"تجھے دھڑکنوں میں سنا کروں"

De Tehseenrana456

4.1K 261 135

پاکیزہ محبتوں میں گندھی تحریر۔۔۔ محبت چیز کیا ہے؟؟ کیا عشق حاصل ہو جاتا ہے۔۔۔؟؟ کیا حاصل اور کیا لا حاصل آخر... Mais

"تجھے دھڑکنوں میں سنا کروں"
"تجھے دھڑکنوں میں سنا کروں"
"تجھے دھڑکنوں میں سنا کروں"
"تجھے دھڑکنوں میں سنا کروں"
"تجھے دھڑکنوں میں سنا کروں"
"تجھے دھڑکنوں میں سنا کروں"
"تجھے دھڑکنوں میں سنا کروں"
"تجھے دھڑکنوں میں سنا کروں"

"تجھے دھڑکنوں میں سنا کروں"

242 22 22
De Tehseenrana456

قسط نمبر 7:
تحسین راجپوت📝

نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے
وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا میں باہر جاؤں کس کے لیے

جس دھوپ کی دل میں ٹھنڈک تھی وہ دھوپ اسی کے ساتھ گئی
ان جلتی بلتی گلیوں میں اب خاک اڑاؤں کس کے لیے

وہ شہر میں تھا تو اس کے لیے اوروں سے بھی ملنا پڑتا تھا
اب ایسے ویسے لوگوں کے میں ناز اٹھاؤں کس کے لیے

اب شہر میں اسکا بدل ہی نہیں کوئی ویسا جان غزل ہی نہیں
ایوان غزل میں لفظوں کے گلدان سجاؤں کس کے لیے

مدت سے کوئی آیا نہ گیا سنسان پڑی ہے گھر کی فضا
ان خالی کمروں میں ناصرؔ اب شمع جلاؤں کس کے لیے

ناصر کاظمی

ھدا پیروں تک آتا سیاہ پلین فراک میں ملبوس ساتھ چوڑی دار پاجامہ پہنے "ووڈ ہاٶس" کی چھت پر ٹہل رہی تھی۔ تراشیدہ گولڈن بال کندھوں پر بکھرے تھے، آنکھیں ویران تھیں۔ جنوری ختم ہونے کو تھا اور فروری کے شروع ہونے میں دو دن باقی تھے۔۔اور پھر اسکی کلاسس اسٹارٹ ہو جانی تھیں۔۔فارس کو گٸے ہوۓ تقریباً دو ماہ ہونے کو آۓ تھے۔۔
"وہ چلا تو گیا ہے لیکن اپنے ساتھ کی طلب میرے دل میں بڑھا گیا ہے، یہ دل میری کیوں نہیں سنتا، صرف اسی کے راگ الاپتا ہے افف" وہ منہ میں بڑبڑاٸی تھی۔۔اس نے ریلنگ پر سختی سے ہاتھ جماۓ تھے، اس لوہے کی بے حد ٹھنڈی ریلنگ نے اس کے گلابی ہاتھوں کو چند لمحوں میں سرخ کیا تھا۔۔نظریں آسمان پر جمی تھیں۔۔
"کیونکہ دل ہمہ وقت اسی کی چاہ کرتا ہے تو اسکی طلب کیسے ختم ہو ھدا نور اور جب طلب بڑھتی ہے تو دل کو کہیں سکون میسر نہیں آتا، بس دل چاہتا ہے کہ محبوب نظروں سے کبھی اوجھل نہ ہو " پاس ہی کوٸی بڑبڑایا تھا۔۔پھر خود ھدا نے اپنے بے تحاشا دھڑکتے دل پر ہاتھ رکھا تھا۔۔اور فلک پہ پھیلے چارسُو نیلے رنگ کو دیکھ رہی تھی۔۔جیسے کسی کی تلاش کر رہی ہو، جیسے وہ آسمانوں میں کہیں چھپ کر بیٹھا ہو، جو دکھاٸی نہ پڑتا ہو۔۔۔
ھدا نے چلتے چلتے گہری سانس ٹھنڈی فضا کے سپرد کی تھی۔۔
ریلنگ سے ہٹ کر اب نیچے جاتی سیڑھیوں پہ آ بیٹھی تھی، نظریں ہنوز آسمان پہ ٹکی تھیں،
"اور پھر محبوب بھی وہ ہونا چاہیے نا جسکو فنا نہ ہو فنا تو دنیا کی ہر چیز کو ہے وہ چاہے انسانی رشتے ہوں یا جان سے عزیز محبوب، عشق تو پھر لازوال سے ہونا چاہیے جسے کبھی زوال نہ آۓ جو روح میں موجود بے چینیوں کو ختم کرے وہ تو پھر ایک ہی "ذات" ہے کیا مجھے اسکا عشق مانگ لینا چاہیے" دل نے پھر سے حلق کے قریب بڑبڑاہٹ کی تھی۔۔۔ھدا کا دل پسلیوں میں سکڑ کر سمٹا تھا۔۔اس نے سر جھٹکا تھا۔
اسے یاد تھا کہ صرف دو بعد فارس کی سالگرہ ہے، وہ اس دن ہر کام اسکی پسند کا کرنا چاہتی تھی۔اور اپنے ہاتھوں سے کرنا چاہتی تھی۔جانتی تھی بے شک دل میں کسی اور کو بساۓ ہوۓ ہے لیکن اسکے نکاح میں ”میں“ ہوں، وہ اس رشتے کو فراموش نہیں کر سکتا۔۔جلد یا بدیر لوٹ آٸیگا بس شرط یہ ہے کہ میرا بن کر لوٹے۔۔۔مجھ میں کسی اور کی شبیح تلاش نہ کرے۔۔
نکاح بھی کیسا پاکیزہ رشتہ ہے عورت کو یقین دلا دیتا ہے کہ وہ بے شک دیر سے لوٹے لیکن پلٹے گا ضرور۔۔۔
دور کہیں عشا کی اذانیں شروع ہو گٸیں تھیں اور وہ نیچے آ گٸی تھی جانتی تھی کہ اس ذات کے سوا دل کا درد کوٸی دور نہیں کر سکتا۔۔۔بے شک وہی ذات ٹوٹے ہوۓ دلوں اور بکھرے ہوۓ وجود کو سمیٹ سکتی ہے۔۔۔

