داستانِ قلب (مکمل)

By Ilsa_writes

14K 809 1.1K

• ابتہاج کے عشق و جنون کی داستان • امسال کی نفرت کی داستان • ابتہاج کے محبت میں صبر و امتحان کی داستان • یک ط... More

سنیک پیک
قسط ۱
قسط ۲
قسط ۳
قسط ۴
قسط ۵
قسط ۶
قسط ۷
قسط ۸
قسط ۹
قسط ۱۰
قسط ۱۱
قسط ۱۲
قسط ۱۳
قسط ۱۴
قسط ۱۵
قسط ۱۶
قسط ۱۷
قسط ۱۸
قسط ۱۹
قسط ۲۰
قسط ۲۱
قسط ۲۲
قسط ۲۳
قسط ۲۵
آخری قسط

قسط ۲۴

108 8 5
By Ilsa_writes

اگلے دن صبح کی فلائٹ سے ابتہاج پاکستان واپس آگیا تھا اور اْسی رات امسال کو واپس لینے کے لیے پہنچ گیا تھا۔ پورے چار دن اپنی جانِ بہاراں سے دور جو رہا تھا۔ اْس کی جان اْسے اپنے قریب بھی نہ بھٹکنے دیتی تھی لیکن وہ آنکھوں کے سامنے ہوتی تھی، ابتہاج کے لیے یہی بہت تھا۔

"اتنی چپ چپ کیوں ہو ؟" ابتہاج نے بات کا آغاز کیا تھا۔
امسال جب سے واپس آئی تھی چپ ہی تھی ورنہ اْسے کچھ نہ کچھ بولتے رہنے کی عادت تھی۔ ابتہاج سے اْس کی اتنی خاموشی برداشت نہ ہو رہی تھی۔

"نہیں، میں تو چپ نہیں ہوں۔" امسال نے مصروف سے انداز میں جواب دیا تھا۔

وہ ابتہاج کے کپڑے الماری میں سیٹ کر رہی تھی۔ دونوں کے درمیان جو بھی اختلافات تھے لیکن وہ ابتہاج کے سارے کام خود ہی کرتی تھی۔

"مجھے تو چپ لگ رہی ہو، ورنہ بول بول کر میرا سر کھاتی ہو۔" ابتہاج نے آخری بات ہلکی آواز میں بولی تھی لیکن امسال سن چکی تھی۔

"کیا ؟ میں سر کھاتی ہوں ؟ ٹھیک ہے، اب کچھ نہیں بولوں گی۔۔۔میری باتیں تو اب سر کھانا ہی لگیں گی اْس فرنگی کے ساتھ جو رہ کر آئے ہیں۔"ابتہاج کہی بات تو امسال کے سر پہ لگی اور تلوے پر بجھی تھی۔

"اوہ ! اب میں سمجھا۔۔۔تم جیلس ہو رہی ہو۔" ابتہاج نے اپنی ہنسی روکنے کی کوشش بلکل بھی نہ کی تھی۔

"جیلس ہوتی ہے میری جوتی، اْس لمبے کھمبے سے میں کیوں جیلس ہوں گی ؟ میری بلا سے جس سے آپ کا دل کرے اْس سے چپکیں۔" امسال نے آنکھیں چڑھاتے ہوئے کہا تھا جبکہ ابتہاج ہنستے ہوئے بیڈ پہ یہاں وہاں گِر رہا تھا۔

"ہاں بلکل، میری مرضی جس سے چاہے چپکوں اور وہ کوئی غیر تھوڑی تھی۔۔۔ایکس گرل فرینڈ تھی میری، ہم دونوں کلاس میٹ تھے۔" ابتہاج نے جلانے والے انداز میں کہا تھا، اْسے مزہ آ رہا تھا امسال کو مزید جیلس کروانے میں۔

"گرل فرینڈ۔۔۔اسی لیے وہ کیپشن لکھا تھا دل کے ساتھ، بےشرم انسان !" امسال الماری میں منہ دیے خود میں بڑبڑا رہی تھی، لہجے میں اْداسی تھی۔

"وہ غیرمسلم ہے نا اس لیے شادی نہیں کر سکا ورنہ میرا تو شادی کا ہی پلین تھا۔" ابتہاج کی اس بات نے جلتے پہ تیل کا کام کیا تھا۔

"ہاں تو میں کیا کروں ؟ مجھے کیوں بتا رہے ہیں آپ، اب کیا آپ کے لیے اْسے دائرہ اسلام میں داخل کروں ؟" امسال ایک دم بھڑک گئی تھی۔

بیڈ پہ موجود ابتہاج کی شرٹ کو اتنے غصے میں اْْٹھایا تھا جیسے ابتہاج کو بھی ایسے ہی اْٹھا کر پھینکنے کا ارادہ رکھتی ہو۔

"یہ تو اچھی بات ہے نہ، کسی غیرمسلم کو اسلام کی دعوت دینا ہم سب کا فرض ہے۔ کوشش تو کرو کتنا اجر ملے گا تمہیں زرا سوچو امسال۔۔۔پھر میں نکاح کے بارے میں سوچوں گا۔" ابتہاج اب بھی باز نہ آ رہا تھا جبکہ امسال کی اب بس ہو چکی تھی۔

"ارے، کہاں جا رہی ہو ؟" ابتہاج اپنی ہنسی دباتے ہوئے بولا تھا ۔
امسال جواب دیے بغیردھاڑ سے الماری کا دروازہ بند کر کے ٹیرس پہ چلی گئی تھی۔

"ہاہاہا ! میری آتش فشاں۔" ابتہاج ہنستے ہوئے بولا تھا۔
ابتہاج کا یقین مزید بڑھ گیا تھا کہ اْس کی محبت اپنی جڑیں مضبوط کر رہی ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
امسال ٹیرس پہ آ کر کھڑی ہوئی تھی اور ایک گہرا سانس لیا تھا۔ آنکھوں میں آئے آنسو جو وہ کب سے روکے ہوئی تھی اب بہہ نکلے تھے۔ابتہاج کا یوں کسی اور سے نکاح کی خواہش کا اظہار کرنا اْسے تکلیف دے رہا تھا۔ ابتہاج کی کچھ دیر پہلے کی گئی باتیں اب بھی اْس کے کانوں میں گونج رہی تھیں، اْسے رونے کے ساتھ ساتھ شدید غصہ بھی آ رہا تھا۔

