الماس کو ان کے ساتھ رہتے تین ہفتے ہو گئے تھے۔ وہ گھر سے باہر نہیں جاتی تھی۔ گھر کی صفائی ستھرائی، کھانا پکانا، کپڑے اور برتن دھونا، کپڑے استری کرنا یہ سب تو اسے پہلے سے آتا تھا اس لیے وہ ان کاموں میں سارا کا ہاتھ بٹانے لگی۔ کبھی بچوں کو ہوم ورک بھی کروا دیتی تھی۔ سارا کو اس کے آنے سے سہارا بھی ہو گیا تھا اور ایک بہن بھی مل گئی تھی۔ وہ کبھی لان میں جا کر جھولے پر بیٹھ جاتی تھی۔ کبھی پودے اور پھولوں کو دیکھتی رہتی تھی۔ اسے یہ سب اچھا لگنے لگا تھا۔ زندگی خوبصورت ہونے لگی تھی۔ صبح کے وقت زیادہ کام نہیں ہوتا تھا۔ بچے سکول چلے جاتے تھے اس لیے زیادہ مصروفیت ان کے آنے کے بعد ہی ہوتی تھی۔ اس روز وہ رات کا کھانا کھا کر، بچوں کو کہانی سنا کر، سب کو سلا کر اپنے کمرے میں سونے چلی گئی۔ رات کا جانے کون سا پہر تھا جب اس کی آنکھ کھلی۔ شاید کمرے میں کچھ کھٹکنے کی آواز آئی تھی جبھی اس کی نیند ٹوٹی تھی۔ اس نے آہستہ سے آنکھیں مل کر کھولیں اور اندھیرے میں کچھ دیکھنے کی کوشش کی۔ کھڑکی سے ہوا کے ساتھ ہلکی سی روشنی بھی آ رہی تھی۔ اس نے مطمئن ہو کر دوبارہ سونا چاہا تو دروازے کے پاس کھڑے ہیولے کو دیکھ کر اس کی چیخ نکل گئی۔
"

کون ہو تم؟" مردانہ غصیلی آواز پر اس کی جان میں جان آئی۔ شکر کیا کہ وہ کوئی بھوت نہیں تھا، انسان ہی تھا۔ لیکن پھر ایک اور پریشانی نے آ گھیرا۔ ایک مرد؟ اس وقت اس کے کمرے میں کیا کر رہا تھا؟ وہ ایکدم بدک کر پیچھے ہوئی۔
"ت۔۔تم۔۔کون ہو اور یہاں میرے کمرے کیا کر رہے ہو؟ باجی۔۔۔۔باجی۔۔۔" اس نے زور زور سے آوازیں لگانا شروع کر دیں۔ وہ ہیولہ ہلکا سا ہنسا۔
"میرا کمرہ؟" پوچھا تھا یا بتایا تھا، الماس کو کچھ سمجھ نہیں آیا۔
"باجی جلدی آئیں۔ چور ۔۔۔چور۔۔۔"
"بلاؤ۔۔سب کو بلاؤ۔۔ہم بھی تو دیکھیں کہاں ہے چور؟" وہ سینے پہ بازو لپیٹے یوں اطمنان سے کھڑا تھا جیسے اس گھر کا مالک ہو۔ الماس کی جان ہوا ہونے لگی۔ اسی لمحے سارا آ گئی اور اس نے اندر گھستے ہی کمرے کی لائٹ آن کر دی۔
"کیا ہوا الماس؟" سارا نے فکرمندی سے اس کو دیکھا۔ وہ کمبل کھینچ کر سینے سے لگائے بستر پر بیٹھی تھی اور چہرے سے خوفزدہ لگ رہی تھی۔ پھر سارا نے اس ہیولے کو دیکھا جو روشنی میں اب صاف نظرآ رہا تھا۔ وہ پُر کشش نقوش والا مغرور اور غصیلے تاثرات لیے دروازے کے پاس کھڑا تھا اور الماس کو گھور رہا تھا۔ الماس نے اس کی جانب اشارہ کیا۔
"یہ یہ۔۔۔یہ آدمی میرے کمرے میں گھس آیا پتا نہیں کیسے۔۔۔۔"
"سیریسلی؟ میرا کمرہ؟" وہ استہزایہ سا ہنسا اور انھی مغرورانہ تیوروں کے ساتھ اسے گھورا پھر گردن موڑ کر سارا کو دیکھا جو ایک دم کچھ گڑ بڑا گئی تھی۔
"تمھارے آنے جانے کا بھی تو کچھ پتا نہیں چلتا۔ میں نے اسے دے دیا تھا یہ کمرہ۔ ویسے بھی تو خالی ہی رہتا ہے۔" سارا نے اس مغرور سے آدمی سے کہا۔ پھر جیسے الماس کا خیال آیا۔
