EPISODE # 11

1K 60 27
                                    

لاہور میں واقع یہ خانزادہ ہاؤس کے درودیوار قدیم طرز کی مثال تھے حویلی کے نقش پر بنا ہوا یہ گھر اپنے علاقے کی شہرت تھا اور پچھلے ایک ہفتے سے ہونے والی صفائی ستھرائی اور رنگ و روغن نے باہر سے لیکر اندر تک چمچما دیا تھا ملازم سے مالک تک اس گھر کا ہر ایک انسان کسی تہوار کی سی تیاری میں مگن رہا تھا اور آج وہ تہوار نما دن آگیا تھا جشن کی افراتفری مچی ہوئی تھی، باہری برآمدے میں رکھی لکڑی کی کرسی پر ایک ادھیڑ عمر خاتون براجمان تھیں انکے چہرے پر سجے کھرے تاثرات کو کسی سجاوٹ کی ضرورت نہیں تھی وہ سادہ ہی نفیس تھیں البتہ اتنی سنجیدگی میں بھی بےصبری اور خفگی چھپ نہیں رہی تھی کھسوں میں دبے پیر بےچین تھے کہ کھڑی ہوکر دروازے پر پہنچ جائیں برابر میں ادب سے ہاتھ باندھے کھڑا تیس سالہ مسکراتا ہوا جوان کریم قمیض شلوار میں بظاہر تو کسی مورت کی طرح جما ہوا تھا پر اسکی چشموں کے پیچھے چھپی آنکھیں اپنی ماں پر ہی لگی تھیں دو ملازمائیں بھی کرسی کے پیچھے ہی کھڑی تھیں اور سب کی توجہ بڑے سے گیٹ پر مرکوز تھی

وقت اوپر ہوگیا ہے سرور ___ عزیز آج ہی آنے والے ہیں نا یا اب اس طرح کے مذاق بھی شروع کردیئے ہیں انہوں نے ؟ ٹہرا پر دبدبہ لہجہ تھا خاص کر پہلی ملاقات میں ہی لوگ اندازہ لگا لیتے تھے کہ وہ رکھ رکھاؤ اور اصولوں والی عورت ہیں 

آپ فکر مت کریں میری اطلاع کے مطابق ابھی اتنا رنگ بھی نہیں چڑھا ان پر شہر کی رنگینیوں کا بذات خود میں نے ٹیلی فون کیا تھا وہ کسی بھی وقت دروازے پر ہونگے شکر تھا کہ آواز اور لہجہ ساتھ دے رہا تھا ورنہ جتنی سادگی سے مطلع کیا تھا اندر کی حالت مکمل مختلف تھی ایک تو خوشی اس قدر تھی کہ اگر ماں اور باپ کا خوف نا ہوتا تو بھنگڑے ڈالے جاتے اور اوپر سے اماں جان کی حالت پر مزے لئے جارہے تھے    

میں یہ عرض کر رہا تھا اماں جان کہ جب تک صاحبزادے نہیں آجاتے تب تک کچھ کھانا ____ الفاظ نوالوں کی طرح نگلے گئے جب اماں جان کی شدید نظریں گھومیں بس وہیں دور سے ہی گاڑی کا ہارن سنائی دیا اور فورا دروازے وا کردیئے گئے ملاقات قریب ہونے پر صبر کا دامن چھوٹنے لگا تھا سرور تو سرور اماں جان بھی نا محسوس طریقے سے گردن اچکا کر اسکی گاڑی دیکھنے کی کوشش کر رہی تھیں دیکھتے ہی دیکھتے گاڑی سامنے ہی آکر ٹہری اور وہیں ایک طویل انتظار ختم ہوا وہ باہر نکلا تو سب کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے خاکی شرٹ پر کالی پینٹ اور لیدر کی جیکٹ میں وجہی نوجوان کوئی غیر ملکی معلوم ہورہا تھا اماں جان تو وہیں ٹھر گئی تھیں انہوں نے اپنا سیدھا سادھا سا کم عمر بچہ باہر وطن بھیجا تھا وہ تو اطوار و لباس سے لیکر شکل سے بھی غیر ملکی لگ رہا تھا انہیں اب تک یہی یاد تھا کہ جب وہ گیا تھا تو وہی کالی قمیض شلوار میں تھا اب واپس پلٹا تھا تو ایڑی سے چوٹی بدل گیا تھا

اسلام وعلیکم اماں جان ____الماس بیگم کی جان میں جان آئی تھی وہ اپنی زبان نہیں بھولا تھا کچھ نہیں بدلہ تو اسکا خالص اردو لہجہ تھا پتہ نہیں غیر ملکی زبان کا لہجہ کیسا ہوگا انہوں نے یہ بھی ضرور سوچا تھا وہ سیدھا انکے گلے سے لگا تھا صحت اچھی ہوگئی تھی تو لمبے قد کاٹ کی اماں بھی اسکے بازوؤں میں سمانے لگی تھیں ساری ناراضگی اسکی باہوں میں کھو گئی تھی اب وہ بیٹے کی یاد میں منتظر ماں کی طرح آنسو بہا رہی تھیں وہ خود بھی آبدیدہ ہوگیا تھا پھر وہ چونکا تھا ساتھ ہی کھڑے بھائی کے وجود میں کوئی حرکت نہیں ہوئی تھی وہ ایسا ہی کھڑا تھا جیسے اسکی آمد کی اطلاع نا ہوئی ہو اسے امید تھی دروازہ کھولتے ہی سب دے پہلے اسکے لگے سے لگنے والا اسکا بھائی ہی ہوگا مگر یہاں صورتحال قابل حیرت تھی

فقط عشق از منی.(Completed)✅Onde histórias criam vida. Descubra agora