**********
وہ باٸیس گھنٹوں کی لمبی فلاٸٹ کے بعد واشنگٹن سے سیدھا لاہور اٸیر پورٹ پر اترا تھا، سفید پلین شرٹ کے اوپر اسکن جیکٹ ساتھ بلیو جینز پہنے آنکھوں پر اسٹاٸلش سے گاگلز لگاۓ ایک ہاتھ میں اسمارٹ سا سلور فون پکڑے اور دوسرے ہاتھ سے بیگ کو گھسیٹتے وہ اٸیر پورٹ سے باہر نکلا تھا۔حسین ہیزل سبز آنکھیں گلاسس کے پیچھے چھپی تھیں۔زندگی میں پہلی بار وہ پاکستان آیا تھا نا جانے کیوں اس پاک زمین پر پاوٴں رکھتے اس کا دل بری طرح سے دھڑکا تھا۔۔دل اپنی جگہ بے حد اداس تھا۔۔وہ پلا بڑھا واشنگٹن میں تھا تو وہی اسے اپنا وطن لگتا تھا لیکن یہاں لاہور کی نگری میں پھیلی روشنی اور خوش کن فضا اسکا دل دھڑکا رہی تھی۔۔
ائیر پورٹ کی راہداری سے نکلتے اسے ہر طرف پھیلی شفاف لمبی سڑک دکھائی دی تھی۔۔اور اسکے اطراف میں لگے سرسبز شاداب پودے اور پھولوں نے اسکی صحت پر اچھا اثر ڈالا تھا۔۔۔
چونکہ صبح فجر کے بعد وہ پہنچا تھا اس لیے سڑکوں پر اسے اکّا دکّا لوگ دکھائی دے رہے تھے۔
اس نے دوسرے اطراف میں دیکھا تھا جہاں تھوڑے ہی فاصلے پر موجود سفید لینڈ کروزر اسکا انتظار کر رہی تھی۔۔
وہ ابھی "ہالے ہاوس" کا رخ نہیں کرنا چاہتا تھا اسکا ارادہ سیدھا اپنے خریدے ہوئے اپارٹمنٹ میں جانے کا تھا۔۔اعظم صاحب نے اس کے پہنچنے سے پہلے اسکے لیے پوش ایریا میں ویل فرنشڈ اپارٹمنٹ، گاڑی اور ڈراٸیور کا بندوبست کر دیا تھا۔۔
"سلام مصطفیٰ صاحب! سفر خیریت سے گزرا آپکا؟ میں نادر علی خان، اعظم صاحب نے پاکستان میں آپکی دیکھ بھال کے لیے مجھے معمور کیا ہے۔" نادر علی خان نے بڑے مٶدب انداز میں سینے پر ہاتھ رکھتے ہوۓ سلام پیش کیا تھا اور اپنا تعارف کروایا تھا۔۔
مصطفیٰ نے سر ہلا کر مسکراتے ہوۓ جواب دیا تھا۔
"سفر اچھا رہا نادر علی خان" تم کیسے ہو؟؟ وہ گاڑی میں بیٹھتے ہوۓ گویا ہوا تھا۔۔مصطفیٰ میں لاکھ براٸیاں صحیح لیکن وہ سب کے ساتھ اخلاق کا بہت اچھا تھا۔۔۔
"میں ٹھیک صاحب!! اچھا بتاٸیں ناشتہ گھر جا کر کریں گے یا یہیں باہر سے کرواٶں آپکو۔۔۔ ہمارے لاہور کی نہاری بڑی مشہور ہے جی۔۔زندہ دلوں کا شہر ہے جی ہمارا سوہنا لاہور" نادر علی خان کچھ زیادہ ہی محبِ وطن تھا گاڑی کو سڑک پر ڈالتے اپنے وطن کی تعریفیں شروع کر چکا تھا۔۔۔
"نہیں نادر علی ابھی گھر چلو باہر سے ناشتہ میں پھر کسی دن کرونگا" وہ سڑک پہ موجود حیرانگی سے آٹو رکشے دیکھ کر بولا تھا۔۔۔جو دھواں اڑاتے اور اپنی بے ہنگم آواز سنسان سڑکوں پر ڈالتے کسی سواری کی تلاش میں نکل چکے تھے۔۔۔
تقریباً آدھے گھنٹے میں گاڑی گلبرگ فیز ایچ میں داخل ہوٸی تھی جہاں مصطفیٰ کے لیے اپارٹمنٹ تیار تھا۔۔۔
***********
صبح چار بجے ٹور پر موجود گاڑیوں نے سب لڑکیوں کو بحفاظت ساتھ لیے واپسی کا سفر شروع کیا تھا۔گاڑیاں بل کھاتے روڈز پر حسین وادیوں کو پیچھے چھوڑتی جا رہی تھی۔ ہالے اور آویزہ کے اس خوبصورت سفر کا اختتام ہو چکا تھا اور گاڑی لاہور کی جانب تیزی سے بڑھ رہی تھی۔۔سب لڑکیاں گزرتی سڑکوں پر ساتھ ساتھ چلتے حسین، بلند و بالا پہاڑوں کو جاتے لمحات میں قید کر رہی تھیں اور کچھ اپنی سہیلیوں کے کندھوں پر سر رکھے اونگھ رہی تھیں۔۔
آویزہ وہیں سے ایبٹ آباد اپنی حویلی چلی گٸی تھی اور ہالے سے ناراض بھی تھی کہ وہ اسکے ساتھ اسکے گھر نہیں گٸی تھی۔جبکہ واپسی کا سفر اکیلے طے کرتے ہالے بری طرح آویزہ کو مِس کر رہی تھی۔۔
ہالے کا دل ان وادیوں کو چھوڑنے پر بے حد اداس تھا۔۔۔
ہالے اپنے موباٸل میں قید مناظر کو بار بار دیکھ چکی تھی۔۔اور اب سر پر دوپٹہ اوڑھے بالوں کو قید کرتے قرآنی آیات پڑھنا شروع کر چکی تھی۔

***********
اگلی صبح ڈھیر سارا آرام کرنے کے بعد مصطفیٰ نے تقریباً سہ پہر کے وقت یوسف صاحب کے گھر کا رخ کیا تھا۔۔۔وہ گرے پینٹ کے ساتھ بلیک لاٸننگ والی شرٹ کے اوپر اسکن جیکٹ میں ملبوس تھا۔۔سلکی بال ماتھے پر گرے تھے اور بڑی سبز آنکھیں بے حد روشن تھیں۔۔
یوسف صاحب نے اسے کھلے دل سے خوش آمدید کہا تھا اور اسے لیے اندر کی جانب بڑھے تھے۔۔زینب بیگم نے اسے دیکھتے ہی اپنے بازو وا کیے تھے۔۔وہ ایسا نہیں تھا کہ سب کے گلے ملتا لیکن زینب بیگم کے چہرے پر پھیلی نورانیت اور محبت کو دیکھ کر وہ انکی کھلی باہوں میں سمایا تھا۔۔بھاٸی کی اولاد کو گلے لگاتے زینب بیگم کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوۓ تھے۔اور پھر ان سے علیحدہ ہوتے مصطفیٰ نے انکے ماتھے پر بوسہ دیا تھا۔۔۔
"میری پیاری خالہ" وہ دھیرے سے بولا تھا۔۔۔
آٶ بیٹا اندر آجاٶ۔۔وہ دونوں اسے لیے لاٶنج میں داخل ہوۓ تھے۔۔
نفاست سے سجے ہوۓ لاٶنج نے مصطفیٰ کی طبیعت پر اچھا اثر ڈالا تھا۔۔۔زینب بیگم کچن کی طرف بڑھی تھیں جبکہ یوسف صاحب اس سے باتیں کرنے لگے تھے۔لاٶنج میں نصب دو فوٹو فریمز پر مصطفیٰ کی نظریں بار بار بھٹک رہی تھیں۔۔۔ جس میں ایک تصویر میں زینب اور یوسف صاحب کھڑے تھے جبکہ دوسری میں ہالے اپنے بھاٸیوں کے درمیان کھڑی مسکرا رہی تھی۔۔
مصطفیٰ حیران تھا کہ اسکی نظریں اس تصویر میں بار بار کس جانب اٹھ رہی ہیں اور دل کے نچلے خانوں میں ہلکی سے سرگوشی ہوٸی تھی۔"اسکی معصوم مسکراہٹ" مصطفیٰ نے سر جھٹکا تھا۔۔۔
محبت کی نٸی کونپل شاید پھوٹنے کو تھی۔۔

