قسط ۱۲

469 29 69
                                    


صبح سویرے کا وقت تھا فجر کی آذان ہوئے کچھ وقت گزر چکا تھا اور اب ہلکی روشنی آسمان پہ پھوٹنا شروع ہوئی تھی۔ ہر سو تازگی بھری ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ ایسے میں وہ بلیک بنیان پہ بلیک ہی جیکٹ اور ٹراؤزر میں ملبوس تھا۔ پیروں میں بلیک جوگرز پہن رکھے تھے۔ جیکٹ کی آستینیں کوہنیوں تک مُڑی ہوئی تھیں اور اُس میں سے نظر آتے سرخ و سفید مضبوط ہاتھوں میں کالا بینڈ پہن رکھا تھا۔ کانوں میں ائر پوڈز لگائے آس پاس سے بے نیاز وہ تیزی سے دوڑ رہا تھا۔ دوڑنے کے باعث اُس کے گھنے گولڈن براؤن بال ماتھے پہ گر رہے تھے جنہیں وہ ایک ہاتھ سے بار بار اوپر کر رہا تھا۔ خوبصورتی سے تراشے ہوئے مغرور نقوش والا یہ شہزادہ کسی بھی لڑکی کا آئیڈیل ہو سکتا تھا۔

کچھ وقت گزرنے کے بعد ابتہاج جوگنگ سے فارغ ہوا تھا اور اب اُس کا رخ گھر کی جانب تھا۔ بائیں ہاتھ سے اپنے بالوں کو ٹاول سے صاف کرتے ہوئے اور دائیں ہاتھ سے پانی کی بوتل منہ سے لگائے وہ اپنے رستے پہ چل رہا تھا۔ بلیک ٹریک سوٹ ابتہاج پہ خوب جچتا تھا۔

ابتہاج کی چھٹی حس بہت تیز تھی اور وہ کافی دیر سے محسوس کر رہا تھا جیسے کوئی اُس کا پیچھا کر رہا ہے۔ چلتے چلتے ابتہاج اچانک سے پلٹا تھا جب اُس کی نظر اپنے سے کچھ فاصلے پہ محتاط ہو کر چلتی ہوئی دو لڑکیوں پہ پڑی تھی جو ابتہاج کے پلٹنے پہ گھبرا کر اپنی جگہ رک گئی تھیں۔ ابتہاج کو دونوں ہی مشکوک لگی تھیں اور وہ اُنہیں جانچتی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔

"ہائے ! کین آئے گیٹ یور نمبر ؟" دونوں میں سے ایک لڑکی نے ہمت کر کے پوچھا تھا۔

ابتہاج دونوں کو ناگواری سے دیکھتا ہوا پلٹ گیا تھا اور واپس اپنے راستے پہ چل پڑا تھا کیونکہ یہ سب اکثر اوقات ہوتا رہتا تھا اور وہ اب اس سب کا عادی ہو چکا تھا۔

ابتہاج نے گھر میں داخل ہوتے ہی اپنی جیکٹ اُتار دی تھی۔ اُس کے ذہن سے اس وقت یہ بات بلکل نکل چکی تھی کہ اُس کے کندھے پہ پٹی کی ہوئی ہے۔ جیسے ہی ابتہاج راہداری سے چلتے ہوئے لاؤنج میں آیا تو وہاں صوفے پہ جہانگیر صاحب، جنت بیگم اور معراج بیٹھے ہوئے تھے۔

"یا اللّٰہ خیر ! یہ کیا ہو گیا میرے بچے کو۔" جنت بیگم کی نظر جیسے ہی ابتہاج کے کندھے پہ بندھی پٹی پہ گئی تو وہ فکر مندی سے کہتے ہوئے ابتہاج کی جانب آئیں۔

"کیا ہوگیا ماما ؟!" ابتہاج کو کچھ سمجھ نہ آیا تھا جب کہ میر جہانگیر اور معراج بھی اُسکی طرف آ گئے تھے۔

"یہ تمہارے کندھے پہ کیا ہوا ہے چھوٹے میر ؟ کس نے نقصان پہنچایا ہے تمہیں ؟" میر جہانگیر کے پوچھنے پہ ابتہاج نے اپنی غلطی پہ خود کو کوسا تھا کہ کیوں اُس نے جیکٹ اُتاری ؟ ابتہاج اپنے گھر والوں کو پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا۔

"آپ کی بہو نے۔" بے اختیار ہی ابتہاج کے منہ سے نکلا تھا لیکن انداز دھیما تھا جس کی وجہ سے کسی کو سمجھ نہ آیا۔

داستانِ قلب (مکمل)Where stories live. Discover now