٢ : ٹریفک اور میں.

20 2 3
                                    

دسمبر ٣١،

جبل علی , شام کے ٨:٣٠،

"اہ... اس سارہ کی بچی کو بھی آج کے دن ہی شادی کرنی تھی اور اوپر سے یہاں کے لوگ ...انکو تو بہانہ چاہئیے باہر نکلنے کے لئے"

امبر رش کو بڑھتے ہوئے دیکھ کر کہنے لگی؛

"میرا تو دم گھٹ رہا ہے... اس رش کو دیکھ کر "

امبر نے اپنے غصے کو ضبط کیا اور radio کو on کیا جس پر RJ کہ رہا تھا؛

"اگر اپکا ارادہ جبل علی روڈ سے آنے کا ہے تو جلدی سے اسے بدل دے... کیوں کی وہاں اچھی خاصی traffic جام ہیں... تو دوستوں ڈرائیو safely اور advance میں نیا سال بہت بہت مبارک آپ سب کو اور ان ذبردست گانوں کو enjoy کرے..."

radio
پر گانے شروع ہوگئے کے تب ہی امبر کو ایک ترکیب سوجھی ، اسکی گاڑی رش کے بیچوں بیچ تھی اور اس نے side والی track کو لینے کا سوچا. وہ گاڑی کو last track میں لےجانے میں کامیاب ہو گئی کے دیکھا ٹریفک ختم ہو رہی ہے اور ٹریفک پولیس نے اکر accident والی گاڑی کو راستے سے ہٹا دیا ا اور road کو فارغ کردیا، ایسے میں گاڑیوں کی رفتار بڑھ گئی اور ٹریفک police بھی وہاں سے جا چکی تھی. امبر گنگنا کر driving کر رہی تھی کے اچانک سے اسکی گاڑی جھٹکے کھا کر رک گئی. امبر نے گاڑی کو پھر سے start کرنے کی بہت کوشش کی پر ناکام ہوئی. وہ پریشان ہو کر گاڑی سے اتر گئی، نہ جانتے ہوئے بھی اس نے گاڑی کے bonnet کو کھولا؛

"اب میں کیا جانوں battery کیا اور engine کیا؟ کس میں خرابی ہوگی؟"

امبر دل برداشتہ ہو کے چیخی تب ہی اچانک سے تیز بارش شروع ہوئی ، وہ جلدی سے گاڑی میں جا کر بیٹھ گئی. اس نے پریشان ہو کے اپنا سر گاڑی کے staring wheel پر رکا،

جب سے میں نے دیکھا تجھے، پھر چین آیا نہیں...،
ذندگی ہے، تیرے بغیر ... جس طرح ... اجنبی ...

امبر کے فون کا ringtone نازیہ حسن کا گایا ہوا گیت تھا، اس نے call کو receive کیا؛

"hello..."

"امبر... کہاں ہو تم اور خیر سے پہنچ گئی ؟"

مہرین نے بہت پیار سے پوچھا؛

"آپی... میں اپ کو کیا بتاؤں..."

امبر اپنا سر پکڑ کر بولی، اس نے مہرین کو سارا ماجرا سنایا. مہرین اسے دلاسا دیتے ہوئے بولی؛

"تم پریشان مت ہو... بس تم یہ بتاؤ کے تم اس وقت کہاں ہو؟"

"آپی میں جبل علی میں ہوں!"

دوسری طرف خاموشی تھی، امبر حیران ہو گئی کے اب کیا ہوا. جب اس نے موبائل کو دیکھا تو فون dead تھا؛

"لگتا ہے فون کی battery dead ہو گئی ہے!"

امبر نے گہری سانس لی اور کھڑکی سے باہر دیکھا تو بارش بھی رک چکی تھی، وہ گاڑی سے نکلی اپنا golden clutch ہاتھ میں لئے . امبر نے آس پاس دیکھا کے شاید کوئی ٹیکسی مل جائے ، لیکن اسکے سامنے ایک کالی شیشوں والی گاڑی آکے رک گئی اور اس میں سے کسی نے شیشے کو نیچے کر کے پوچھا؛

"Do you want a lift?"

امبر چودھری، ابو ظبی میں پلی بڑھی تھی، بہن بھائیوں میں وہ دوسرے number پر تھی. اس سے بڑی بہن مہرین تھی اور چھوٹا بھائی تھا یاسر. امبر کے والد صاحب carpets کا کاروبار کرتے تھے اور انکی والدہ صاحبہ پاکستانی community club کی خاص ممبر تھی. امبر کی بڑی بہن مہرین شادی شدہ تھی اور ایک کامیاب ازدواجی زندگی بسر کر رہی تھی، یاسر اپنی تعلیم مکمل کر رہا تھا اور والد کے کاروبار میں انکا ہاتھ بھی بٹا رہا تھا. امبر کی خودکی ایک flower اینڈ giftshop تھی ، وہ اپنا سارا وقت اسی میں بتاتی تھی. امبر کبھی پاکستان نہیں گئی لیکن اسے اپنے ملک سے بےحد پیار تھا اور اس سے جڑے ہر چیز سے ، جیسے کی پاکستان کے کرکٹ ٹیم، جسے وہ بےحد support کرتی تھی. مغربی ماحول کے دوستوں کے ساتھ تعلق ہونے کے باوجود وہ ایک مشرقی لڑکی تھی. وہ اپنے ثقافت اور تہذیبوں کو دل کی گہرایئوں سے مانتی تھی.

اسکی گوری رنگت اور خوبصورت کالی آنکھیں اور اس پر اس کے ریشم سی کالے لمبے بال، اسے کافی حد تک دوسروں سے مختلف کر دیتی تھی. وہ بہت سلجھی ہوئی لڑکی تھی، اس نے زندگی میں ہر کام بہت سوچ سمجھ کر کیا، وہ اپنی بہن بھائیوں میں سب سے سمجھدار تھی اور اپنی زندگی کا ہر فیصلہ اپنی والدین کے مشورے کے بغیر نہیں لیتی تھی اور امبر کا یہ ماننا تھا کے انسان ہر مشکل کا بہت آسانی سے سامنا کر سکتا ہے اگر وہ انسان اپنے اصولوں پر رہے پر آج وہ اس بات سے انجان تھی کے اس کے خودکے اصول ڈگمگا جائینگے.

اجنبیWhere stories live. Discover now