قسط 1

10.8K 296 33
                                    

جلدی کرو جلدی سر آگے ہیں ..
اوہ شٹ! آج تو پکا ذلیل ہوں گے ...
یار جلدی کر لو پلیز ... وہ رو دینے کو تھا .. جلدی سے کیبن خالی کردو .... اس سے پہلے کے ہم کام سے فارغ ہو جائیں ... ابھی کسی کا منہ بھرا ہوا تھا تو کوئی کھانے میں مصرف تھا ... آج علی صاحب جو کے اس انڈیسڑری کے ورکر تھے . اور اپنی منگنی کی سب کو ٹریٹ دے رہے تھے ..
........................................................................
"ابو ابو روک جائیں پلیز میری گڑیا کو چھوڑ دیں پلیز ."
. وہ ایک دم سے بیدار ہوئی .. اس کا پورا وجود پسینے میں شربوا ہوا تھا اس کو یہ نہیں معلوم تھا کی وہ زندہ ہے بھی کہ نہیں مگر اس کے لیے محبت آج بھی ایسی ہی تھی اس واقع کو گزرے 5 سال ہوگے مگر وہ آج اس دن سے زیادہ اپنے اپ کو بےبس محسوس کر رہی تھی .. اس کے حواس باحال ہوۓ تو اس کو پتہ چلا کہ ابھی تک لائٹ نہیں آئی اس کو اب اندھیرے سے ڈر نہیں لگتا تھا البتہ ماں کا خوف تھا جن کی دن بدن صحت کچھ اچھی نہیں معلوم ہورہی تھی وہ اپنی سوچ کو جھٹکتی اماں کے کمرے کی طرف چل دی ..
.......................................................................
ابھی وہ سب ادھر دھر بھاگ رہے تھے کے چمکتی ہوئی کالے رنگ کی مرسڈیڈ بینز آکر روکی اور سب ایک دم اپنی اپنی سیٹس کو سنبھال لیے .. ان سب کی نظر میں اب سب صیحیح تھا .مگر وہ ابھی اپنے نام کا ایک تھا ..
اہ جب گاڑی سے اتارا تو ہزار لوگ اس کو دیکھ کر آہیں بھرتے ....
کالے رنگ کے پینٹ کوٹ میں ...چمکتے ہوۓ جوتے ...کالی عینک سے آنکھیں ڈھانپے..وہ ہزار لوگوں کے دلوں پر چھڑیاں چلا جاتا...
آفس میں قدم رکھتے ہی اسے کچھ نامحسوس سی چیز نے اپنے طرف کینچھا .. وہ مگر خاموشی سے اپنے آفس کی طرف چل دیا ....
........................................................................
"دادا میں نہ آج آوں گا نہ کل آپ یہ بات کیون نہیں سمجھتے... "....معید نے بیزار ہوتے ہوۓ کہا ..
"میری جان تم چھ سال سے نہیں آۓ تو میں نے کون سا ملنا چھوڑ دیا ہے مگر یہ میرا وعدہ ہے کے آج نہیں تو کل ضرور آو گے .. "
"دادا میں بحث نہیں کرنا چاہتا ویسے بھی بہت کسمڑ آرہے ہیں میں خان کا درائیوار بیج دوں گا.آپ آجانا .."
"فی امان اللہّ بچے تم سے میں آ کر بات کرتا ہوں .."
"اوکے دادا جان اللہّ حافظ..."
وہ کان سے فون لگاۓ کرسی پر جھولتا ہوا اپنے دادا سے بات کر رہا تھا...
.......................................................................
"اسلام شاہ جی !میں ابھی آفس ہوں رات تک آپ کے پاس ہوں گا .. ...."
یہ کہتے اس نے فون بند کیا .. اور اپنی اسسٹنٹ کو آفس میں بولایا ..
......................................................................
"جی علی صاحب کیسے ہیں آپ !! .."
