قسط ١٦

647 46 19
                                    

#عیدِ_زندگی_سیزن_2
بقلم
#سحرقادر

EPISODE 16:-
"میں سیاست میں آنے کے لیے تیار ہوں مگر میری ایک شرط ہے۔" راحم اس وقت داؤد فاروقی کے سامنے بیٹھا ان سے سودے بازی کرنے میں مصروف تھا۔
"مجھے معلوم تھا کہ تم ضرور مان جاؤ گے آخر کو داؤد فاروقی کی اولاد ہو۔" انھوں نے نخوت سے سر جھٹکا جس پر راحم بس انھیں دیکھ کر رہ گیا تھا۔ اس کے نہیں سوچا تھا کہ وہ زندگی کے کسی موڑ پر یوں باپ کے ساتھ معاملات طے کرنے بیٹھے گا۔
"پہلے میری شرط سنیں گے آپ؟" بیزار کن انداز میں سوال کیا گیا تھا۔
"بولو!کیا چاہیے؟" داؤد فاروقی نے سگار سلگاتے اک عجب شانِ بےنیازی سے غرض جاننا چاہی۔
"مناسب وقت پر دلاور خان کے خلاف آپ کا ساتھ!" راحم نے گویا ان کے سر پر بم پھوڑا تھا۔ ایک لمحے کو ایک سایہ سا ان کے چہرے پر لہرایا مگر پھر انھوں نے ایک ہنکارا بھرا اور راحم کی طرف دیکھنے لگے جو سپاٹ چہرا لیے بیٹھا تھا۔
"میں مانتا ہوں کہ میں اچھا باپ نہیں مگر باپ تو ہوں۔" انھوں نے غیر متوقع جملہ کہا تھا۔ راحم کے چہرے پر سوالیہ تاثرات ابھرے تھے کہ جیسے وہ ان کی بات سمجھ نہ پایا ہو۔
"اور برا ہی سہی مگر باپ ہونے کے ناطے اتنا تو تمہیں جانتا ہوں کہ اس بات کے پیچھے بہت بڑی وجہ ہے۔ کیا تم مجھے بتاؤ گے؟" داؤد فاروقی کا لہجہ نپا تلا تھا۔
"جان کر کیا کریں گے؟ جیسے پہلے میرے معاملات سے لاتعلق رہتے ہیں اب بھی رہیں گے تو بہتر ہوگا۔" راحم نے لب بھینچے تلخی سے جواب دیا۔
داؤد فاروقی کھڑے ہوئے تھے۔ راحم بھی ان کی تقلید کرتے کھڑا ہوا تو فاروقی صاحب اس کے سامنے آ کھڑے ہوئے۔
"آج جب دوسروں کی اولاد کو ان کا سہارا بنتے دیکھتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں نے ماضی میں بہت بڑی غلطی کی جو تمہیں خود سے دور کر دیا۔" یہ اعتراف جرم تھا یا بڑھاپے کے لیے تدبیر؟ راحم سمجھا نہیں تھا۔
"صرف خود سے نہیں بلکہ مامتا سے بھی دور کیا ہے آپ نے مجھے۔" راحم نے ان کا ایک اور جرم گنوایا تھا۔
"ہاں میں مجرم ہوں۔ مجھے معاف کر دو۔" داؤد فاروقی نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑے تو وہ ہکا بکا رہ گیا تھا۔ ایسا تو اس نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ اپنے جاہ و جلال کو چھوڑ کر داؤد فاروقی اس کے سامنے ہاتھ جوڑیں گے۔
وہ انھیں کیا بتاتا کہ بچپن سے آج تک وہ محروم ہی تو رہا ہے۔ اس کے پاس تو کسی کو دینے کے لیے شاید معافی بھی نہیں تھی۔ دوست تھے مگر راحم اپنے جذبات شاید صدا چھپا کر رکھنے والا بن چکا تھا۔
"مجھے معاف کر دو۔" راحم نے دیکھا تو فاروقی صاحب کی آنکھوں میں نمی تھی۔