امسال سے کچھ فاصلے پہ پھولوں کے گملے موجود تھے، ایک گملے میں بہت سارے گلاب کے پھول کھلے ہوئے تھے۔ امسال نے ایک پھول توڑا تھا اور اْسے دیکھنے لگی تھی، اْسکی نظر ٹہنی پہ موجود نوک دار کانٹوں کی جانب تھی۔ ابتہاج کی باتیں ایک بار پھر یاد آئی تھیں اور اس بار غصہ بھی اتنا شدید تھا کہ بغیر سوچے سمجھے وہ اپنی مٹھی بھینچ چکی تھی ۔ نوکیلے کانٹے اْس کے ہاتھ میں پیوست ہوئے تھے اور اْس کا ہاتھ بْری طرح زخمی کر گئے تھے۔
امسال کو تکلیف محسوس نہ ہو رہی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے خون کے ننہے قطرےفرش پہ ٹپکے تھے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کافی دیر گزر جانے کے بعد بھی جب وہ واپس نہ آئی توابتہاج اْٹھ کر ٹیرس پہ گیا تھا۔ امسال سامنے ہی کھڑی تھی، آدھے کھلے لمبے بال ہوا سے اْڑ رہے تھے اور وہ خود سامنے کسی غیر مرعی نکتے کو دیکھ رہی تھی۔

"یہاں کیوں آگئی تم ؟" ابتہاج امسال کے بلکل پیچھے کھڑا ہو کر بولا تھا لیکن امسال کی جانب سے کوئی جواب نہ آیا تھا۔

"کیا ہوا ؟ رو کیوں رہی ہو ؟" ابتہاج کو اندازہ نہیں تھا کہ اْس کے مزاق کے نتیجے میں امسال ایسے رونے  لگے گی۔
امسال نے ابتہاج کا ہاتھ جھٹکا تھا جس سے ابتہاج کی نظر امسال کے ہاتھ پہ پڑی تھی۔ مٹھی میں لال گلاب تھا خون کے ساتھ۔

"اوہ گاڈ ! پاگل تو نہیں ہو تم ؟ یہ کیا کیا ہے تم نے ہاں ؟!" ابتہاج انتہائی غصے میں گویا ہوا تھا۔

"مٹھی کھولو امسال ! چھوڑو اْسے ورنہ مجھ سے بْرا کوئی نہیں ہوگا۔" امسال مٹھی نہ کھول رہی تھی جس کی وجہ سے ابتہاج کا غصہ مزید بڑھ رہا تھا۔

"چھوڑیں میرا ہاتھ !"  امسال اپنا ہاتھ چھڑوا رہی تھی لیکن ابتہاج کی گرفت مضبوط تھی۔

ابتہاج نے نہ صرف امسال کی مٹھی کھول کر پھول کو پھینکا تھا بلکہ کڑی نظروں سے گھورتے ہوئے اْسے دوبارہ کمرے میں لے آیا تھا۔

"چھوٹی بچی ہو تم جو یہ پاگل پن کیا ہے ؟!" ابتہاج پٹی کرنے کے ساتھ ساتھ امسال کو مسلسل ڈانٹ رہا تھا جبکہ وہ خاموش بیٹھی تھی۔
اْس وقت تو درد نہیں ہوا تھا لیکن اب شدت کے ساتھ محسوس ہورہا تھا۔

"یہ لو، پین کلر کھاو اور اگر آئیندہ ایسی کوئی فالتو حرکت کی تو اتنی آسانی سے نہیں بخشوں گا تمہیں ۔" ابتہاج کا غصہ جوں کا توں ہی تھا۔

"چپ ہو جائیں ! ڈانٹے جا رہے ہیں، ایک تو اتنا درد ہو رہا ہے مجھے اوپر سے ایک ہی بات دہرا رہے ہیں کہ مجھ سے بْرا کوئی نہیں ہوگا۔۔۔آپ سے بْرا ویسے بھی کوئی نہیں ہے اس دنیا میں۔"  امسال روہانسے لہجے میں بولتے ہوئے اس وقت ابتہاج کو کیوٹ لگ رہی تھی۔

"تو میں نے کہا تھا یہ فضول حرکت کرنے کو ؟ مجھ پہ غصہ تھا تو مجھ پہ نکالتی، خود کو ایسے تکلیف کیوں دی ؟" ابتہاج کو امسال سے اس حرکت کی اْمید نہ تھی، اْس کا غصہ ٹھنڈا نہ ہو رہا تھا۔

امسال سر جھکائے بیٹھی تھی جبکہ ابتہاج کمرے سے باہر چلا گیا تھا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ابتہاج کمرے سے نکل کر سیدھا جم میں آیا تھا، اپنے غصے پہ قابو پانے کے لیے وہ اکثر یہی کرتا تھا۔ اس وقت وہ بلیک بنیان پہنے ٹریڈمل پہ دوڑ رہا تھا، رفتار کافی تیز تھی۔ اے سی چلنے کے باوجود بھی وہ پسینے میں بھیگ چکا تھا، بال ماتھے پہ چپکے ہوئے تھے۔

"بس کردے بھائی، کتنا بھاگے گا ؟" حیدر اچانک سے نازل ہوا تھا۔

"تو کب آیا ؟"  ابتہاج رکا نہ تھا۔

"میں تو کب سے یہیں ہوں۔۔۔جب سے بھابھی ملی ہیں، آپ کو ہم نظر ہی کہاں آتے ہیں۔"   حیدر نے ناصرف زنانہ انداز بلکہ زنانہ آواز بنا کر شکواہ کیا تھا۔

"زوئی نے دیکھ لیا نہ اگر تجھے ایسی حرکتیں کرتے ہوئے کسی دن، تو بیٹا وہ دن آخری ہوگا تیرا۔"  ابتہاج اب حیدر کے سامنے کھڑا ہو کر بولا تھا، ایک ہاتھ میں ٹاول اور دوسرے میں پانی کی بوتل تھی۔

"بھابھی تو بڑی اگریسو ہیں۔۔۔سہی لڑکی ملی ہے تجھے، دونوں ایک دوسرے کا سر پھاڑتے رہنا۔" حیدر ہنستے ہوئے بولا تھا اور جواب میں ابتہاج کا پنچ کھایا تھا۔

حیدر کے پوچھنے پہ ابتہاج نے اْسے اپنے اس وقت جم میں ہونے کی وجہ بتائی تھی۔ دونوں ایسے ہی تھے، ایک دوسرے سے کوئی بات نہ چھپاتے تھے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ہفتے کا دن تھا، آج ساری ینگ پارٹی نے لاونج میں رونق لگائی ہوئی تھی۔ جہانگیر صاحب اور جنت بیگم ڈنر کے لیے کسی دوست کے گھر گئے ہوئے تھے۔ کافی دنوں بعد آج ساری ینگ پارٹی ایک ساتھ موجود تھی ورنہ اکثر حیدر ہی غائب ہوتا تھا، اْس کا پیشہ ہی ایسا تھا جسے وہ نظر انداز نہیں کر سکتا تھا، لیکن آج سونے پہ سہاگا، حیدرکی چھٹی تھی۔

