قسط ۲۱

404 35 30
                                    


امسال اور ابتہاج گھر پہنچ گئے تھے۔ ابتہاج نے گھر میں موجود بڑے سے پورچ میں گاڑی پارک کی تھی اور ساتھ ہی دونوں گاڑی سے باہر نکلے تھے۔ جیک جو کہ کافی عرصے سے فارم ہاؤس پہ تھا اب واپس آ چکا تھا۔ شادی کے اس عرصے میں امسال اور جیک کا سامنہ اب تک نہ ہوا تھا۔ دوپہر کا وقت جیک کی چہل قدمی کا تھا اس لیے فی الحال وہ آزاد گھوم رہا تھا۔ ابتہاج پہ نظر پڑتے ہی جیک نے بھونکتے ہوئے ابتہاج کی جانب دوڑ لگائی تھی۔

جیک کی آواز سن کر ابتہاج کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ پھیلی تھی کیونکہ جیک ابتہاج کا سب سے چہیتا تھا جسے وہ بہت ضد کر کے اس گھر میں لایا تھا ورنہ جنت بیگم اس کے سخت خلاف تھیں اور اسی وجہ سے جیک کو جہانگیر مینشن کے اندر داخل ہونے کی اجازت نہ تھی۔

جیک ابتہاج تک پہنچ چکا تھا اور اُس کے پیروں کے گرد گھوم رہا تھا پھر اپنے دو پیروں پہ کھڑے ہو کر ابتہاج کو ہائے فائیو کیا تھا۔ ابتہاج گٹھنے کے بل بیٹھ کر جیک کو پیار کر رہا تھا۔

"آآآآآ !! کتّا !! اتنا بڑا کتّا !!" ابتہاج جیک کو پیار کر رہا تھا اور جیک بھی پیار وصول کرنے میں مصروف تھا جب امسال کی زوردار چیخ سنائی دی تھی۔

اتنا بڑا اور تندرست کتّا دیکھ امسال کا ہارٹ فیل ہونے والا تھا۔ جیک ایک سائیبیرین ہسکی تھا۔ امسال چلاتی ہوئی دوبارہ گاڑی کی جانب بھاگی تھی اور گاڑی کا دروازہ کھولنے کی کوشش کر رہی تھی جو کہ کبھی نہ کھلنا تھا کیونکہ گاڑی لاک تھی۔

امسال کی چیخ و پکار سے جیک اُسکی جانب متوجہ ہو گیا تھا اور جیسے ہی اُس نے امسال کو دیکھا تو بھونکنا شروع ہو گیا۔ امسال جیک کے لیے بلکل غیر شناسا تھی اور ایسے پالتو کتّے اجنبی لوگوں کو دیکھ بھونکنے لگتے ہیں۔ جیک کے بھونکنے کی آواز اتنی تیز تھی کہ امسال کو اپنا دل بند ہوتا محسوس ہو رہا تھا۔ ابتہاج تمام صورتحال سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ جیک بھونکتے ہوئے امسال کی جانب دوڑا۔

جیک کو اپنی جانب بڑھتے دیکھ امسال بیچاری تو مرنے ہی لگی تھی لیکن پھر اُسکی نظر پورچ میں کھڑی ویگو پہ پڑی اور وہ پھرتی سے پیچھے موجود خالی جگہ پہ چڑھ گئی۔ جیک مسلسل بھونکتے ہوئے گاڑی کے آس پاس کود رہا تھا، وہ گاڑی پہ چڑھ سکتا تھا لیکن چڑھ نہیں رہا تھا کیونکہ اُس کو اس چیز کی اجازت نہ تھی۔ ابتہاج نے جیک کو خاص طور پہ ملٹری ٹریننگ دلوائی تھی وہ اشاروں کو بہت اچھے سے سمجھتا تھا۔

ابتہاج بھی اُس جگہ پہنچا تھا جہاں امسال اور جیک موجود تھے۔ اُسکی آنکھوں کے سامنے جو منظر تھا وہ دیکھ کر ابتہاج کو اپنی ہنسی روکنا بہت مشکل کام لگ رہا تھا۔ امسال گاڑی پہ چڑھی چلا رہی تھی، خوف سے چہرے پہ بارہ نہیں بلکہ پوری گھڑی بنی ہوئی تھی۔ جیک کے بھونکنے سے امسال مزید خائف ہو رہی تھی۔ دوسری جانب کھڑے ابتہاج کی ہنسی بند ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی، اُس کا دودھ سا سفید چہرہ ہنس ہنس کر لال ہو رہا تھا۔
------------------------------------------------------------------
جو کچھ بھی وہ دیکھ رہی تھی اُسے کسی چیز پر یقین نہ آ رہا تھا۔ المیر کے لیے آج کا دن اُسکی زندگی کا بہترین دن تھا، آج اُسے اپنے صبر کا پھل مل گیا تھا۔ جس شخص سے محبت کے اظہار کی خواہش وہ ناجانے کب سے دل میں لیے بیٹھی تھی آج اُس نے اظہار کر ہی دیا تھا۔ المیر کو ارحان کا یوں اچانک اظہار سمجھ نہ آیا تھا، انہیں سوچوں میں غرق وہ کھوئے ہوئے انداز میں اپنے سامنے موجود پلیٹ میں چمچ گھما رہی تھی۔ ارحان کافی دیر سے المیر کو یہی کرتے دیکھ رہا تھا اس لیے ہنکارا بھر کر بولنا شروع کیا تھا۔

داستانِ قلب (مکمل)Where stories live. Discover now