"الماس یہ۔۔۔۔ میرا دیور ہے سکندر۔۔گھر پر کم ہی ہوتا ہے۔ دراصل یہ پہلے اس کا کمرہ تھا۔۔اس لیے۔۔۔" اس نے بات ادھوری چھوڑ دی تھی۔ جو بھی غلط فہمی تھی دور ہو گئی۔ وہ کوئی چور نہیں تھا۔ مگر وہ اندر آیا کیسے؟ اس نے تو دروازے اور کھڑکی کو لاک کیا تھا۔
"اور یہ محترمہ کون ہیں؟" وہ اسے جانچتی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ پتا نہیں کیوں گھور رہا تھا۔ الماس کو اس کی نظروں سے الجھن ہونے لگی تھی۔ وہ یوں دیکھ رہا تھا جیسے اس کے اندر تک جھانک رہا ہو۔ الماس نے کمبل مزید کھینچ کر اوپر کر لیا۔
"یہ میری دوست ہے۔ کچھ دن یہاں رہنے آئی ہے۔"سارا نے جلدی سے جو جواب بن پڑا، دے دیا۔
"آپ کب سے اپنے سے چھوٹی عمر کی لڑکیوں سے دوستی کرنے لگیں؟ کم از کم بھی دس سال چھوٹی ہے آپ سے۔" اس کے درست اندازے پر الماس کو شدید حیرت کا جھٹکا لگا تھا۔ وہ اس کی عمر کیسے جانتا تھا؟
"تم آؤ میرے ساتھ۔" سارا نے سکندر کو باہر کھینچا تھا اور الماس سے کہا کہ وہ سو جائے۔
"تم مجھے بتاؤ، یوں اچانک آ دھمکے ہو۔ کبھی بتا کر نہیں آ سکتے تم؟" سارا کو رہ رہ کر الماس کا خوفزدہ چہرہ یاد آ رہا تھا۔
"میں تو ہمیشہ ہی ایسے آیا ہوں۔ پہلے تو کبھی آپ کو برا نہیں لگا۔" وہ اس کے چہرے کو غور سے دیکھنے لگا تھا۔
"برا نہیں لگا۔ مگر تم بتا کر آ جاتے تو کیا حرج تھا۔ خواہ مخواہ بے چاری لڑکی کو ڈرا دیا تم نے۔"
"مجھے معلوم نہیں تھا کہ میرے ہی کمرے میں ایک عدد بے چاری لڑکی میرے ہی بیڈ پر مزے سے سو رہی ہو گی۔ ورنہ دروازہ کھٹکھٹا کر، اجازت لے کر اندر جاتا۔" سارا نے گہرا سانس لے کر اسے دیکھا۔
"اچھا اب تم اسے سونے دو۔ کچھ کھاؤ گے یا تم نے بھی آرام کرنا ہے؟" اب وہ اس سے پوچھ رہی تھی۔
"نہیں۔ بس سونا ہی تھا۔ اب کہاں سوؤں میں؟ آپ کی سہیلی نے تو میرے کمرے پر قبضہ کر لیا ہے۔ ویسے کب تک رہیں گی محترمہ؟" سکندر نے اپنے کمرے کے بند دروازے کو دیکھتے ہوئے اس سے پوچھا تھا۔
"صبح بات کریں گے اس بارے میں۔ ابھی تم ڈرائنگ روم میں سو جاؤ یا میرے کمرے میں۔ مَیں بچوں کے پاس جا رہی ہوں۔" سکندر نے سر ہلایا اور اپنے کمرے کے ساتھ والے کمرے میں چلا گیا۔ جو سارا اور اس کے میاں حسن کا کمرہ تھا۔
۔۔۔
ناشتے کی میز پر سب موجود تھے سوائے سکندر کے۔ بچوں نے سکول جانا تھا اس لیے ان کا ناشتہ صبح ہی بنانا تھا۔ بچوں کو سکول بھیج کر وہ برتن سمیٹ رہی تھی۔
"رات کو ٹھیک سے سو گئی تھی تم؟" سارا نے اس سے پوچھا۔
"جی! بس تھوڑی دیر بعد آنکھ لگ گئی تھی۔" وہ اب برتن سنک میں رکھ رہی تھی اور سارا آج دوپہر کے کھانے کی تیاری کر رہی تھی۔
"دراصل سکندر کے آنے جانے کا کچھ پتا نہیں چلتا۔ کبھی تو ایک ایک ہفتے بعد چکر لگاتا ہے کبھی دو دو مہینے نہیں آتا۔ میرے بھی ذہن سے نکل گیا تمھیں اس کے بارے میں بتانا۔"