امسال، زوئیلا، ماہروش اور معراج سوفے پہ بیٹھے ہوئے تھے۔ مہمل جو کہ اب دو مہینے کی ہو چکی تھی، ماہروش کی گود میں موجود اوپر لگے فانوس کو بہت غور سے دیکھ رہی تھی۔ حیدر پْرانی تصویروں کے ایلبمز لینے گیا ہوا تھا جبکہ ابتہاج کچن میں موجود سب کے لیے پاستہ بنا رہا تھا۔ ابتہاج سے سب نے فرمائش کی تھی جو وہ ٹالنا چاہ رہا تھا لیکن جب امسال کی فرمایش شامل ہوئی تو وہ فوراًمان گیا تھا۔ اس بات پہ باقی لوگوں نے ابتہاج کا ریکارڈ لگانا چاہا تھا لیکن سامنے بھی ابتہاج تھا۔۔۔وہ ابتہاج ہی کیا جسے شرم آجائے !

"چلو بھئی سب لوگ نیچے آ جاو اور دائرے کی شکل میں بیٹھو، ہم 'او-نو'  اور 'لوڈو' کھیلیں گے۔" حیدر نے اعلان کیا تھا، اْس کے ایک ہاتھ میں ایلبمز اور دوسرے ہاتھ میں لوڈو اور کارڈز تھے۔

"یہ کون ہے ؟" امسال  کو اندازہ تھا کہ یہ کون ہو سکتا ہے لیکن پھر بھی پوچھنا ضروری سمجھا تھا۔

امسال نے جو ایلبم کھولا تھا اْس میں پہلی تصویر ہی ایک خوبصورت بچے کی تھی۔ سرخ و سفید رنگت، سنہری آنکھیں اور گولڈن براون بال۔ وہ بچہ بلا شبہ ابتہاج ہی تھا۔

"تم خود پہچانو کون ہے۔" معراج کی جانب سے جواب آیا تھا ، جو ماہروش کے برابر میں بیٹھا ہوا تھا۔

"ام۔۔۔مجھے تو یہ ابتہاج لگ رہے ہیں۔" امسال نے سنہری آنکھوں کو دیکھتے ہوئے بولا تھا۔

"بلکل، یہ ابتہاج ہی ہے۔" امسال کے بلکل پیچھے سے ابتہاج کی آواز آئی تھی ،اور پھر وہ امسال کے برابر میں ہی بیٹھ گیا تھا۔

"ہاہاہا ! یہ کیا حال ہوا ہے آپ تینوں کا ؟" امسال نے ہنستے ہوئے کہا تھا ساتھ ہی سب کو وہ تصویر دکھائی تھی جسے دیکھ کر اْس کی ہنسی نہ رک رہی تھی۔

تصویر میں تقریباً بارہ سالا ابتہاج، معراج اور حیدر تھے۔ تینوں کے بال عجیب طرح سے کٹے ہوئے تھے، کسی کے بال کہیں سے غائب تھے تو کسی کے کہیں اور سے۔

"ہاہاہا ! یہ بہت دلچسپ واقعہ ہے۔" معراج ہنستے ہوئے بولا تھا۔
دوسری جانب یہ واقعہ یاد کر کے ابتہاج کوایک بار پھر حیدر پہ غصہ آیا تھا۔

"واقعے کو چھوڑیں، سب پاستہ کھائیں ٹھنڈا ہو جائے گا تو میری محنت ضائع ہوگی۔" معراج مزید کچھ کہتا اس سے پہلے ابتہاج بول پڑا تھا اور سب کی توجہ گرما گرم پاستہ کی جانب کروائی تھی۔

ابتہاج نہیں چاہتا تھا کہ یہ واقعہ امسال کو پتہ چلے کیونکہ اْس کی نظر میں یہ ایک ایمبیرسنگ مومنٹ تھا۔

"ارے کھالیں گے، کھالیں گے، اتنی بھی کیا جلدی ہے ؟ پہلے بھابھی کو واقعہ تو بتانے دو۔" حیدر اپنی بتیسی کی نمائش کرتے ہوئے بولا تھا۔

"دانت اندر کر لے اپنے اس سے پہلے کہ میں توڑ دوں۔" ابتہاج نے حیدر کو گھورتے ہوئے کہا تھا جبکہ حیدر ڈھیٹ بنا ابتہاج کو ہی دیکھ رہا تھا۔

"ہاں تو ہوا کچھ یوں تھا کہ چھوٹے میرکو اپنے بال نہیں کٹوانے تھے۔ لڑکیوں کی طرح ان صاحب کو بھی اپنے بالوں سے عشق ہے۔۔۔یہ آئیڈیہ حیدر کا تھا جس میں اْس نے مجھ معصوم کو بھی شامل کرلیا تھا اور پھ۔۔۔" معراج ابھی اگے بتا ہی رہا تھا کے حیدر کی آواز آئی تھی۔

"کیا کہا ؟ معصوم ؟ آپ ؟ ہی ہی ہی نائس جوک بھائی لیکن بلکل بھی ہنسی نہیں آئی۔" حیدر کو تو صدمہ ہی لگ گیا تھا۔ معراج ہنسہ تھا۔

"ہاں تو پھر ہوا یہ کہ میں نے اور حیدر نے ابتہاج کے سونے کا فائدہ اْٹھا کر اس کے بالوں پہ قینچی سے جوہر دکھائے۔۔۔اس کے بعد ابتہان نے ہم دونوں کے بالوں پہ ہم سے زیادہ جوہر دکھائے جس کا نتیجہ تمہارے سامنے اس تصویر میں موجود ہے۔" معراج نے مزے لیتے ہوئے پورا واقعہ سنایا تھا۔

"پھر ہم سب کو گنجا ہونا پڑا تھا اور بابا سے الگ ڈانٹ کھائی تھی۔۔۔ویسے تو یہ ہمیشہ سے  اپنے بالوں کے معاملے میں بہت پزیسو تھا  لیکن اس واقعے کے بعد مزید ہوگیا ہے، کسی کو ہاتھ نہیں لگانے دیتا اپنے بالوں کو۔" حیدر پاستہ کھاتے کھاتے بول رہا تھا۔