*************
"ہالے بیٹا اٹھ جاٶ۔۔اب تو تقریباً رات ہو چکی ہے۔۔چلو شاباش اٹھو کچھ کھا لو پھر سو جانا" زینب بیگم اسکے بالوں کو سہلاتے اٹھا رہی تھی۔۔۔وہ جو ایبٹ آباد سے آ کر اگلی شام تک سو رہی تھی۔۔
"اوں ہوں ماما اٹھا ہی نہیں جا رہا، بہت تھکن ہے" وہ انکی گود میں سر رکھتے بڑبڑاٸی تھی۔۔
"اچھا چلو اٹھو فریش ہو جاٶ تب تک میں نماز پڑھ لوں پھر مل کے کھانا کھاتے ہیں" وہ اس کا سر تکیے پر رکھتے ہوۓ بولی تھیں۔۔۔
ہالے نے برا سا منہ بنایا تھا لیکن اسے اٹھ کر اپنے ماما بابا کو اپنے ٹور کی سٹوریز سنانا تھیں۔۔۔
کبھی کبھی حسین وادیاں انسان کی طبیعت پر بہت اچھا اثر ڈالتی ہیں۔۔اور یہی ہالے کے ساتھ ہوا تھا اسکا دل بے حد مطمٸن تھا۔۔۔
ہالے اپنے بال سمیٹتے ہوۓ اٹھ کر بیٹھی تھی۔ مسلسل لیٹے رہنے کی وجہ سے کمر میں شدید درد تھا، اور کنپٹیوں میں بھی ہلکا ہلکا درد محسوس ہو رہا تھا۔۔
وہ ہمت کر کے فریش ہوٸی تھی۔ اور ڈھیلا سا بلیک ٹراٶزر شرٹ پہنا تھا اور اوپر اونی شال لپیٹے وہ باہر آگٸی تھی۔۔۔
وہ کچن کی طرف بڑھ رہی تھی کہ اسے اپنی ماما کی آواز کے ساتھ ایک اور آواز آ رہی تھی۔۔جو اسکے بابا کی ہر طرف نہیں تھی۔۔
"جو کوٸی بھی تھا بے حد نفیس، خوبصورت اور گہرے لہجے کا مالک تھا، بے حد فاٸن اردو بولتا ہوا" وہ دل ہی دل میں حیران ہوٸی تھی۔۔مصطفیٰ کا خیال تو اسکے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔۔۔
وہ چلتی ہوٸی کچن میں آٸی تھی جہاں کا منظر ہی الگ تھا، ماما کرسی پر بیٹھی مسکرا رہی تھیں۔۔جبکہ وہ پرفیکٹ لباس کے اوپر ایپرن پہنے بڑے ماہر انداز میں کٹنگ بورڈ پر سبزیاں کاٹنے میں مصروف تھا۔۔چونکہ ہالے کی طرف مصطفیٰ کی پشت تھی اس لیے وہ اسکا چہرہ نہیں دیکھ سکی تھی۔۔۔
"ارے ہالے بیٹا، وہاں کیوں کھڑی ہو یہاں آٶ دیکھو مصطفیٰ آیا ہوا ہے اور دیکھو مجھے کوٸی کام بھی نہیں کرنے دے رہا" زینب بیگم نے ہالے کو دیکھتے ہوۓ کہا تھا۔۔۔مصطفیٰ نے بھی پلٹ کر اسے دیکھا تھا۔۔ہیزل گرین آنکھوں کی روشنی ایک دم بڑھی تھی اور پھر اپنے مخصوص انداز میں پلٹ گٸیں تھیں۔۔۔
اور ہالے نے اپنی گہری براٶن آنکھوں سے اسکا جاٸزہ لیا تھا اور دل میں کہا تھا۔۔"بندہ تو بڑا ہینڈسم ہے" اور آگے بڑھی تھی جہاں وہ تقریباً ساری سبزیاں کاٹ چکا تھا۔۔
"ہیلو سلام آداب حسین لڑکی کیسی ہیں آپ؟" وہ مسکراتے لہجے میں گویا ہوا تھا۔۔۔جبکہ اسکے طرزِ تخاطب پر ہالے کے گال ہلکے سرخ ہوۓ تھے۔۔
"میں ٹھیک آپ کیسے ہیں؟" وہ جھجکتے ہوۓ بولی تھی۔۔
"میں تو بالکل ٹھیک ہوں لیکن آپکا گلا لگتا ایبٹ آباد کی ساری سردی ساتھ لے آیا ہے" وہ اسے ایک نظر دیکھتے ہوۓ بولا تھا۔۔
"ہاں وہ بس۔۔۔وہاں شدید سردی تھی تو اسلیے تھوڑا خراب ہو گیا ہے" اس نے نرم لہجے میں جواب دیا تھا۔۔جبکہ دل ہی دل میں حیران تھی کہ یہ ساری باتیں اماں سے جان چکا ہے کہ میں ٹور پر گٸی تھی اور یہ بھی کس علاقے میں،،،
"مصطفیٰ بیٹا آپ رہنے دو باقی میں کر لیتی ہوں آپ بیٹھو وہاں چلو شاباش" زینب بیگم اٹھتے ہوۓ شیلف کے پاس آٸی تھیں۔۔
"ارے خالہ جان مجھے تو عادت ہے اور دیکھنا میں کیسا مزے کا پاستہ بناتا ہوں کہ آپ کو مزا آجاٸیگا" وہ کیا کہتے ہیں آپ لوگ کہ آپ انگلیاں چاٹتی رہ جاٸینگی بلکہ پلیٹس چاٹتی"۔۔۔وہ مسکراتے ہوۓ انہیں دوبارہ سے چیٸر پر بٹھا چکا تھا۔۔ہالے بھی مسکراٸی تھی۔۔۔
"ہالے چلو تم ہی تھوڑی ہیلپ کر دو مصطفیٰ کی مجھے تو یہ کوٸی کام کرنے نہیں دے رہا" وہ ہالے سے کہہ رہی تھیں۔۔جبکہ مصطفی ساس پین میں آٸل ڈال چکا تھا۔۔۔
" ارے نہیں خالہ جان، ہالے آپ بس جو جو چیزیں میں کہہ رہا ہوں وہ یہاں رکھ دو باقی میں کر لونگا" وہ اپنے مضبوط لہجے میں بولا تھا۔۔۔
کچھ ہی دیر میں واٸٹ ساس پاستہ تیار تھا۔۔اور وہ تینوں مزے سے لاٶنج میں بیٹھے انجواۓ کر رہے تھے۔۔۔ہالے بھی اسکی باتوں پر ہنس رہی تھی۔۔۔اور وہ زینب بیگم کو اپنے بازو کے حلقے میں لے کر باتیں سنا رہا تھا جس پر مسکرا رہی تھیں۔۔کبھی کبھی نظر ہالے کی معصوم مسکراہٹ پر بھی ڈال لیتا تھا۔۔۔
