Episode ~ 15 ✔

Začít od začátku
                                    

**********

ایک چیز کا اندازہ تو حسین کو بہت اچھے سے ہو چکا تھا۔ یہ عورت اول درجے کی عقل سے پیدل اور پھوہر تھی۔ پتا نہیں ڈاکٹری کی ڈگری کیسے حاصل کر لی۔ مہمان سے پانی پوچھنا تو آتا نہیں، مریض سے طبیعت خاک پو چھتی ہو گی۔
پہلے تو اتنی گرمی میں اسے اپنے انتظار میں سڑنے کے لئے کھڑا رکھا اور خود ٹھنڈا ٹھاڑ سلش پیتی رہی اور اب جب الله اللہ کر کے اندر بلا ہی لیا تو ٹھنڈے پانی کی جگہ گرم گرم چائے کے ساتھ ڈرائے فروٹس کی ٹرے پیش کر دی جیسے یہاں لاہور کی گرمی کے بجائے برطانیہ کی برف پر رہی ہو۔ ابھی وہ یہی دیکھ رہا تھا کہ کہ وہی ملازمہ گرم گرم پیٹس کی پلیٹ بھی لے آئے۔
اس نے ملازمہ کو کہا بھی تھا بس سادہ ٹھنڈے پانی کا ایک گلاس لے آئے مگر اس نے تو جیسے کچھ سنا ہی نہ تھا۔
"بس اب اور کچھ مت لائیے گا۔ صرف ایک گلاس ٹھنڈا پانی لا دیں۔" ملازمہ ایک اور ڈش لے کر آئی تو اس نے فوراً اسے کہا مبادہ وہ اور کچھ نہ لے آئے۔ جواب ملازمہ کے جواب پہ وہ اس کی شکل دیکھتا رہ ھیا تھا۔
"میں کچھ اور لینے جا بھی نہیں رہی صاحب۔ میں تو امایہ باجی کو بلانے جا رہی ہوں۔"
اس سے زیادہ عزت شاید ہی حسین کی اور کسی نے کی ہوگی یا اس نے کبھی محسوس کی ہوگی جتنی وہ اس وقت کر رہا تھا۔
پہلے سے تپا بیٹھا حسین سامنے سے آتی امایہ کو دیکھ کر اور تپا۔ اتنی دیر میں ملازمہ نے آکر پانی کی بوتل اور گلاس رکھا تو اس نے گُٹر گُٹر پانی پی کر پوری بوتل خالی کردی۔
امایہ نے اِسے ایسے پانی پیتے حیرت سے دیکھا۔ اور عادت سے مجبور ہو کر جب رہ نہ پائی تو پوچھ بیٹھی۔
"اگر آپ کو اتنی ہی پیاس لگی تھی تو پانی مانگ لیا ہوتا۔" اس بات پہ حُسین عش عش ہی کر اٹھا۔
"جی بالکل آپ صحیح کہہ رہی ہیں۔ مجھے واقعی پانی مانگ لینا چاہیئے تھا۔"
"چلیں خیر اب تو پی لیا ناں۔" کیا بےنیازی تھی وہ لب بھینچ کر رہ گیا۔
"ڈیڈی کہہ رہے تھے کہ آپ ملنا چاہتے تھے؟۔۔۔کس سلسلے میں؟۔۔۔" امایہ نے دوبارہ سلسلہ کلام جوڑا۔
اپنے تفتیشی انداز میں واپس آتے اُس نے امایہ سے بہت سے سوالات پوچھے تھے جس کا جواب امایہ کو جاننے کے باوجود محتاط انداز میں گول کر کے دینا پڑا۔
"دیکھیئے مس' مہربانی فرما کر پولیس کے ساتھ تعاون کریں اور جو میں پوچھ جا رہا ہوں اِس کا مکمل اور سیدھا جواب دیجیئے۔"
"آپ کے ان مشکوک سوالوں کا میں کیا جواب دوں۔ بھلا ہمارا سعدان بھائی کے قتل سے کیا تعلق۔ ہم کچھ نہیں جانتے۔"
امایہ کو تعاون نہ کرتا دیکھ کر وہ اپنی ہتھیلی سامنے پڑے میز پہ زور دار انداز میں مارتے آگے کو جُھکا۔
"آپ کا سعدان الہیٰ کے قتل سے کوئی تعلق ہے یا نہیں یہ تو میں نہیں جانتا مگر آپ اور آپ کے والد صاحب اِن کے قتل کی وجہ سے اچھے سے واقف ہیں میں یہ ضرور جانتا ہوں۔ اس لئے بہتری اسی میں ہے جو پوچھا جا رہا ہے وہ بتائیں۔"
"آپ میری ساتھ اس انداز میں کیسے بات کر سکتے ہیں؟۔۔۔"
حسین نے ٹھنڈا سانس لیتے خود کو نارمل کیا۔