"ہاہاہا ! اچھا، ایسی بات ہے ؟" امسال کی ابتہاج کی جانب دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
ابتہاج نے اپنے بالوں میں ہاتھ چلا کر ہاں میں گردن ہلائی تھی۔

"یہ کیا کیا تم نے ؟" ابتہاج بگڑے موڈ کے ساتھ بولا تھا۔
امسال ابتہاج کے بالوں میں ہاتھ چلا کر اْنہیں خراب کر چکی تھی۔ امسال سمیت باقی سب بھی ہنستے ہوئے یہاں وہاں گر رہے تھے جبکہ ابتہاج اْن سب کو گھور رہا تھا لیکن پھر بعد میں خود بھی ہنسنے لگا تھا۔ ان سب کی یہ رات پرانے واقعے یاد کرتے، گیمز کھیلتے اور کھاتے پیتے گزر رہی تھی۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
"ماما سچ میں اتنا اچھا کھانا بناتے ہیں وہ کہ میں کیا بتاوں۔۔۔بہت ضائقہ ہے اْْن کے ہاتھ میں، آپ کھائیں گی تو فین ہو جائیں گی میری طرح۔"امسال لان میں بیٹھی زوباریہ بیگم سے فون پہ باتیں کر رہی تھی، بلکہ ابتہاج کی ککنگ سکلز کی تعریف کہا جائے تو زیادہ  بہتر ہوگا۔

"تو پھر سیکھو نہ کچھ اپنے شوہر سے۔"زوباریہ بیگم کا انداز چڑانے والا تھا۔

"کیا مطلب ہے آپ کا، میں اچھا کھانا نہیں بناتی ؟" امسال کا منہ بن گیا تھا۔

"ہاہاہا ! اب میں کیا کہوں، شاباش ہے تمہارے سسرال والوں پہ جو تمہارے ہاتھ کا بنا کھانا کھاتے ہیں۔" زوباریہ بیگم آج تفریح کے معڈ میں تھیں۔

"ماما !!" امسال نے احتجاج کیا تھا، اْسے زوباریہ بیگم سے اس بات کی اْمید نہیں تھی۔

"اچھا اچھا سوری بھئی، بہت اچھا کھانا بناتی ہے میری بیٹی۔" زوباریہ بیگم ہنستے ہوئے امسال کو پچکار رہی تھیں۔

"ہمم ! تو محترمہ شیف ابتہاج کی فین ہو گئی ہیں، آئے سی۔" ابتہاج خود سے بولا تھا۔

ابتہاج پیچھے کھڑا امسال کی بات سْن چکا تھاجبکہ وہ اپنے آپ میں مگن بولے جا رہی تھی۔ ابتہاج مسکراتا ہوا  اندر کی جانب بڑھ گیاتھا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
"جہانگیرتم کب آ رہے ہو حویلی ؟ سرمد کی دھمکیاں اور فتنے بڑھتے جا رہے ہیں، میں اور بھائی نہیں سنبھال پا رہے اب سب کچھ۔"میر منان جو کہ جہانگیر صاحب کے بھائی تھے کچھ پریشان لگ رہے تھے۔

"بھائی آپ پریشان نہ ہوں، میں بس کچھ ہی دنوں میں آنے کی کوشش کرتا ہوں۔۔۔دیکھ لیں گے اْس سرمد کو بھی۔" میر جہانگیر نے اپنے بھائی کو تسلی دی تھی۔

وہ بھی کچھ پریشان ہوگئے تھے لیکن اپنے بھائی پہ ظاہر نہ کیا تھا۔ ادھر اْدھر کی مزید دو چار باتیں کر کے اْْنہوں نے فون بند کردیا تھا۔

"کیا ہوا بابا ؟ سب خیریت تو ہے ؟" معراج بولا تھا۔

"کیا کہہ رہے ہیں تایا ابو ؟" ابتہاج نے بھی سوال کیا تھا۔
معراج اور ابتہاج دونوں ہی جہانگیر صاحب کے آفس میں موجود تھے۔

"ہم بھی ساتھ چلیں گے آپ کے، آپ اکیلے نہیں جائیں گے بابا۔" میر جہانگیر سے پوری بات جاننے کے بعد دونوں بھائی بولے تھے۔

"ہمم ٹھیک ہے، نئے بروجیکٹ کا کام جلد سے جلد ختم کرو پھر ہم سب ہی چلیں گے۔۔۔میں جنت اور بچیوں کو یہاں اکیلا نہیں چھوڑ سکتا اور ویسے بھی جب سے چھوٹے میر کی شادی ہوئی ہے، امسال ایک بار بھی حویلی نہیں گئی۔" جہانگیر صاحب نے فیصلہ سنایا تھا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آج امسال ماہا اور المیر کے ساتھ مال آئی ہوئی تھی، تینوں لڑکیوں نے آج شاپنگ کا پلین بنایا تھا۔ المیر اور ارحان کی شادی جلد ہونے والی تھی۔ تینوں مختلف دکانوں میں جا رہی تھیں اور خالی ہاتھ باہر آرہی تھیں لڑکیوں کا وہی پْرانا مسئلہ، جلدی کچھ بھی پسند نہ آنا۔ یہ وہی مال تھا جہاں ابتہاج نے امسال کو پہلی بار دیکھا تھا۔ اتفاقاً آج بھی ابتہاج مال آیا تھا ، راؤنڈ کے لیے،  ابتہاج بھی یہیں ہے یہ بات امسال کو نہیں پتہ تھی۔ ابتہاج کا یہاں اچانک آنا  ہوا تھا۔

"چلو اس دکان میں چلتے ہیں، مجھے کچھ جیولری لینی ہے۔" ماہا دونوں کا ہاتھ کھینچتی ہوئی ایک دکان کی جانب بڑھی تھی۔

"ویسے تو مجھے نہیں لینا کچھ لیکن مجھے پتا ہے یہاں سے کچھ نہ کچھ لے کر ہی نکلوں گی۔" امسال جھمکوں کی دیوانی تھی۔

امسال ایک طرف آئی تھی جہاں بہت سے مختلف سٹائل کے جھمکے اور  دیگر ائررنگز تھے، امسال کا دل اْن کو دیکھ کر مچل رہا تھااور ہمیشہ کی طرح اْس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ سب کچھ خرید لے لیکن پرائس ٹیگ دیکھ کر اْس کی آنکھیں باہر آنے کو تھیں۔

"کچھ پسند آیا ؟المیر نے پوچھا تھا۔

"پسند تو سب ہی آگئے ہیں۔۔۔جتنے حسین ہیں اْس سے زیادہ حسین ان کی پرائس ہے۔" امسال منہ بناتے ہوئے بولی تھی اور اْس کے اس انداز پہ المیر کی ہنسی نکلی تھی۔