************
ھدا کمرے میں جلے پیر کی بلی کی طرح گھوم رہی تھی۔۔اور تقریباً بارہ بجنے کو تھے اور فارس کی برتھڈے شروع ہونے والی تھی۔۔۔وہ اسے مبارکباد دینا چاہتی تھی لیکن فارس کے خراب موڈ کا سوچتے ہوۓ وہ بار بار رک جاتی تھی۔۔وہ کمرے کے ٹیرس پر آگٸی تھی۔۔ٹیرس کی سرد ہواٶں نے اسے خوش آمدید کہا تھا۔۔۔آخر کار اس نے بارہ بجتے ہی دھڑکتے دل کے ساتھ اسے کال ملاٸی تھی۔۔
"محبت میں یہ دل بڑا ذلیل کرواتا ہے انسان کو، اور ھدا اس دل کے ہاتھوں کوسوں بار ذلیل ہوٸی تھی"
"ییس فارس جہانگیر ہیٸر !! دوسری بیل پر ہی کال اٹھا لی گٸی تھی۔۔۔جب سے وہ گیا تھا آج پہلی بار ھدا اس سے بات کر رہی تھی۔۔۔اسکی آواز پہ دل بے تحاشا دھڑکا تھا۔۔۔
"ہیپی برتھڈے ماٸی ڈیٸر! سالگرہ کی خوشی مبارک ہو۔۔مے اللہ گِوز یو مور ہیپی نیس آہیڈ آمین" وہ اپنے خوبصورت لب و لہجے میں گویا ہوٸی تھی۔۔اور رواں رواں اسکا جواب سننے کا منتظر ہو گیا تھا۔۔
"شکریہ ھدا نور، تمہیں یاد تھا" وہ نارمل لہجے بولا تھا اور ھدا نے حیران نظروں سے فون کان سے ہٹا کر دیکھا تھا جیسے سامنے فارس ہو اور وہ اسے دیکھ رہی ہو۔۔۔
"مجھے آپ سے ریلیٹڈ ہر بات یاد رہتی ہے فارس" وہ رِندھے ہوۓ لہجے میں بولی تھی۔۔۔
"پتہ کیا ھدا مجھے کبھی کبھی بڑا ترس آتا ہے تم پہ، تمہارے خالص جذبات پہ، تمہاری محبت پہ، تمہارے دل پہ جو تم نے میرے نام کر رکھا ہے، اور پھر جوگ بھی لیا ہے اس محبت میں، یہ محبت بڑی ظالم ہے سچ میں" وہ نارمل لہجے میں کہہ رہا تھا جبکہ ھدا کو اسکا لہجہ طنزیہ لگا تھا۔۔۔۔
"اس وقت محبت نہیں آپ ظالم لگ رہے ہیں فارس، میری محبت، میرے جذبات اور میرا دل اتنا عام نہیں ہے جس پر آپ ترس کھا رہے ہیں۔۔میری محبت تو بہت خاص ہے بہت خاص" اسکی آواز رندھ گٸی تھی۔۔۔اور فارس کو احساس ہوا تھا کہ اس نے نازک لڑکی کا دل دکھا دیا تھا۔۔۔
"آہ، ھدا میں تمہارا دل نہیں دکھانا چاہتا تھا۔ میرا مقصد تمہیں ہرٹ کرنا نہیں تھا وہ بس۔۔۔۔" وہ خاموش ہوا تھا جیسے لفظ نہ مل رہے ہوں۔۔۔
"آپ تو ہمیشہ میرا دل دکھاتے ہیں، ہمیشہ میرے جذبات کو میرے منہ پر مارتے آۓ ہیں۔۔محبت تو آپ نے بھی کی تھی نا بے شک وہ مجھ سے نہیں تھی۔۔" وہ آسمان پہ بادلوں میں چھپتے چاند کو دیکھ کر گویا ہوٸی تھی۔۔۔
دونوں طرف بولتی ہوٸی خاموشی چھا گٸی تھی۔۔۔اور حسین اتفاق یہ تھا کہ وہ دونوں اس وقت آسمان کو گھور رہے تھے۔۔۔
"آپ کل آٸینگے اسلام آباد۔۔۔؟؟" وہ کچھ دیر بعد گویا ہوٸی تھی۔۔
"کیا مجھے آنا چاہیے۔۔۔؟؟" فارس اب کی بار اسکا دل نہیں توڑنا چاہتا تھا۔۔
"آنا تو چاہیے، آخرکار ہم سب سے پہلے کزنز ہیں، آپکو یاد ہے ہماری کتنی اچھی دوستی تھی نا۔۔۔ایک نٸے رشتے نے وہ دوستی بھی ختم کر دی" وہ نرم لہجے میں بول رہی تھی۔۔۔فارس اسے سن رہا تھا۔۔۔
"کیا وہ دوستی دوبارہ سے نہیں ہو سکتی؟؟" مجھے بہت افسوس ہے کہ ان نٸے جذبات نے مجھ سے میرا بہت اچھا دوست چھین لیا" وہ سرگوشیانہ لہجے میں بولی تھی۔۔۔
"ہوں۔۔۔دوستی تو بہت اچھی تھی ہماری۔۔لیکن بس بڑوں کے فیصلے کبھی کبھی رشتوں کی خوبصورتی کو ختم کر دیتے ہیں" وہ بھاری لہجے میں بولا تھا۔۔۔
"اچھا چھوڑیں بتاٸیں نا آپ کل آٸینگے نا۔۔" وہ لاڈ سے پوچھ رہی تھی۔۔۔اسکے لہجے میں شاید وہی پہلے والی دوستی کا مان بول رہا تھا۔۔۔
"اوکے ھدا ویسے تو میں شہر سے بہت دور ہوں، لیکن اپنی پرانی والی دوست کی خوشی کے لیے ضرور آجاٶنگا" وہ ہلکا سا مسکراتے ہوۓ بولا تھا۔۔۔اور ھدا کے چہرے پر دیدنی خوشی اتری تھی۔۔
اور وہ کچھ دیر مزید بات کرتے رہے تھے۔۔۔اور پھر فون بند ہوا تھا۔۔۔
ھدا کا دل بے تحاشا خوش تھا کہ دوست واپس مل گیا تو شوہر بھی مل جاٸیگا۔۔۔
شادی شدہ زندگی میں دوستی ہونا بہت ضروری ہے۔۔دوستی آپکے رشتے کو مزید مضبوط بنا دیتی ہے۔۔۔اور نوک جھونک تو اس رشتے کا خاصہ ہے۔۔۔