"ڈیڈ پلیز!" اس نے ان کے بندھے ہاتھ پکڑ لیے تھے۔ اس لمحے میں راحم کی زبان گونگی ہو چکی تھی۔
داؤد فاروقی نے آگے بڑھ کر اس کو گلے لگایا۔
راحم کی آنکھوں میں اب نمی کی لہر چمکی تھی۔ آج سالوں بعد اس نے باپ کی محبت کو محسوس کیا تھا۔
"میں نے آپ کو معاف کیا۔" راحم نے بمشکل مسکرا کر ان سے کہا۔
"مجھے تمہاری شرط منظور ہے۔" انھوں نے اسے ایک اچھی خبر سنائی اور اس کا شانہ تھپتھپاتے منظر سے ہٹتے چلے گئے۔
(ڈیڈ کو اپنی غلطی کا احساس کیسے ہوا؟ یہ سیاست میں میرا سہارا حاصل کرنے کے لیے تو نہیں ہے کیونکہ اس کے لیے تو ڈیڈ مجھے زبردستی بھی راضی کر سکتے تھے۔ آخر ایسی کیا وجہ ہے کہ ڈیڈ اچانک بدل گئے ہیں؟) راحم نے صوفے پر بیٹھتے سوچا۔ اس کی تیوری پر بل پڑ چکے تھے جو اس کے گہری سوچ میں ہونے کی غمازی کر رہے تھے۔
وہ بری طرح الجھ چکا تھا لیکن اس کے دماغ نے صحیح نکتہ پکڑا تھا۔ اصل وجہ یقیناً بہت بڑی تھی۔
                         ***********************
کل شام اسے عون سے ملنے ہسپتال جانا تھا مگر اپنے پورشن کی سیٹنگ میں مصروف ہو کر وہ جا نہ سکی۔آج عون گھر آنے والا تھا اور وہ اس وقت پھپھو یعنی شمائلہ بیگم کے پورشن میں بیٹھی میگزین پڑھ رہی تھی کیونکہ پھپھو پڑوس میں گئیں ہوئیں تھیں۔
"لوگ تو اب ہم سے ملنا بھی نہیں چاہتے!" پیچھے سے آتی آواز پر اس نے مڑ کر دیکھا تو ایک مسکراہٹ بس اس کے چہرے پر آ کر رہ گئی۔
"تشریف لے آؤ۔" حائمہ نے عون کو بیٹھنے کا عندیہ دیا۔
"مجھ سے چھپ رہی ہو؟" عون نے مضحکہ خیز سوال کیا تھا جس پر حائمہ کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔
"کہہ تو ایسے رہے ہو جیسے میں صبیحہ خانم ہوں اور تم سنتوش کمار!" حائمہ کا انتہائی بھونڈا جواب سن کر عون نے لاحول ولا قوۃ پڑھا تھا۔
مگر ایک نفوس ایسا تھا جو اپنی ہنسی روک نہیں پایا تھا۔
"قسم سے آپی کیا حسِ مزاح ہے آپ کی! میں تو مطلب فین ہوں آپ کا! کہاں سے سیکھا ہے یہ فن؟" علی نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے اسے خراج تحسین پیش کیا۔
"جو بچپن کے چند سال اس نے پنجاب میں گزارے ہیں نا ان کا کمال ہے۔ پنجابی خالاؤں کی لڑائیاں دیکھنے سے یہ فیض ملا ہے۔" عون نے جیسے راز کھولا تھا۔
"مگر پنجاب میں جگتوں کے لیے فیصل آباد مشہور ہے اور نانی اماں تو گجرات میں ہوتی ہیں۔" علی الجھ گیا تھا۔
"پنجابیوں کا کیا ہے بھئی! اگلے کو اڑانے پر آئیں تو کسی بھی علاقے سے ہوں بس اڑا دیتے ہیں۔" عون نے تو پنجابیوں کو رامن رینز کا شاگرد ہی سمجھ لیا تھا۔