"آپ حکم کریں تو ،سب خرید لوں ؟" امسال کو اپنے پیچھے سے مردانہ آواز آئی تھی۔

"آپ یہاں کیا کر رہے ہیں ؟" امسال کے لہجے میں حیرت تھی۔

"میں راؤنڈ کے لیے آیا تھا،  بتاؤخرید لوں سارے ؟" ابتہاج آنکھوں میں محبت لیے بولا تھا۔
المیر دونوں کو رشک بھری نگاہوں اور مسکراتے لبوں سے دیکھ رہی تھی۔

"اوہو  ! بڑے بڑے لوگ آئے ہیں۔"ماہا شوخ لہجے میں بولی تھی جبکہ ابتہاج اْس کی بات پہ ہنسا تھا۔

"نہیں مجھے کچھ نہیں چاہیئے۔۔۔چلو چلتے ہیں، خرید لیا نا تم نے ؟" امسال نے پہلے ابتہاج کو جواب دیا تھا اور پھر ماہا سے پوچھا تھا۔
سب دکان سے باہر آگئے تھے۔

"بھوک لگ رہی ہے زوروں کی چلو فوڈکورٹ چلتے ہیں۔" المیر بولی تھی۔

"آپ چلیں گے ؟" امسال نے ابتہاج سے پوچھا تھا۔

"نہیں تم اینجائی کرو مجھے کچھ کام ہےپھر میٹنگ بھی ہے ایک۔۔۔خیال سے واپس جانا۔" ابتہاج امسال کو سائڈ سے گلے لگاتے ہوئے بول کر اور باقی سب کو خدا حافظ کر کے  چلا گیا تھا۔

ابتہاج کے ایسا کرنے پہ امسال کا چہرا لال ہوگیا تھا اور پھر دوست ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے المیر اور ماہا نے اْسے خوب چھیڑا تھا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
"گھوم پھر کر آگیئں دیورانی جی ؟" ماہروش نے شوخ لہجے میں مسکراتے ہوئے کہا تھا۔

"ہاہاہا جی، آگئ آوارہ گردی کر کے۔" امسال نے ایک آنکھ دبا کر کہا تھا۔

تینوں دوستیں ساتھ تھیں تو  وقت کا پتا ہی نہ چلا تھا۔ امسال کو گھر واپس آتے آتے سات بج گئے تھے، تینوں مووی دیکھنے چلی گئیں تھیں۔

"چلو اچھی بات ہے، اینجائی کر آئیں۔" جنت بیگم خوش دلی سے بولی تھیں۔

امسال سب کے لیے کچھ نہ کچھ خرید کر لائی تھی اور اب سب میں بانٹ رہی تھی۔

"مہمل کے لیے تو چاچی بہت شالے توئز لائی ہیں۔" امسال نے کاٹ میں لیٹی، اپنی زبان میں باتیں کرتی مہمل کو گود میں لے کر پیار کیا تھا جبکہ مہمل اتنا لاڈ ملنے پہ ہنس رہی تھی۔

"ماما میں باہر جا رہا ہوں، آتا ہوں تھوڑی دیر میں۔" ابتہاج سیریوں سے نیچے اْترتے ہوئے بول رہا تھا، ساری توجہ کْرتے کی آستین فولڈ کرنے پہ تھی۔

"تم کب آئیں ؟" ابتہاج کی نظر امسال پہ پڑی تو پوچھا۔
"بس ابھی کچھ دیر پہلے ہی آئی ہوں، اوپر ہی آرہی تھی فریش ہونے۔" امسال نے جواب دیا تھا جبکہ ابتہاج نے گردن ہلائی تھی۔

"چاچو کی جان !" ابتہاج نے امسال کی گود میں بیٹھی مہمل کو لیا تھا جو کہ ابتہاج کو دیکھتے ہی اْس کے پاس جانے کے لیے مچلنے لگی تھی۔

مہمل ابتہاج سے کافی زیادہ اٹیچ تھی۔ ابتہاج مہمل کو ہوا میں اْچھالتا ہوا باہر کی جانب بڑھ رہا تھا اور مہمل کی کلکاریوں کی آواز آ رہی تھی۔

"بچے بہت پسند ہیں چھوٹے میر کو۔" جنت بیگم اپنے بیٹے کی آنکھوں ہی آنکھوں میں نظر اْتارتے ہوئے بولی تھیں اور پھر اْٹھ کر اپنے کمرے کی جانب چلی گئی تھیں، اْنہیں جہانگیر صاحب نے بلایا تھا۔

"آہم آہم ! سنا ساسو ماں کیا کہہ رہی ہیں۔" ماہروش نے امسال کو کوہنی مارتے ہوئےچھیڑا تھا۔

امسال ماہروش کی زومعنی بات سمجھ کر حیا سے لال ہوئی تھی اور فریش ہونے کا کہہ کر اوپر بھاگ گئی تھی۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
رات کے کھانے کے بعدابتہاج اپنی سٹڈی میں آفس کا کچھ کام کر رہا تھا جبکہ امسال نیچے باقی گھر والوں کے ساتھ موجود تھی۔ بارہ بجے امسال اپنے اور ابتہاج کے مشترکہ کمرے میں آئی تھی، ہاتھ میں پانی کا جگ تھا جو کہ اْس نے سائڈ ٹیبل پہ رکھا تھااور پھر بال بنانے کی غرض سے ڈریسنگ ٹیبل کی جانب بڑھی تھی۔

"یہ سب کہاں سے آئے ؟ یہ تو۔۔۔" ڈریسنگ ٹیبل پہ مختلف اقسام کے جھمکے موجود تھے جنہیں دیکھ امسال کو حیرت اور خوشی ہوئی تھی۔

"دکان سے آئے ہیں ۔" ابتہاج نے امسال کی معلومات میں اضافہ کیا تھا۔

ابتہاج کی نظریں امسال کے چہرے پپر ٹکی تھیں جو خوشی سے دمک رہا تھا۔

"یہ سب تو آج مال میں دیکھے تھے میں نے۔" امسال نے جھمکوں کا ایک سیٹ اْٹھاتے ہوئے کہا تھا۔

"ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ امسال کو کوئی چیز پسند آئے اور ابتہاج اْسے نہ خریدے ؟” ابتہاج امسال کی جانب بڑھتے ہوئے بول رہا تھا ۔

سامنے موجود شیشے میں امسال آگے اور ابتہاج اْس کے پیچھے کھڑا تھا۔ امسال نے شیشے میں ہی ابتہاج کو دیکھا تھا، ابتہاج امسال کے دیکھنے پہ مسکرایا تھا، جواب میں امسال بھی ہلکا سا مسکرائی تھی۔

