"تجھے دھڑکنوں میں سنا کروں"

393 34 5
                                    

قسط نمبر 2:

جہانگیر ولا کے لان میں دھوپ درختوں کے سروں پہ بیٹھی تقریباً پھیکی پڑ چکی تھی۔اور مغرب ہونے کو تھی۔۔۔ سر سبز و شاداب لان کو گیندے اور موتیے کے پھولوں سے سجا دیا گیا تھا۔۔۔لان کے ایک طرف سفید چادریں بچھاٸی گٸیں تھیں اور انکے اوپر پیلے اور گلابی کور والے گول تکیے سجاۓ گۓ تھے۔۔۔دلہن کی پالکی کو چنیوٹی لکڑی سے مزین کیا گیا تھا جسے چاروں طرف سے پیلے گلابوں سے سجایا گیا تھا۔۔۔اور ڈھولکی کی جگہ سے دلہن کی پالکی تک پھولوں کی راہداری بناٸی گٸی تھی۔۔۔جبکہ لان کے دوسرے حصے میں کھانے کا انتظام کیا گیا تھا۔۔۔
دوسری طرف سب لڑکیاں اپنی تیاری میں مگن تھیں۔۔کچھ ہی دیر بعد لان میں مہمانوں کا جمِ عفیر امڈ آیا تھا۔۔۔رنگ برنگے کپڑوں اور خوشبوٶں میں رچے سب لوگ بے حد حسین نظر آ رہے تھے۔۔۔
عنایہ کے کمرے میں ہالے نور اور عنایہ تیار ہو رہی تھیں۔۔۔بیڈ کی شفاف کور شیٹ پر چوڑیاں، مہندی اور رنگ برنگے جوڑے رکھے تھے۔۔۔
ماما کہہ رہی ہیں بہت اچھی طرح تیار ہونا بلکہ رکو میں بیوٹیشن سے کہتی ہوں وہ تمہیں تیار کرے آخر کو ماما اور بابا تمہارا سب مہمانوں سے تعارف کروانے والے ہیں۔۔۔عنایہ کانوں میں جڑاٶ ہیروں سے بنے بندھے پہنتے ہوۓ بولی تھی۔۔۔جبکہ ہالے میک اپ سے عاری چہرہ لیے اپنے لمبے سیاہ سلکی بالوں کو برش کر رہی تھی۔۔
کیا مطلب میرا تعارف؟؟۔۔۔لیکن کیوں سب جانتے تو ہیں مجھے۔۔۔وہ معصومیت سے بولی تھی۔۔
ارے میری بھولی معصوم سی کزن پلس دوست ماما تمہارا تعارف اپنی بہو کے حوالے سے کروانے والی ہیں۔۔۔عنایہ آنکھوں میں شرارت لیے بولی تھی۔۔۔اور ہالے کے لبوں پر مسکراہٹ ابھری تھی۔۔۔
آہ سچ میں۔۔۔ بتاٶ مجھے کیا واقعی خالہ اور انکل میرا فارس کے حوالے سے تعارف کروانے والے ہیں۔۔۔وہ بے یقینی سے بولی تھی۔۔۔
ہاں یار ایسا ہی ہے اور پلیز اب مجھے تیار ہونے دو۔۔۔
اف میں کاجل لگوا کر آتی ہوں۔۔۔وہ باہر کو بھاگی تھی۔۔۔
ہالے کی آنکھوں میں بہت خوبصورت چمک تھی دل فارس کے لیے تیار ہونے کو چاہا تھا۔۔ہاں وہ اس کے لیے تیار ہونا چاہتی تھی۔۔جو اسکے دل میں، اسکی روح میں بسا تھا۔۔وہ چاہتی تھی کہ فارس ہی اسے سب سے پہلے دیکھے۔۔۔اس نے اپنے بالوں کی فرنچ ٹیل بنا کر باقی سارے بال کمر پر کھلے چھوڑ دیے تھے۔۔۔سلور پیور کی شرٹ کے اوپر نہایت خوبصورت نگینے سے کام کیا گیا تھا۔۔ساتھ پرپل غرارہ تھا جسکے اوپر گولڈن کام تھا۔۔۔