"میں بتاتا ہوں... ممم میں اسے نہیں جانتا.... آج تک نہ تو کسی کو باس کا اصلی نام معلوم ہے اور نہ ہی انکا چہرہ آج تک کسی نے دیکھا ہے...بس سب اسے زی کے نام سے جانتے ہیں.... کوبرا زی کا ہی آدمی ہے جوکہ اسکے کہنے پر یونیورسٹییوں اور کالجوں میں ڈرگز سپلائے کرتا ہے اور بہت سے سٹوڈنٹس اس لت کی وجہ سے مارے جاچکے ہیں.. کوبرا ہی وہ آدمی ہے جو تم لوگوں کو زی کے خاص آدمی جیکب تک پہنچا سکتا ہے...اگر تم لوگ جیکب تک پہنچ گئے تو سمجھو زی کی جان تمہارے قبضے میں ہے.... میری کوبرا سے اسلحے کے سلسلے میں کافی بار ملاقات ہو چکی ہے.... یونیورسٹیز میں اگر کبھی کچھ گروپوں میں تصادم ہو جائے اور بات بڑھ جائے تو کوبرا انہیں خفیہ طور پر اسلحہ فراہم کرتا ہے.... میں اور کچھ نہیں جانتا کے زی کون ہے.... دیکھو اب مجھے جانے دو میں سب کچھ بتا چکا ہوں آخر کون ہو تم لوگ" وہ ساری بات انکو بتا گیا.
خضر نے سر ہلا کر اسفند کو اشارہ کیا.

"اسں دھرتی کے بیٹے اور اپنے ملک کے مخافظ..... جو تم جیسے غداروں کو انکے انجام تک پہنچانے کا ایک ذریعہ ہیں.. بس اتنا جان لو کے ہم تمہاری موت ہیں"
یہ کہتے ہی اسفند نے اپنی پستول نکالی اور اسکی ساری گولیاں اسکے سینے میں اتار دیں...تڑپتا ہوا اسکا وجود ساکت ہوگیا اور گردن ایک طرف ڈھلک چکی تھی ایک اور غدار اپنے انجام تک پہنچ چکا تھا.

وہ دونوں اسکی لاش کو یونہی چھوڑ کر باہر کی طرف بڑھ گئے

                     _______________

ٹھیک ایک گھنٹے کے اندر اندر اسد اپنا یونیفارم پہنے پارکنگ ایریا میں موجود تھا. ابھی وہ گاڑی سے نکلا ہی تھا کے سامنے سے  کیپٹن ہنال اسے اپنے مخصوص آرمی یونیفارم میں کالے بوٹس پہنے سر پر آرمی کیپ پہنے اپنی طرف آتی دکھائی دی.
اسکے پاس پہنچتے ہی اسد نے اسے سلیوٹ کیا.
"اسلام علیکم سر!"  اور سلامتی بھیجنا نہیں بھولا تھا

"وعلیکم السلام " کیپٹن نے بھی اسی انداز میں اسکے سلیوٹ اور سلام کا جواب دیا.

اسد نے سر خم کیا اور آگے بڑھ کر گاڑی کا فرنٹ ڈور اسکے لئے کھول دیا. ہنال نے وقت ضائع کئے بغیر اپنی سیٹ سنبھالی اور دروازہ بند کیا.
اسد کو کیپٹن ہنال سے ملنے کے بعد لڑکیوں کی ایک نئی قسم کے بارے میں معلوم ہوا تھا
ہر وقت ایک جیسا سنجیدہ بے تاثر چہرہ.....
لیکن اسکی اس سنجیدگی کی وجہ ان میں سے کوئی بھی نہیں جانتا تھا
اسد پیچھے سے ہوتا ہوا گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا اور گاڑی سٹارٹ کر کے سٹیرنگ سنبھالا. اب وہ دونوں ہیڈ کوارٹر کی طرف اپنے سفر پر روانہ تھے.
              ____________________

یونیورسٹی میں اس وقت معمول کی گہما گہمی تھی. کچھ سٹوڈنٹس کیفے ٹیریا میں گپے ہانکنے میں مصروف تھے تو کچھ گروپس کی شکل میں جگہ جگہ ڈھیر تھے.

وہ نیلی پینٹ پر سفید شرٹ پہنے نیلے رنگ کا کوٹ پہنے ساتھ ہمرنگ ٹائی لگائے بالوں کو سلیقے سے سیٹ کیے ایک ہاتھ میں فولڈر پکڑے دوسرے ہاتھ سے کوٹ کا بٹن بند کرتا ایک نظر سب پر ڈالتا اپنی کلاس کی طرف بڑھا. اسے کلاس میں جاتا دیکھ کر کچھ سٹوڈنٹس اسکے پیچھے لپکے.

راہِ حق ازقلم ندا فاطمہWhere stories live. Discover now