"کیسے لگ رہے ہیں ؟" امسال نے شیشے میں دیکھتے ہوئے ابتہاج سے پوچھا تھا۔

"بہت خوبصورت، تم نے انکی شان بڑھا دی۔" ابتہاج کی نظروں میں محبت ہی محبت تھی۔

"اْف، ایک تو آپ کی یہ ڈائیلاگ بازی۔۔۔بائی دا وے، تھینک یو سو مچ !" امسال نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔
ابتہاج بھی ہنس دیا تھا۔ امسال کی اس ہنسی کے لیے ابتہاج کچھ بھی کر سکتا تھا۔

"ایک چیز کی کمی ہے بس۔" ابتہاج نے کہتے ہوئے اپنی جیب سے ایک مخملی کیس نکالا تھا جبکہ امسال سوالیہ نظروں سے اْسے دیکھ رہی تھی۔

"اب بلکل مکمل لگ رہا تھا۔۔۔یہ تمہاری گردن سے اْترا ہوا نہ دیکھوں میں، جیسے یہ انگوٹھی نہیں اْترتی۔" ابتہاج محبت اور استحاق بھرے لہجے میں بولا تھا۔

امسال کے کھلے بال ایک جانب کر کہ ابتہاج نے امسال کی گردن میں خوبصورت چین پہنائی تھی جس میں دونوں کا نام ایک ساتھ چمک رہاتھا۔ دونوں کے ناموں پہ مہارت اور  خوبصورتی سے تراشے ہوئے ہیرے جڑے تھے۔ چین پہنانے کے بعد ابتہاج نے امسال کا بایاں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا تھا اور اْسی ہاتھ کی تیسری انگلی میں پہنی انگوٹھی پہ اپنی انگلی پھیری تھی۔ امسال کے چہرے پہ مدھم سی مسکراہٹ تھی، گال ابتہاج کی قربت سے دہک رہے تھے جبکہ اْس کی نظریں ابتہاج کے بائیں ہاتھ کی تیسری انگلی میں چمکتی مردانہ انگوٹھی پہ تھی۔

"بہت شکریہ میر، یہ بہت خوبصورت ہے۔" امسال نے چین کو دیکھتے ہوئے بس اتنا ہی کہا تھا۔

امسال کے پاس الفاظ نہ تھےجنکی مدد سے وہ اپنی خوشی بیان کرتی۔ اْس کے چہرے پہ موجود رنگ اْس کی خوشی بیان کر رہے تھے۔ جواب میں ابتہاج نے بہت عقیدت سے امسال کے ماتھے پہ اپنے دہکتے لب رکھے تھے۔ اس بار امسال کو غصہ نہیں آیا تھا بلکہ وہ اپنی آنکھیں بند کئے ابتہاج کی محبت کو محسوس کر رہی تھی۔

"میں تمہاری زندگی کو جہنم بنا دوں گی !"

"تم بہت پچتاو گے !"

" میں نفرت کرتی ہوں آپ سے سمجھے آپ، شدید نفرت !!"

" آپ میرے جسم تک تو رسائی حاصل کر سکتے ہیں لیکن میرے دل تک کبھی نہیں۔"

اچانک ہی امسال کے کانوں میں اْس کی اپنی ہی آواز گونجنے لگی تھی۔ امسال نے جھٹکے سے اپنی آنکھیں کھولی تھیں، اْس کے چہرے پہ آئے تمام رنگ اْڑ چکے تھے۔ وہ نہیں چاہتی تھی یہ سب سوچنا لیکن اب تو یہ سوچیں دماغ میں آگئی تھیں اور اتنی آسانی سے اْس کا پیچھا چھوڑنے والی نہ تھیں۔ امسال کو اچانک اپنا دم گھٹتا محسوس ہو رہا تھا، دل تیزی سے دھڑکنے لگا تھا جیسے دماغ میں آنے والے خیالات جان کر کانپ رہا ہو، ڈر رہا ہو۔ محبت کا مضبوط ہوتا درخت اچانک مْرجھانے لگا تھا۔ اے سی چلنے کے باوجود بھی امسال کی پیشانی پہ پسینہ آنے لگا تھا۔ اس وقت امسال کو اپنے ان خیالات پہ قابو کرنا تھا لیکن کیسے یہ وہ خود بھی نہیں جانتی تھی، اْس نے دل ہی دل میں اپنے رب کو مدد کے لیے پکارا تھا۔

"چلو آج تمہیں ایک راز بتاتا ہو۔۔۔تمہیں پتہ ہے میں نے تمہیں پہلی بار کہاں دیکھا تھا ؟"  ابتہاج کی آواز امسال کو اْس کی سوچوں سے باہر لائی تھی۔ اللّٰہ نے مدد بھیج دی تھی۔

ابتہاج امسال کا ہاتھ پکڑے اْسے ٹیرس پہ لے آیا تھا، ٹھنڈی اور خوشگوار ہوا دونوں کے وجود سے ٹکرا رہی تھی۔ امسال کے دماغ میں ایک دم اْٹھنے والا شور اب تھم چکا تھا۔

"امم۔۔۔ظاہر ہے جب میں انٹرنشپ کرنے آئی تھی جہانگیر اینٹرپرائزز میں۔" امسال نے سوچتے ہوئے کہا تھا۔

"مجھے پتہ تھا یہی جواب ہوگا تمہارا لیکن یہ جواب غلط ہے، میں تمہیں پہلی بار کہیں اور دیکھا تھا۔" ابتہاج نے امسال کا رخ اپنی جانب کیا تھا، دونوں کے درمیان زیادہ فاصلہ نہ تھا۔

"اوہ !  پھر یونیورسٹی میں دیکھا ہوگا ، مجھے یاد ہے آپ آئے تھے ایک بار۔" امسال کو یاد آیا تھا۔

"نہیں، میں نے تمہیں پہلی بار اسی مال میں دیکھا تھا جہاں آج گئی تھی تم۔۔۔اْس وقت تم آنٹی کے ساتھ تھیں اور اْوٹ پٹانگ حرکتیں کر رہی تھیں، بس اْسی وقت یہ میر اپنا دل ہار گیا تھا ۔" ابتہاج نے آج امسال پہ یہ راز کھولا تھا۔  امسال حیرت زدہ تھی۔

"آپ اْس مال میں کیا کرنے جاتے ہیں ؟" امسال نے تفتیشی انداز میں اپنی ایک آئی برو چڑھاتے ہوئے پوچھا تھا، اْس کے اس انداز پہ ابتہاج کا قہقہ بلند ہوا تھا۔

