قسط ۲۰

423 37 32
                                    


امتحانات شروع ہوگئے تھے اور امسال کو ہمیشہ کی طرح امتحانات کے دوران کھانے پینے کا کوئی ہوش نہ تھا۔ وہ فجر کی نماز کے بعد پڑھنے بیٹھ جاتی تھی اور رات گئے تک پڑھتی رہتی تھی۔ ابتہاج نے گھر کی تمام ملازماؤں کو سختی سے تاکید کی ہوئی تھی کہ وہ امسال کو وقتاً فوقتاً کھانے پینے کی چیزیں دیتی رہیں۔ امسال کو اپنے تمام سسرال والوں کا تعاون حاصل تھا اس لیے وہ بہت سکون سے اپنے امتحانات کی تیاری کر رہی تھی۔

امسال کو خوشی تھی کہ یہ امتحانات اُس کی زندگی کے آخری امتحان تھے۔ لیکن کون جانے ابھی اُسے مزید کن امتحانات سے گزرنا تھا ! اس کا علم تو صرف اُس پاک ذات کو ہی تھا۔

امسال اس وقت کچن میں موجود تھی اور کھانا بنا رہی تھی۔ امتحان ہو رہے تھے لیکن اُس کو اپنے بہو ہونے کی زمیداری بھی نبھانی تھی۔ امسال پہ اس قسم کا کوئی بھی دباؤ نہ تھا لیکن اُسے خود خیال تھا اپنی زمیداریوں کا۔ ابتہاج تو اُسے منع کر کر کے تھک گیا تھا لیکن امسال سنتی کہاں تھی اُس بچارے کی۔

"بیٹا تم یہاں کچن میں کیا کر رہی ہو ؟" امسال سبزی کاٹ رہی تھی جب جنت بیگم کچن میں آئی تھیں۔

"آنٹی آج میری باری ہے کھانا بنانے کی کل ماہروش بھابھی نے بنایا تھا۔" امسال نے جواب دیا تھا وہ محسوس کر رہی تھی جنت بیگم کا رویہ شروع کے مقابلے میں اُس سے دن بہ دن اچھا ہو رہا تھا۔

جہانگیر مینشن میں ملازموں کی ایک فوج تھی لیکن پھر بھی یہاں کی روایت تھی کہ کھانا گھر کی عورتیں ہی بناتی تھیں۔ پہلے یہ کام جنت بیگم کا تھا لیکن اب اس کی زمیداری ماہروش اور امسال نے خوشی خوشی سنبھال لی تھی۔

"جہانگیر کو تم بابا کہہ کر مخاطب کرتی ہو اور مجھے آنٹی۔۔۔۔۔کیا یہ کھلا تضاد نہیں ؟ مجھے بھی ماما کہہ کر بلایا کرو جیسے سب کہتے ہیں، مجھے بہت خوشی ہوگی بیٹا۔ تم اور ماہروش میرے لیے میری بہوئیں نہیں بلکہ بیٹیاں ہو اور مجھے معاف کردو بیٹا میں شرمندہ ہوں اپنے سابقہ رویے پہ۔" جنت بیگم نے پہلے مستی بھرا شکواہ کیا تھا اور پھر آگے کی بات انتہائی محبت و اپنائیت سے کہی تھی۔

جنت بیگم کافی دنوں سے امسال کے ساتھ اپنے سابقہ رویے کی معافی مانگنا چاہ رہی تھیں۔ آج اُنہوں نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ اپنے اور امسال کے درمیان اس اجنبیت کی دیوار کو گرا دیں گی۔

"سوری آنٹی، اوہ نہیں ماما ! اب سے میں ماما کہہ کر ہی مخاطب کروں گی آپ کو اور پلیز آپ مجھ سے معافی مانگ کر مجھے شرمندہ نہ کریں ماما، آپ میری بڑی ہیں اور بڑے چھوٹوں سے معافی نہیں مانگا کرتے۔" جنت بیگم کے محبت بھرے بولوں سے امسال کی آنکھیں نم ہوگئی تھیں۔ اُسے اپنی ماما کی یاد آنے لگی تھی۔

"ارے میرا بچہ ! رو کیوں رہی ہو چندا ؟" جنت بیگم مسکرائی تھیں امسال کے پھر سے آنٹی بولنے پہ اور پھر اُسے گلے لگا کر چپ کروایا تھا۔ امسال کی خوشی ناقابلِ بیان تھی۔

داستانِ قلب (مکمل)Where stories live. Discover now