"جی سر الحمداللہّ ..."
"بہت بہت مبارک ہو آپ کو منگنی کی علی مگر میں یہ پوچنا چاہتا ہوں کے میری ٹریٹ کدھر ہے .. "
یہ سن کر وہ گھبرا گیا .. کیونکہ اُس کو پتہ چل گیا تھا ..
"سر وہ وہ نا..." .... ابھی وہ اپنے حق میں کچھ بولتا معید کی انٹری نے خلل ڈالا ..
"اوو خانے بچے کو معاف کر دے ہر کوئی تیری طرح"... اس سے پہلے معید کچھ اور بولتا آریان صاحب کا غصہ دیکھ کر خاموش ہوا ..
"علی صاحب آپ جائیں مگر اگلی بار ایسا نہ ہو .." آریان نے اپنی کرسی پر جھولتے ہوۓ  اتنی سنجیدگی سے کہا کہ وہ دو مینٹ میں وہاں سے فرار ہوا ..
"بس بس بیٹا ہر کسی میں تیری غصے کو سنبھلنے کا حوصلہ نہیں ..... اللہّ بچاۓ میری پیاری بھابھی کو ...."
"شٹ اپ معید .. کام بولو جس کے لیے آۓ ہو ... "
"چاۓ پلا دو یار .".....معید نے منہ بنا کر کہا ...
"تم اس لیے کام کاج چھوڑ کر آۓ ہو ..." آریان نے ائبرو اوپر کر کے اپنے انداز میں سوال کیا ....
"نہیں نہیں مطلب چاۓ پلاو پھر بتاتا ہوں یار ...." منہ بنا کرکہا ..
تو آریان نے مسکراہٹ چھپائی اور فون پر چاۓ کا کہا .....
(آریان خانزادہ کسی کے سامنے ہنستہ نہیں 😶😶😎 )
...........۔........................................................................
"چھوٹی بی بی جی ...." نوری آوازیں دیتے ہوۓ کمرے میں آئی ...
"نوری کیا ہوگیا ہے ہزار دفعہ کہا ہے کے یہ بی بی شیبی نا کہا کرو لگتا ہے تمے ڈانٹ پڑنے والی ہے ."..منہ بنا کر کہا گیا .....وہ شیشے کے سامنے کھڑی اپنے بال سنوار رہی تھی ...جب اس نے نوری سے کہا...
"اچھا ارشی آپی آپ سن نہیں رہیں تھی اس لیے ..'.
"اچھا خیر چھوڑو یہ بتاو کیا ہوا ہے ؟"
"وہ دا جی نے آپ کو بلایا ہے ... "
"اللہّ لڑکی تم کب سے میرے سے باتوں میں لگی ہو اور دا جی کا اب بتایا ہے ... حد ہو گئ ہے ...
جاووو رات کے کھانے کی تیاری کرو میں داجی کے پاس سے ہو کر آتی ہوں ..."
وہ دا جی کے کمرے کی طرف چل دی جبکہ نوری کچن کی طرف ....
"اسلام علیکم دا جی ........"
"وعلیکم السلام کیسا ہے میرا بچہ"
" میں بلکل ٹھیک داجی .. بس آپ کی کرم نوازش ہے ..."
"ہاہاہا بچہ آج میں جارہا ہوں آپ سامان پیک کر دو میرا .. "
"داجی کون لینے آرہا ہے.... "
"بیٹا جس کا تمھیں انتظار ہے وہ نہیں آرہا ... "
"نہیں داجی یہ سب میری قسمت میں لکھا ہے ..."اس نے اُداسی سے کہا ...
"شاید ہمارے راستے الگ ہیں .... "
داجی ناامیدی کی بات سن کر اس کے پاس آۓ اور اس کے سر پیار کیا ...