وہ لوٹ آنے کو تھا
سرد موسم کی ہواٶں کی طرح

محبت رقص کرنے کو تھی
سمندر پر بکھری لہروں کی طرح

چڑیاں چہچہانے لگی تھیں
صبح میں پھیلتے نور کی طرح

ستارے مزید گوہر پھیلانے لگے تھے
رات میں بکھری سیاہی کی طرح

دل میں محبت پنپنے لگی تھی
گالوں پر پھیلی سرخی کی طرح

آنکھوں میں دیے جلنے لگے تھے
شبِ برات میں پھیلی چار سُو روشنیوں کی طرح

تحسین منزل ملنے کو تھی اسے
آخری پناہ گاہ کی طرح

وہ لوٹ آنے کو تھا
سرد موسم کی ہواٶں کی طرح

تحسین راجپوت

************
"کیا میں اندر آ سکتا ہوں ہالے۔۔۔؟؟" وہ "پھول نگری" کا شہزادہ اور انگلینڈ کی ساری خوبصورتی کو اپنی ہیزل آنکھوں میں سمیٹ کر چلنے والا ہاتھوں میں کافی کے مگز تھامے اس ایشین بیوٹی سے اندر آنے کی اجازت مانگ رہا تھا۔۔۔
"آپ۔۔۔آ۔۔۔آٸیے نا پلیز۔۔۔"ہالے جو مزے سے بیڈ پر اوندھی لیٹی موباٸل سے لیپ ٹاپ میں تصویریں کنورٹ کر رہی تھی۔۔۔جلدی سے سیدھی ہوٸی تھی۔۔۔
"تھینک یو۔۔۔مجھے نیند نہیں آ رہی تھی تو میں نے سوچا کافی بنا کر اپنی حسین سی کزن کے ساتھ باتیں کر لیتا ہوں" وہ اسکی طرف کافی کا مگ بڑھاتا بڑے فرینکلی انداز میں بولا تھا۔۔۔
ہالے نے مسکراہٹ کے ساتھ کافی کا مگ تھاما تھا۔۔۔۔اور پھر لیپ ٹاپ لیے اسکے پاس فاصلے پر صوفے پر آ بیٹھی تھی۔۔۔
"یہ دیکھیں میرے ٹور کی پِکس۔۔۔اور یہ میری بیسٹ فرینڈ اور سولمیٹ آویزہ طراب خان" ہالے پرجوش انداز میں اسے تصویریں دکھا رہی تھی۔۔
مصطفیٰ مسکراتے ہوۓ اسکے پرجوش انداز اور اسکی معصوم مسکراہٹ کو دیکھ رہا تھا۔۔۔
اپنے ٹور کے قصے سناتے ہوۓ اور آویزہ کے غصے کا بتاتے ہوۓ وہ دونوں ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو چکے تھے۔۔۔۔
پھر خاموشی چھا گٸی تھی۔۔۔
"کافی بہت اچھی تھی۔۔۔بہت مزا آیا"۔۔۔۔ہالے مگ ٹیبل پر رکھتے ہوۓ بولی تھی۔۔۔
"ہاں میں بھی سوچ رہا تھا کہ حسین لڑکی نے تعریف نہیں کی۔۔حالانکہ میری کافی کا تو پورا واشنگٹن فین ہے" وہ مسکراتے ہوۓ بولا تھا۔۔۔
"اب اتنی بھی اچھی نہیں تھی کہ پورا واشنگٹن فین ہو" وہ ناک سکیڑتے ہوۓ بولی تھی۔۔۔
" آہاں لڑکی نہ مانو تم۔۔لیکن یہ کافی ہی میرا زریعہ معاش ہے وہاں میں ایک کافی شاپ چلاتا ہوں، غریب سا بندہ ہوں ایسے ہی گزارہ کرتا ہوں" مصطفیٰ فل سیریس انداز میں بتا رہا تھا۔۔۔لیکن ہیزل آنکھوں میں شرارت پنہاں تھی۔۔۔
ہالے ایسے بڑی بڑی حیران آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔جیسے سچ کہہ رہا ہو۔۔۔
"کیا واقعی سچ کہہ رہے ہیں یقین نہیں آتا، اتنا ہاٸی فاٸی بندہ اور ایک کافی شاپ" وہ منہ میں بڑبڑاٸی تھی۔۔۔اور وہ اسکی بڑبڑاہٹ سن چکا تھا۔۔۔
"نٸیں جی اتنا برینڈڈ سب کچھ، یہ قیمتی فون، وہ پوش ایریے میں فلیٹ اور باقی سب کچھ میں نہیں مان سکتی کہ آپ ایک کافی شاپ چلاتے ہیں۔۔۔ہالے شاید کافی شاپ کو چاۓ والا کھوکھا سمجھ رہی تھی جیسے پاکستان میں چاۓ والا بمشکل اپنا گزارہ کرتا ہے۔۔۔۔لیکن معصوم یہ نہیں جانتی تھی کہ اس ترقی یافتہ ملک میں ایک کافی شاپ والا اچھا خاصا امیر بندہ ہوتا ہے۔۔۔
مصطفیٰ اسکی معصومیت پر عش عش کر اٹھا تھا۔۔۔
"اچھا لڑکی، بات سنو مجھے اپنا لاہور گھماٶ میں نے سنا ہے کہ لاہور بہت خوبصورت شہر ہے" مصطفی اسکی براٶن آنکھوں میں جھانکتے ہوۓ بولا تھا۔۔۔
"کل تھرسڈے ہے تو ہم صبح صبح داتا دربار جاٸینگے وہاں ہر تھرسڈے لنگر بانٹا جاتا ہے، کہتے ہیں اس میں بڑی شفا اور عافیت ہوتی ہے" ہالے چہرے پر بڑی سنجیدگی سمیٹے اسے بتا رہی تھی جیسے اس وقت اس سے عقلمند کوٸی اور ہو ہی نا۔۔۔۔۔
مصطفیٰ جو بڑے مزے سے اسکی بات سن رہا تھا۔۔"لفظ لنگر" پر حیران ہوا تھا اور یہ لفظ خالصتاً اسکے اوپر سے گزر گیا تھا۔۔۔۔
"اچھا لڑکی میں سوتا ہوں جا کر پھر صبح نکلنا بھی ہے۔۔۔" وہ اٹھتے ہوۓ بولا تھا۔۔۔
"اچھا سنیں یہ لڑکی کیا ہوتا ہے، میرا نام "ہالے نور یوسف" ہے نا کہ یہ لڑکی وہ لڑکی ۔۔۔۔۔" وہ منہ بسورتے ہوۓ بولی تھی۔۔۔ اور وہ دروازے سے پلٹا تھا۔۔۔۔اور خشمگیں نگاہوں سے اسے گھورا تھا۔۔۔مطلب کچھ بھی برا لگ سکتا ہے ان ایشین بیوٹیز کو۔۔۔وہ دل میں بولا تھا۔۔۔۔اسے شرارت سوجھی تھی۔۔۔
"اور یہ "اچھا سنیں" کیا ہوتا ہے میرا نام "مصطفیٰ اعظم" ہے۔۔۔نا کہ اچھا سنیں۔۔۔۔" وہ چہرے پر معصومیت لاتے بولا تھا۔۔۔۔
دونوں نے ایک دوسرے کی نگاہوں میں دیکھا تھا اور دونوں ہی کھلکھلا دیے تھے۔۔۔
اسکے جانے کے بعد ہالے بیڈ پر آ گٸی تھی، چہرے پر مسکراہٹ تھی۔۔۔
"ویسے اتنا برا بھی نہیں ہے یہ امریکن پلٹ" وہ بڑبڑاٸی تھی۔۔۔۔
دوسری جانب مصطفیٰ بیڈ پر لیٹا تھا اور آنکھوں میں چمک تھی۔۔۔۔
"کتنی معصوم مسکراہٹ ہے اسکی کیوٹ سی" وہ بولا تھا۔۔۔۔