"بکواس نہ کیا کرو۔ مزاحیہ مزاج میں پنجابی ہونے کی بات نہیں ہے۔ ایسا ہوتا تو چارلی چپلن نہ گوجرانوالہ کے ڈھابوں پہ ملتا۔ اور تم کیا آتے ہی میرا سر کھانے آ گئے ہو؟ جاؤ اپنی بیوی کے پاس اور ہاں تمہارے سکول بیگ میں تمہارا گفٹ پڑا ہے لے لینا۔ مجھے اتنا قیمتی تحفہ نہیں چاہیے۔" حائمہ نے اٹھتے ہوئے صوفے پر کشن سیٹ کیے اور میگزین میز پر رکھتے وہاں سے نکلی تھی۔
"مجھے پتہ ہے تم مہوش کی باتوں پر دلبرداشتہ ہو۔" عون نے آواز لگائی۔ حائمہ نے لاؤنج کے دروازے کے اندر منہ کرتے ہوئے انھیں جواب دیا تھا کہ:
"میں کوئی دلبرداشتہ واشتہ نہیں ہوں۔ اپنی فضول باتیں پاس رکھو اور ہاں علی شام کو مہوش، میں اور پھپھو تمہارا رشتہ لینے جا رہے ہیں۔" حائمہ عون کو گھرکتی اور علی کے سر پر بم پھوڑتی نو دو گیارہ ہو گئی تھی۔
علی جیو نیوز کی بریکنگ نیوز پر اچھلتا ہوا حائمہ کے پیچھے بھاگا تھا۔
"کس کے لیے لے کر جا رہی ہیں رشتہ؟" علی نے پورشن کے درمیان موجود لان میں روکتے ہوئے انکشاف کروانا چاہا۔
"ربیشہ آفاق!" جتنی بے چینی سے علی نے سوال کیا تھا، اتنے ہی سکون سے حائمہ نے جواب دیا تھا۔
"ہائے میں لٹ گیا رے! مجھے نہیں کرنی براک لیزنر کی بہن سے شادی!" علی نے اپنا دکھڑا رویا تھا۔
" بکواس نہیں کرو!" حائمہ نے ایک دھپ اس کے کندھے پر رسید کی۔
"باقی سب ایک طرف مگر آپی یہ ہاتھ چالاکی والا مذاق نہیں چلے گا۔" علی نے ہاتھ اٹھا کر اسے خبردار کیا۔
"اچھا....!!" حائمہ نے کمر پر ہاتھ رکھتے علی کو خونخوار نظروں سے دیکھا۔
"تمہیں میں نے دو جھانپڑ لگانے ہیں اور پھر تمہاری بتیسی نے اندر ہو جانا ہے، اس لیے نہ زبان کو قابو رکھو۔" حائمہ اس کی بولتی بند کرتی واک آؤٹ کر گئی۔
"میرے پلے یہی چڑیل پڑنی تھی۔ اللہ میاں کچھ ایسا کر دیں کہ اس ربیشہ نام کی بدروح سے میری جان چھوٹ جائے۔" علی نے ہاتھ اٹھا کر دعا کی۔
"ہاں جیسے وہ تو مری جا رہی ہوگی نہ تجھ جیسے مسخرے کے ساتھ سر پھوڑنے کے لیے!" پیچھے سے آتا عون بھی اسی طعنہ مارتا یہ جا وہ جا کی مثال بنا تھا جبکہ علی منہ بنا کر رہ گیا تھا۔
                         ***********************
"شہزادہ اپنا سیاست میں لانچ ہو گیا ہے۔ کیا کمال تصویریں آئی ہیں ویسے۔" افراز نے حسب معمول بے فکرے انداز میں اپنے گھر کے لاؤنج میں بیٹھے جواب دیا جہاں اس کے علاوہ راحم اور علی موجود تھے۔
"راحم تو ویسے ہے ہی شہزادہ اور قومی لباس تو میں الگ ہی سٹائل تھا۔" علی نے بھی جواب دیا۔
راحم مسکرا دیا۔ انھوں نے اس کے ناپسندیدہ کام کرنے کو بھی ایسے بنا دیا تھا کہ اسے واقعی لگ رہا تھا کہ اس نے کوئی بڑا کام کیا ہے۔ راحم کے خیال میں پارٹی میں تقریر کرنا بھی بھلا کوئی بڑا کام تھا۔
"حمدان تو دو دن سے بعد نہیں کر رہا پورا مجنوں بن گیا ہے۔" افراز نے منہ بسورا۔