ساتھ سی گرین دوپٹہ جسکے چاروں کونوں پر گوٹی کا حسین کام تھا۔۔۔اس نے وہ زیب تن کیا تھا اور اسکے متناسب سراپے پر بے حد جچا تھا۔۔۔آنکھوں میں کاجل لگایا تھا اور لبوں پر ہلکی پنک لپ اسٹک لگاٸی تھی دونوں نازک کلاٸیوں میں بھر بھر کے چوڑیاں پہنی تھیں اور کانوں میں جھمکے اور یہی سنگھار اسکے حسن کے لیے کافی تھا۔۔۔
ارے واہ لڑکی تو واقعی جہانگیر ولا کی بہو لگ رہی ہے آج نہ بچتے میرے بھاٸی تم سے۔۔۔عنایہ اسے لینے آٸی تھی۔۔اور اسے تیار دیکھ کر اسے چھیڑا تھا۔۔۔وہ جھینپ گٸی تھی۔۔۔
اچھا چلو جلدی آٶ نیچے آپی بھی آ گٸی ہیں سیلون سے۔۔۔کم۔۔کم۔۔۔کم۔۔۔وہ اسے کھینچتی ہوٸی بولی تھی۔۔۔وہ بھی اپنے غرارے اور دوپٹے کو سنبھالتے
اسکے ساتھ نیچے بڑھی تھی۔۔
ارے یار مجھے یاد آیا میں آپی کو جیولری دینا بھول گٸی میں بس وہ دے کے آٸی تم چلو۔۔۔
لیکن عنایہ میری بات تو۔۔۔۔وہ اسکی بات سنی ان سنی کرتی راہداری سے دوسری طرف مڑ گٸی تھی۔۔۔
ہالے غرارہ اور بھاری دوپٹہ سنبھالتے سہج سہج کر زینوں سے نیچے اتر رہی تھی۔۔۔لاٶنج میں سب مہمان جمع تھے وہ خاموشی سے آگے بڑھی تھی جب سفید سوٹ کے اوپر گہری بھوری شال اوڑھے فارس لاٶنج میں داخل ہوا تھا اسکی سیدھی نظر ہالے پر پڑی تھی۔۔۔وہ یک ٹک اسے دیکھے گیا تھا۔۔اسکا دل بے اختیار ہوا تھا۔۔۔اسکی نظر ٹھہر گٸی تھی۔۔۔نظریں پلٹنے سے انکاری تھیں۔۔وہ پہلی دفعہ اسے اسطرح سجا سنورا دیکھ رہا تھا۔۔۔وہ اسکے دل میں اتر گٸی تھی گہری سیاہ آنکھوں میں چاہتوں کے دیپ جلے تھے۔۔۔دل نے جلد اسکے ساتھ کی دعا مانگی تھی۔۔۔ہالے بھی اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔گہری براٶن آنکھیں سیاہ آنکھوں سے ٹکراٸی تھیں۔۔۔دونوں کی نظروں میں جذبات کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا۔۔۔
فارس کا دیکھنا ہالے کی جان نکالنے کے لیے کافی تھا۔۔۔وہ ہمیشہ اسکی نظروں سے نروس ہوتی تھی اور آج تو بری طرح ہو رہی تھی۔۔۔
اف کیا جان لے گا اب یہ۔۔۔۔وہ دل میں بڑبڑاٸی تھی۔۔۔
جبھی فارس نے ستاٸش بھری نظروں سے  خوبصورت مسکان ہالے کی طرف اچھالی تھی۔۔ نظروں کو سنبھال لیا گیا تھا اور لاٶنج سے باہر چلا گیا تھا۔اور ہالے کو اس مسکراہٹ نے سمجھا دیا تھا کہ وہ اب سب سے حسین لگ رہی ہے۔۔۔ جبکہ وہ اپنے دل کی دھڑکنوں کو سنبھالتی متاعِ کی طرف بڑھی تھی جو بے حد خوبصورت تیار ہوۓ لاٶنج میں بیٹھی تھی۔۔۔۔

"تجھے دھڑکنوں میں سنا کروں"Where stories live. Discover now