرا رہی تھی)

" ٹھیک ہے ہو جائے گا کام۔۔ کس دن کروانا ہے اغواء؟؟؟

" میں فون کر دوں گا۔۔۔۔۔

" ٹھیک ہے 'دو لاکھ' دے جاؤ۔۔۔۔۔

" ٹھیک ہے سامنے بیٹھے شخص نے اس بندے کے سامنے پیسے رکھے تھے)

" ٹھیک ہے نکل اب ہو جائے گا تیرا کام۔۔۔۔۔

" اوکے۔۔۔۔

( سوٹ بوٹ پہنا شخص مسکراتا ہوا باہر کی طرف بڑھ گیا تھا)

(" نا جانے کس کا گھر برباد ہونے والا تھا کس کی زندگی برباد کرنے والا تھا یہ سوٹ بوٹ پہنا ہوا شخص۔۔۔ یہ تو بس وہی جانتا تھا یا وہ جس نے اس لڑکی کی قسمت لکھی تھی)

                                    جاری ہے۔۔۔۔۔۔

۔

Continue Reading

You'll Also Like

35 3 6
Its a story of a girl named ''Minha" and a boy named "Zaviyar". The story starts from 1981 in Lahore , Pakistan. Minha and Zaviyar both Love to expl...
42K 3K 23
Hate to love🏵💕💜
12.7K 109 5
slaam guys it's urdu novel by iffat saher Tahir I really love this novels so i'll write this so plzzzzzzzzzz Dnt mind