"یار نہیں مسئلہ اس کا سیریس ہے ویسے میں کہتا ہوں کہ محبت فضول چیز ہے پر پتہ نہیں یہ حمدان کیوں شیریں فرہاد کی داستان کو بھی پیچھے چھوڑنا چاہتا ہے۔" علی نے بھی اپنا تجزیہ پیش کیا۔
"اب اس کے کچھ ٹھان لی ہے تو ساتھ تو ہمیں دینا پڑے گا۔" راحم نے کندھے اچکائے۔
"بالکل ہم میں سے کوئی کنویں میں بھی چھلانگ لگائے گا تو ہم ساتھ دینگے آخر کو عاحر بائنڈنگ اتنی بھی کمزار نہیں ہے۔" افراز نے جوش سے کہا جس پر علی اور راحم مسکرائے تھے۔
"افراز!" حمدان ایک دم سے داخل ہوا تھا جس کے ماتھے پر خون کی لکیر تھی۔اس کہ بازو سے بھی خون نکل رہا تھا جبکہ حالت بھی دیکھنے والی تھی۔
"ہادی کیا ہوا تجھے؟" افراز پریشانی اور پیار میں ہمیشہ اسے ہادی کہتا تھا۔
"وہ فادیہ......" وہ بتانے لگا تھا کہ راحم نے اسے صوفے پر بیٹھنے سے روکا اور جملہ بھی کاٹ دیا۔ وہ اسے ساتھ لیتا پورچ میں آیا تھا۔ علی اور افراز بھی ساتھ بھاگے تھے۔
"چلو ہسپتال جا رہے ہیں ہم! اور ہاں فادیہ کی محبت میں ہم تینوں کی اور اپنے ماں باپ کی محبت نہ بھولو ورنہ میں نے چھترول کرنی ہے تنہاری۔ بہت ہو گئی یہ محبت وحبت۔ تنہاری خوشی کے لیے پوری کوشش کرینگے جان ماریں گے مگر یاد رکھو حمدان پریکٹیکل رہنا بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ زندگی میں افسانوی باتوں کی طرف توجہ نہیں دینی چاہے۔"  گاڑی کو گھر سے باہر نکالتے اس نے حمدان کو سمجھایا تھا جس کا سر جھک گیا تھا۔
"لیکچر چھوڑ تو بتا ہادی کیسے ہوا یہ سب؟" افراز نے اپنی ٹانگ اڑائی جو پچھلی سیٹ پر حمدان کے ساتھ بیٹھا جبکہ علی فرنٹ سیٹ پر تھا اور راحم ڈرائیو کر رہا تھا۔
"افراز بعد میں پوچھ لینا ابھی تو اس کی بے چاروں والی حالت ہے۔" علی نے لقمہ دیا۔
"ہممم ٹھیک ہے۔" افراز چپ ہو گیا مگر تھوڑی دیر بعد اچانک اس نے حمدان کو گلے لگا لیا۔
"اوئے خون لگ گیا ہے تیرے کپڑوں پر۔پیچھے ہٹ!" حمدان نے اسے منع کیا جبکہ راحم اور علی کے لیے یہ نئی بات نہ تھی۔
"ہادی آئی لو یو سو خبردار جو آئندہ ایسی حالت میں میرے پاس آیا۔" اس کے گلے سے لگے افراز نے جواب دیا۔
"مرا نہیں ہوں بس معمولی چوٹیں آئی ہیں۔" حمدان تپا تھا۔
"مرنے کا نام لیا تو میں نے خود تمہیں اوپر پہنچا دینا ہے۔" افراز نے اسے اتنی زور سے دبایا کہ حمدان چیخ پڑا جبکہ علی اور راحم مسکرا دیے۔
                         ***********************
ربیشہ کا رشتہ لینے وہ لوگ پہنچ چکے تھے مگر نجانے قسمت کیا کرنا چاہتی تھی۔
                         ***********************
جاری ہے!

عیدِ زندگی سیزن ٹو Where stories live. Discover now