EPISODE # 10

975 63 12
                                    

آخر وہ گھر پہنچ گئی تھی اس مشکل سفر کے اختتام پرایک لمبا سانس بحال ہوا تھا وہ خود کو پرسکون کر رہی تھی مگر ایک پریشانی اماں کے سوالوں کی بھی تھی اور اسنے جیسا سوچا تھا ویسا ہی ہوا تھا دروازہ شہیر نے کھولا تھا مگر اماں سامنے ہی اندرونی دروازے پر کھڑی نظر آگئی تھیں انہیں دیکھ کر ہی وہ بوکھلائی سی ہوگئی تھی ایک ہی نظر میں اسکے حلیے اور حال احوال معلوم کر لئے گئے تھے اماں سے نظریں چرا کر فرش پر ڈالیں جہاں پانی تو نہیں ٹھرا تھا مگر لال اینٹیں بھیگی بھیگی تھیں سامنے ہی اسکا بھائی ابھی فری میں شارٹ شو لگنے کے انتظار میں ہاتھ پیچھے باندھے کھڑا تھا شہیر کی ضبط سے چھپی ہوئی بتیسی دیکھ ملال ہوا حبیبہ نے کہا بھی تھا کہ وہ ساتھ اندر آئے مگر تب اسے ڈھڑکا لگا تھا کہ اسکے ساتھ کہیں وہ بھی بن بلائے نا آجائے اسلئے ایک لفظ میں منع کرکے وہ گاڑی سے اتری نہیں بھاگی تھی اور اب پچھتاوا ہورہا تھا اسکی موجودگی میں ہونے والی بچت اپنے ہاتھوں سے قربان کر آئی

یہ تم کس کے ساتھ آرہی ہو ؟ تشویشی نظر ماہا کے بعد پیچھے بند دروازے پر بھی ڈالی تھی

حبیبہ کے ساتھ اماں ___ کم عزت افزائی کی خاطر کم لفظوں کا استعمال لازم تھا

صبح تم یہ کپڑے پہن کر گئیں تھیں ؟ وہ سمجھ نہیں پائی کہ یہ سچ میں انہیں یاد نہیں تھا یا پھر اسکے لئے کوئی انتباہ مگر صاف لگ رہا تھا کہ اماں کا سارا لحاظ ہاتھ میں تھامی تسبیح کا تھا

نہ __نہیں اماں بارش میں بھیگ __گئی تھی __غلطی سے بھیگ گئی تھی تو حبیبہ نے کپڑے تبدیل کروا دیئے زبان نے ساتھ دینے سے انکار کر دیا تھا اور دل الگ اماں کی نظروں کی تاب نہیں لاپا رہا تھا اور ذہن اس پر بس ایک گردان لگاتار لگی ہوئی تھی کہ اللہ تعالٰی اماں کے قہر سے بچالیں

موسم دوپہر سے خراب تھا جب پتہ تھا تو جانے کی ضرورت ہی کیا تھی سیدھے گھر آنا چاہئے تھا کیا ہر بار لکھ کر دیا جائے گا تب ہی دماغ کا استعمال کرو گی
نہیں اماں وہ بس ____ وہ آنچوووو
لو بس اسکی ہی آمد ہونی تھی لگ گئی ٹھنڈ خوب اچھی طرح بارش میں بھیگ گئی ہو جاؤ اب اندر لاتی ہوں چائے اسے لگ رہا تھا آج اسکی دعائیں قبول ہورہی تھیں بس اماں کے کہنے کی دیر تھی وہ ایسے منظر سے غائب ہوئی تھی جیسے اسکی موجودگی ہوئی ہی نا تھی
_________________________________

ادرک والی چائے کا اثر ہوا تھا سر کا بوجھ ہلکا ہوگیا تھا لیکن دماغ کا بوجھ ابھی بھی ویسا ہی تھا وہ بھول بھی جاتی مگر بازو پر ظالم کی گرفت کا لمس گوشت تک چھاپ چھوڑ گیا تھا تکلیف کی دکھن الگ تھی اچھا خاصہ وقت اسے یاد کرنے میں سرف ہوگیا تھا مگر یاد کرنے کے الفاظ اچھے نہیں تھے دنیا کا کوئی سب سے ظالم خوفناک انسان ماہا انور کے لئے کوئی تھا تو وہ میر خانزادہ تھا
اللہ کرے تمہارے ہاتھ ٹوٹ جائیں ___ جتنی بار بازوؤں پر کچھ چھو رہا تھا وہ درد کی کراہٹ کے ساتھ اس درد کے سبب کو بددعائیں دے رہی تھی
سمجھتا کیا ہے وہ خود کو ہمت کیسے ہوئی مجھ سے اس طرح بیہیو کرنے کی اسے کوئی حق نہیں ہے کہ وہ مجھے بتائیے کہ مجھے کس کا نام لینا ہے اور کس کا نہیں مجھے کس کے قریب جانا ہے اور کس کے قریب نہیں جانا دوبارہ ایسی کوئی حرکت برداشت نہیں کرونگی خودکلامی میں کب آنکھیں بھیگنےلگیں اسے پتہ ہی نا چلا مگر یہ تو پکا تھا کہ ماہا انور اب میر خانزادہ سے بدگمان ہوگئی تھی
سسسی__ ایک بار بے دھیانی میں اس کا ہاتھ اپنے بازو پر گیا تو زخم پر ضرب لگی پھر درد کم نہ ہوا

فقط عشق از منی.(Completed)✅Where stories live. Discover now