"دیکھیئے محترمہ' میں صرف اتنا پوچھنا چاہ رہا ہوں کہ قتل سے پہلے سعدان جس کیس کو ہینڈل کر رہا تھا اس کی تمام اطلاعات ہماری معلومات کے مطابق آپ کو اور آپ کے والد کو معلوم تھیں۔ وہ کیا تھیں۔ ہمیں وہ سیکنڈ کاپی چاہیئے اور اس سے متعلق بہت سی چیزیں جو آپ جانتی ہیں وہ بھی چاہیئے ہیں۔"
اب کے حسین کے لہجے میں سختی اور نرمی دونوں کا ملاپ تھا۔
"آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟۔۔۔" وہ گھبرائی۔
"وہی جو آپ بتانا نہیں چاہ رہیں۔" جواب صاف تھا۔
"مجھے نہیں معلوم۔ آپ کس کاپی کی بات کر رہے ہیں۔" وہ نظر چڑاتے بولی۔
"امایہ بی بی نظریں وہی چراتے ہیں جو کچھ چھپاتے ہیں۔ آپ بتائیں گی یا میں دوسرا طریقہ اختیار کروں؟۔۔۔" وہ اپنے موبائل پر ایک نمبر ڈائل کرتے امایہ سے بولا۔
"کیسا طریقہ؟۔۔۔"
"جو آپ بالکل پسند نہیں کریں گی۔" اس نے اپنے موبائل کی سکرین امایہ کے سامنے کی جس پہ lady constable کے نمبر پہ کال جاتی نظر آ رہی تھی۔
"اگر آپ ہمارے ساتھ تعاون کریں گی تو آپ کے لئے بھی بہتر ہوگا اور ہمارے لئے بھی۔ ورنہ مجبوراً مجھے آپ کو اپنے ساتھ لے کر جانا پڑے گا۔ اور شریف گھروں کی لڑکیاں پولیس سٹیشن جیسی جگہ قدم رکھیں یہ اچھا نہیں لگتا اب چاہے وہ قدم کسی بھی مقصد کے لئے رکھا گیا ہو۔ معاشرے کو بات بنانے کے لئے صرف موقع ہی چاہیئے ہوتا ہے۔ چاہے وجہ کچھ بھی ہو۔ اور بے فکر رہیں مس شفاء کو کچھ معلوم نہیں پڑے گا کہ آپ کچھ جانتی تھیں۔"
حسین کا شک سو فیصد درست تھا۔ ساتھ جانے کے ڈر سے امایہ کی زبان کھلی تھی۔ اور جو کچھ اسے پتا تھا۔ وہ سب بولتی چلے گئی۔
جب وہ بات پوری کر کے چپ ہو چکی تو وہ پھر بولا۔
"مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ آپ ابھی بھی کچھ چھپا رہی ہیں۔"
"جتنا جانتی تھی سب بتا دیا۔ اس سے زیادہ میں کچھ نہیں جانتی اب پلیز مجھے مزید پریشان نہ کریں اور جائیں یہاں سے۔"
امایہ غصے میں آتے ایک دم اپنی جگہ سے اٹھی اور ہاتھ کے اشارے سے حسین کو باہر کا راستہ دکھایا۔ اس بار امایہ کا لہجہ بھی اس کے انداز کی طرح کافی سخت تھا جو حسین کو سلگا گیا تھا۔
"مجھے بھی کوئی شوق نہیں ہے آپ جیسی بددِماغ لڑکی کیساتھ سر کھپا کر اپنا وقت ضائع کرنے کا۔ میں تو بس اپنی ڈیوٹی کر رہا ہوں اور جو میرا کام ہو وہ میں کر کے رہتا ہوں۔"
"ہاں اتنا ہی رہ گیا ناں پرنس ولیم یا پرنس ہیڑی۔۔۔" اُس کی خود کلامی حسین کے کانوں تک واضح پہنچی تھی۔ جس پہ وہ بھی جواب دیئے بغیر نہ رہ سکا۔
"پرنس ہیڑی کا تو مجھے پتا نہیں مگر آپ کے ساتھ مزید دو منٹ بھی اور سر کھپایا تو پرنس ولیم ضرور بن جاؤنگا۔"
حسین کی بات کا مطلب سمجھ کر اُسے بے انتہا غصہ آیا تھا۔ اُس کا بس نہیں چلا تھا۔ سامنے میز پہ پڑی ساری ڈشز اٹھا کر اس کے سر پر دے مارتی۔
کوئی اس کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتا تھا۔ ایک تو اس کو بلیک میل کیا اوپر سے اتنی باتیں بھی سنا ڈالیں۔
دوسری جانب حسین بے نیازی سے اپنی یونیفارم کی کیپ اٹھاتا وہاں سے چلتا بنا تھا۔

Rasam E Wafa ✔️Kde žijí příběhy. Začni objevovat