LAST EPISODE

2K 96 33
                                    

مومن ____ ارےے مومن کب سے دروازہ پیٹھ رہی ہوں اٹھ جا اب ___ایسی بھی کیا تھکن کہ کل سے اب تک باہر ہی نہیں آیا ہے پتہ نہیں کونسی نیند ہے جو ناشتہ کھانا بھی یاد نہیں ہے اسے___ مومن___

اماں آپ جائیں مجھے بھوک نہیں ہے ____ کافی بوجھ سے بھری آواز اندر سے سنائی دی جو انہیں بہت مشکل سے سنائی دی

ارےے ہوا کیا ہے کیوں ماں کو تھکا رہا ہے کسی نے کچھ کہہ دیا کیا ____نورجہاں بھی اپنا دماغ چلا رہی تھیں لیکن اس بار کوئی جواب نا آیا تو وہ اسے اسکے حال پر چھوڑ تی واپس لوٹ گئیں تھیں کل سے وہ یہی سب کر رہی تھیں کبھی کھانے کے لیے بلاتیں تو کبھی اپنے کسی کام سے مجبور ہوکر اسکا دروازہ بجاتیں لیکن یا تو وہ جواب نا دیتا یا انہیں جانے کے لئے کہہ دیتا

کل کے واقعے نے سب ہی کے دل و دماغ پر گہرہ اثر ڈالا تھا جہاں میر اب مطمئن تھا وہاں مومن کو ایک پل چین نہیں آرہا تھا ایسے میں بھوک پیاس نیند وہ سب بھول چکا تھا جس کے لئے وہ اتنا سب کر رہا تھا وہی اسے خوش فہمی کے پردوں سے نکال گئی تھی جو کچھ وہ میر کے لئے چاہتا تھا وہی سب اسکے اپنے حصے میں آگیا تھا شیشے کے سامنے کھڑا وہ اپنی بربادی کے اثرات اپنی ذات پر دیکھ رہا تھا وہ کوئی پھوٹ پھوٹ کر رویا نہیں تھا وہ تو جب جب اسکا ضبط ٹوٹ رہا تھا وہ پانی بن کر اپنا راستہ بنا رہا تھا ماہا کا کہا ایک ایک لفظ اسکے زخموں کو ہرا رنگ دے رہا تھا

ضد ؟ ایسا کیوں کہا اسنے کہ وہ میری ضد ہے میری محبت میرے عشق کو اس نے ضد کا نام دے دیا میری ماہا ایسی نہیں ہوسکتی وہ میری ماہا نہیں تھی __ضد  کسے کہتے ہیں یہ میں تمہیں بتاؤں گا ماہا جس طرح وہ تمہیں مجھ سے چھین کر لے گیا تھا میں اب وہی طریقہ اپناؤنگا __اسکی محبت پر یقین اس ہی طرح کیا تھا نا تم نے میں تمہیں  اسہی طرح اپنی محبت کا یقیں دلاؤں گا برباد کردونگا سب کچھ لیکن تمہیں اب بسنے نہیں دونگا اسکے ساتھ

وہ اپنی حالت کے آگے بے بس ہورہا تھا اسکا جنون اسکے آئینے میں دیکھتے عکس میں بہت خوفناک لگ رہا تھا اپنے کھیل کے اختتام پر بھی وہ لڑنے کے لئے تیار تھا شاید ابھی وہ انجان تھا کہ محبت میں ضد نہیں ہوتی ہے یا شاید محبت سے ہی انجان تھا

_____________________________________

جب دل اداس ہوتا ہے تو موسم کتنا ہی خوبصورت منظر کیوں نا پیش کر رہا ہو وہ موسم بھی اپنی ہی طرح اداس لگنےگتا ہے وہ اپنے کمرے کی بالکنی میں موجود چیئر پر سر کو پیچھے کی طرف ڈھلکائے آسمان کی طرف منہ آنکھیں موندے بیٹھی تھی اسکا حال مومن سے کم نا تھا لیکن یہاں اب بھی صبر تھا اور وہاں اب بھی ضد اور غصہ وہ بھی کل سے اب تک اپنے کمرے میں ہی تھی اور ابھی بھی وہ کافی دیر سے موسم کے اتار چڑھاؤ میں کھوئی ہوئی تھی آندھی آکر چلی گئی ہلکی پھوار سے مٹی دب گئی تھی لیکن اسکی خوشبو پانی سے ملکر اور محسورکن ہوگئ تھی اسکا اداس چہرہ ایک ایک قطرے سے اب تک گیلا ہوگیا تھا کاش ہمارے دکھ بھی آندھی کے وقت اڑنے والی مٹی کی طرح ہوتے ہیں یہ مٹی بھی ہمارے دکھوں کی طرح تکلیف دہ ہوتی ہے لیکن جب اس میں پانی کی بوندیں مل جاتی ہیں تو یہی دونوں مل کر ایک ایسی خوشبو پیدا کرتے ہیں جو دل اور دماغ دونوں کو بھاتی ہے اسلئے دکھوں کو بھی کسی ایسے انسان کی ضرورت ہوتی ہے جس سے تکلیف کا احساس ختم ہوجائے

You've reached the end of published parts.

⏰ Last updated: Nov 22, 2022 ⏰

Add this story to your Library to get notified about new parts!

فقط عشق از منی.(Completed)✅Where stories live. Discover now