"میں ہر مہینے مال میں راونڈ کے لیے جاتا ہوں، وہاں کی انتظامیہ کا جائزہ لینے۔" ابتہاج نے جواب دیا تھا۔

"کیوں ؟ آپ کیوں جائزہ لینے جاتے ہیں، آپ کا مال ہے کیا ؟" امسال اپنے چہرے پہ آئے بالوں کو ہٹاتے ہوئے بولی تھی۔

"ہاں یہی سمجھ لو، بابا کا مال ہے۔" ابتہاج نے عام سے انداز میں جواب کیا تھا جبکہ امسال کے لیے یہ بات نئی تھی۔

"واقعی ؟" امسال  پرجوش ہوتے ہوئے بولی تھی، اْس کے دماغ میں کوئی خرافاتی منصوبہ چل رہا تھا۔

"ہاں لیکن تم کوئی شرارت نہ کرنا۔۔۔جو شیطانی مسکراہٹ تمہارے چہرے کا طواف کر رہی ہے اْس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ تمہارے دماغ میں یقیناً کچھ اْوٹ پٹانگ سوچ چل رہی ہے۔" ابتہاج نے تھوڑا سکتی سے کہا تھا لیکن سامنے موجود وجود جو فرق کہا ں پڑنا تھا۔

"یہ کیا اْوٹ پٹانگ، اْوٹ پٹانگ لگا رکھا ہے ؟!" امسال نے بگرے موڈ سے کہا تھا۔

جواب میں ابتہاج نے "ایسی ہی حرکتیں ہوتی ہیں تمہاری" کہا تھا جس پہ امسال نے غبارے کی ظرح منہ پھلا لیا تھا۔ابتہاج نے مسکراتے ہوئے امسال کے گال جارہانہ انداز میں کھینچے تھے اور بدلے میں امسال نے اپنے ناخنوں سے ابتہاج کو زخمی کیا تھا۔

"اسی لیے میں تمہیں بلّی کہتا ہوں۔" ابتہاج نے  اپنا ہاتھ سہلاتے ہوئے کہا تھا اور پھر دونوں ہی ہنس دیے تھے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ایک ہفتہ مزید  گزر گیا تھا، اسی دوران امسال کی کانووکیشن بھی ہوگئی تھی۔ امسال کی پڑھائی مکمل ہوگئی تھی، ہمیشہ کی طرح اس بار بھی امسال نے ٹاپ کیا تھا، اْس کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا۔ہمدان صاحب، زوباریہ بیگم اور ابتہاج امسال کے ساتھ اس تقریب میں شریک ہوئے تھے۔ تینوں کی آنکھوں میں امسال کے لیے محبت اور فخر تھا۔ امسال کے والدین نے ابتہاج کا بھی شکریہ ادا کیا تھا کہ اْس نے امسال کو اْسکی پڑھائی مکمل کرنےکی نہ صرف اجازت دی تھی بلکہ تمام گھر والوں نے بھی تعاون کیا تھا، جواب میں ابتہاج نے "میں نے تو اپنا وعدہ نبھایا ہے آنٹی، امسال اتنی ذہین ہے کیسے نہ پوری کرتی اپنی پڑھائی" کہا تھا۔
امسال کی پڑھائی مکمل ہونے پہ جہانگیر مینشن میں بھی جشن منایا گیا تھا۔ جہانگیر صاحب نے امسال کو کمپنی جائن کرنے کی بھی دعوت دی تھی کہ وہ جب چاہے جہانگیر اینٹرپرائزز میں کام کر سکتی ہے۔ امسال اپنے رب کا شکر ادا کرتے نہ تھک رہی تھی، اْسی نے تو امسال کو کامیابی سے نوازہ تھا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آج موسم بہت خوشگوار تھا، آسمان بادلوں کی کالی چادر سے مکمل طور پر ڈھکا ہوا تھا۔ ٹھنڈی ہوا ماحول کو مزید تازگی بخش رہی تھی۔ دوپہر کے تین بج رہے تھے لیکن شام سے پہلے ہی شام کا سماں تھا۔ جہانگیر مینشن میں اس وقت سب لوگ اپنے اپنے کمروں میں موجود ہوتے تھے۔ امسال کو دوپہر میں سونے کی عادت نہ تھی اس لیےوہ ٹیرس پہ بیٹھی سہانے موسم سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔

"کیا کر رہی ہیں مسز ابتہاج ؟" امسال کو اپنے پیچھے سے ابتہاج کی آواز سنائی سی تھی۔

"آپ آج اتنی جلدی کیسے آگئے ؟"  امسال نے سامنے سے سوال کیا تھا، ابتہاج معمول کے خلاف اس وقت گھر میں موجود تھا۔

"ہاں آج کام کم تھا اس لیے آگیا، کسی کی یاد بھی آ رہی تھی۔" ابتہاج نے زو معنی بات کہی تھی۔

"کس کی یاد ؟" امسال نے انجان بنتے ہوئے کہا۔

"تمہیں نہیں پتہ ؟" ابتہاج کے سوال کرنے پہ امسال نے نہ میں گردن ہلائی ۔

"پرانے دوست کی یاد آرہی تھی۔" ابتہاج نے منہ بگارتے ہوئے جواب دیا تھا جبکہ امسال بہت مشکل سے اپنی ہنسی روک رہی تھی۔

"اوہ، تو پھر جا کر مل آئیں اپنے دوست سے۔" امسال نے حل پیش کیا تھا۔

"وہ پاکستان میں نہیں رہتا اب۔۔۔بہت مارا ہے میں نے اْسےبچپن میں۔" ابتہاج یاد آنے پہ ہنستے ہوئے بولا تھا۔
"کتنی بْری بات ہے۔" امسال نے افسوس سے سر ہلاتے ہوئے کہا تھا۔

"زیادہ افسوس کرنے کی ضرورت نہیں ہے، وہ بھی کوئی معصوم نہیں تھا۔۔۔بس ایک بات کا افسوس ہے مجھے۔" ابتہاج اپنی  شرٹ کی آستین موڑتے ہوئے بول رہا تھا۔

