الفاظ کا مرہم

403 24 5
                                    

الفاظ کا مرہم

سکول سے لیٹ ہونے کے خدشے کا بھی اظہار کرتیں مگر سلیم پر کسی بات کا اثر نہ ہوتا وہ غصے سے کروٹ بدلتا اور کہتا مجھے جلدی اٹھنے سے نفرت ہیں اس لئے مجھے سکول جانے سے بھی نفرت ہیں

ڈاکٹر فضیلت بانو:
امی صبح سے کتنی بار سلیم کو جگانے آچکی تھیں وہ آکے بار بار اسے ہلاتیں پیار سے پچکارتیں اور سکول سے لیٹ ہونے کے خدشے کا بھی اظہار کرتیں مگر سلیم پر کسی بات کا اثر نہ ہوتا وہ غصے سے کروٹ بدلتا اور کہتا مجھے جلدی اٹھنے سے نفرت ہیں اس لئے مجھے سکول جانے سے بھی نفرت ہیں کیونکہ اس کے لیے صبح جلدی اٹھنا پڑتا ہے جس چیزسے بھی سلیم کو دلچسپی نہ ہوتی یا اسے پسند نہیں ہوتی وہ بے دھڑک اس کے بارے میں کہہ دیتا کہ مجھے اس سے نفرت ہے یہ ایک طرح سے اس کا تکیہ کلام بن چکا تھا۔

ایک دن کلاس میں بھی ایسا ہی ہوا کہ بابر کے ابو نے اسے نیا جیومیٹری بکس لے کردیا اس نے سکول آکے بڑے شوق سے سلیم کو دکھایا مگر سلیم کو اس جیومیٹری بکس کا رنگ پسند نہ آیا اور اس نے اسے پوری طرح دیکھے بغیر فوراً کہہ دیا مجھے تو تمہارے جیومیٹری بکس کا رنگ ہی پسند نہیں مجھے تو اس رنگ ہی سے نفرت ہے بابر جو رات بھر سے اس قدر خوش تھا کہ صبح سکول جاکر سلیم کو اپنا جیومیٹری بکس دکھائے گا وہ سلیم کی بات سن کر ایک دم بجھ کر رہ گیا اور خاموش ہوگیا ناقی سارا دن بھی اس کا سلیم سے کوئی بات کرنے کو دل نہ چاہا لیکن سلیم عموماً ایسی باتوں کی پرواہ نہیں کرتا تھا کہ اس کے نفرت کے اظہار کے بعد دوسروں کے دل پر کیا گزرتی ہے۔

ایک دن کھیل کے میدان میں بھی ایسا ہی ہوا ثاقب کے چچا باہر کے ملک سے اس کے لیے کالے رنگ کے نئے جوگر بوٹ لے کر آئے وہ اگلے دن سکول پہن کر آیا سب دوستوں کو اس کے بوٹ بہت پسند آئے سب اس کی تعریف کرنے لگے مگر جیسے ہی سلیم نے دیکھے تو جھٹ سے کہہ دیا کہ مجھے اس طرح کے بوٹ بالکل پسند نہیں مجھے نفرت ہے ایسے جوتوں سے ثاقب جو صبح سے ہر ایک سے اپنے جوتوں کی تعریف سن چکا تھا سلیم کی بات سن کر ایک دم اس کا دل ٹوٹ گیا اس نے سلیم کو تو کچھ نہ کہا مگر اسے سلیم کی یہ بات بہت بری لگی۔

سلیم کی آمی نے آج سب گھروالوں کی پسند سے تڑکے والی دال پکائی تھی سن نے بہت شوق اور محبت سے کھانا کھایا مگر جب سلیم سکول سے گھر آیااور امی نے اس کے لئے کھانا نکال کر اس کے سامنے رکھا تو سلیم نے نفرت سے منہ بسورتے ہوئے کہا امی آپ کو پتا ہے کہ مجھے دال سے نفرت ہیں آپ دال کیوں پکالیتی ہیں اٹھالیں کھانا میں نہیں کھاؤں گا سلیم گھر میں سب سے چھوٹا تھا اس لئے اس کی بات کا کوئی برا نہیں مانتا تھااس کی امی نے دال اس کے سامنے سے اٹھالی اور اسے کھانے کے لئے آملیٹ بنادیا سلیم نے کھانا کھایا اور سو گیا شام کو سلیم اپنا ہوم ورک کرنے کے بعد اپنی خالہ کے گھر چلا گیا اس کی خالہ کا گھر ان کی گلی میں ہی تھا وہ اکثر فرصت کے اوقات میں اپنے خالہ زاد بہن بھائیوں کے ساتھ کھیلنے چلا جاتا تھا آج جب خالہ کے گھر گیا تو اس نے دیکھا کہ اس کے خالو کافی سارا پھل لے کر آئے ہوئے ہیں اور خالہ باورچی خانے میں بیسن پر کھڑی پھلوں کو دھو دھو کر ٹوکری میں رکھ رہی ہیں انہوں نے جب سلیم کو دیکھا تو اسے بھی ایک پلیٹ میں رکھ کر کچھ پیش کیے مگر سلیم نے تکبر سے منہ سکیڑ لیا اور کہنے لگا کہ خالہ جی میں پھل پسند نہیں کرتا مجھے پھلوں سے نفرت ہے خالہ کو سلیم کی بات سخت ناگوار گزری مگر انہوں نے اسے پیار سے کہا کوئی بات نہیں بیٹا آپ کوئی چیز کھالیں زندگی کے ماہ سال گزرتے گئے سلیم اور اس کا دوست بابر اور خالہ زاد عمران تینوں اب سکول اور کالج کی تعلیم سے فارغ ہوکر نوکریاں کی تلاش میں تھے عمران کے والد نے تو تجارت کو مقدم سمجھتے ہوئے نوکری کی بجائے عمران کو ایک دکان کھول دی اللہ نے برکت بھی خوب دی اس کی دکان چل نکلی اور وہ اطمنیان سے دکانداری کرنے لگا۔

goeunbyul ki diary..!Tahanan ng mga kuwento. Tumuklas ngayon