"کوئی بات نہیں!" الماس اب اور کیا کہہ سکتی تھی۔ وہ برتن دھونے لگی تھی اور سارا چاول صاف کر رہی تھی۔
"تم برا مت منانا۔ وہ ایسا ہی ہے۔" سارا نے کہا تھا۔ اور تھوڑی دیر میں "وہ" بھی آگیا۔ بالوں میں نمی تھی۔ شاید باتھ لے کر نکلا تھا۔ گرے رنگ کے ٹراؤزر شرٹ میں وہ الماس کو مغرور کم اور پر کشش زیادہ لگ رہا تھا۔ مگر تھوڑی دیر کے لیے۔
"بھابھی ناشتہ۔" کہہتے ہوئے وہ ڈائننگ کے گرد رکھی ایک کرسی پر کچھ یوں بیٹھ گیا کہ اسے الماس بالکل سامنے نظر آ رہی تھی۔ الماس سنک میں برتن دھو رہی تھی اور اس کی سکندر کی جانب پشت تھی۔ اسے اپنی پشت پر کسی کی گہری نظروں کا احساس ہوا۔ اس نے وہم دور کرنے کو یونہی پیچھے مڑ کر دیکھا۔ وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ اور کیا کمال کی نظریں تھیں، پکڑے جانے پر بھی اس نے نگاہیں نہیں ہٹائی تھیں بلکہ اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا۔ الماس نے ایک دم رخ آگے کو موڑا۔ کیسا عجیب انسان تھا۔ کس ڈھٹائی سے اسے گھور رہا تھا، وہ بھی اپنی بھابھی کے سامنے۔
"الماس تم پراٹھا بنا دو میں آملیٹ پھینٹ دیتی ہوں۔" سارا نے الماس کو مخاطب کیا تو اس نے نہایت فرمانبرداری کا مظاہرہ کیا۔
"جی"
"بھابھی! آپ مہمانوں سے کب سے کام کروانے لگیں؟" اب کی بار سکندر بولا تھا مگر نظریں اب بھی الماس پر ٹکی تھیں جیسے وہ اس کی ایک ایک حرکت نوٹ کر رہا ہو۔
"الماس بہت اچھے پراٹھے بناتی ہے۔" سارا نے بات بدلنا چاہی تھی۔ وہ جانتی تھی سکندر کی بات کا کیا مطلب تھا۔
"ویسے آپ کا نام کیا ہے؟ بھابھی نے تو بتایا نہیں!" سکندر نے اب اسے ہی مخاطب کر لیا۔ سارا کی گھوریوں کے باوجود۔
"الماس!" اس نے بغیر مڑے آہستہ سے کہا۔ وہ برتن دھو چکی تھی۔ اب توا رکھ کر پیڑا بنا رہی تھی۔
"اچھا نام ہے۔ کس نے رکھا؟ امی نے یا ابا نے؟" اب کی بار سارا نے ناراضی سے سکندر کو دیکھا۔ وہ رکنے والا نہیں تھا۔
"پتا نہیں!" الماس نے مختصر سا جواب دیا۔
"یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اچھا کہاں سے آئی ہیں آپ؟ پہلے کبھی بھابھی نے آپ کا ذکر نہیں کیا۔" الماس نے ملتجی نگاہوں سے سارا کو دیکھا۔
"تم ناشتہ کرو۔ بعد میں انٹرویو لے لینا اس کا۔" سارا کی بات تھی یا گھوری، وہ واقعی خاموش ہو گیا تھا۔ الماس نے پراٹھے کی پلیٹ اس کے آگے رکھی تو اب بھی اس کی نظریں الماس پر جمی تھیں۔ پتا نہیں وہ اسے کیوں گھور رہا تھا۔ جب تک الماس اس کے سامنے رہی وہ اسکی نظریں خود پر محسوس کرتی رہی تھی۔
۔۔۔

(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔)

❤ براۓ مہربانی اگر آپ کو کہانی اچھی لگی ہو تو کمنٹ کر کے ضرور بتاٸیں اور ہر قسط کو ووٹ بھی کر دیں۔ نیچے دیے گۓ سٹار کو کلک کر کے۔
شکریہ ❤

Mohabbat Kuch Yoo'n Hai Tum Se (Complete)Where stories live. Discover now