یہ دولت بھی لے لو,یہ شہرت بھی لےلو
بھلے چھین لو مجھ سے جوانی میری
مگر مجھ کو لوٹا دو, بچپن کا ساونوہ کاغذ کی کشتی,وہ بارش کا پانی
کڑی دھوپ میں گھر سے نکلنا
وہ چڑیاں,وہ بلبل,وہ تتلی پکڑناوہ گڑیا کی شادی پر لڑنا جھگڑنا
وہ جھولوں سے گرنا اور گر کے سنبھلناوہ ٹوٹی ہوئ چوڑیوں کی نشانی
کبھی ریت کے اونچے ٹیلوں پر جانا
گھروندے بنانا,بناکے مٹاناوہ معصوم چاہت کی تصویر اپنی
وہ خوابوں کیھلونوں کی جاگیر اپنینہ دنیا کا غم تھا نہ رشتوں کا بندھن
بڑی خوبصورت تھی وہ زندگانیمگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون
وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی