قسط ۱۷

533 36 58
                                    


امسال ماہروش کی کسی بات پر مسکراتے ہوئے اپنے اور ابتہاج کے مشترکہ کمرے کی طرف جا رہی تھی۔ کمرے کا دروازہ پہلے سے ہی تھوڑا کھلا ہوا تھا، دروازہ پورا کھولنے سے پہلے اندر سے آتی آوازیں سن کر امسال وہیں رک گئی تھی۔ اُس کے مسکراتے چہرے سے اب مسکراہٹ غائب تھی۔ ابتہاج کے لہجے سے امسال کو اُس کے غصے کا اندازہ ہو چکا تھا کیونکہ وہ ابتہاج کے تھوڑے بہت غصے کی جھلک دیکھ چکی تھی۔ امسال پلر کے ساتھ چپک کر کھڑی تھی، پہلے ابتہاج اور پھر پریشے کو اُس نے کمرے سے باہر نکلتے دیکھا تھا۔

"پتا نہیں کیسے پیتے ہیں یہ کالی کافی۔" دونوں کے کمرے سے نکلنے کے بعد امسال اندر آئی تھی۔ ابتہاج کا فون اور لیپ ٹاپ بیڈ پر ہی رکھا ہوا تھا اور سائڈ ٹیبل پہ موجود کپ میں ابتہاج کی کالی کافی جسے دیکھ کر امسال نے عجیب سی شکل بنائی تھی۔

امسال اپنا فون لیے کمرے سے باہر نکل گئی تھی کیونکہ اُسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ جو بھی ابتہاج سے اظہارِ محبت کرے اُسے کیا ؟ مگر آگے اُس کی یہ سوچ شاید بدلنے والی تھی ؟ لیکن ہر شاید یا کاش سچ بھی تو نہیں ہوتا !
------------------------------------------------------------------
ابتہاج کو غصے سے باہر آتے معراج اور حیدر دونوں نے دیکھا تھا کیونکہ وہ دونوں لان میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ابتہاج کا غصہ اُس کے چہرے پر بہت واضع ہوتا تھا۔ غصے میں اُس کے تاثرات سخت ترین ہو جاتے تھے اور دودھ جیسی شفاف رنگت پہ لالی نمایاں ہوتی تھی۔۔۔۔۔معراج اور حیدر کے اسرار پہ ابتہاج نے اُنہیں سب کچھ بتا دیا تھا اور دونوں ہی کوشش کر رہے تھے کہ ابتہاج کوئی سخت ردِعمل ظاہر نہ کرے۔ گھر مہمانوں سے بھرا تھا، ابتہاج بھی موقعے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے بات ختم کر چکا تھا۔
------------------------------------------------------------------
آج امسال اور ابتہاج کا ولیمہ تھا۔ امسال صنوبر اور ماہروش کے ہمراہ پارلر گئی ہوئی تھی جب کہ باقی افراد گھر میں ہی تیاریاں کر رہے تھے۔ ولیمہ کراچی کے مشہور و معروف فائو سٹار ہوٹل میں منعقد کیا گیا تھا۔

ابتہاج اپنے کمرے میں موجود تھا اور شیشے کے سامنے کھڑا کف لنگ لگا رہا تھا۔ کالے رنگ کی شرٹ پہ گرے چیک والی ویسٹ کوٹ اور ہم رنگ پینٹ زیب تن کر رکھی تھی۔ خود کو ایک نظر دیکھنے کے بعد ابتہاج اب اپنا ٹکسیڈو پہن رہا تھا۔ رومانوی شہزادوں سا حسن رکھنے والا یہ مرد اس وقت اور بھی زیادہ وجیح لگ رہا تھا۔ آخر میں ابتہاج نے اپنی گھڑی بائیں ہاتھ کی کلائی میں پہنی تھی اور خود پر پرفیوم کا چھڑکاؤ کیا تھا جس کے بعد پورا کمرہ ابتہاج کے پرفیوم کی خوشبو سے مہک رہا تھا۔ آخری بار خود کو شیشے میں دیکھ کر اب اپنا موبائل اُٹھائے کمرے سے باہر نکل گیا تھا۔
------------------------------------------------------------------
"ماشاءاللّٰہ !! اللّٰہ خیر کرے آج میرے دیور کی، بہت حسین لگ رہی ہو۔" ماہروش جو کہ صنوبر کے ساتھ تیار بیٹھی تھی، امسال پہ نظر پڑتے ہی تعریف کی تھی۔

"اللّٰہ بری نظر سے بچائے میرے بیٹے کی پری اور میرے بھائی کی آکسیجن کو۔" صنوبر نے اپنے انداز میں امسال کی تعریف کی تھی۔ افراہیم کے ذکر پہ امسال مسکرائی تھی۔ ابتہاج اپنی دیوانہ وار محبت کے قصے صنوبر کو کال پہ سناتا رہتا تھا۔

داستانِ قلب (مکمل)Where stories live. Discover now