قسط ۱۵

489 34 51
                                    


نکاح ہوئے چند دن گزر گئے تھے۔ امسال اور ابتہاج کی شادی کے فنکشنز شروع ہوگئے تھے اور آج مہندی کی تقریب تھی۔ شہر کے نامور فائیوسٹار ہوٹل میں یہ تقریب رکھی گئی تھی۔ مہمان آنا شروع ہوگئے تھے اور دونوں طرف سے میزبان بھی استقبالیہ پہ موجود تھے چونکہ یہ تقریب مشترکہ رکھی گئی تھی۔ برائیڈل روم میں امسال تیار بیٹھی تھی، تھوڑی ہی دیر میں اُسے باہر کسی مجسمے کی طرح بیٹھنا تھا۔ ابتہاج بھی پہنچ چکا تھا۔

تمام مہمانوں کے آنے کے بعد خوب دھوم دھام، ڈھول دھماکے اور شور و غل کے ساتھ ابتہاج کو سٹیج پہ لایا گیا تھا۔ ابتہاج کے فوراً بعد ہی امسال کو لایا گیا تھا، اُس کا استقبال بھی ابتہاج سے کم نہ تھا۔ مختلف رنگ کے پھولوں سے سجی گاڑی میں امسال بیٹھی ہوئی تھی جسے اُس کا بھائی اور دوست دھکا لگا رہے تھے۔ امسال کے چہرے پہ سب کی خوشی دیکھ ہلکی مسکراہٹ تھی۔

امسال نے پیلے اور ہرے رنگ کا ڈھول فراک پہن رکھا تھا جو کہ گٹھنوں سے تھوڑا اوپر تھا ساتھ ہی ہم رنگ غرارا تھا، دونوں پہ بہت خوبصورت کام کیا گیا تھا۔ لمبے بالوں کو کھجوری چوٹی میں قید کیا گیا تھا اور ساتھ ہی بہت خوبصورت انداز میں موتیے کے پھولوں سے بنی لڑیاں بالوں اور دوپٹے کہ ساتھ سیٹ کی گئی تھیں۔ پھولوں سے بنا زیور پہنے خوشبوؤں میں نہائی امسال ابتہاج کا دل دھڑکا رہی تھی۔

ابتہاج خود اپنی تمام تر وجاہت کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اور نجانے وہاں موجود کتنی لڑکیوں کے دل دھڑکا رہا تھا۔ ابتہاج امسال کو دیکھتے ہی اُس میں کھو سا گیا تھا اور وارفتگی سے اُسے تک رہا تھا۔ معراج نے اُسے کوہنی مار کر ہوش دلایا تھا۔

تقریب کا آغاز ہو چکا تھا اور سب ایک ایک کر کے مہندی کی رسم ادا کرنے آ رہے تھے۔ رسم ختم ہوتے ہی ڈانس کا دور چلا تھا، ابتہاج کے تمام دوست اور کزن اپنے یار کی شادی میں خوب ناچ رہے تھے آخر کو سب نے اتنے دن پہلے سے تیاری جو شروع کردی تھی۔ امسال بھی فل وقت سب کی مستیاں دیکھ کر لطف اندوز ہو رہی تھی۔ آخر میں ابتہاج اور امسال کو بھی ڈانس فلور پہ لایا گیا تھا اور اُن سے بھی ڈانس کی فرمائش کی جا رہی تھی۔ یہ سن کر امسال نے منت بھری نظروں سے ابتہاج کو دیکھا تھا جس کا مطلب تھا کہ وہ ڈانس نہیں کر سکتی۔ ابتہاج نے امسال کی نظروں کا مفہوم سمجھ کر سب کو بہت مہارت سے ٹال دیا تھا۔ سب دونوں کو بیچ میں کھڑا کر کہ ایک بڑا سا گول دائرہ بنا کر گھوم رہے تھے ساتھ میں دونوں کو خوب تنگ کر رہے تھے۔ امسال مسکرا کر سب کے ساتھ تالی بجا رہی تھی اور ابتہاج، اُسکی نظروں کا مرکز وہ مسکراتی ہوئی رگِ جاں تھی۔

کافی ہلے گلے کے بعد ایک کامیاب تقریب اپنے اختتام کو پہنچی تھی۔ امسال بھی اس تقریب سے خوب لطف اندوز ہوئی تھی، اُس نے سوچ لیا تھا کہ اب وہ روئے گی نہیں بلکہ رلائے گی، کیونکہ رونے دھونے کا کوئی فائدہ نہ تھا۔ امسال کا ماننا تھا کہ شادی ایک ہی بار ہوتی ہے اس لیے اُس کا خوب مزا لینا چاہیئے۔ امسال اپنے نکاح والے دن تمام آنسوں بہا چکی تھی اور اُسی رات اُس نے خود سے ایک عہد کیا تھا کہ اب وہ مزید دکھی آتما نہیں بنے گی کیونکہ وہ کوئی دبو سی لڑکی نہیں ہے۔ امسال اپنے رب کی رضا میں راضی تھی اور جو اُس پاک ذات کی رضا میں راضی رہتا ہے وہ بے شک کامیاب اور پُر سکون زندگی گزارتا ہے۔
------------------------------------------------------------------
مہندی کی تقریب کے ٹھیک دو دن بعد آج جمعے کے ہی دن امسال کی رخصتی کی تقریب رکھی گئی تھی۔ آج اُسے رخصت ہو کر اپنے نئے گھر جانا تھا۔ امسال تیار ہونے کے لیے پارلر چلی گئی تھی اور دل میں یہی ارادہ کیا تھا کہ ابتہاج کو ناک و چنے چبوا دے گی۔

داستانِ قلب (مکمل)Där berättelser lever. Upptäck nu