**************
ہر طرف ملگجا سا اندھیرا پھیلا تھا، لاہور کی سڑکوں پر گہرا سکوت چھایا تھا۔۔کچھ رکشہ ڈراٸیورز آنکھوں کو مَلتے ہوۓ اپنی سواریوں کا انتظار کر رہے تھے۔۔۔
صبح کے تقریباً ساڑھے چھ بجے ہالے اور مصطفیٰ  داتا دربار کے باہر کھڑے تھے۔ ہالے پاٶں کو چھوتا سفید ہلکے کام والا فراک پہن رکھا تھا، پاٶں سفید اور گولڈن کھسے میں مقید تھے، دوپٹے کو حجاب کی صورت میں سیٹ کیے وہ بے حد نفیس لگ رہی تھی، مصطفیٰ سفید پلین شرٹ اور بلیو جینز میں ملبوس تھا۔۔
داتا دربار کے صحن میں لوگ سو رہے تھے اور کچھ اٹھ کر نماز ادا کر رہے تھے، اور کچھ مسافر کسلمندی سے پڑے کروٹیں بدل رہے تھے۔۔مصطفیٰ عجیب و غریب نظروں سے انہیں دیکھ رہا تھا۔۔
”یہ کیا کر رہی ہو۔۔۔؟؟“ مصطفیٰ نے اسے بیگ سے ایک شاپر نکالتے دیکھا تھا۔۔اور پھر پاٶں سے جوتا اتار کر اسے اس شاپر میں ڈالتے دیکھ کر حیرانگی سے پوچھا تھا۔۔
”آپ اپنے بھی جوتے اتاریں اور مجھے دیں“ وہ بولی تھی۔۔۔
”کیا مطلب، میں کیوں جوتے اتاروں، ہم ایسے بھی تو اندر جاسکتے ہیں نا؟؟ وہ پوچھ رہا تھا۔۔۔
”یہ پاک جگہ ہے جہاں جوتے پہن کر اندر نہیں جا سکتے۔۔۔اور اگر جوتے باہر اتار کر اندر جاٸینگے تو واپسی پر ننگے پاٶں لاہور کی سڑکوں پر مٹر گشت کرتے ہوۓ گھر جانا پڑے گا“ ہالے نے معصومیت سے جواب دیا تھا۔۔۔۔مصطفیٰ آنکھوں میں بے حد حیرانی سموۓ اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔
”یار ایک تو اس حسینہ کی مشکل اردو، اب یہ مٹر گشت کیا ہوتا ہے“ وہ امریکن پلٹ دل میں بولا تھا۔۔۔
”جلدی کریں ہمیں اندر بھی جانا ہے پھر رش بڑھ جاٸیگا“ ہالے نے اسکے چہرے کے بےحد عجیب و غریب زاویوں سے بمشکل اپنی ہنسی دباٸی تھی۔۔۔
مصطفیٰ نے شوز اتار کر ہالے کے شاپر میں رکھے تھے جبکہ ہالے نے وہ شاپر مصطفیٰ کی جانب بڑھایا تھا۔۔۔۔
”کیا۔۔۔۔؟؟“ مصطفیٰ نے حیرانگی سے وہ جوتوں والا شاپر تھاما تھا۔۔۔
”ہمارے پاکستان میں سارا بھاری سامان مرد حضرات اٹھاتے ہیں“ ہالے نے کہتے ہوۓ اندر کی جانب قدم بڑھاۓ تھے۔۔
جبکہ وہ اسکے ”بھاری سامان“ پر حیران تھا۔۔۔اور دل میں مسکرایا تھا۔۔۔
وہ دونوں داتا دربار کے مرکزی صحن کی طرف بڑھے تھے۔۔۔برآمدے سے گزرتے ہوۓ وہ لوگ اندر آۓ تھے اور پھر دونوں نے وہاں نوافل پڑھے تھے۔۔۔
وہاں بےحد خاموشی اور سکون تھا۔۔مصطفیٰ کی روح تک میں سکون سراٸیت کر گیا تھا۔۔مصطفیٰ وہاں برآمدے کی دیوار سے ٹیک لگاۓ آنکھیں بند کیے ناجانے کیا سوچ رہا تھا،
”کیا وہ انسان جو اندر سے بےحد گندا ہو، جسکی روح پہ کبیرہ گناہوں کی چھاپ ہو، کیا اتنی پاک جگہیں اسکے قابل ہیں کہ وہ وہاں آ سکے“ یہ سوال اسکے دل میں گونجا تھا اور اندر تک بے چینی، بے سکونی اتری تھی۔۔۔۔دل چاہا تھا یہاں سے بھاگ جاۓ،
مصطفیٰ کی آنکھوں میں سرخی اتری تھی شاید وہ آنکھوں میں آۓ آنسو چھپانا چاہتا تھا۔۔۔
اور جلدی سے اٹھ کر باہر صحن میں آ گیا تھا۔۔۔
ہالے نے دعا مانگ کے ارد گرد نگاہ دوڑاٸی تھی لیکن وہ کہیں نہیں تھا۔۔۔وہ باہر آٸی تو وہ باہر صحن میں کھڑا تھا۔۔۔اسکی پرسنیلٹی دیکھ کر ہالے کا دل دھڑکا تھا۔۔۔
”اوہ خدا کیا یہ انسان میرا نصیب ہے“ وہ دل میں گویا ہوٸی تھی۔۔۔
پھر اسکی جانب بڑھی تھی۔۔۔

*************
سردی کی شدت حد سے سوا تھی، لیکن ھدا کو پرواہ کہاں تھی وہ صبح سے کاموں میں مصروف تھی، ھدا نے نوری کے ساتھ مل کر کھانا تیار کیا تھا اور اب کیک بھی تقریباً تیار ہو چکا تھا۔۔۔
”جاٸیں باجی آپ تیار ہو جاٸیں، شام ہونے والی اور صاب جی بھی پہنچنے والے ہونگے، نوری اسے کچن سے بھیجتے ہوۓ بولی تھی۔۔۔ھدا کیک پہ چاکلیٹ ڈالتے ہوۓ اسکی بات پر مسکراٸی تھی...
”نہیں نوری وہ اتنی جلدی نہیں آٸینگے، اور شاید وہ آٸیں ہی نہ۔۔“ ھدا اداسی سے بولی تھی۔۔
”نہیں باجی ایسے نہ سوچیں وہ ضرور آٸینگے“ نوری نے ھدا کے ہاتھ سے چاکلیٹ لیا تھا۔۔۔
”تمہیں پتہ یہ محبت ہے تو دل کے تاروں کو چھیڑنے والی لیکن یہ خوار بڑا کرتی ہے“ وہ منہ میں بڑبڑاٸی تھی۔۔۔پھر اندر کی جانب بڑھی تھی۔۔

بھُلاتا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں
الٰہی! ترکِ الفت پر وہ کیوں کر یاد آتے ہیں

نہ چھیڑ اے ہم نشیں کیفیتِ صہبا کے افسانے
شرابِ بے خودی کے مجھ کو ساغر یاد آتے ہیں

رہا کرتے ہیں قیدِ ہوش میں اے وائے ناکامی
وہ دشتِ خود فراموشی کے چکر یاد آتے ہیں

نہیں آتی تو ان کی یاد مہینوں تک نہیں آتی
مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں

حقیقت کھل گئی حسرت تِرے ترکِ محبت کی
تجھے تو اب وہ پہلے سے بھی بڑھ کر یاد آتے ہیں

(حسرت موہانی)

