سکندر نے ریکارڈنگ سُنیتو کچھ دیر وہ اسی طرح اہنے کیبن میں اپنی کرسی پر بیٹھا پر سوچ انداز میں ٹیبل پر پڑے پیپر ویٹ کو گھورتا رہا۔ اسے سمجھ آ گیا تھا کہ الماس کی زندگی کتنی مشکل تھی۔ اس نے جن لوگوں ک اپنا سمجھ کر ان پر اعتبار کیا وہ ہی اس کے اعتبار اور خوشیوں کے قاتل نکلے۔

سکندر کے جی میں آیا کہ کاش وہ اس کی بہن کو ڈھونڈ نکالے اور الماس سے کی گٸ زیادتیوں کا بدلہ لے۔ اس نے اپنی آنکھوں سے تو الماس پہ ظلم ہوتے نہی دیکھا تھا لیکن جس انداز میں سُندس بتا رہی تھی اور جو رویہ خود الماس کا اس کے ساتھ تھا، اس سے صاف ظاہر تھا کہ وہ ندر سے ٹوٹ چُکی ہے اور اب کسی پر اعتبار نہی کرے گی۔ سارا کو وہ اپنی بڑی بہن اس لیے سمجھتی ہے کیونکہ سارا نے اسے مشکل وقت میں سہارا دیا تھا اور اس کا سلوک بھی الماس کے ساتھ شروع سے ہی اچھا رہا ہے۔ سکندر نے اس کے ساتھ بقول الماس کے، ”بدتمیزی“ کر کے اس کا اعتبار ہی توڑ دیا۔ اب وہ مشکل سے ہی اس پہ اعتبار کرتی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ سکندر کے ساتھ اپنے ”مجبوری“ کے رشتے کو ”مجبوری“ سمجھ کر بھی نبھانے کی کوشش نہی کرتی تھی بلکہ اس کی پوری کوشش یہی ہوتی تھی کہ سکندر سے دور ہی رہے۔

اس لڑکی نے اپنی زندگی میں کتنے مشکل اور سخت دن دیکھے ہوں گے سکندر کو اب اندازہ ہو رہا تھا۔ پہلے ایڈاپٹڈ فیملی ے ساتھ رہنا، چپ چاپ سب کچھ برداشت کرنا، بے عزتی سہنا، بر قصور ہوتے وۓ بھی قصوروار ٹھہرایا جانا، گھر سے نکال دیا جانا، ایک انجان آدمی کے بھروسے اچھی زندگی کے خواب دیکھنا، خوابوں کا ٹوٹنا، چند گھنٹوں کی شادی، طلاق، انجان شہر انجان لوگ انجان دُنیا، اغوا ہوتے ہوتے بچنا۔۔۔۔۔۔پھر وہ اس کے گھر آ گٸ اور اس نے کیا کِیا اس کے ساتھ؟

وہی سب دہرایا۔۔۔۔

پہلے اس کی بےعزتی کی، پھر الزام لگایا، پھر گھر سے نکال دیا، وہ تقریباً اغوا کاروں کے ہاتھ لگ چکی تھی مگر پھر اسے بچالیا، پھر سے الزام لگایا، دھوکےباز کہا۔۔۔۔

ان سب کے بعد بھی وہ اس کے گھر میں رہ رہی تھی تو اندر ہی اندر وہ اپنے آپ ک کتنا کوستی ہو گی۔ اغوا کے ڈر سے وہ دوبارہ گھر سے نہی نکلی ورنہ اس کی عزتِ نفس پہ یہ بات کس قدر اذیت ناک وار کرتی ہوگی ہر بار جب وہ اس کے سامنے آتا ہوگا، اسے پھر سے وہ سب یاد آتا ہو گا۔ سکندر کی آنھوں میں کب نمی آٸ وہ جان نہی سکا۔

مرد صرف دو باتوں کی وجہ سے روتا ہے۔ ایک اس وقت جب اس کی عزت اور انا پہ بات آ جاۓ اور وہ بے بس ہو اور دوسرا اس وقت جب وہ اس عورت کی حفاظت کرنے میں خود کو ناکام اور بے بس محسوس کر رہا ہو جسے وہ اپنی جان سے بھی زیادہ چاہتا ہو۔

سکندر نے اس کے چہرے کی اداسی بہت بار دیکھی تھی۔ مسکراتی بھی یوں تھی جیسے زندگی پر احسان کر رہی ہو۔ اکثر بیٹھے بیٹھے کسی سوچ میں گُم ہو جاتی تھی۔ سب کے ساتھ بیٹھے ہوۓ بھی کبھی کبھی وہ الگ الگ ہی لگنے لگتی تھی۔

Mohabbat Kuch Yoo'n Hai Tum Se (Complete)Where stories live. Discover now