"میرا بچہ آپ کو قران کی ہر بات معلوم ہے پھر بھی اتنی نااُمیدی ...... آپ نے بچے مایوس نہیں ہونا ایک بار خدا نے اس کا نام دیا ہے تو مان بھی دے گا ویسے بھی "
مایوسی بڑا گناہ ہے......
"جی دا جی میں اللہ ّ کو ناراض نہیں کروں گی .." "شاباش چلو اب آپ کھانے کی تیاری کر لو ساتھ میرا کچھ سامان ڈال دو ... رات کو خان لینے آۓ گا ..."
"سچ میں خان بھائی آرہے ہیں .... "
"ہاں جی بچہ اور اب دیکھو اس بار وہ کیا گل کھلاتا ہے ..."
"ہاہاہاہاہا............ داجی بھائی بس ایسے ہی ... "ہنستے ہوۓ آنکھوں میں آنے والی نمی کو داجی نے دیکھا تو دل سے خدا سے دعا کی ...
یارب ایک لڑکی کو اس کا مان اور اس کی خوشیاں دے اس کو اپنے در سے خالی نا لوٹنا .. اس کی تمام خواشیں بر لا. . (آمیں).....
چلیں داجی آپ تھوڑی دیر ریسٹ کر لیں . . وہ کہہ کر کمرے سے نکل گئی ...
...... ...... ........ ........ ................. ..............
"امی آپ ٹھیک ہیں نا "
آئزہ نے جھک کر ماں کی پیشانی چومی اور استفاد کیا ....
ایک واحد راشتہ اس کے پاس اب موجود تھا جس کو کھونے کا حوصلہ فل حال اس کے پاس نا تھا .....
"امی آپ پریشان ہیں خیریت ..."
"میری بچی تم چلی جاو اس گاوں سے دور تجھے اکیلی دیکھ کر شیطان ان کا باہر آجاتا ہے مجھے بہت ڈر لگتا ہے میں اپنی ایک اولاد کھو چکی ہوں دوسری ان درندوں کے ہاتھوں میں نہیں دے سکتی"..
یہ کہتے ساتھ ہی امی پھوٹ پھوٹ کر رو دی
" امی میری پیاری امی میں آپ کے ساتھ ہوں اور کسی کو کچھ نہیں ہو گا ...."
میں نے بات کی ہے جلد نکل جائیں گے یہاں سے امی ...
"امی آپ آرام کریں میں نماز پڑھ لوں زرا ...."
نہیں مایوس اپنے اللہّ سے بدل جاتی ہے قسمت دعا سے ......
...................... ............. .......۔...............
"اسلام علیکم !!!!"
خان نے گھر میں داخل ہوتے ساتھ ہی سلام کیا ... جس پر شاہ جی اور اریشہ دونوں اکھٹے متوجہ ہوۓ...
"وعلیکم السلام ..."
اریشہ کے جوش میں جواب دینے پر .. خان نے کہا ...
"لگتا ہے میں کسی غلط گھر میں آگیا ہو ں چلتا ہوں باجی ..."
"بھائی ی ی ی ی ی ......."
اریشہ کی چیخ پر شاہ جی اور  خان نے قہقہہ لگایا ....
"کیسی ہے میری گڑیا..."
خان نے اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا ..
"اب کیا دروازے میں ہی کھڑے رکھنا ہے میرے بچے کو "
داجی نے آریشہ سے کہا وہ جو گڑیا کی پکار پر کسی اور دنیا میں چلی گی تھی ایک دم واپس آئی ..
"نہیں دادا جان یہ غلط گھر میں اگے ہیں نا اب مجھ سے نا بولیں ..." آریشہ نے منہ بناتے ہوۓ کہا .....
جس پر وہ مسکرا دیا اور اس کے سر پر چیت لگاتے ہوۓ اندر بڑھ گیا .....
.................   ..۔......................................... .  . ...........
Must share you reviews ..
Happy reading 😇

درِ یار از علمیر اعجاز Completed✅Hikayelerin yaşadığı yer. Şimdi keşfedin