روم میں آکر ھدا نے اپنا خوبصورت سرخ رنگ کا جوڑا نکالا تھا۔۔جس کے اوپر ہلکا ہلکا گولڈن اور سلور کام تھا، ساتھ ڈل گولڈن اور آف واٸٹ رنگ کا غرارہ تھا، اسکے ساتھ آف واٸٹ ٹشو کا دوپٹہ تھا۔۔جو جوڑے کو مزید چار چاند لگا رہا تھا۔۔۔
ھدا کچھ دیر بعد اس جوڑے میں ملبوس تھی۔۔اس نے تیار ہونے سے پہلے نماز کا احتتام کیا تھا۔۔۔
”جب ہم ہر جگہ تیار ہو کر، اچھے کپڑے پہن کر جاتے ہیں تو پھر ہم اللہ کی بارگاہ میں نٸے کپڑے پہن کر کیوں نہیں جاتے۔۔۔۔“
ھدا نے خشدلی سے نماز ادا کر کے اپنی خوشیاں مانگی تھیں۔۔۔
”ووڈ ہاٶس“ میں ہر طرف رات کی سیاہی بڑھنے لگی تھی۔۔۔ھدا نے بھی سلکی گولڈن بال کندھوں پر ڈالے تھے داٸیں کندھے پر دوپٹہ جو بار بار ڈھلک رہا تھا۔۔۔میک اپ کے نام پر آنکھوں میں کاجل ڈالا تھا اور لبوں پر ڈارک ریڈ لپ اسٹک لگاۓ وہ کوٸی اپسرا معلوم ہو رہی تھی۔۔۔
روم میں سفید کلیوں کی خوشبو پھیلی ہوٸی تھی۔۔دل اسکی آمد پر رقص کرنے کو آمادہ تھا۔۔۔۔آج ھدا فارس اسکے لیے پور پور سجی تھی۔۔۔
وہ بازٶوں کو وا کیے خوشی سے جھومی تھی۔۔۔وہ خوشی سے سرشار ہوتے ناجانے کتنی ہی بار اسکی موجودگی محسوس کر چکی تھی۔۔۔گہری آنکھوں میں دیپ روشن تھے۔۔۔۔
”ھدا باجی آپ بڑی سوہنی لگ رہی ہیں، نوری نے منہ پر ہاتھ رکھے کہا تھا۔۔۔
جبکہ ھدا کے اسٹاٸل پر مسکراٸی تھی۔۔
”نوری گھر کی ساری لاٸٹس جلا دو، باہر لان کی بھی، اور ہر طرف دیے روشن کرو۔۔۔میرا دل گواہی دے رہا ہے کہ وہ بس پہنچنے والا ہے“ وہ بولی تھی۔۔۔محبت کو کھلے دل سے خوش آمدید کہنے والی ھدا نور کو اس دیوانگی میں الہام ہوتے تھے۔۔۔
اور باہر جا کر لکڑی کی بنی ہوٸی راہداری پر دیے جلانے لگی تھی۔۔۔
اور کچھ ہی دیر میں گاڑی کا ہارن بجا تھا۔۔۔اور ھدا کا دل زور سے دھڑکا تھا۔۔۔
اور وہ گاڑی سے اتر کر چہرے پر مسکراہٹ سجاۓ اسکی جانب بڑھا تھا۔۔۔جبکہ ھدا کے گلے میں آنسوٶں کا پھندا اٹکا تھا۔۔۔کچھ ہی دیر میں وہ آمنے سامنے کھڑے تھے۔۔۔
”کیسی ہو ھدا۔۔۔ٹھیک ہو“ فارس نے ایک نظر دیکھنے کے بعد پوچھا تھا لیکن ھدا کو لگا اسکی ساری تیاری اسکی بے رخی کی نظر ہو گٸی۔۔۔
”میں ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں۔۔۔؟ سالگرہ بہت مبارک ہو۔۔“ وہ نرم لہجے میں بولی تھی۔۔
”بہت شکریہ۔۔۔چلو اندر چلتے ہیں۔۔سردی بڑھ رہی ہے“ وہ اندر کی جانب بڑھتے ہوۓ بولا تھا۔۔۔
اندر ٹیبل پر ہر چیز تیار پڑی تھی۔۔
”اتنی تیاری نے مجھے حیران کر دیا کہ تم اتنی سگھڑ ہو اور ہر چیز میری پسند کی ہے واوٶ“ وہ ٹیبل پر پڑے کھانوں کو دیکھتے ہوۓ بولا تھا۔۔۔
”اماں اور دادو کہتی ہیں کہ شادی کے بعد لڑکی خود ہی پھوہڑ سے سگھڑ ہو جاتی ہے، اور ویسے بھی شوہر کے لیے کام کرنے سے اللہ بہت خوش ہوتا ہے“ وہ اتراتے ہوۓ بولی تھی۔۔۔
”چلو آج دیکھ لیتے ہیں بھٸی کہ میری بیوی گھر سے دور رہ کر کتنی سگھڑ ہو گٸی ہے، چلو آٶ کیک کاٹتے ہیں“ فارس نے ھدا کا ہاتھ تھام کر اسے کیک کے پاس کیا تھا۔۔۔۔
جبکہ ھدا کا دل اسکے ”میری بیوی“ کہنے پر اتنی زور سے دھڑکا تھا جیسے ابھی پسلیاں توڑ کر باہر آ جاٸیگا۔۔۔
اس نے بے ساختہ فارس کی آنکھوں میں دیکھا تھا جہاں خوشی رقصاں تھی۔۔۔اور فارس نے اسکی گلابی پڑتی آنکھوں میں دیکھا تھا جہاں چاہت اور دیوانگی کے دیپ روشن تھے۔۔۔
فارس نے ھدا کا ہاتھ تھام کر کیک کاٹا تھا۔۔۔ھدا کا نازک ہاتھ فارس کے ہاتھ تلے دبا تھا۔۔۔وہ اسکے ہاتھ کا لمس اپنے ہاتھ پر بخوبی محسوس کر رہی تھی۔۔
کیک کاٹ کر اس نے تھوڑا پیس کاٹ کر ھدا کے لبوں سے لگایا تھا۔۔۔
ھدا میں ہمت ہی نہیں تھی کہ کیک اسکی طرف بڑھا سکے، گالوں پر سرخی بکھری تھی۔۔۔جسے فارس نے بخوبی نوٹ کیا تھا لیکن ظاہر نہیں ہونے دیا تھا۔۔۔
پھر ان دونوں نے کھانا کھایا تھا، کھانے کے دوران فارس اور وہ اپنے بچپن کے قصے یاد کر کے ہنس رہے تھے۔۔۔
”تم بہت شرارتی ہوا کرتی تھی اففف۔۔۔۔میں تمہاری حرکتوں سے عاجز آ جایا کرتا تھا“۔۔۔وہ بولا تھا۔۔۔
”اور آپ ہمیشہ مجھے اماں کی ڈانٹ سے بچایا بھی کرتے تھے“ وہ میٹھے لہجے میں بولی تھی۔۔۔۔
دونوں طرف خاموشی چھاٸی تھی۔۔۔
”میں نوری سے کہتی ہوں کہ یہ سب اٹھاۓ اور کافی بناۓ۔۔۔“ وہ اٹھتے ہوۓ بولی تھی۔۔۔فارس نے اسکی خاموشی محسوس کی تھی۔۔۔
”اچھا ھدا سنو۔۔۔“ فارس نے اسے پیچھے سے پکارا تھا۔۔۔ھدا کا رُوم رُوم سننے کو تیار تھا۔۔۔وہ مڑی تھی۔۔۔وہ قدم بہ قدم اسکے پاس آیا تھا۔۔۔
ھدا نے نگاہیں اٹھاٸی تھیں۔۔۔
”کیا چچی اور دادو نے یہ بھی سکھایا ہے کہ شوہر کے لیے تیار ہونے سے شوہر کا دل خوش ہوتا ہے“ وہ آنکھوں میں شرارت سمیٹے بولا تھا۔۔۔
”نٸیں۔۔۔جی۔۔۔ہاں۔۔۔۔“ ھدا کے لبوں سے یہ تین لفظ ادا ہوۓ تھے۔۔وہ کانوں تک بلش ہوٸی تھی۔۔۔
”اچھی لگ رہی ہو۔۔۔“ فارس نے سرگوشی کی تھی۔۔۔
اور ھدا نے نظریں جھکاٸی تھیں۔۔۔اور فارس نے یہ منظر دیکھا تھا۔۔۔
میں کافی بنا کر لاتی ہوں آپ ریسٹ کریں۔۔۔۔وہ کہتے ہوۓ کچن کی جانب بھاگی تھی۔۔۔
جبکہ پیچھے فارس کِھلکھلایا تھا۔۔۔۔
حلال رشتوں کی برکت اور دلی اطمینان ہی الگ ہوتا ہے۔۔۔۔یہ بات فارس کو آج معلوم ہوٸی تھی۔۔۔
جبکہ کچن میں پہنچنے تک ھدا کے چہرے پر خون سمٹا تھا۔۔۔