"کس بات کا افسوس ؟" امسال نے دلچسپی سے پوچھا تھا۔

"میں چھوٹا تھا جب ہم لوگ کچھ عرصے کے لیے اسلام آباد شفٹ ہوئے تھے، وہیں میری شعفے سے دوستی ہوئی تھی۔ شعفے کے پاس ریموٹ کنٹرول کار تھی اور مجھے بچپن سے ہی گاڑیا ں بہت پسند ہیں، شعفے کی وہ گاڑی مجھے بہت اچھی لگی تھی اس لیے میں نے بابا سے ویسی ہی گاڑی کی ضد کی تھی لیکن ویسی گاڑی نہ ملی۔۔۔جب شعفے کو پتہ چلا تو اْس نے مجھے بہت چڑایا تھا تو بس پھر غصے میں آ کر میں نے اْسکی گاڑی توڑ دی تھی۔" ابتہاج نے پوری کہانی سنائی تھی جبکہ امسال جمائی لیتے ہوئے  سن رہی تھی، اْسے گاڑیوں کا کوئی کریز نہیں تھا۔

"کتنے بْرے ہیں آپ، اْس بچارے کی گاڑی توڑ دی۔" امسال کو شعفے کے لیے بْرا محسوس ہوا تھا۔

"وہ کیا ہے نہ کہ جب میری پسند کی چیز میرے پاس نہیں ہے۔۔۔تو کسی کے پاس بھی نہیں ہونی چاہیئے۔ میں پہلے خاصہ شدت پسند تھا۔"  ابتہاج کے لہجے میں خود پسندی نمایاں تھی۔

"ایک منٹ،  ایک منٹ ! یہ ڈائیلاگ تو میں نے کہیں پڑھا ہوا ہے، کس کا تھا ؟" امسال اپنی یاد داشت پر زور ڈال رہی تھی۔

"ایکسکیوز می ! یہ کوئی ڈائیلاگ نہیں ہے۔" ابتہاج نے سڑا ہوا منہہ بناتے ہوئے بولا تھا۔

"ہاں یاد آیا ۔۔۔یہ تو ایم-اے-زی کا ڈائیلاگ ہے۔" امسال کی آنکھوں میں الگ ہی چمک تھی، آخر کو اْس کے پسندیدہ شخص کی بات ہو رہی تھی۔

"یہ ایم-اے-زی کون ہے ؟" ابتہاج نے ایک آئی برو چڑھاتے ہوئے پوچھا تھا۔

"آپ ایم-اے-زی کو نہیں جانتے ؟" امسال کو تو سدمہ ہی لگ گیا تھا۔

"نہیں، کون ہے یہ اب بتا بھی دو۔" ابتہاج کے لہجے میں رقابت محسوس کی جا سکتی تھی۔

"میری دوسری محبت ہے ۔" امسال نے بہت محبت سے کہا تھا۔

"واٹ !!!" ابتہاج کو پتنگے لگ گئے تھے۔

"ہاں، پہلی محبت ہاشم کاردار اور دوسری منہاج از زہاک عرف ایم-اے-زی۔" ابتہاج کو امسال کے لہجے میں واقعی محبت محسوس ہو رہی تھی ان دونوں کے لیے۔

"کون ہیں یہ دونوں ؟ چھوڑوں گا نہیں میں ان کو ۔" ابتہاج کو اب غصہ آ رہا تھا۔
کیسے اْس کی بیوی اْس کے سامنے ہی اپنی محبتوں کے نام گِنوا رہی تھی۔

"ہاہاہاہاہا ! ناول کے ولن ہیں دونوں، میرے فیورٹ۔" امسال سے اب اپنی ہنسی روکی نہ جا رہی تھی اس لیے جواب دے کر ہنسنے لگی تھی۔

"واٹ دا ہیل !"ابتہاج کے منہ سے بس یہی نکلا تھا۔

"تم لڑکیوں کو تو وہ ہیرو پسند آتا ہے نا، کیا نام ہے اْس کا۔۔۔"ابتہاج اپنے ذہن پہ زور دیتے ہوئے بولا تھا۔

"مجھے تو سارے ہی ہیرو پسند آجاتے ہیں۔" امسال شرمانے کی اداکاری کرتے ہوئے بولی تھی جبکہ ابتہاج نے اْسے زبردست گھوری سے نوازہ تھا۔

"پتہ نہیں کیا نام تھا۔" ابتہاج   بولا تھا۔

"سالار سکندر ؟ جہان سکندر ؟فارس غازی ؟۔۔۔" امسال نے اور بھی نام بتائے تھے۔

"ہاں یاد آیا، یہی پہلا والا نام سالار۔" ابتہاج کو آخر کار یاد آگیا تھا۔

"سالار تو ہیرو کی فہرست میں پہلی محبت ہے میری۔" امسال بڑے مزے سے بولی تھی۔

امسال کی باتوں سےابتہاج کو خوب اندازہ ہو رہا تھا کہ اْس کی بیوی ناولوں کی دنیا میں رہنے والی لڑکی ہے۔

"واٹ ایور ! اب تمہاری شادی ہوگئی ہے اس لیے بھول جاو اپنی ساری محبتیں۔۔۔اب بس ایک ہی ہیرو اور ایک ہی ولن ہے تمہارا اینڈ دیٹس می، میر ابتہاج جہانگیر۔" ابتہاج کے لہجے میں کیا کچھ نہ تھا، رقابت، تنبیہ اور شائد غصہ بھی۔

ابتہاج کچھ بھی برداشت کر سکتا تھا لیکن امسال کے لہجے میں اپنے علاوہ کسی اور کے لیےمحبت ہرگز بھی نہیں پھر چاہے وہ کوئی فرضی کردار ہی کیوں نہ ہو۔
فون کی بجتی گھنٹی امسال کودوبارہ حال میں لے آئی تھی۔ ماضی میں ہوا یہ واقعہ یاد کر کے امسال کے لبوں پہ مسکراہٹ رینگ رہی تھی۔ اب وہ المیر سے فون پہ بات کرنے میں مصروف ہو چکی تھی۔
                                                          (جاری ہے)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

Scroll up for the next part as well ✨

Continue Reading

You'll Also Like

207K 8.1K 9
A simple short story filled with love 💕 #2 in lovestories 30/12/19
1.4M 74K 65
#3 in Pakistan ( 4-1-2021) #1 in Pakistan (19-1-2021) What will happen when two opposite souls are betrothed to each other? *But both are stubborn...
2.3M 63.1K 42
"I need to talk to you Elly" "Why?!" "I know that you're my mate" I laughed sarcastically. "What?! Are you trying to make fun of me again like you di...
55.3K 9.4K 31
هێی خاتونی چێشت لێنەر..! ئەترسم دوبارە خۆشەویستی بکەم و دڵت بشکێنم و نەتوانم تۆم خۆشبوێت بەقەد ئەوەی تۆ منت خۆشەوێت با دوبارە خۆشەویستی بکەینەوە...