****************
وہ سارا دن مصطفیٰ اور ہالے نے ساتھ گزارا تھا، ہالے نے اسے لاہور کی تقریباً چار، پانچ جگہیں گھماٸی تھیں۔۔۔مصطفیٰ کے چہرے پہ اطمینان تھا۔۔۔
اب وہ دونوں فوڈ اسٹریٹ میں کھڑے تھے، ہر طرف خوش ذاٸقہ اور مزیدار کھانوں کی دکانیں تھیں۔۔۔
ہالے نے گول گپے کھانا اسٹارٹ کیے تھے۔۔۔اور مزے سے اسکا کھٹا پی رہی تھی۔۔۔جبکہ مصطفیٰ پریشانی سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
”اف یار، یہ اتنا کھٹا ہے اور تم کیسے کھا رہی ہو اتنی جلدی جلدی۔۔“ مصطفیٰ نے اسے دوسری پلیٹ منگواتے دیکھ کر کہا تھا۔۔۔
ہالے اسکی بات سن کر کھل کر ہنسی تھی۔۔۔
”ارے آپ لوگ، یہ واشنگٹن سے آۓ لوگ کیا جانیں کہ گول گپے کیا چیز ہیں۔۔۔اور انہیں دیکھ کر ہم پاکستانی لڑکیاں تو بالکل بھی صبر نہیں کر سکتیں۔۔“ وہ گول گپا منہ میں رکھتے ہوۓ بولی تھی۔۔۔
” اوہ ہیلو میڈم یہ بار بار امریکن پلٹ کا طعنہ کیوں مار رہی ہیں آپ وہاں بھی انسان ہی بستے ہیں اور وہ بھی بہت and well mannered civilized...“ وہ خفگی سے بولا تھا۔۔ مصطفیٰ کو تو آخر بار بار اس امریکن پلٹ طعنے پر غصہ آ گیا تھا۔۔۔
” اوہ مسٹر مصطفیٰ اعظم، آپکا کیا مطلب ہے کہ ہم۔۔۔ہم پاکستانیوں میں مینرز نہیں ہیں، ہم لوگ اچھی قوم نہیں ہیں۔میرے پاکستان کو برا کہا آپ نے۔۔نہیں آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟؟ “ ہالے کے تو سر پہ لگی تلووں پہ بجھی تھی۔۔۔وہ اٹھ کر کھڑی ہو گٸی تھی اور بالکل لڑنے لگی تھی۔۔۔
مصطفیٰ اسکے انداز پر پریشان ہی ہو گیا تھا۔۔۔
”نہیں ہالے آپ غلط سمجھ رہی ہیں میرا ہر گز یہ مطلب نہیں تھا میں تو بس کہنا چاہ رہا تھا کہ کس طرح اتنا کھٹا میٹھا کھا لیتے ہو، پھر اس لیے یہاں لوگوں کے اتنے پیٹ نکلے ہوتے ہیں“ مصطفیٰ پھر غلط بول گیا تھا۔اور ہالے کے چہرے کو غصے سے سرخ پڑتا دیکھ کر وہ جان گیا تھا کہ اب اسکی خیر بالکل نہیں ہے۔۔۔
”اٶے تم انگریز لوگ کیا سمجھتے ہو؟ تم لوگ بہت سلِم سمارٹ ہو، بہت ینگ نظر آتے ہو، ارے کھاتے کیا ہو تم لوگ۔۔۔یہ گھاس پھوس اور ناجانے کیا پھیکے اور بد ذاٸقہ کھانے۔۔۔۔بھٸی ہم اچھے کھاتے پیتے ملک سے ہیں اور اگر پیٹ کچھ اوپر نیچے ہو بھی جاتا ہے تو کوٸی پرواہ نہیں ہوتی۔۔۔“ ہالے بے حد غصے سے بولی تھی۔۔۔اسوقت تو کوٸی آویزہ طراب خان کی روح آگٸی تھی ہالے میں۔۔۔۔
اور مصطفیٰ معاملہ بگڑنے پر مزید پریشان ہو گیا تھا۔۔۔۔
”اوہ آٸم سوری ہالے، انفیکٹ میں تو خود پاکستانی ہوں۔۔میں بھی تمہارے ساتھ یہ سب کھایا کرونگا۔۔“ وہ ڈرتے ہوۓ بولا تھا اسے ہالے اس وقت کوٸی شیرنی معلوم ہوٸی تھی۔۔۔
”خبردار اب مجھ سے کوٸی بات بھی کی تو۔۔۔وہ غصے سے اٹھ کر گاڑی کی طرف بڑھی تھی۔۔
اور وہ پریشانی کے عالم میں اسکی طرف بڑھا تھا۔۔۔
”ہالے میری بات سنو۔۔۔آٸم سوری۔۔۔میرا ہر گز یہ مطلب نہیں تھا۔۔۔“وہ دنیا کو تسخیر کرنے والا آج ایک ایشین بیوٹی سے معافی مانگ رہا تھا۔۔۔
”اوکے ایک بات پر میں معاف کر سکتی ہوں، آپ ابھی دو پلیٹس گول گپے کھاٸیں گے“ وہ منہ پھلاۓ گاڑی سے ٹیک لگاتے بولی تھی۔۔۔۔
”واٹ۔۔۔میرا مطلب ہے اوکے۔۔۔۔وہ لاچار سی شکل بنا کر بولا تھا۔۔۔اور ہالے اسکے انداز پر مسکراٸی تھی۔۔۔
اور دو درجن گول گپے کھانے کے بعد مصطفیٰ کے گلے نے دو دن کے لیے جواب دے دیا تھا۔۔۔۔۔

*************
(جاری ہے)

Continue lendo

Você também vai gostar

38.2K 1.9K 20
ایک ایسی لڑکی کی کہانی جو سچی محبت کی تلاش میں بھٹکتی ہوئی آخر کار محبت پا ہی لیتی ہے۔۔ وہ کہتے ہیں نہ "محبت اپنا آپ منوا ہی لیتی ہے کوئی کتنا ہی من...
2.4K 264 52
مجھے لوگوں کے ہنستے مسکراتے چہرے بہت اچھے لگتے ہیں مگر ہاں! خود کے لیے میں ہمیشہ اذیت چنتی ہوں۔ مجھے دوسروں کی آنکھوں میں مچلتی تتلیاں بھلی معلوم ہوت...
83.4K 3.8K 18
Army based❤ multiple couple🥀
17.5K 519 8
( بسم اللٰہ الرحمٰن الرحیم) یہ کہانی ہے ایک ایسی لڑکی کی جو کسی کی یک طرفہ محبت میں مبتلا ہے ۔ اور اُسے اپنی محبت کے آگے کسی اور کی محبت نظر نہیں آ...